
کالم “
معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت”
کچھ روز پہلے ایک دل دہلا دینے والی خبر سننے کو ملی کہ شہر حیدرآباد میں ایک چھٹی جماعت کی طالبہ نے اسکول کی اوپری منزل سے کود کر خود کشی کرلی ہے۔ اُس نے یہ اقدام کیوں اٹھایا؟ کیا اس کے پیچھے برداشت کی کمی تھی؟ حقائق اُس وقت سامنے آئے جب اُس بچی کا قبل از خودکشی لکھا جانے والا خط منظر عام پر آیا جس کے مضمون سے ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بچی احساسِ محرومی میں مبتلا تھی جو کہ اس میں بارہا بار نظر انداز ہونے کی بناء پر پیدا ہوا۔ اس میں والدین کا قصور تھا۔ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہمارا ہر رشتہ چاہے وہ ماں یا بیٹی کا ہو، باپ یا بیٹے کا، بہن یا بھائی کا یا شوہر اور بیوی کا ۔ کوئی بھی رشتہ کسی بھی وقت سخت ردِ عمل دینے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ہم اپنے موقف سے ہر مخالف بات پر دلبرداشتہ ہونے لگیں ہیں ۔ ایک ذرا سی تلخ کلامی پر بیویاں اپنے شوہروں سے طلاق مانگنے لگتی ہیں اور شوہر بھی جیسے اس کام میں بالکل دیر نہیں لگا رہے۔ حتٰی کہ سوشل میڈیا پوسٹ تک پر ہم اتنے جذباتی ہونے لگے ہیں کہ وہیں ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے لگتے ہیں بغیر اس بات کو سمجھے کہ یہاں ہم سب اجنبی ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر میرا ذاتی موقف یہی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا کی ریس میں بھاگتے بھاگتے اور آگے بڑھنے کی خواہش نے ہمارے رشتوں کو بہت پیچھے کر دیا ہے۔ ہم آج ایک کمرے میں ظاہری طور پر تو ایک دوسرے کے قریب ہیں مگر ذہنی طور پر کہیں اور ہیں۔ ہم کہاں ہیں؟ ہم موبائل کی دنیا میں ہیں ہم دوستوں سے گوسپ میں مگن ہیں جب ہم اپنے رشتے کو جانیں گے ہی نہیں ان کی پسند اور نہ پسند کو سمجھیں گے ہی نہیں تو پھر ہم اُن کے جذبات ، احساسات کا کس طرح خیال رکھیں گے۔ دوسرا ہماری بڑھتی ہوئی خواہشیں ہیں اور ہماری انائیں اور اس بات کا احساس کہ ہم ٹھیک ہیں ہم جھک جانے کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں اگر اسی طرح چلتا رہا تو بہت جلد یہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔ دشمن ہم پر با آسانی قابض ہوسکتے ہیں کیونکہ ہم سب نے ہی اپنے بچپن میں کسان اور اُس کے بیٹوں کی وہ کہانی ضرور سن رکھی ہوگی جس میں کسان ایک لکڑی کے گٹھے سے اُنہیں اتحاد میں برکت کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ اپنے خاندان اور اپنے رشتوں کو وقت دینا سیکھیں اور اگر کوئی آپ سے کہے آپ نے خطا کی ہے تو اُسے مسکراتے ہوئے بس اتنا کہیں کہ “اگر میں خطاکار نہ ہوتا تو پھر میں فرشتہ ہوتا” دیکھئے گا آپ اپنے اندر مثبت تبدیلی واضح محسوس کریں گے کیونکہ منفی جذبات ہم میں اُس وقت ہی جنم لیتے ہیں جب ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہونا چھوڑ کر ان کی وکالت شروع کردیتے ہیں ۔ آپ کا اور ہم سب کا اللّہ حافظ۔ ارج صالحین