عنوان:اولاد کی تربیت
وقت کے مقدر میں سکوت لکھا ہی نہیں وگرنہ لوگ اسے روک کر پہلے اپنی غلطی سدھارتے اور پھر آگے بڑھتے۔۔بارش ہو یا دھوپ،دن ہو یا رات وقت کا پہیہ ہر صورت چلتا رہے گا۔۔انسان وہی جو وقت رہتے اپنی غلطیوں کو سدھار لے۔اولاد کی بروقت کی گئی اچھی تربیت ہی انکے بہترین مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے۔ ایک باپ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتا ہے اگر وہ کسی غلط کام کرنے پر اپنے بچے کو راہ راست پر لانے کیلئے اس کو تھوڑا ڈانٹ ڈپٹ رہا ہو یا پھر اس کے ساتھ تھوڑی سختی برت رہا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس سے اتنا پیار نہیں کرتا جتنا ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے۔ایک باپ اپنے بچوں سے کتنا پیار کرتا ہے اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا حتی کہ ایک ماں بھی نہیں۔لیکن بعض کم عقل اور جاہلانہ سوچ رکھنے والی عورتیں ایسی صورتحال میں اپنے شوہر کا ساتھ دینے یا پھر خاموش رہنے کی بجائے اپنے بچے کے سامنے اس طرح تن کر کھڑی ہو کر ان کا دفاع کرتے ہوئے باقاعدہ اپنے شوہر سے بدتمیزی پر اتر آتیں ہیں انہیں یہ بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا ان کے اس رویے سے بچے آٹومیٹکلی اپنے باپ سے بدگمان ہونا شروع ہو جاتے ہیں بھلے ہی انکا باپ یہ سب صرف اور صرف ان کی بھلائی کی خاطر ہی کر رہا ہو۔ یہ سب کر کے وہ اپنے بچے کو یہ شو کروا رہی ہوتی ہیں کہ وہ انہیں ان کے باپ سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں۔اس لیئے اسے ان کی فکر زیادہ ہے ان کے باپ کو نہیں۔وہ انجانے میں ہی سہی اپنی اس غلط سوچ کے زیراثر اپنے آس پاس موجود رشتوں میں تناؤ یا بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں۔ اگر بچے کو اس کی کسی بدتمیزی یا اس کے کسی غلط کام پر اس سے صحیح وقت پر پوچھ گچھ نہ کی جائے یا پھر انہیں صحیح، غلط میں فرق کی نشاندہی نہ کروائی جائے تو ایسی صورتحال میں تو بچے لازمی بگڑ ہی جاتے ہیں۔اور پھر جب یہی بچے بڑے ہو کر کوئی غلط کام کرتے ہیں یا پھر اپنے والدین سے ہی بدتمیزی سے بات کر رہے ہوں تو لوگ بچے کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی تربیت پر بھی کئی سوالات اٹھاتے ہیں۔اس وقت وہ لوگ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور تب ان کے پاس سوائے ندامت اور شرمندگی کے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ گزرا ہوا وقت پھر کبھی نہیں لوٹتا۔ کسی غلط کام میں اپنے بچے کی بےجا حمایت میں شوہر کے ساتھ بدتمیز اور اکھڑ انداز میں بولنے والی عورتیں دو قسم کے سنگین گناہوں کا مرتکب ہو رہیں ہوتی ہیں۔ایک تو وہ اپنے شوہر جسے مجازی خدا کہتے ہیں اس کے ساتھ بدتمیزی کر رہیں ہوتی ہیں۔ اور دوسرا بچوں کی نظر میں ان کے باپ کی عزت اور مرتبہ کم کرنے میں معاونت فراہم کر رہی ہوتی ہیں ۔۔اور اللہ تعالی کی نظر میں یہ دونوں کام ہی حد سے زیادہ ناپسندیدہ تصور کئے جاتے ہیں۔ایک شوہر اور بیوی دونوں کو ہی اس بات کا لازمی خیال رکھنا چاہیئے کہ بچے کی تربیت کرنے کی خاطر اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی تھوڑی سختی برت رہا ہو تو دوسرا اس میں بےجا مداخلت نہ کرے تاکہ اس بچے کو احساس ہو سکے کہ اس نے کوئی غلط کام کیا ہے جو پھر دوبارہ کبھی نہیں کرنا اس سے اس بچے میں سدھرنے کے امکانات بہت زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔اور وہ بہت جلد اس غلط عادت سے اپنی جان چھڑوانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔اس سے ان میں سے کسی ایک کی اپنی عزت میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک اسے کسی بات پر ڈانٹ رہا ہو اور عین اسی وقت دوسرا اس سے لاڈ اور پیار جتا رہا ہو تو پھر اس صورتحال میں ان بچوں کو بگڑنے سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا۔۔۔۔کوئی بھی نہیں۔اللہ تعالی نے والدین پر بچوں کی تربیت کی بہت بھاری ذمہ داری عائد کی ہے جس کو اچھے طریقے سے پورا کر کے وہ اپنے بچوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔اور جو والدین اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں انہی والدین کے نصیب میں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی بھلائی لکھ دی جاتی ہے جس سے ان کی پوری کی پوری زندگی سنور جاتی ہے۔سب والدین اپنے اپنے بچوں کیلئے جتنا کچھ کر سکتے ہیں اس سے بھی کئی گنا زیادہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں کو ہر پرابلم سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا اولین فریضہ یہ بھی ہونا چاہیئے کہ وہ ان کی تربیت کرتے ہوئے انہیں زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے آشکار کروائیں تاکہ اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی مثبت پہلو دیکھیں تو اس پر اترانے،فخر کرنے اور اپنے سے کمتر لوگوں کو حقیر جاننے کی بجائے شکر اور عاجزی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور اگر خدانخواستہ انہیں کبھی زندگی میں کوئی منفی پہلو دیکھنے کو مل جائے تو وہ اس پر بلک بلک کر رونے،پیٹنے،گریہ و زاری میں پڑ کر سسک سسک کر اپنی جان دینے کی بجائے صبر وتحمل کا سہارا لیتے ہوئے کسی سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر ان حالات کا سامنا کریں تاکہ وہ اپنی ذہنی قابلیت اور صلاحیت سے ان مشکل حالات سے نبردآزما ہو کر ان سے خود کو باہر نکال سکیں۔زندگی کو پرسکون طریقے سے گزارنے کا یہی ایک واحد اصول ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہر ایک انسان ہر قسم کے حالات کا بڑے دل کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے۔اب یہ صرف لوگوں پر منحصر ہے کیا لوگ وقت رہتے اس پر عمل پیرا ہو سکیں گے۔۔؟؟؟
مہوش صدیق