منافق لوگوں کی پہچان انکی نشانیاں اور دوزخ میں انکو کیا عذاب ملے گا آرٹیکل از قلم مہوش صدیق

منافق لوگ

منافق کی کیا پہچان ہوتی ہے۔۔؟ یہ عام لوگوں میں سے کیسے پہچانے جاتے ہیں۔۔؟

جواب:منافقت دو طرح کی ہوتی ہے

عملی منافقت۔

اعتقادی منافقت۔

:عملی منافقت کی مزید پانچ اقسام ہیں

(1)جب بولے تو جھوٹ بولے۔

(2)جب وعدہ کرے تو جھٹلا دے۔

(3)جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

(4)جب جھگڑا ہو تو فحش کلامی پر اتر آئے۔

(5)جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے۔

اسی طرح اعتقادی منافقت کی بھی مزید اقسام ہیں:

(1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا۔

(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانا۔

(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا۔(4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی کسی چیز سے بغض رکھنا۔

(5)دین کی اہانت پر خوش ہونا۔

(6)دین کا نصرت پسند نہ ہونا۔

اس کی صحیح ترین تعریف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں بھی ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“تم قیامت کے دن سب سے بدترین اس شخص کو پاؤ گے جو دوغلہ ہے ادھر لوگوں سے کچھ بات کرتا ہے اور ادھر لوگوں سے کچھ بات کرتا ہے۔۔”

اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بندے کی تعریف کرتا ہے اور دوسری جگہ جا کر اسی بندے کی برائیاں کرنے لگ جائے تو وہ منافقت کی ہی ایک مثال ہے۔ان کے لیے قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی وعید قرآن پاک میں سنائی گئی ہے۔

:قرآن پاک میں ہے:

” بشر المنافقین بان لھم عذابا الیما۔”

:ترجمہ:

” منافقوں کو(بشارت) سنا دو ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔۔”اور جو میں نے اس کی پہلی اقسام بیان کی ہیں:

سب سے پہلے تو یہ تھی کہ بات کرے تو جھوٹ بولے۔۔ اس شخص کے ہر بول میں جھوٹ ہی جھوٹ ہوگا۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لیے بھی جھوٹ بولنا کوئی گناہ نہ سمجھتا ہو گا۔

اسی طرح وعدہ کر کے مکر جانا بھی منافقوں کی خصلت میں شامل ہے۔

جب ہم ان کے پاس کوئی امانت رکھتے ہیں تو ان کا ایمان خراب ہو جاتا ہے اور وہ اس میں خیانت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

اور جب کہیں کوئی جھگڑا ہو رہا ہو تو وہ فحش کلامی پر اتر آئے گا وہ یہ بھی نہیں سوچے گا کہ آیا میں حق بات کر رہا ہوں یا نہیں۔۔کہیں میری کہی بات کسی پر بہتان نا بن جائے۔۔ میری بات کس پر تہمت نہ بن جائے۔ اس کے منہ میں بس جو آئے گا وہی بک دے گا۔ وہ بولنے سے پہلے بالکل بھی نہیں سوچے گا۔

اور جب کبھی معاہدے کی بات ہوگی وہ یکطرفہ معاہدہ توڑنے میں بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ سب تو عملی منافقت کی مثالیں ہیں۔

اور جو دوسری قسم ہوتی ہے اعتقادی منافقت کی ان کا تو عقیدہ ہی سرے سے غلط ہوتا ہے۔

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو جھٹلانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں گے اور اسی طرح جب ان کے سامنے کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ اس میں سے اپنے مطلب کی باتیں بس استعمال کر لیں گے جس طرح بیان کی گئی ہو وہ اس پر پوری طرح عمل نہیں کرتے۔رسول اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنے میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔دین کی اہانت میں خوش ہونا ان کی عادات میں شامل ہے۔آپ انہیں کبھی بھی دین کی مدد کرنے والے نہیں پائیں گے۔وہ اس دین اسلام کو پھیلانے میں بالکل بھی مدد نہیں کرتے۔

اس قسم کے منافقوں کی سزا قیامت کے دن سخت ترین ہوگی۔

“یہ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔۔”

دوزخ کے سات درجے ہیں جن میں سے سب سے آخری درجے میں منافقوں کو رکھا جائے گا۔

جب عہد نبوی تھا تب بھی منافقوں کی ایک قسم پائی جاتی تھی۔ یہ لوگ ادھر تو اسلام قبول کرنے والے بن جاتے جب مگر جب عملی کسی چیز کا مظاہرہ کرنا ہوتا تو فوراً پیچھے ہٹ جاتے۔

ایسے ہی جنگ کے حالات میں ان کا یہ بہانہ ہوتا تھا کہ ہمارے گھروں کے دروازے کھلے پڑے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سب کچھ پتہ چل جاتا تھا کہ کون لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور کون لوگ سچ اور حق کے ساتھ ہیں۔

جب کبھی جنگ میں کامیابی ملتی تو خوب بڑھا چڑھا کر باتیں کرتے کہ ہم نے یہ کر دیا ہم نے وہ کر دیا۔ مگر جب کبھی میدان جنگ میں حالات کے پیش نظر کامیابی نہ ملتی تو فوراً وہاں سے بھاگ جاتے۔اور اپنی جان تو بچاتے ساتھ میں دوسروں کو بھی ورغلانے کا کام کیا کرتے تھے۔جنگ احد میں بھی ایسے ہی لوگوں کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ماننے کی سزا ملی تو منافق لوگ شہیدوں کو دیکھ کر کہتے

” اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تو ان کے ساتھ یہ سب نہ ہوا ہوتا۔۔”

ان کے دلوں میں نفاق ہوتا ہے جو بات کو ادھر تو صحیح کہہ رہے ہوتے ہیں اور ادھر جا کر اسی بات کو غلط قرار دے دیتے ہیں۔

اللہ تعالٰی سب کو ہدایت دے آمین ثم آمین۔

آرٹیکل

از قلم

مہوش صدیق

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Verified by MonsterInsights