Badi Se Neiki Tk Ka Safar motivational story by Sehar Momina

بدی سے نیکی تک کا سفر

از قلم

سحر مومنہ

یہ تہجد کا وقت تھا تمام لوگ اپنے بستر پر آرام سے سو رہے تھے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے ایسے میں ایک لڑکا جائے نماز پر بیٹھا رو رہا تھا.

مسلسل رونے کی وجہ سے اب اس کی آواز بھی بیٹھ گئی وہ صرف ایک ہی بات کہہ رہا تھا .

مجھے معاف کر دیں آپ مجھے معاف کر دیں سجدے میں سر رکھے وہ مسلسل روئے جارہا تھا.

اب اپنے گناہ شمار کر رہا تھا آج سے چھ ماہ پہلے کی زندگی وہ یاد کر رہا تھا کیا تھا وہ کیسا تھا آج یہاں ہے سجدے میں اس نے سر اٹھایا اور آنسوں صاف کرتے ہوئی اس کو ایک آواز آئی ایک میں نے دعا کی تھی

ہشام اللّٰہ پاک تمہیں ایک دن ضرور اپنے گناہوں کا احساس دلائے تم رو پچھتاؤ پر تمہیں معافی نہ ملے تم نے مجھے یہاں اس دنیا میں رسوا کیا ہے اللّٰہ پاک تمہیں وہاں اس دنیا میں رسوا کرے تمہیں معافی کبھی نہ ملے کبھی بھی رب تمہیں معاف نہیں کرے گا ہشام یہ یاد رکھنا!!! یہ بات جیسے اس کے ذہن میں آئی وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر کر رونے لگا تھا اب وہ ماضی میں کھو گیا تھا۔۔۔

یار ہشام آج تو کوئی چڑیا باہر آئی ہی نہیں اپنے گھونسلے سے یار !!!ذاکر نے کہا۔۔

ہان یار قسم سے بڑا ہی بکواس دن ہے آج کا تو !!!ابھی ہشام کہہ ہی رہا تھا کہ اس کو سامنے کے گھر سے ایک لڑکی باہر نکلتی ہوئی نظر آئی جو نہایت ہی پریشان تھی سر پر دوپٹہ تھا جس سے وہ اپنا چہرہ چھپا رہی تھی.

آج اتفاق تھا یہ لڑکی ڈوپٹے میں اس طرح باہر کھڑی تھی ورنہ آج تک اس لڑکی کی کسی نے ھاتھ تک نہیں دیکھے تھے وہ مکمل پردہ کرتی تھی

ہشام کی آنکھوں میں اس کو دیکھ کر چمک بڑھ گئی تھی اور چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آگئی تھی ذاکر نے اس کی نظر کی سمیت دیکھا تو اس کی بھی بانچھیں کھل گئی

واہ یار آج تو وارے نیارے ہوگے .اپنے وہ لڑکی اب انکی طرف ہی آرہی تھی۔۔۔

بات سنے امی کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہے گھر میں کوئی نہیں ہے آپ کوئی ڈاکٹر لا دیں گے پلیز !!!اس لڑکی نے کہا۔۔

جی جی کیوں نہیں لے آتے ہیں آپ فکر نہ کریں!!!ہشام نے کہا۔۔۔پھر وہ اور ذاکر ڈاکٹر کے لیے بھاگے تھے اور وہ لڑکی گھر کے اندر کچھ دیر بعد ڈاکٹر آیا اور چیک کر کے چلا گیا تھا.

اس لڑکی کی ماں کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اس لڑکی نے اب خود کو ایک چادر میں چھپا لیا تھا ذاکر ڈاکٹر کو لے چلا گیا.

ہشام وہی کھڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہماری مدد کی یہ آپکا احسان ہوا مجھے پر یہ لیں آپ کے پیسے جو اپنے ڈاکٹر کو دیے ہیں ابھی تو یہ اتنے ہیں میرے پاس باقی کے آپکو بعد میں دوں گی!!!نمل نے کہا۔۔۔

نمل ایک یتیم لڑکی تھی باپ کے مر جانے کے بعد سے وہ اپنی ماں کے ساتھ چاچا کے گھر میں رہتی تھی چاچی بہت ہی ظالم تھی اور اسکی بیٹی بھی بیٹا اچھا تھا جو نمل اور اس کی ماں کا خیال رکھتا تھا آج چاچی اور اسکی بیٹی کسی کی شادی میں گئی ہوئی تھی اپنے بیٹے فیاض کو بھی لے گی تھی پیچھے اچانک نمل کی ماں طبعیت خراب ھوگی تھی اور وہ ہشام اور اسکے دوست کی مدد مانگنے گئی تھی وہ یہ نہیں جانتی تھی اس کو مدد گلے پڑنے والی تھی۔۔۔ہشام نے آگے بڑھ کر نمل کا ھاتھ تھام لیا یہ نہ کریں مجھے پیسے نہیں چاہے آپ سے اب آپ سے پیسے لیتے ہوئے میں اچھا لگوں گا کیا ۔۔۔

نمل ہشام کے اس طرح ھاتھ پکڑنے پر گھبرا گئی تھی اس نے ھاتھ چھڑانا چاہا تھا کہ ہشام اور قریب آگیا تھا اس کے اور چادر اتار دی اسکی اب نمل کا چہرہ صاف واضح تھا اور وہ نمل کے بہت قریب تھا نمل خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں اس کی چاچی اور اسکی بیٹی اندر آئے ہائے اللّٰہ یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ہمارے پیچھے !!!ہشام یکدم پیچھے ہوا تھا نمل سے اور نمل بھاگ کر چاچی کے پاس گئی .

چاچی یہ زبدستی کر رہا ہے میرے ساتھ !!!نمل نے روتے ہوئے کہا۔۔۔فیاض بھی اسی وقت اندر داخل ہوا تھا ۔۔

توبہ استغفار اس لڑکی نے خود مجھے بلایا ہے اور خود ہی پاس آئی میرے اب مجھے پر الزام لگا رہی ہے !!!ہشام نے خود کو بچانے کے لیے یہ ترکیب آزمائی جس کو اس کی چاچی نے پوری طرح کامیاب کیا ۔۔۔

ہاں بلایا تھا پر مدد کے لیے!!نمل نے کہا۔۔

ہاں ہاں مدد کے لیے بلا کر اب مزے لیے جارہے ہیں واہ ویسے تو بڑی پردہ دار بنتی ہوں آج اس کے سامنے بنا چادر کی کھڑی ہو !!نمل کی چاچی نے کہا۔۔نمل صفائیاں دی رہی تھی چاچی کو فیاض کو پر نمل کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہشام اور نمل کی چاچی اور اس کی بیٹی نے فیاض نے بھی نمل پر یقین نہیں کیا ہشام اپنا پہلو بچا کر وہاں سے نکل آیا تھا پر بدنامی نمل کا مقدر بن چکی تھی محلے میں پورے خاندان میں وہ رسوا ہو کر رہ گی تھی نمل کی رسوائی اس کی ماں سے برداشت نہیں ہوئی کچھ دن بعد وہ بھی گزر گئی تھی پھر اس کی چاچی نے نمل کو گھر سے نکل دیا تھا جس وقت نمل کو گھر سے نکلا تھا اسی وقت ہشام باہر ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا نمل نے وہاں سے گزرتے ہوئے ہشام سے کہا

یاد رکھنا اللّٰہ پاک کی لاٹھی بے آواز ہے وہ جب پڑتی ہے نہ تب ہوش آتا ہے نمل کہا اور روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی ہشام برے دن سے اس وقت شروع ھوگے تھے۔۔ماں پہلے ہی مر چکی تھی باپ کی کمائی پر وہ آوار گردی کرتا تھا اس کے باپ کا اچانک ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ ایک ٹانگ سے معذور ھوگیا تھا کمپنی جس میں ہشام کا باپ جاب کرتا تھا ان لوگ نے نکل تھا اب حالت بہت خراب ہو چکے تھے اصل ہوش تو اس کو تب آیا جب اس کی خالا جس کی بیٹی سے اس کی بات طے تھی خالا نے بنا بتائیں اپنی بیٹی کی شادی کر دی کہیں اور پوچھنے پر اس نے کہا طیبہ کو وہ پسند تھا اسی وجہ سے کی جب طیبہ کو کال کر کے پوچھا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا وہ ایک غریب کنگلے سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور وہ اس کو اچھی طرح جانتی ہے وہ کیسا آوارہ گرد لڑکا ہے اس تو کوئی بھی لڑکی شادی نہیں کرے گی جو لڑکی گھروں میں گھس کر لڑکیوں کو بد نام کرتا ہو اس کا کیا بھروسہ کل کو شادی کے بعد بھی تم ایسے ہی آوارہ گرد رہو گے.

طیبہ کی یہ بات ہشام کے دل پر لگی تھی تب اس کو نمل یاد آئی تھی اور اب وہ بہت پچھتا رہا تھا۔ہشام بہت پریشان تھا نہ پڑھنا جنتا تھا اتنا کے کوئی جاب کرتا باپ کی اچھی نوکری پر وہ عیش کرتا تھا اب وہ چلی گئی تو ذاکر کے کہنے پر اس نے ایک جنرل اسٹور پر جاب شروع کی ذاکر نے اس کو کہا تھا اس کو نمل کی بد دعا لگ گئی ہشام اب بہت بدل گیا نماز پڑھتا تھا معافی مانگتے ہوئے رات گزرتی تھی .

ہشام کی پر اس کو چین نہیں ملا تھا اب آج اچانک اس کی نظر نمل پڑ گئی تھی جو اس کے اسٹور سے سامنے لینے آئی تھی نمل نے اس کو نہیں پہچانا تھا پر وہ پہچان گیا ہشام وہی اس کے پاؤں میں گر گیا تھا بہت معافی مانگی تب نمل نے اس سے کہا تھا کہ

اللّٰہ پاک اس کو کھبی معاف نہیں کرے گا میری ماں تمہاری وجہ سے مر گی مجھے بد نام کیا تم نے ہشام تم جانتے ہو ایک لڑکی عزت کانچ کی طرح ہوتی ہے پر تمہیں کیسے ھوگا تمہاری نہ کوئی بہن ہے نہ کوئی بیٹی اور اچھا ہے نہیں ہے تو تمہارا کیا وہ بھگتی بیچاری اب یہی سزا ہے تمہاری تم ایسے ہی تڑپنا رہنا تمہیں کھبی سکون نہیں آئے گا نمل نے کہا اور وہاں سے چلی گی تھی۔

نمل گھر سے نکل جانے کے بعد سے ایک ہوسٹل میں رہتی تھی جاب تو پہلے ہی کرتی تھی اپنے لیے اور اپنی ماں کے لیے اب اکیلی اپنی ایک دوست کے ساتھ وہی رہتی تھی۔۔۔ہشام نے فجر کی نماز تک روتا رہا معافی مانگتا رہا پھر فجر کی اذان ہوئی وہ مسجد گیا نماز پڑھی پھر باپ کے پاس آیا اس کا ناشتہ وہ لے کر آتا تھا باہر سے پھر اس کے باپ ایک دوست اس کے اتا تھا اس کے پاس پھر ہشام اسٹور آتا تھا ہشام اسٹور کے جیسے قریب آیا وہاں نمل کو دیکھ کر حیران ہوا نمل خود چل کر اس کے پاس آئی

ہشام مجھے معاف کر دو میں نے کل بہت غلط کیا تمہارے ساتھ مجھے ایسے کہنا نہیں چاہیے تھا معاف کرنے والی اور نہ کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے میں کون ہوتی ہوں ایسا کہنے والی !!!نمل کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔

گناہگار تو میں ہوں تمہارا میں جو کیا غلط کیا تم مجھے معاف کرو گی تو اللہ تعالیٰ بھی معاف کریں گے مجھے نمل !!!ہشام نے کہا ۔۔میرے معاف کرنے سے پہلے اللّٰہ پاک نے تم کو معاف کردیا ہے ہشام یہ میں جان گئی ہوں رات تم مجھے سے زیادہ پیارے ہو اللہ تعالیٰ کو مجھے اپنے بابا سے منوانے لے چلو گے !!!نمل نے کہا۔۔

ہاں کیوں نہیں!!ہشام کا چہرہ اب کھل اٹھا تھا اس کا باپ اتنے دن بعد ہشام کو خوش دیکھ کر نمل سے مل کر بہت خوش تھا نمل جب جانے لگی تو اس نے کہا ٹھیک انکل میں چلتی ہوں پھر آؤ گی ان شاءاللہ ۔۔نہیں اب تم مت آنا اب میں اور ہشام تم کو لینے آئے گے اس گھر میں ہشام کی دلہن بنا کر کیوں آؤ گی نہ!؟؟؟نمل نے ہشام کو دیکھا جس کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا اپنے باپ کی اس بات پر اب نمل سے شرمندہ تھا یہ کیا کہہ دیا ہے بابا نے ہشام معذرت کرتا اس پہلے نمل نے کہا

ٹھیک انکل جیسے آپکی مرضی اپ جب چاہے آئے مجھ لینے کے لیے نمل کہا اور شرماتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔

ہشام اب اور حیرت میں ڈوبا ہوا تھا نمل جا چکی تھی

نمل آج بہت خوش تھی اس کو پتہ چل گیا تھا ہشام اب سدھار گیا یہ بات خود اسکی ماں نے اس سے خواب میں کہی تھی ہشام اب اللّٰہ پاک پیاروں میں شامل ہے اور ذاکر نے بھی نمل کو بتایا تھا ہشام کے پچھتاوے کا.

نمل کے اسٹور سے نکلتے ہی ذاکر نے سب کچھ بتایا تھا نمل کو اب سمجھ گئی تھی اللّٰہ پاک کے غضب سے بڑی رحمت ہے جو ایک ندامت ہی آنسوں پر معاف کر دیتا ہے معافی کی توفیق بھی خوش نصیبوں کو ملتی ہے اور ہشام ان خوش نصیبوں میں شامل تھا اور نمل کو اس فخر تھا۔

اپنے گزرے دن کے تمام دکھ نمل بھول چکی تھی اب ہشام کے ساتھ بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھی اور ہشام اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا تھا کہ اس گناہگار کو انتی نیک بیوی عطا کی تھی ۔

نمل کو دیکھ کر اس کو ایک آیت یاد آتی تھی سورة الرحمن فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۱۳﴾

پس ( اے انسانو اور جنو! ) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

ختم شدہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Verified by MonsterInsights