
عنوان: نبی الرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باحثیت محسنِ انسانیت
ازقلم : صفا خالد
فیصل آباد
ایک وقت تھا عرب کے کوچے کوچے میں جہالت کا بازار سرگرم تھا۔ کسی کی جان، مال ، عزت کی حرمت کا کوئی زاویہ نہ تھا۔ در حقیقت زندگی ظلم اور جبر کی چکی میں پس رہی تھی۔ ہر طرف معاشی ، معاشرتی اور اقتصادی بد نظمی عروج پر تھی۔ قبائل ہر طرح کی برائی میں ملوث تھے۔ نفرت، انتقام پسندی، سودخوری، شراب نوشی، عیاش پرستی، لاقانونیت اور مال و زر کی ہوس نے تمام ذی روح کے ذہنی توازن بگاڑ رکھی تھے۔ایسی عالمگیر تاریکی میں نور کی اک گھٹا ایسی بھی اٹھی جس نے روۓ زمین کی تمام تر برایئوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ماہِ ربیع الاول کا ہی بابرکت مہینہ تھا جسے تمام تر مہینوں سے اس لیے بھی برتری حاصل ہے کیونکہ اسی مہینے میں آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آقاۓ دو جہاں تشریف لائے۔ اس دن پورے عالم اسلام میں میلاد النبی کی محافل کا انتقاد کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا ایک مسلمان کے لیے جائز اور مستحب عمل ہے۔یہی محب اسلام اور محبتِ رسول کی علامت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :”اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ” (ابراہیم :۵)ایام اللہ سے مراد وہ تمام دن ہیں جب نعمت الہی کا نزول ہوا۔ اسی طرح سب سے بڑا دن 12 ربیع الاول بھی اسی زمرے میں آتا ہے جب اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے رحمت اللعالمین کو غریبوں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، یتیموں کا والی اور غلاموں کا مولیٰ بنا کر بھیجا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(اے حبیب!) تم فرماؤ، اللہ کے فضل اور اسکی رحمت (کے نزول) کے سبب انہیں چاہیئےکہ خوشی منائیں وہ (خوشی منانا) ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (سورہ یونس ۸۵) سورہ احزاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ‘فضل’ اور سورہ انبیاء میں آپ صل وسلم کو ‘رحمت’ جیسے مقدس الفاظ سے مخاطب کیا گیا۔آپ کے پیغام حق کا دعوی اس قدر موثر ثابت ہوا کہ آس پاس کے علاقے طائف، حنینن، یثرب میں بھی آپ کی بعثت عام قرار دے دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضابطہ اخلاق اور شاندار نظام حیات نے معاشرے میں امن کی داغ بیل ڈالی۔آپ نے نیکی کی ترغیب دی، ناپاک اور حرام چیزوں سے بچنے کا حکم دیا۔ شرک اور بدی کی دلدل سے آزادی دی۔ الفت اخوت اور مساوات کے درس نے معاشرے کوتوحید ایک لڑی میں پرو دیا۔ انسانی زندگی کا ہر گوشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نصب العین سے جگمگا اٹھا۔ آپ نے علم و ہنر سے لے کر معاشی ،اقتصادی، سیاسی، سماجی مسائل کو بھی متوازن راہ دی۔ آپ نے برتری کی بنیاد تقوی کو قرار دیا۔ اپنے اتحاد اور اتفاق کو مسلمانوں کا شعار بنایا۔ آپ نے گفتار اور کردار میں یکسؤی کا حکم دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی امامت و قیادت تھی کہ آپ صل وسلم کے فیض سے کوئی شعبہ حیات تشنہ نہ رہا۔یہ ارضِ پاک بالخصوص محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی منتخب کی گئ تھی۔ یہ آپ ہی کا نور ہے کہ آج دنیا کے کونے کونے میں اسلام ایک عالمگیر مذہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔