
????معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت اور اس کے اثرات ????????
کسی بھی بات کو صبر و تحمل سے سنے بغیر اپنا آپا کھو دینا عدم برداشت کہلاتا ہے۔بدقسمتی سے اخلاقی اقدار کی کمی کی وجہ سے آج کل کے دور میں عدم برداشت کے رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ایک آدمی بائیک پر جا رہا تھا اچانک ایک پیدل چلتا آدمی جس کے سر پر ایک سامان کی بوری رکھی ہوئی تھی کتے کے بھونکنے کے ڈر سے اچانک اس کے سامنے آ گیا۔۔بائیک سوار آدمی نے اسے بچانے کیلئے بریک تو لگائی مگر بنا سوچے سمجھے اس سے سخت لہجے میں بات کرنے لگا جواباً وہ پسینے سے شرابور آدمی بھی اس سے بدتمیزی کرنے لگا یہاں تک کہ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔۔اگر سوچیں تو اس حادثے میں غلطی ان دونوں کی نہیں تھی مگر عدم برداشت کی کمی نے چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا ڈالا۔اگر وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی پوزیشن کو سمجھتے تو بات کبھی بگڑتی ہی نہیں۔آجکل ہر کوئی حق کا علمبردار بنے دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔۔کاش کہ لوگ یہ بھی سوچ لیں کہ ہمارے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان حق پر مبنی بات کر سکتا ہے؟کبھی نہیں؟ انہوں نے تاعمر دین برحق اسلام کی تبلیغ کی۔جب وہ طائف کے شہر میں دین اسلام کی دعوت دینے کیلئے گئے تو وہاں کے امیر لوگوں نے اپنے لونڈوں کے ذریعے ان پر پتھر برسائے یہاں تک کہ آپ زخمی ہو گئے آپ کے غلام زید آپ کو ایک باغ میں لے گئے وہاں آپ کے پاؤں مبارک دھوئے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے رنجیدہ تھے۔انہیں ان اوباش لوگوں پر غصہ بھی آیا مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر فقط یہی الفاظ تھے۔”یا اللہ تو ان لوگوں کو ہدایت دے یہ نادان ہیں مجھے نہیں پہچانتے۔”انہوں نے رواداری کا مظاہرہ کیا۔صبر و تحمل سے کام لیا۔ کسی کو بدعا نہیں دی۔اگر چاہتے تو انہیں برا بھلا کہہ سکتے تھے مگر آپ نے انہیں معاف کیا۔انکی ہدایت کی دعا کی۔اگر ہم خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا شروع کر دیں تو یقیناً اس ذہنی بیماری سے بچ سکتے ہیں۔نوجوان نسل کی دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے یہ لوگ عدم برداشت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جہاں سے بچ نکلنا ان سب کیلئے مشکل ثابت ہو رہا ہے۔شیطان انہیں کمزور حریف سمجھ کر ان پر پے در پے کاری وار کرتا انہیں گمراہی کے راستے پر گامزن کر دیتا ہے۔ہر روز اپنے ضمیر کی آواز کو سنیں۔۔خود کے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں آیا آپ حق پر ہیں یا نہیں۔اگر حق پر ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔اگر ذرا سی بھی کمی نظر آئے تو اس بات کو جسٹیفائی کرنے کی بجائے خود میں بہتری لانا سیکھیں۔جب آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں تبھی آپ میں مزید بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔والدین کی تربیت بچوں کے عکس میں نظر آتی ہے۔شروع سے ہی انہیں ان کے اچھے کام پر سراہیں اور برے کام پر انہیں پیار سے سمجھائیں۔جب ان کے ساتھ یہ سلوک برتا جائے گا تو یقیناً وہ اپنے آنے والی نسل کو اسی روش پر لے کر چلیں گے۔جو گزر گیا سو گزر گیا۔۔اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگیں اور آئیندہ کا سوچیں۔۔۔اگر ہم سبھی اس بات پر عمل کرنا شروع کر دیں تو یقیناً ہماری آنے والی نسلوں کو اس عدم برداشت سے ہمیشہ کے لئے نجات مل سکتی ہے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
????مہوش صدیق ????