
کیا ایسا ہو گا؟
وہ ایک چار سال کا بچہ تھا جو کچرے کے ڈھیر پر جھکا ہوا تھا اُس کے ہاتھوں میں چند کاغذ تھے اور اُن ہاتھوں میں لغزش۔ وہ ڈر رہا تھا۔ آس پاس گاڑیاں گزر رہی تھیں مگر اُس کا دھیان صرف اور صرف ڈھیر میں بکھرے کاغذوں پر تھا۔ وہ اُن کو چن چن کر اپنے کندھے پر لٹکتے تھیلے میں ڈال رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں اُلجھی ہوئی، کسی سوگ پر ماتم منا رہی تھیں۔ اُسے دکھ پہنچایا گیا تھا اور اُسے دکھ پہنچانے والا اُس کے بالکل پیچھے کھڑا تھا۔ وہ شخص کون تھا؟ یقیناً وہ اُس کا مالک تھا جس کا وہ ماتحت تھا۔ بچے نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے آخری کاغذ چن کر اپنے گدلے تھیلے میں ڈال کر رحم کی بھیک مانگتی آنکھوں سے سامنے کھڑے اُس آدمی کو دیکھا تھا۔ جس نے توقع کے عین خلاف اُس کے کندھے کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں کی تھی بلکہ اُسے ساتھ لیے آگے چل گیا تھا۔ یہ ماضی تھا اور ہمارے پرانے ملک کا ایک منظر جبکہ اب ہمارے نئے ملک میں ایسا بالکل نہیں ہوتا ہے یہاں کا انتظام بہت اچھا ہے۔ اب جگہ جگہ مسافروں کے لیے قیام گاہیں بنی ہیں، لوگ چلتے ہوئے راستے میں آئے لوگوں سے سلام کرتے ہوئے گزرتے ہیں، اب سبزی منڈیوں میں گالم گلوچ کے بجائے ادب و آداب کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، اب بڑوں کے آنے پر بچے کھڑے ہوجاتے ہیں، اب شادی کرتے وقت بیٹیوں کے باپ سے جہیز کی ڈیمانڈ نہیں کی جاتی اب جگہ جگہ پان کی پیک نہیں پھینکی جاتی۔ اب گلی گلی کوڑا دان رکھے ہوتے ہیں اب سب مل جل کر رہتے ہیں کوئی بھی پھپھو کو برا بھلا نہیں کہتا ہے یہ ملک اب امن کا گہوارہ ہے۔ یہاں ہر طرف اچھائی ہی اچھائی ہے۔
Kahan hai aesa? ????????