Halaal e juraat famous patriotic based novel by umera Ahmed on trending novelnagri website

ہلالِ_جرأت ازقلم: عمیرہ احمدمیں نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوۓ ان میں اترنے والی نیند کو بھگانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے میں سو نہیں سکا تھا اور اگلے کتنے گھنٹے مجھے اسی طرح جاگتے رہنا تھا۔مجھے اسکا اندارہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔باہر گرتی ہوٸ برف نے رات ہونے سے پہلے ہی ہر چیز کو مفلوج کر دیا تھا۔۔۔۔۔ہر چیز کو مفلوج؟نیند نے واقعی میرے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔۔۔۔۔یہاں کون سی چیز ہی جو مفلج ہو سکتی ہے؟ مردہ پہاڑوں کی مردہ چوٹیاں۔۔۔۔؟ گہری کھاٸیاں۔۔۔۔۔؟ ٹنوں کے حساب سے پڑی ہوٸ برف۔۔۔؟ صدیو سے یہیں پڑے ہوۓ چٹانوں کے یہ ٹکڑے۔۔۔۔۔۔یا آمنے سامنے اوپر نیچے چوٹیوں پر موجود ان چوکیوں اور بنکرز کے اندر حشرات کی طرح رینگنے والے میرے جیسے چند انسان؟میں نے بسکٹ کے ڈبے میں موجود آخری سیلن زدہ بسکٹ کو پانی کے چند یخ قطروں کے ساتھ اپنے حلق کے اندر اتار لیا۔۔۔۔۔بنکر میں موجود خوراک کا ذخیرہ اب ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔اڑتالیس گھنٹوں میں ہر تو گھنٹے کے بعد میں نے چار بسکٹ اور پانی کے چھ گھونٹ پیے تھے۔چھیانوے بسکٹ اور پانی کے ایک سوچوالیس گھونٹ۔۔۔۔۔۔مجھے اپنے حساب کتاب پر ہنسی آرہی تھی۔زندگی میں پہلے کبھی ان دونوں چیزوں کو استمعال کرتے ہوۓ گننے کی کوشش نہیں کی تھی۔کوٸ بھی نہیں کرتا۔۔۔۔اور اب یہاں بیٹھ کر ہی کام کر رہا ہوں تو شاید وقت بھی کاٹنا چاہ رہا ہوں۔موسم۔ابھی تک ویسا ہی ہے جیسا پچھلے دو دن سے تھا۔۔۔تیز ہواٶں کے ساتھ برف باری ہو رہی ہے۔۔۔اور اسکا سلسلہ کب رکے گا یہ کوٸ نہیں جانتا۔۔۔۔دو گھنے کے بعد میں کیا کھاٶ گا۔۔۔۔؟ پانی کا تو خیر کوٸ مسٸلہ نہیں۔۔۔۔برف لے کر پگھلاٸ جاسکتی ہے یا پھر ایسے ہی چوس لوں گا یا چوسنے کی کوشش کروں گا۔ اگر میری زبان کا درجہ حرارت برف کے درجہ حرارت سے زیادہ ہوا تو برف پگھل جاۓ گی۔۔۔۔(میری سینس آف ہیومر یہاں بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑ رہی۔)بعض دفعہ یہاں کی سردی سے مجھے یوں ہی محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم کا درجہ حرارت بھی اب ماٸنس 10 ڈگری سینٹی گریڈ رہنے لگا ہے(سینس آف ہیومر)۔۔۔گوشت کے نمکین سوکھے ہوۓ ٹکڑے۔۔۔۔خشک میوہ۔۔۔خشک بھنے ہوۓ چنے۔۔۔۔اُس وقت موسم خراب نہ تھا اس کی بھی راشن بندی کر لیتا۔۔۔۔۔اور انھیں اس طرح اکھٹا ننہ کھاتا۔۔۔۔۔گوشت کے ٹکڑوں کا ذاٸقہ تو میں ابھی تک محسوس کر رہا ہوں، حالانکہ انھیں کھاۓ اڑتالیس گھنٹے گزر چکے ہیں۔ پہگی دفعہ انہیں اس طرح کھانے کا اتفاق ہوا ورنہ میں انھیں پکا کر استعمال کرتا تھا۔۔۔۔۔اور انھیں چباتے رہنے سے مجھے دانتوں تلے پسینہ آگیا اور پھر ان میں موجود نمک، میں نے پھر بھی انھیں کھا ہی لیا۔ وہ بلکل ربڑ کی طرح تھے۔۔۔۔چباتے جاٶ۔۔۔۔۔چباتے جاٶ۔۔۔۔۔مگر ٹوٹنا مشکل ہوجاتا ہے مگر جب تک وہ میرے منہ میں تھے، مجھے بڑی تقویت مل رہی تھی یوں جیسے خوراک کا ایک بڑا ذخیرہ میرے پاس تھا۔فضا میں ایک بار پھر وہی آوازیں گونجنے لگی ہیں۔۔۔۔۔۔غصے کی ایک لہر سی جیسے میرے اندر اٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔ان کمینوں نے پھر شیلنگ شروع کر دی تھی میں نے اپنی جگہ سی حرکت کی۔۔۔۔۔۔درد کی ایک ٹیس میرے ہاتھ میں اٹھی مگر میں نے ہونٹ بھینچ لیے۔مشین گن میں کچھ دیر پہلے میں نے نیا راٶںڈ ڈالا تھا۔۔۔۔۔۔۔پچھلے دو گھنٹے میں، میں نے تین بار وقفے وقفے سے اں کی شیلنگ کے جواب میں فاٸزنگ کی ہے۔۔۔۔۔۔شیلنگ کے جواب میں فاٸرنگ۔۔۔۔۔۔۔؟ شیلنگ کے جواب میں شیلنگ قرنے کے لیے میرے ساتھ کسی کا ہونا ضروری ہے اور میں یہاں اکیلا ہوں۔اسلحہ بھی بڑی احتیاط سے استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ پتا نہیں اب کتنے راٶنڈز باقی رہ گۓ ہیں۔۔۔۔۔۔باٸیں ہاتھ میں اٹھنے والی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوۓ میں نے باٸیں بازوں اور داٸیں ہاتھ کی مدد سے باقی ماندہ راٶنڈ بھی فاٸر کر دیا۔ دوسری طرف اب خاموشی چھا گٸ۔پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے یہی ہو رہا ہے۔ وہ فاٸر کرتے ہیں یا شیلنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔پھر میں فاٸر کرتا ہوں پھر وہ فاٸر بند کر دیتے ہیں۔ پھر میں فاٸر بند کر دیتا ہوں۔ ہوں لگتا ہے وہ شیلنگ یا فاٸرنگ کرکے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ ”کوٸ ہے؟ knock knock“اور میں جواباً فاٸرنگ کرتے ہوۓ کہتا ہوں۔”ہاں ابھی میں ہوں۔“ وہ فاٸرنگ بند کر دیتے ہیں۔”اچھا ٹھیک ہے پھر آٸیں گے۔“میں بھی فاٸرنگ بند کر دیتا ہوں۔”Anytime“میں مشین گن سے پیچھے ہٹ گیا تھا ہاتھ میں اٹھنے والی ٹیسیں ایک بار پھر مجھے کرہنے پر مجبر کر رہی ہیں۔ دو دن پہلے اس ہاتھ پر گولی لگی تھی۔۔۔۔اس وقت جب میں باہر اپنی کچھ نوجوانوں کے ساتھ تھا۔۔۔۔۔۔مجھے دو گولیاں لگی تھیں ایک ماتھے سے رگڑ کھاتے اور میرا گوشت اڑاتے ہوۓ گزر گٸ۔ دوسری ابھی بھی میرے ہاتھ میں موجود ہے میں خوش قسمت تھا۔۔۔۔۔سات آدمیں سے بچنے والا میں واحد آدمی تھا۔۔۔۔۔یا پھر بد قسمت، سات آدمیوں میں سے شہادت کا رتبہ نہ پانے والا میں واحد آدمی تھا۔واپس اندر آکر میں نے اپنی مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی۔ ماتھے سے نکلنے والا خون کچھ دیر کے بعد رک گیا تھا۔ وہ خطرناک نہیں تھا۔۔۔۔۔مگر ہاتھ میں موجود گولی۔۔۔۔۔تب مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ اگلے دو دن یہاں سے نیچے جانے کے بجاۓ مجھے یہیں گزارنے پڑیں گے۔اب ہاتھ کی ہالت دیکھ کر مجھے ہی اندازہ ہوگیا ہے اسے کاٹنا پڑے گا مگر کتنا۔۔۔۔۔۔۔ابھی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ صرف ہاتھ ہی کاٹنا پڑے گا یا۔۔۔۔اور بھی کچھ۔۔۔۔۔مجھےاپنی منگیتر زینب کا خیال آرہا تھا۔۔۔۔ اسے میرے ہاتھ بڑے پسند تھے۔”ولید تمہارے ہاتھ تو مردانہ ہاتھ لگتے ہی نہیں اور فوجیوں کے ہاتھ جیسے تو بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔اتنے نازک اور نفیس ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے میں بعض دفعہ ان پر کیوٹکس لگا کر دیکھوں کہ وہ کیسے لگتے ہیں۔“وہ اکثر مزاق میں مجھے چھڑتی تھی۔اب اس وقت وہ اس ہاتھ کو دیکھ لے تو۔۔۔۔؟ میں سوچ رہا ہوں کٹوانے کے بعد یہ ہاتھ اسے بھجوادوں۔۔۔۔بذریعہ کوریر سروس۔۔۔شاید ایسی بات اسکے سامنے کہوں تو۔۔۔۔۔”تمہارے پریکٹیکل جوکس کب ختم ہوں گے ولید۔۔۔؟ بڑے ہو جاٶ اب۔“ وہ یقیناً مجھ پر چلاۓ گی اگر روٸ نہ تو۔۔۔۔۔(میرا سینس آف ہیومر۔)میری کزن ہے وہ۔۔۔۔خالہ زاد کزن۔۔۔۔منگیتر بنے تو ابھی اسے صرف دو سال ہی ہوۓ ہیں اور بیوہ بننے میں بس دو دن اور لگیں گے، اگر یہ برف باری اسی طرح جاری رہی اور نیچے بیس کیمپ سی کوٸ نہ آیا تو۔۔۔۔یہاں ہزاروں فٹ کی بلندی پر کہٸ اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات کیسے گزارے گا۔۔۔۔۔جیسے میں اس وقت اندازہ نہیں کر پارہا۔مگر کوٸ بات نہیں اگر چھ آدمی برف کا کفن اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے یہاں دفن ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔اگر سامنے اننچاٸ پر موجود چوکیوں میں بیٹھے ہوۓ دشمن کے فوجی بھی اسی برف باری، اسی طوفان، اسی تنہاٸ اور انہیں کھاٸیوں اور چوٹیوں کے ساتھ یہاں بیٹھے لڑ سکتے ہیں تو میں بھی لڑ سکتا ہوں۔۔۔۔۔اگر وہ مٹی کے لیے خون دے سکتے ہیں تو میں بھی دے سکتا ہوں۔۔”آخری آدمی اور آخری گولی تک لڑیں گے۔“مجھے پی ایم اے میں بار بار دہرایا ہوا سبق یاد آنے لگا۔۔۔۔میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گٸ۔”آخری آدمی“”آخری گولی۔“ آج پہلی بار ان دونوں چیزوں کی اہمیت اور صحیح مفہوم سمجھ میں آیا تھا۔۔۔۔میں نے مشین گن کے باقی راٶنڈز کو دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔آخری آدمی، آخری گولیاں گِن رہاتھا۔اڑتالیس گھنٹے پہلے میں یہاں اس طرح اکیلا نہیں تھا، میرے چھ ساتھی میرے ساتھ تھے۔۔۔۔مگر اب میں یہاں اکیلا بیٹھا ہوں۔۔۔وہ چھ کے چھ باہر ہیں۔۔۔۔پتا نہیں، اتنی برف میں سے ان کی لاشیں نکل بھی سکیں گی یا نہیں۔۔۔۔میں نے آنکھیں بند کر کے ایک بار پھر اس جگہ کے محل وقوع کو اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی جہاں ان کی لاشیں تھیں۔۔۔۔دو دن کی اس برف باری نے ہر چیز کو خاصا بدل دیا ہوگا۔۔۔۔پھر برف کی تہ در تہ۔۔۔۔۔میں نے مایوسی سے سر ہلایا۔۔۔۔شاید ان کی قسمت میں برف کی قبر ہی تھی۔۔۔۔اور شاید میری قسمت میں بھی۔دو دن پہلے کیا ہوا تھا؟ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔۔۔دو ساتھی باہر گۓ تھے۔۔۔۔وہ بہت دیر کے بعد واپس آۓ اور انھں نے بتایا کی انھوں نے چوکی سے باہر کچھ فاصلے پر نقل و حرکت دیکھی ہے۔ وم لوگ ایک دم چوکنے ہو گۓ۔پچھلے ماہ ہماری دہ چوکیوں پر بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا تھا۔ ایک چوکی پر انھوں نی قبضہ کر لیا اور ہم اسے واپس لینے میں نا کام رہے۔ دوسری چوکی والوں نے انھیں پسپا کر دیا۔۔۔۔۔۔اور اب یقیناً ہماری باری تھی۔ہم نے اگلو(igloo) میں موجود ساتھیوں کو بھی بلوا لیا۔۔۔۔۔ایک ساتھی کو بنکر کے اندر چھوڑ کر ہم سب باہر نکل گۓ۔ وہیں کہاں نقل و حرکت دیکھی گٸ تھی۔ وہاں واقعی کچھ لوگ تھے اور وہ ہماری ہی طرف آرہے تھے۔۔۔۔۔۔نہ صرف آرہے تھے بلکہ ان میں سے کچھ خاصی اہم جگہوں پر پہنچ چکے تھے اور وہ اب یقیناً ہم پر حملہ کرنے کے لۓ پر تول رہے تھے۔ ہم جس حد تک لڑ سکتے تھے لڑے۔۔۔۔۔اندر بنکر میں موجود ساتھی بھی کچھ دیر بعد ہمارے ساتھ آگیا۔ہم نے حملہ پسپا کر دیا مگر حملے میں میرے سارے ساتھی مارے گۓ اور خود میں زخمی ہو گیا اور میں یہاں آگیا۔ واٸرلیس پر میں نے بیس کیمپ کو حملے اور ہونے والے جانی نقصان کی اطلاعات کوڈ ورڈز میں دی۔۔۔کیونکہ واٸرلیس کی ٹرانسمیشن اکثر بھارتی فوجی درمیان میں سنتے رہتے ہیں۔ میں نے انھیں کچھ اور لوگوں کو بھیجنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔مگر پھر ایک دم موسم خراب ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔اور مجھے بتایا گیا کہ ابھی کسی کو روانہ نہیں کیا جاسکتا۔مجھے خطرہ تھا کہ کہیں بھارتی فوجی دوبارہ حملہ نہ کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر چہ پہلے حملے میں انھیں بھی خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا مگر دوسرا حملہ کرنے پر تو انھیں میدان صاف ملتا۔کسی قسم کی کوٸ مزاحمت درپیش نہ آتی۔ مگر انھوں نی دوبارہ حملہ نہیں کیا۔ میری چوکی پر وقفے وقفے سے شدید شیلنگ اور فاٸرنگ کی گٸ۔۔۔۔۔۔۔شاید انھیں بھی یہ اندازا ہو گیا تھا کہ ہمیں خاصا جانی نقصان اٹھنا پڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور وہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ ابھی چوکی میں کتنے لوگ موجود ہیں۔۔۔۔۔۔کوٸ ہے بھی یا نہیں۔ جواباً شیلنگ نہ ہونے سے انھیں ہماری افرادی قوت کا تو پتا چل ہی گیا ہوگا مگر فاٸرنگ ہونے سے انھیں یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ ابھی مزاحمت ہو سکتی ہے۔پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے میں وقفے وقفے سے فاٸرنگ کرتے ہوۓ انھیں ہی بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ چوکی ابھی مکمل طور پر خالی نہیں ہوٸ۔ ابھی وہاں کوٸ نہ کوٸ ہے۔۔۔۔۔۔۔اور واٸرلیس پر بیس کیمپ سے رابطہ قاٸم کرتے ہوۓ بھی میں آوازیں بدل بدل کر اپنے ساتھیں کے نام استعمال کر رہا تھا تاکہ اگر ٹرانسمیشن کسی بھی طرح درمیان میں سن لی جاۓ تو وہ یہی سمجھیں کہ چوکی میں ابھی خاصے لوگ ہیں اور وہ دوسرے حملے کا نہ سوچیں۔ایک دوسرے پر فاٸرنگ اور شیلنگ کرتے ہوۓ ہم پاگل لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔نہ انھیں ہم نظر آتے ہیں نہ ہمیں وہ۔۔۔۔یہ سرحدی یا میدانی علاقہ تو نہیں کہ فوجی آمنے سامنے بیٹھے نظر آٸیں۔۔۔۔۔۔بغض دفعہ تو یوں لگتا ہے جیسے فوجی اپنی تنہاٸ دور کرنے کے لیے اس طرح اندھا دھند گولیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔۔۔۔ہو سکتا ہے ان کی چوکی میں بھی اب چند ہی لوگ موجود ہوں اور ان میں سے بھی کچھ میری طرح زخمی ہوں۔۔۔۔۔۔اور شاید ان کے فوری طور پر دوبارہ حملہ کرنے کی وجہ بھی یہی ہو۔ میرے قیافے اور اندازے جاری ہیں۔ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں یہاں اکیلا بیٹھا میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں؟دو دن پہلے سپلاٸ آنی تھی۔۔۔۔۔۔نہیں آسکی۔۔۔۔۔اور مجھے ابھی یہاں آۓ صرف چھ ہفتے ہی ہوۓ ہیں۔۔۔۔۔چھ ہفتے میں ہی بہت کچھ سیکھ گیا ہوں۔۔۔۔۔۔آج سالگرہ بھی تھی میری۔۔۔۔۔چھ ستمبر کے دن ہوتی ہے میری سالگرہ۔۔۔۔۔پی ایم اے میں میرا مزاق اڑایا جاتا تھا۔”تمہاری پیداٸش ہی وطن کے دفاع کے لیے ہوٸ ہے۔“ میرے انسٹرکٹر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا اور آج یہاں بیٹھا میں سوچ رہا ہوں کہ بعض باتیں کتنی سچی ہوتی ہیں۔کچھ دیر پہلے میں نے اپنی سالگرہ کے دن سے ایک ہفتہ پہلے ملنے والے وہ سارے کارڈز اور خط دیکھے ہیں جو میرے گھر والوں اور زینب نے بھجواۓ ہیں۔ میری بہن نے کارڈمیں لکھا تھا کہ وہ چاہتی ہےکہ میری عمر کم از کم دوسو سال ہو تاکہ میں اگلے دوسو سال اسے اس کی دوستوں کے گھر لے جاتا رہوں۔۔۔دوسو سال۔۔۔۔؟میرے چھٹے بھاٸ نے مجھے کارڈ میں لکھا تھا کہ وہ میری واپسی کا بڑی شدت سے انتظار کر رہا ہے۔۔۔۔۔پچھلی دفعہ اس نے مجھے ایک اوور میں چودہ بار آٶٹ کیا تھا۔۔۔۔اس کا اصرار تھا کی یہ ورلڈ ریکارڈ ہی۔ میرا کہنا تھا یقیناً ورلڈ ریکارڈ ہے مگر ایک اوور میں چودہ بار آٶٹ کرنے کا نہیں بلکہ ایک اوور میں چونتیس نو بال کروانے کا۔۔۔۔۔۔تیرہ بار میں نو بال پر آوٹ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔صرف ایک بار صحیح بال پر وہ بھی اپنی غلطی کی وجہ سے ورنہ اس میں باٶلر کا کوٸ کمال نہیں تھا۔ اس بار اس نے مجھے کارڈ کے ساتھ اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس بار اس نے نۓ اسپاٸکس خریدے ہیں اور وہ اس بار اپنے دس اوور کے سپیل میں ایک بھی نو بال نہیں دے گا۔شاید اس باریہاں سی واپسی پر اس کی صرورت ہی نہ پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے خون آلود دستانے میں لپٹے ہوۓ اپنے سوجے ہوۓ ہاتھ کو دیکھتے ہوۓ سوچا تھا۔میری امی نے بھی مجھے اپنے خط میں بہت سی دعاٸیں بھیجی تھیں۔”میرا دل آج کل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ہر وقت تمہارا خیال آتا رہتا ہے۔ اپنا خیال رکھنا بیٹا۔“انھوں نے تین صفحے کے خط میں پندرہ بار مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔میری آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔۔۔۔۔ان کا خط پڑھتے ہوۓ میں اسی طرح آبدیدہ ہو جاتا تھا۔ ماٶں کو ہر بات کا پہلے سے پتا کیوں چل جاتا ہے؟بابا کے خط میں ہمیشہ کی طرح نصیحتیں تھیں،”تم کو یاد رکھنا چاہیے کہ تم ایک فوجی ہو۔۔۔۔۔فوجی کا کام اپنے کام میں excel کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ولید زماں میں چاہتا ہوں سیاچن سے واپسی پر تمہارے سینے پر کم از کم ایک میڈل ضرور ہو۔“ انھوں نے خط میں لکھا تھا۔۔۔۔۔کٸ دن پہلے خط میں پڑھتے ہوۓ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے۔ آخر ۶ہاں میں ایسا کر کیا سکتا تھا کہ ایک میڈل کا حق دار کہلاتا۔۔۔۔۔مگر اب میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ہی چوکی بچ گٸ۔۔۔۔۔کمک جلد پہنچ گٸ تو ایک میرے سینے پر لگ ہی جاۓ گا۔۔۔۔۔نشانِ حیدر نہ سہی۔۔۔۔۔۔ہلالِ جرأت سہی۔زینب کا کارڈ ہمیشہ کی طرح گلب کے سرخ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔سرخ گلاب۔۔۔۔اس کی زندگی میں پھول نہ ہوں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔سویٹ پی اور سرخ گلاب۔۔۔۔۔۔وہ یکم ستمبر کو اسی سال پیدا ہوٸ تھی جس سا میں پیدا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔اور منگنی سے پہلے تک وہ شدید غصے میں آجاتی تھی جب میں اسے سب لوگوں کے درمیان زینب آپا کہا کرتا تھا۔”۔behave yourself ولید! تمہیں شرم نہیں آتی مجھے آپا کہتے ہوۓ۔“اس کا چہرہ سرخ ہوجاتا، وہ غراتی۔”اس میں شرم والی کیا بات ہے؟میں تو آپ کا احترام کر رہا ہوں زینب آپا۔“میں بظاہر سنجیدگی سے کہتا۔”تم اپنا احترام اپنے پاس رکھو۔۔۔۔۔پانچ دن کا فرق مجھے تمہاری آپا نہیں بنا دیتا۔۔۔۔۔سمجھے تم۔“”بندے کو حساب کتاب میں صاف رہنا چاہیے۔ اب چاہے کوٸ ایک دن بڑا ہو یا ایک منٹ۔۔۔۔۔بڑا تو بڑا ہو ہوتا ہے زینب آپا۔۔۔۔“میں ڈھٹاٸ سے آپا پر زور دیتا۔”تمہارا حساب اتنا اچھا ہوتا تو تم فوج میں نہ ہوتے؟ انجینٸرنگ یونیورسٹی میں بیٹھے ہوتے میرٹ لسٹ پر آ کر۔“وہ مجھ پر چوٹ کرتی۔”آپا وہ اور بات ہے۔“میں ایک بار پھر آپا پر زور دیتے ہوۓ کہتا۔”دفع ہو جاٶ تم۔ ولید! تم بہت ہی mean انسان ہو۔“وہ ہتھے سے اکھڑ جاتی۔”اس بار میں کوٸ لحاظ نہیں کروں گی کہ تم یہاں بیٹھے ہو۔۔۔۔ملازم سے کہہ کر دکھے دے کر نکلوادوں گی تم نے مجھے اب اگر آپا کہا تو۔“میں جانتا تھا، اس بار یہ دھمکی نہیں تھی، وہ تین بار اسی طرح مجھے گھر سے نکلوا چکی تھی۔۔۔۔۔میں نے اسے آپا کہنا چھوڑ دیا۔۔۔۔۔میں اسے باجی کہنے لگا۔اس کے باوجود اس کے ساتھ میری دوستی ختم نہیں ہوٸ۔۔۔۔۔ہم پچپن میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بار ایک دوسرے کی ٹھکاٸ کر چکے تھے۔۔۔۔۔قریب گھر ہونے کا یہ نقصان تھا۔ میں اس کے بھاٸیوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور میرا زیادو وقت اس کے گھر پر ہی گزرتا تھا۔۔۔۔اس کے بھاٸیوں کے ساتھ میری بڑی دوستی تھی۔ زینب کے ساتھ بھی تھی مگر اس سے جھگڑا زیادہ ہوتا تھا۔منگنی ہم دونوں کے کہنے پر ہی ہوٸ تھی۔ اب اس میں محبت کے عنصر کا کتنا دخل تھا۔پتا نہیں۔۔۔۔۔میں بہت دیر تک سرخ گلابوں والے اس میوزیکل کارڈ کو کھولے بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔”آخر تمہیں ہی کیوں بھیج رہے ہیں سیاچن۔۔۔۔۔اور بھی تو لوگ ہیں۔“یہاں پوسٹ ہونے سے پہلے اس کی پچکانہ بات سن کر مجھے بڑی ہنسی آٸ تھی۔”میں ان سے کہہ دیتا ہوں میرے بجاۓ زینب جواد کو سیاچن بھجوا دیں۔ ٹھیک ہے؟ وہ میری بات پر ہنسنے کے بجاۓ رونے لگی۔“”تم سے کتنا کہا تھا ایف ایس سی کے دوران کہ محنت کرو۔۔۔۔۔پڑھو نمبر لے لو۔۔۔۔تاکہ انجینٸرنگ یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہو جاۓ مگر تم نے۔۔۔۔“وہ ایک بار پھر رونے لگی۔ مجھے اس کی بات پر اور ہنسی آٸ۔ہاتھ میں یک دم پھر ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ ______*______*______*_____چھ ستمبر کے سلسلے میں ریڈیو پاکستان کی طرف سے منعقد کیے جانے والے شو کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔ اس شو کو براہِ راست براڈکاسٹ کیا جانا تھا اور مہمانوں میں جہاں فوج میں مختلف خدمات سرانجام دینے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، وہاں سنگرز بھی تھے۔ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جو مختلف جنگوں میں دادِ شجاعت دینے والے ہیروز کی وجہ سے کم اور نوجوان نسل کے نماٸندہ گلوکاروں کو سننے کے لیے زیادہ جمع تھے۔سب لوگ اپنی سیٹوں پر براجمان ہو چکے تھے۔کمپیٸر ایک پھر اسٹیج پر چڑھ کر اپنی لاٸنز کی ریہرسل کر رہا تھا۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ گونجنے والی واحد آواز کمپیٸر کی تھی جو چھ ستمبر کے حوالے سے اپنی لاٸنز کو بڑے پُر اعتماد انداز میں دہرا رہا تھا۔۔۔۔۔اس کی ساتھی کمپیٸر مسکراتے ہوۓ حاضرین کو دیکھ رہی تھی۔ _____*______*_______*______صوبیدار (ریٹاٸرڈ)کریم بخش نے آٹھویں رو کی دسویں نشست پر بیٹھے ہوۓ ایک بار سر اٹھا کر اسٹیج پر موجود روشنیوں کو دیکھا۔۔۔۔۔۔اور اسے اپنا گلا خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار وہ اس طرح کے کسی شو میں شرکت کر رہا تھا اور وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ اس کی گھبراہٹ یہ سوچ کر اور بڑھتی جا رہی تھی کہ کچھ دیر کے بعد وہ خود اس اسٹیج پر موجود ہوگا اور اسی کمپیٸر سے بات کر رہا ہوگا۔ جو اس وقت بڑے فراٹے کے ساتھ رٹے رٹاۓ جملے ادا کر رہا تھا۔کریم بخش نے اپنے سر پر موجود قراقلی ٹوپی کو ہاتھ سے درست کیا اور پہنی ہوٸ واسکٹ پر لگے ہوۓ ایک اکلوتے تمغے پر فخریہ نظر ڈاگی۔وہ زندگی میں ان تمام مواقع کو پر گن سکتا تھا جب اس نے یہ قراقلی ٹوپی اور واسکٹ پہنی تھی۔۔۔۔۔پہلا موقع وہ تھا جب اُس نے اس میڈل کو وصول کرنے کے بعد صدر کی طرف سے دیے جانے والے ایک عشاٸیے میں شرکت کی تھی۔۔۔۔دوسرا موقع وہ تھا جب اس کے بیٹے کی شادی ہوٸ تھی اور تیسرا موقع آج آیا تھا۔۔۔۔۔۔واسکٹ اور قراقلی ٹوپی میں سے اب بھی تمباکو کی بو آرہی تھی جو ان کپڑوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس صندوق میں رکھا ہوا تھا جس میں یہ کپڑے رکھے تھے۔ایک کہرا سانس لے کر اس نے اس گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی جس کا وہ شکار ہو رہا تھا۔۔۔۔سر اٹھا کر اس نے اسٹیج پر لگی ہوٸ ان دس تصویروں پر نظر دوڑاٸ جنھیں نشانِ حیدر مل چکا تھا۔۔۔۔پھر اس کی نظر اس کونے میں گٸ جہاں تینوں افواج کے جھنڈے موجود تھے، اس نے اگلی نظر اپنے اردگرد موجود لوگوں پر ڈالی۔ وہ سب اسی طرح کے چھٹے رینک کے فوجی تھے جنھیں مختلف جھڑپوں میں مختلف امتیازی کارناموں پر میڈلز دیے جا چکے تھے اور وہ سب اس کی گھبراہٹ کا شکار تھے۔ وہ ان میں سے کچھ کو ذاتی طور پر جانتا تھا۔۔۔۔۔کٸ سال پہلے ان میں کچھ اسی کے ہی یونٹ کا حصہ تھے اور کٸ کے ساتھ اس نے مختلف قسم کی مشقوں میں حصہ لیا تھا اور کٸ کے بارے میں اس نے مختلف حوالوں سے مختلف لوگوں سے سنا تھا۔۔۔۔۔۔مگر آج پہلی بار انھیں دیکھ رہا تھا اور آج پہلی بار ایک چھت کے نیچے ان سے مل رہا تھا۔مگر اس کے باوجود اس کی گھبراہٹ ان لوگوں کی مرہونِ منت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔یہ ان لوگوں کے چہرے کے تاثرات اور جسم کی حرکات نہیو تھی جو اس کے لیے گھبراہٹ یا پریشانی کا باعث بن رہی تھیں۔۔۔۔بلکہ وہاں ان کے ساتھ بیٹھے اسے کچھ حوصلہ محسوس و رہا تھا۔۔۔۔۔شاید وہ لوگ وہاں نہ ہوتے تو وہ اس حال سے بھاگ ہی جاتا۔ اس نے ایک بار پھر ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوۓ اسٹیج کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کی نظریں روشنی سے چکا چوند ہوگٸیں۔ہال میں اب پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہونے والا تھا۔۔۔۔فاٸنل کیو دی جا رہی تھی۔کریم بخش نے ایک گہرا سانس لے کر ایک بار پھر سر اٹھایا۔ ____*________*________*____میں نی پاس پڑے ریڈیو کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ واٸرلیس کے علاوہ بیرونی دنیا سے ہمارے رابطے کا یہ واحد ذریعہ تھا۔ بعض دفعہ کوٸ اسٹیشن ٹیون اِن کرتے ہوۓ دوسری طرف کے فوجیوں کی فریکوٸنسی مل جاتی۔ بعض دفعہ ان کی گفتگو عام ہوتی۔۔۔۔۔بعض دفعہ وہ بھی کوڈ ورڈز میں بات کر رہے ہوتے۔۔۔۔۔اور یہاں چوکی میں بیٹھے ہوۓ لوگ ان کوڈ ورڈز کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔۔۔۔۔یہ جیسے ہمارے لیے تقریح کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔میں جانتا تھا آج چھ ستمبر کی مناسبت سے ریڈیو پر بہت سے پروگرامز اور گیت نشر ہو رہی ہوں گے۔ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں میں بار بار ریڈیو آن آف کرتا زہا تھا۔۔۔۔۔کیونکہ میں نہیں چاہتا اس کی بیٹریز ڈاٶن ہو جاٸیں اورمیں ان واحد انسانی آوازوں سے بھی محروم ہو جاٶں۔۔۔۔جنھوں نے اس تنہاٸ اور تکلیف میں بھی مجھے اپنے ہوش ہ حواس میں رکھا ہوا تھا۔”خواتین و حضرات! میں آپ کو ریڈیو پاکستان کی طرف سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج کی خاص تقریب پاک فوج کے ان جوانوں کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے جو سر زمین پاک کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے پر یقین رکھتے ہیں۔“بے مقصد ٹیوننگ کرتے ہوۓ ایک اسٹیشن سے آنے والی صاف الفاظ نے مجھے روک لیا۔”یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آج کو ہمارے کل کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔“میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ ہاتھ میں ابھرنے والی ٹیسیں یک دم کچھ مدہم ہونے لگیں۔”یہ قوم سے کہتے ہیں کہ تم سوجاٶ کیونکہ بارڈرز پر ہم ہیں۔“میں نے ایک بار پھر باہر جھانک کر دیکھا۔ برف باری ابھی نہیں تھمی تھی اور میرے لیے اگر یہ برف باری پریشانی کا باعث تھی تو دوسری طرف ایک حفاظتی کا کام بھی کر رہی تھی۔میں جانتا تھا، بھارتی فوجی برف باری اور تاریکی میں میری چوکی پر حملہ کرنے کی حماقت نہیں کریں گے۔ اگر وہ ایسی کوشش کرتے تو برف اور کھاٸیاں انہیں مجھ تک پہنچنے نہ دیتیں۔”اور اگر کوٸ دشمن ہماری مٹی کی طرف بڑھنے کی جرأت کرے گا تو ہم لڑیں گے اس وقت تک جب تک کہ ہماری رگوں میں خون کا آخری قطرہ موجود ہے۔۔۔۔اس وقت تک جب تک ہمارے وجود میں زندگی کی آخری رمق موجود ہے۔“کمپیٸر ایک بار پھر کہہ رہا تھا۔۔۔۔اس بار اس کی آواز ہال میں ابھرنے والے تالیوں کے شور میں دب گٸ تھی۔ لوگ یقیناً اس جملے سے محفوظ ہوۓ تھے۔۔۔۔تالیوں کا شور ابھی تک سناٸ دے رہا تھا۔۔۔۔کمپیٸر اب خاموش ہو کر تالیوں کے تھمنے کا انتظار کر رہا تھا۔میں نے اپنی راٸفل کو ایک بار پھر نۓ سرے سے لوڈ کیا۔ اگر چہ اس وقت میں اسے استعمال نہیں کر پا رہا تھا اور شاید اس مقابلے میں اس کی ضرورت ہی نہ پڑتی کیونکہ اگروہ لوگ اس چوکی تک پہنچ جاتے اور انھیں رستے میں کہیں نہ روکا جاتا تو وہ اس چوکی کو مجھ سمیت اڑا دیتے۔۔۔۔مگر میں نے پھر بھی ایک بار راٸفل کو نۓ سرے سے لوڈ کیا۔ ”زندہ قومیں اپنے غازیوں اور شہیدوں کو فراموش نہیں کرتیں۔۔۔۔۔۔زندہ قومیں اپنے غازیوں اور شہیدوں کے خون کے ان قطروں کا احترام کرتی ہے جو وہ اس مٹی کے دفاع کے کے لیے بہاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور آج اس ہال میں ہم آپ کو ایسے ہی کچھ لوگوں سے ملواٸیں گے جن کی قوم احسان مند ہے۔“میں نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لیں جسم کو تھوڑا سا سکون ملا۔۔۔۔۔۔۔میں ایک بار پھر گود میں رکھے ہوۓ اس ریڈیو کی طرف متوجہ ہو گیا۔ برف باری کے باوجود حیرت انگیز طور پر آواز بہت صاف تھی۔۔۔۔۔۔مر یہاں اکثر ایسے عجیب واقعات ہوتے رہتے ہیں۔”میں سب سے پہلے اپنے پہلے مہمان کو بلواتا ہوں جن کا تعلق پاکستان اٸیرفورس سے ہے۔۔۔۔1967ء کی جنگ میں انھیں دشمن کے دو جہاز گرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں دعوت دیتا ہوں۔“میری توجہ اچانک باہر مرکوز ہوگٸ۔ مجھے محسوس ہوا تھا، برف باری رک گٸ تھی۔۔۔۔۔۔۔میری حسیات یک دم جیسے بیدار ہو گٸ تھیں۔ میں اپنے ہونٹ بھینجتے ہوۓ داٸیں ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیتےہوۓ کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔اگر برف باری واقعی رک گٸ تھی تو ایک بار باہر کا جاٸزہ لینا ضروری ہو گیا تھا۔مجھے موسم کا اندازہ لگانا تھا۔ کیا اس وقت ہیلی کاپٹر کی کوٸ فلاٸٹ ممکن تھی۔۔۔۔۔۔۔اگر برف باری اگلے کٸ گھنٹے رکی رہی تو دشمن کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ان کی حکمت عملی کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا تھا مگر یہ ضرور اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ اس چوکی کو حاصل کرنے کے لیے بے خوف تھے۔۔۔۔۔۔یہ اندازہ تو انھیں ہو ہی چکا ہوگا کہ پہلے حملے میں ہمارا جانی نقصان ہوا ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے جوانوں کی لاشیں دیکھ لی ہوں گی اور وہ فوجی جو پسپا ہونے کے بعد واپس چلے گۓ تھے انھوں نے یقیناً اس بات کی خبر آگے دی ہوگی۔۔۔۔۔۔اب چوکی میں کتنے آدمی موجود ہیں۔۔۔۔۔۔اس کا انھیں حتمی اندازہ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔لیکن اگر وہ ہماری لاشیں گن گۓ تھے تو وہ جاںتے ہوں گے کہ اب چوکی میں دو چار سے زیادہ لوگ نہیں ہوں گے۔اگر چہ میں نے واٸرلیس پر بار بار گفتگو کے درمیان دو تین مختلف آوازوں اور لہجوں میں بات کی۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔گفتگو درمیان میں سننے والے لوگ کتنے بے وقوف یا کتنے ہوشیار تھے، اس کا اندازہ میں نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔یہ بات یقیناً وہ بھی جانتے ہوں گے کہ چوکی پر ابھی تک کوٸ کمک نہیں پہنچی کیونکہ موسم نے ایسی کسی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔۔۔۔۔اور اب بارف باری رک جانے پر وہ اندھیرے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسرے حملے کا بھی سوچ سکتے تھے۔ ایک بار باہر جانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے سر کو جھٹکتے ہوۓ اپنے ہوش و حواس کو بحال رکھنے کی کوشش کی اہر لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ باہر چلا گیا۔۔۔۔۔۔سردی کی ایک لہر نے مجھے یخ کر دیا۔ اندر اور باہر کے درجہ ہرارت میں اس وقت زمیں آسمان کا فرق تھا۔۔۔۔۔میرے دانت بجنے لگے تھے، میں نے اپنے چہرے کے ٹوپی سے باہر رہ جانے والے تھوڑے سے حصے کو ہاتھ سے ڈھک لیا۔وہاں قبر جیسی تاریکی اور ٹھنڈک تھی اور آسمان سے گرنے والی برف اب واقعی مکمل طور پر بند ہو چکی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھکڑ بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہے تھے۔میں واپس اندر پلٹ آیا۔۔۔۔۔کچھ دیر بے دم سا بیٹھا میں وہاں ریڈیو پر گونجنے والی آواز کو بے مقصد سنتا رہا۔ پھر میں اٹھ کر واٸر لیس کے پاس چلا گیا۔ ریڈیو کو وقطی طور پر میں نے بند کر دیا تھا۔۔۔۔۔واٸرلیس کی فریکوٸنسی ایڈجسٹ کرتے ہوۓ میں نے ایک بار پھر بیس کیمپ سے رابطہ قاٸم کیا۔ موسم کے ٹھیک ہونے کی خبر ان تک بھی پہنچ چکی تھی اور ایک بڑا سا رسک لیتے ہوۓ وہ دس لوگوں کی ایک ٹیم کو رات کے اسی وقت وہاں پہنچانے کی تیاریاں کر چکے تھے۔میں جانتا تھا، وہ دس کے دس لوگ اس وقت اس مہم پر روانہ ہوتے ہوۓ اپنی جان کو داٶ پر لگاٸیں گے۔۔۔۔۔۔۔مگر اس کے علاوہ اور کوٸ چارہ نہیں تھا۔۔۔۔۔جلد یا بدیر کسی ٹیم کو یہاں آنا ہی تھا۔۔۔۔۔اور بہتر تھا یہ ٹیم اسی وقت یہاں آجاتی۔۔۔۔۔۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میں نڈھال ہو رہا تھا اور میں نہیں جانتا تھا کہ میں کس وقت اپنے ہوش و حواس کھودوں گا۔۔۔۔۔۔اس وقت سے پہلے کسی کو یہاں ہونا چاہیے تھا ورنہ یہ چوکی بھی۔۔۔۔۔۔میں پھر اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا مگر اس بار میں قدرے مطمٸن تھا۔۔۔۔۔چند گھنٹوں کی بات تھی پھر ٹیم یہاں پہنچ جاتی۔۔۔۔۔۔دس لوگ نہ سہی ان میں سے دو چار تو یہاں پہنچ ہی جاٸیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دس کے دس ہی یہاں پہنچ جاٸیں۔۔۔۔۔۔اگر وہ بہت خوش قسمت ہوۓ تو۔میں ایک بار پھر مشین گن سے باہر فاٸر کرنے لگا۔۔۔۔۔۔یہ ضروری تھا دوسری طرف سے جواب فوراً آیا۔۔۔۔۔۔اس بار میں نے قدرے زیادہ دیر تک فاٸرنگ کی۔۔۔۔۔میرے پاس وہاں ایمونیشن کی کمی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔دوسرے راٶنڈ کو فاٸر کرنے کے بعد میں نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی اور گہرے سانس لینے لگا۔دوسری طرف ابھی بھی فاٸرنگ ہو رہی تھی مگر میرا اب اس فاٸرنگ کے جواب میں فاٸرنگ کرنے کا کوٸ ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔میں جانتا تھا، کچھ دیر بعد وہ بھی تھک ہار کر بیٹھ جاٸیں گے۔ ایک بار پھر میں نے ریڈیو آن کردیا۔ ____*_______*______*______”اب ہم آپ کی ملاقات کرواتے ہیں سیاچن کے ایک ہیرو سے“۔ میں کچھ چونک گیا۔اپنی سمعتوں کو میں نے ریڈیو پر مرکوز کر لیا۔”1984میں سیاچن پر بھارت کے قبضے کے بعد یہ ان پہلے فوجیوں میں سے ہیں جنھوں نے وہاں اپنے فراٸص سر انجام دیے۔یہ وہ فوجی ہیں جنھیں وہاں بھجواتے ہوۓ اس طرح کا لباس اور ہتھیار فراہم نہیں کیے گۓ تھے جو ہمارے فوجیوں کو آج سیاچن پر بھجواتے ہوۓ فراہم کیے جاتے ہیں۔اس کے باوجود ان فوجیوں نے وہاں اپنی چوکیاں بھی قاٸم کیں اور وطن کی سرحد کا دفاع کرتے ہوۓ دشمن کو پورے سیاچن پر قابض ہونے سے روکا۔“میں بلکل خاموشی کے ساتھ ٹرانسمیشن سن رہا تھا۔میں دعوت دیتا ہوں صوبیدار (ریٹاٸرڈ) کریم بخش ستارہ جرأت کو کہ وہ سٹیج پر تشریف لاٸیں۔میں نہیں جانتا کہ کریم بخش سے پہلے کمپیٸر کتنے مہمانوں سے گفتگو کر چکا تھا مگر ہال میں گونجنے والی تالیوں کی آواز بہت پُر جوش نہیں تھی۔”ہمارے مہمان کو اسٹیج تک پہنچنے میں کچھ وقت لگ رہا ہی کیونکہ وہ پچھلی نشستوں میں بیٹھے ہیں مگر یہ تاخیر ہمارے لیے باعث زحمت نہیں ہے۔“ کمپیٸر اب کہہ رہا تھا۔پچھلی نشستوں پر؟ اور اگلی نشستوں پر کون بیٹھا ہوگا۔۔۔۔۔۔میں تصور کر سکتا تھا۔۔۔۔جنرلز۔۔۔وزیر۔۔۔بیوروکریٹس۔۔۔میں قدرے تلخی سے مسکرایا۔۔ _____*_________*______*_____کریم بخش نے یک دم چونک کر کمپیٸر کو اپنا نام لیتے ہوۓ سنا۔ پچھلے پون گھنٹہ میں وہ کتنے ہی لوگوں کو اسٹیج پر جاتے اور کمپیٸر سے گفتگو کرتے ہوۓ اپنے تجربات سناتے دیکھا تھا۔ بعض کی باتوں پر اس کی آنکھیں نم ہو گٸ تھیں۔ بعض کی باتوں پر فخر سے اس کا سینہ تن گیا تھا۔۔۔۔بعض کی باتوں پر اس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ تالیاں پیٹی تھیں، اتنی تالیاں کے اس کے ہاتھ سن سے ہو گٸے تھے۔ وہ یہ بھول ہی گیا تھا کہ ابھی اسے بھے اسٹیج پر جانا اور پھر وہ سب کچھ دہرانا ہے جو۔۔۔۔۔۔اور اب کمپیٸر کے نام لینے پر وہ اچانک گھبرا گیا تھا۔ کچھ دیر کے لیے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کدھر سے اسٹیج پر جاۓ، حالانکہ ریہرسل کے دوران اسے بھے دوسروں کے ساتھ ضروری ہدایت دی گٸ تھیں۔پھر قدرے کانپتی ہوٸ ٹانگوں اور جسم کے ساتھ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اپنی رو سے نکلنے لگا۔۔۔۔۔وہ لوگوں کی اپنے چہرے پر جمی نظرے دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ ان تالیوں کو بھی سن رہا تھا جو اس کے لیے بج رہی تھیں۔ سیڑھیاں اتر کر پہلی رہ کے سامنے سے گزرتے ہوۓ اس نے لاشعوری طور پر رک کر وہاں بیٹھے ہوۓ جنرلز کو سیلیوٹ کیا۔۔۔۔۔ان میں سے چند نے بے تاثر چہرے اور گردن کے ہلکے سے خم کے ساتھ اس کے سیلیوٹ کا جواب دیا۔۔۔۔۔۔مگر پھر وہ وہاں رکا نہیں۔۔۔۔۔وہ اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔”کریم بخش صاحب! آپ نے سیاچن پر کافی عرصہ گزارا اور وہاں چوکی قاٸم کی تھی۔۔۔۔۔آپ اپنے ان تجربات سے ہمیں بھی آگاہ کریں۔“کمپیٸر کریم بخش سے گفتگو کا آغاز کر رہا تھا۔”آپ سیاچن پر بھجواۓ جانے والے پہلے فوجیوں میں سے ایک تھے۔۔۔۔۔آپ بتاٸیے، جب آپ پہنچے توکیا تھا وہاں۔“”برف۔“کریم بخش کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اس میں کچھ کھلکھلاہٹیں ابھریں۔ کریم بخش اب جیسے خلا میں کسی غیر مرٸ چیز کو دیکھ رہا تھا۔”برف۔“میں نے تھکے ہوۓ انداز میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا دی۔۔۔۔۔”ہاں برف کے علاوہ یہ اور ہے بھی کیا۔“میں نے سوچا۔۔۔۔۔۔۔برف کا قبرستان ہے یہ وہی برف جو اس وقت میرے چھ ساتھیوں کو ڈھانپ چکی ہے۔ریڈیو میں سے آواز نہیں ؒرہی تھی۔ کریم بخش شاید کچھ اور لفظوں کی تلاش میں تھا۔۔۔۔۔۔۔ہیاں موجود برف دن کی روشنی میں آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے اور رات کے اندھیرے میں ہر چیز نگل لیتی ہے۔۔۔۔۔۔یہاں صرف دشمن کا خوف نہیں ہوتا۔۔۔۔۔برف کا خوف بھی ہوتا ہے۔ شاید میں بھی کمپیٸر کے اس سوال پر اسی طرح ایک لفظ بول کر گونگا ہو جاتا۔ میں انتظار کر رہا تھا اس شخص کے منہ سے نکلنے والے لفظوں کا۔”بہت۔۔۔۔۔۔برف۔۔۔۔۔تھی۔۔۔۔تھی وہاں۔۔۔۔۔پہ۔“اسنے لڑکھڑاتے ہوۓ بولنا شروع کیا۔ ”کبھی یک دم۔۔۔۔پیروں کے نیچے سے زمین غاٸب ہو جاتی۔۔۔۔نہیں برف غاٸب ہو جاتی۔۔۔۔۔۔پھر پتا بھی نہیں چلتا تھا۔۔۔۔کہ۔۔۔۔کہ۔۔۔۔“وہ اپنی بات مکمل نہیں کر سکا۔ ایک بار پھر وہ اسی طرح خلا میں گھورنے لگا۔ کمپیٸر نے مداخلت کی۔”آپ پہلے فوجیوں میں سے ایک تھے؟“”جی“”کیا مشکلات پیش آٸیں آپ کو وہاں بھجواۓ جانے۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔خاص طور پر تب جب آپ کے پاس آج جیسی سہولیات بھی نہیں تھیں؟“”کوٸ مشکلات پیش نہیں آٸیں۔“کریم بخش نے یک دم کسی مشین کی طرح کہا۔”جذبہ تھا ہم میں۔۔۔۔۔ہم لڑنے گۓ تھے وہاں۔“میں اب اس آدمی کے لہجے کو پہچان سکتا تھا کسی مشین کی طرح اب وہ، وہ باتیں کہہ رہا تھا جو جو طوطے کی طرح رٹاٸ جاتی ہے۔ وہ سامنے بیٹھے اتنے جنرلز کے سامنے اس خوف کا اظہار نہیں کر پا رہا ہوگا جس کا شکار وہ پہلی دفعہ وہاں آکر ہوا ہوگا۔۔۔۔۔میں جانتا تھا، میں محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔اس کی تنہاٸ کو۔۔۔۔۔۔اس کے خوف کو۔۔۔”مگر پھر بھی کچھ تو مساٸل پیش آۓ ہوں گے آپ کو؟“کمپیٸر نے اصرار کیا۔”ہاں تھوڑے بہت مساٸل پیش آۓ تھے۔۔۔۔۔۔وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ہم ہم نیچے سے 20 لوگ اوپر جانے کے لیے چلے تھے مگر وہاں صرف تین پہنچے تھے۔“کریم بخش ایک بار پھر جیسے کسی ٹرانس میں چلا گیا۔”رستے میں پتا نہیں چلتا تھا۔۔۔۔۔کون کہا گیا۔۔۔۔کون کہاں پھسل گیا۔۔۔۔۔ہم ایک دوسرے کے ساتھ رسی باندھ کر چلتے تھے پھر بھی۔۔۔۔۔وہاں برف سے ڈھکی ہوٸ کھاٸیاں تھیں۔ ہم ایک دوسرے کو بچا پبھی نہیں سکتے تھے۔“پہلی رو میں بیٹھے ایک افسر نے جماہی لی۔۔۔۔۔شو کچھ زیادہ ہی لمبا ہوتا جا رہا تھا۔ اسے ابھی ایک پارٹی میں بھی شرکت کرنی تھی اور وہاں کا ماحول یقیناً یہاں کے ماحول کی طرح Sombre نہیں ہوگا۔ اس نے قدرے بیذاری کے ساتھ سوچا۔ ”اب ان جنرلز کی وجہ سے میں اٹھ کر جا بھی نہیں سکتا۔ اور اوپر سے یہ فضول آدمی اتنے لمبے لمبے pause لے رہا ہے۔۔۔۔اس کو چاہیے جلد بات ختم کرے۔“وہ بیزاری سے اسٹیج کو دیکھنے لگا۔”آپ کے چہرے پر یہ جو نشانات ہیں یہ کس چیز کی وجہ سے ہیں؟“کمپیٸر اب اس آدمی سے پوچھ رہا تھا۔ کریم بخش نے بے اختیار اپنی ناک کو چھوا۔”برف سے جل گیا تھا میں۔۔۔“”فراسٹ باٸٹ“میں نے زیرِلب دہرایا۔ دودن پہلے میں اسکا شکار ہوا تھا جب میں اوندھے منہ برف پر گرا تھا اور۔۔۔۔”میں خوش قسمت تھا میرے ہاتھ اور پیروں کی صرف تمام انگلیاں ہی کاٹنی پڑیں۔۔۔۔باقی بہت سے ساتھیوں کی ٹانگیں اور بازو بھی کاٹنے پڑے۔“کریم بخش نے دسیوں انگلیوں سے محروم اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سامنے پھیلاتے ہوۓ کہا۔”اب ختم کریں یہ انٹرویو۔۔۔۔پتا نہیں ابرار کو کب بلاٸیں گے۔۔۔میں اس کے گانے سننے کے لیے آیا ہوں اور یہ اسے بلا ہی نہیں رہے۔“ہال کی ایک نشست پر بیٹھے ہوۓ ایک ٹین ایجر نے اپنے دوست سے بیزاری کے ساتھ کہا۔”میں خود شاہدہ منی کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔۔۔۔پہلے گانا گوانا چاہیے تھا اس سے۔“اس کے دوست نے کہا۔”بہت بور فنکشن ہے۔ مجھے پتا ہوتا تو میں نہ آتا۔“پہلے ٹین ایجر نے کہا۔”بہت سے ساتھیوں کی تو لاشیں بھی واپس نہ لا سکے۔۔۔۔۔وہ مل ہی نہیں سکیں۔“کریم بخش کہہ رہا تھا۔۔۔مجھے ان چھ لاشوں کا خیال آیا جو اس وقت برف کی دبیز تہ میں دب چکی ہوں گی۔۔۔۔ان میں سے بھی شاید ہی کسی کو واپس بھیجا جا سکے۔۔۔۔یہ واقع برف کا قبرستان ہے۔۔۔۔میں نے ایک جھر جھری سی لی۔۔۔۔ریڈیو سے اب کریم بخش کی آواز کے بیک گراٶنڈ میں بھی دبی دبی آوازیں ابھر رہی تھیں۔۔۔۔وہ ماٸیکرو فون جو ہال میں تالیوں کی آواز کو Capture کرنے کے لیے نصب کیے گۓ تھے۔ وہ ہال میں موجود حاضرین کی سر گوشیوں کو بھیtransmit کر رہے تھے۔”اچھا کریم بخش صاحب آپ کو کبھی افسوس ہوا، اپنی انگلیوں کے ضاٸع ہونے پر؟“کمپیٸر نے کریم بخش سے پوچھا۔”نہیں کبھی نہیں۔۔۔۔میں نے یہ قوم کے لیے قربان کی تھیں۔۔۔۔قوم کے مستقبل کے لیے۔۔۔کل آنے والے بچوں کے لیے۔۔۔افسوس کیوں ہوتا مجھے؟“ہال میں اس کی گفتگو کے دوران پہلی بار تالیاں گونجیں۔۔۔۔کریم بخش نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے کمپیٸر کو سانس اور جِلد کی ان بیماریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن کا شکار وہ پچھلے سولہ سال سے چلا آرہا تھا۔ فوج سے اس کی جَلد ریٹاٸرمنٹ کی وجہ بھی یہی تھی۔۔۔۔۔مگر اس نے کبھی اپنی بیماریوں کا ذمہ دار فوج اور سیاچن کو نہیں گرانا تھا۔”میں نہیں جاتا کوٸ اور جاتا۔۔۔۔مگر کسی نہ کسی کو تو وہاں جانا ہی تھا۔۔۔۔۔اور جو بھی جاتا اس کے ساتھ یہی ہوتا۔۔۔۔پھر میں کیا کہوں کہ یہ میرے ساتھ کیوں ہوا۔۔۔میں نے اور میرے ساتھیوں نے تو ان لوگوں کے لیے وہاں بنیادیں فراہم کی تھیں۔۔۔۔جو آج وہاں ہیں۔۔۔۔بنیاد کا پتھر بنے تھی ہم۔۔۔۔ہم پر کتنا بوجھ پڑا۔ کیا معنی رکھتا ہے اس احساس کے سامنے کہ ہم نے جو کچھ کیا، قوم کے لیے کیا۔“ کریم بخش نے ستارہ جرأت کو چھتے ہوۓ سوچا تھا۔”کریم بخش صاحب! آپ نوجوان نصل کو کوٸ پیغام دینا چاہیں گے؟“کمپیٸر اب کریم بخش سے پوچھ رہا تھا۔ میں بیک گراٶنڈ میں ابھرنے والی سرگوشیاں سن رہا تھا۔ ناراضی کی ایک لہر سی میں نے اپنے اندر اٹھتی محسوس کی۔ کیا ہال میں بیٹھے ہوۓ ان لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ یہ ایک قومی ہیرو کی چند منٹوں پر مشتمل گفتگو خاموشی سے سن سکیں۔۔۔۔وہ قومی ہیرو جو سیاچن کی پاگل کرادینے والی خاموشی اور تنہاٸ کا سامنا صرف ان لوگوں کے لیے کرتا ہے۔”میرا پیغام یہ ہے کہ۔“وہ ایک بار پھر رک گیا تھا۔ ہال میں ایک بار پھر سرگوشیاں ابھریں۔۔۔۔۔میں ہمہ تن گوش اس شخص کی بات سننے کے لیے بیٹھا تھا اور مجھے ابھرنے والی ان آوازوں پر غصہ آرہا تھا۔ جن کی وجہ سے میرے لیے کریم بخش کی باتیں سننا مشکل ہو رہا تھا۔”دیکھیں۔۔۔۔۔“کریم بخش نے گلہ صاف کیا۔”میں کوٸ۔۔۔کوٸ۔۔۔۔بہت پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں۔“اس نے اٹکتے ہوۓ بات شروع کی۔”مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔۔۔۔۔مگر کچھ حالات کی وجہ سے میں زیادہ نہیں پڑھ سکا۔“وہ رکا۔کمپیٸر نے اپنے چہرے پر مصنوٸ مسکراہٹ قاٸم رکھنے کے لیے جدوجہد کی۔۔۔۔خاتون کمپیٸر نے اپنے تراشیدہ کھلے بالوں میں ایک بار ہاتھ پھیرا۔۔۔دونوں کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کریم بخش جواب دیتے ہوۓ ٹریک سے اتر گیا تھا اب دونوں ایک دوسرے کو ایک لحظہ کے لیے دیکھتے ہوۓ طے کر رہے تھے کہ مداخلت کون کرے گا۔”ساری عمر مجھے اس کا بڑا افسوس رہا۔۔۔۔۔مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں جو زیادہ نہیں پڑھا۔۔۔۔شاید زیاڈہ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے میں اس ملک اور قوم سے اندھی محبت کرتا ہوں۔ زیادہ پڑھ لکھ جاتا تو آج یہاں بیٹھ کر ملک میں کیڑے نکال رہا ہوتا۔“میری آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیرنے لگی۔”میں کوٸ بڑا امیر آمی نہیں ہوں۔۔۔۔۔چند مربع زمین ملی تھی مجھیے جس پر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ کاشت کاری کرتا ہوں۔“مرد کمپیٸر کے کان میں اڑسے ہوۓ ننھے سے ہیڈفون میں پروگرام پروڈیوسر کی آواز گونجی۔”ایک منٹ کے بعد بات کاٹ دینا اور اس بار انٹرویو کو واٸنڈ اپ کردینا۔۔۔نیکسٹ اینٹری۔۔۔“آواز بند ہو گٸ۔”مگر میں پھر بھی مطمٸن ہوں۔۔۔۔وطن کے لیے کچھ قربان کر دینے سے وطن کا قرض نہیں اترتا۔۔۔۔۔۔۔مجھے اگر افسوس ہے تو صرف یہی کہ میں غازی بنا شہید نہیں۔۔۔اور۔۔اور مجھے اگر فخر ہے تو صرف اس بات پر کہ میں نے وطن سے نمک حرامی نہیں کی۔ میری نوجوان نسل سے یہی درخواست ہے کہ اس ملک کی قدر کریں۔“کریم بخش اب خاموش ہو گیا تھا۔”آپ نے بہت اچھا پیغام دیا، ہم یقیناً اس ملک کی قدر کریں گے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔“کمپیٸر نے قدرے جلد بازی کے انداز میں انٹرویو کا اختتام کرتے ہوۓ کہا۔میں ریڈیو سے گونجنے والی ان تالیوں کی ہلکی سی آواز کو سن رہا تھا جو کریم بخش کے جانے پر بجاٸ جا رہی تھیں۔ داٸیں ہاتھ سے میں نے اپنی آنکھوں میں اترنے والی نمی کو صاف کیا۔ شاید آج سے دس پندرہ سال بعد میں بھی ایسے ہی کسی پروگرام میں یہ ساری باتیں دہرا رہا ہوں گا۔ وطن سے محبت کی۔۔۔۔نمک حلالی کی۔۔۔۔اور شاید یہاں کو ریڈیو پر بیٹھا اسی طرح سن رہا ہوگا۔”جی ظفر۔۔۔۔اب پروگرام میں آگے کیا ہے؟“خاتون کمپیٸر، مرد کمپیٸر سے پوچھ رہی تھی۔”یہ تو حاضرین سے پوچھنا چاہیے۔“مرد کمپیٸر نے کہا۔”ان سے پوچھ لیتے ہیں۔۔۔۔اگلے مہمان کو بلایا جاۓ یا پھر سنگر کو؟“کمپیٸر اب حاصرین سے پوچھ رہا تھا۔”نو انٹرویو۔۔۔۔نوگیسٹ۔۔۔۔سنگر۔۔۔سنکر۔۔۔“ریڈیو سے گونجنے والی آوازیں بہت نمایاں تھیں۔ایک لمحہ کے لیے مجھے اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔ سنگر۔۔۔۔سنگر چلانے والے ان لوگوں کو کیا پتا ہے کہ اس وقت بھی ان کے اس عیش و آرام کے لیے کوٸ کہاں کہاں بیٹھا ہے۔”تو ٹھیک ہے، ہم ابرارالحق کو دوبارہ بلاتے ہیں۔۔۔۔۔پچھلی بار انہوں نے مملی نغمہ سنایا تھا۔۔۔۔اس بار ہم ان سے ان کا ہِٹ سانگ اساں تے جاناں مال و مال سنتے ہیں۔“کمپیٸر کہنے پر ہال میں تالیوں کی آواز گونج اٹھی تھی۔۔۔۔۔تالیوں اور سیٹیوں کا اتنا شور تھا کہ مجھے ریڈیو کا والیم قدرے کم کرنا پڑا۔ مجھے وہ تالیاں یاد آٸیں جو ان لوگوں نے کریم بخش کی آمد پر بجاٸ ٹھیں۔گلوکار اب اپنا گانا شروع کر چکا تھا۔ میں تصور کی آنکھ سے ہال میں بیٹھے ہوۓ لڑکے اور لڑکیوں کو ناچتے ہوۓ دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔برگر کلاس کے برمودا شارٹس اور جینز میں ملبوس لڑکے اور لڑکیاں۔”ہاتھ اٹھا کر۔۔۔۔۔سب مل کر۔۔۔۔“ابرارالحق اب حدایت دے رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے خون آلود دستانے میں چھپا ہوا بایاں ہاتھ اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔۔۔اڑتالیس گھنٹوں میں پہلی بار مجھے اس ہاتھ کے زخمی ہونے پر افسوس ہوا اور یہ تصور کرکے تکلیف ہو رہی ہے کہ اسے علیحدہ کر دیا جاۓ گا۔”اساں تیری گل کرنی۔۔۔۔۔گل کرنی اے ڈیڈی نال، اساں تیری گل کرنی۔“ گلوکار لہک لہک کر گا رہا تھا۔وہاں بیٹھے ہوۓ زندگی میں پہلی بار میں نے سوچا۔۔۔۔۔۔کیا ضروری تھا میں فوج میں آتا۔۔۔۔۔اور اس قوم کے لیے ان پہاڑوں پر اپنے جسم کے حصوں کو باری باری خود سے جدا ہوتے دیکھتا، ضاٸع کرتا۔ جو یہ بھی نہیں جانتی کہ شہید یا غازی کا احترام کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔میری عمر کے بہت سے لڑکے ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔یونیورسٹیز میں کالجز میں۔۔۔۔بیرون ملک۔۔۔۔۔اور میں جوبیس سال کی عمر میں اگلے کچھ دنوں کے بعد اپنا ہاتھ کٹوا کر ترقی کی ریس سے باہر ہوجاٶں گی۔۔۔۔۔کس کے لیے؟ان لوگوں کے لیے جو غازیوں کے بجاۓ گلوکاروں کو اہمیت دیتے ہیں۔۔۔۔۔جو ہم سے یہ تک سننے کے لیے ہمیں چند منٹ نہیں دیکھ سکتے کہ ہم نے موت کو کہاں سے کس طرح جا کر دیکھا۔۔۔۔۔۔صرف اس لیے کہ ملک کے اندر بیٹھے ہوۓ ان لوگوں کے عیش و آرام پر کوٸ حرف نہ آۓ۔ بیس سال بعد جب میں بھی ایسے کسی اسٹیج پر یہ بتانے جاٶں کہ میرے سینے پر ہاتھ کٹوا کر سجایا جانے والا تمغہ میرے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو شاید میں بھی کریم بخش کی طرح بات کرتے ہوۓ لڑکھڑاٶں گا۔۔۔۔۔۔اور شاید میرے انٹرویو کے بعد بھی حاضرین اگلے کسی مہمان کے بجاۓ کسی سنگر کو بلانے کی فرماٸش کریں گے تاکہ اس بوریت کا سدباب ہو سکے جو انھیں پچھلی چند منٹوں کے دوران برداشت کرنی پڑی۔ میں کیوں پاکستان کی ان آنے والی نسلوں کے لیے اپنا حال قربان کروں، جن کے لیے ہر چیز گانے سے شروع ہو کر ناچنے پر ختم ہو جاتی ہے۔ جن کے لیے ہر اہم تہوار چھٹی کا ایک اور دن اور ایک میوزیکل ایوننگ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔اور وہ انسان پاگل ہیں جو رات کی اس تاریکی میں کٸ گھنٹوں کا سفر کر کے یہاں پہنچیں گے۔۔۔۔۔۔پہنجیں گے بھی یا نہیں۔اور اس ہیلی کاپٹر کے پاٸلٹ بھی پاگل ہیں جو اپنے پروفیشنل سرٹیفکیٹس اور ڈگریوں کے ساتھ عقل کو بھی بھاڑ میں جھونکتے ہوۓ ان لوگوں کو ان پہاڑوں میں اتارنے کے لیے چل پڑیں گے۔۔۔۔۔۔شہادت کی صورت میں انھیں ایک اور ستارہ جرأت مل جاۓ گا زندہ رہنے پر ایسے کسی شو میں شرکت کا دعوت نامہ بھی۔۔۔۔۔اور بس زندہ قومیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانی کو بھلاتی نہیں ہیں۔۔۔۔۔مگر اں کے پاس ان قربانیوں کے لیے عزت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔میرا دل چاو رہا ہے، میں اب یہاں سے بھاگ جاٶں۔واٸرلیس پر میرے لیے کوٸ پیغام آرہا ہے۔۔۔۔میں نے واٸرلیس آن کیا۔”مورال کیسا ہے کیپٹن ولید؟“دوسری طرف سے میرے co نے کہا،”skyhigh sir (آسمان سے اونچا)پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں چودہ دفعہ میں نے یہ کہا تھا۔ مگر اس بار میں کچھ بھی نہیں بول سکا تھا۔“”مورال کیسا ہے؟“انہوں نے ایک بار پھر دہرایا۔مورال۔۔۔۔میں بڑبڑایا۔”کس کو بلاٸیں اگلے مہمان کو یا سنگر کو؟“”نو انٹرویو۔۔۔۔۔نو گیسٹ۔۔۔۔۔سنگر سنگر۔۔۔۔“”مورال کیسا ہے کیپٹن ولید؟“مورال۔۔۔۔میں پھر بڑبڑایا۔”پتا نہیں سر۔“میں نے آنکھیں بند کرتے ہوۓ کہا۔ختم شد….

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Verified by MonsterInsights