
ہم انساں
از قلم سحر مومنہ
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾
بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا ،ہم انساں کیا ہیں ؟؟شکر گزار ہیں ؟؟؟ ناشکرے ہیں؟؟؟ آخر ہم ایسے بہت سارے سوال ہیں انکے بہت سارے جواب پر قرآن پاک کی آیت نے واضح کیا ہے ہمیں اچھی صورتوں میں پیدا کیا گیا۔اب آپ سوچے گے سارے تو بہتر صورت میں نہیں ہیں کوئی اندھا ہے کوئی بھرا ہے کسی کو کچھ ہے کسی کو کچھ۔۔۔پر ہم انساں میں بہت سارے لوگ ہیں جو پورے طور اچھے ہیں مطلب کہ انکے پاس چہرہ بھی ٹھیک ہوتا ہے کوئی نقص نہیں ہوتا ہے کوئی عیب نہیں ہوتا ہے۔ہم لوگ ہمیشہ یہی چیزیں دیکھتے ہیں نا؟؟؟کیا یہ سب ضروری ہے ہماری زندگی میں ؟؟؟سب کہے گے ہاں ضروری ہے اگر ضروری ہے بھی تو کیوں ضروری ہے۔۔کیا جو اندھے پیدا ہوئے وہ برے ہیں؟؟؟کیا جو بہرے پیدا ہوئے وہ برے ہیں؟؟؟کیا جو لنگڑے پیدا ہوئے وہ بھی برے ہیں؟؟نہیں اس دنیا میں کوئی بھی برا پیدا نہیں ہوا نہ بے کار پیدا ہوا ہے اللّٰه پاک نے اتنے سے کیڑے کو بھی بے کار پیدا نہیں کیا ہے۔۔ہم انسان کیا ہیں کیوں آئے ہیں کھبی خود پر غور نہیں کرتے ہیں۔ہم دنیا آتے ہیں دنیا میں لگ جاتے ہیں کھبی اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں ہمارے جینے کا مقصد کیا ہے ؟؟؟کیا ہم اس لیے آئے ہیں پیدا ہوں پڑھے لکھے ۔پھر نوکری کریں۔ پھر شادی کریں ۔پھر بچے پیدا ہو۔ پھر انکی تربیت پر لگ جائے پھر مر جائے۔۔۔کیا ہم اس لیے آئے ہیں؟؟؟کیا یہی ہے زندگی ؟؟؟کیا یہی ہے زندگی کا مقصد ہمارا ؟؟؟سورۃ البقرہ وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا ، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔انسان کو نائب بنا کر بھیجا گیا ہے۔۔سورۃ البقرہ قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿۳۳﴾فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب ( اشیاء کے ) نام جب اس نے ( یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتادیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔سب سے توحید پرست شیطان تھا اس کو بھی کہا گیا انسان کو سجدہ کرنے کے لیے اس نے جب انکار کیا تو نکل دیا گیا۔۔جیسے کہ آیت میں واضح ہے حضرت آدم علیہ السلام کو نام وہ سیکھائے گے کیوں آخر فرشتے تو آج تک اللّٰہ پاک کی عبادت میں مشغول ہیں شیطان بھی تھا توحید پر قائم پھر ہم انسان کو بنا کر ان سے ہی سجدہ کروایا گیا نام ہمیں سمجھائے گے۔۔کیا ہم انسان عبادت کرتے ہیں؟؟؟نہیں ہم عبادت کا پورا حق ادا ہی نہیں کر سکتے ہیں کھبی بھی ہم انسان تو شکر گزار بھی نہیں ہے۔۔اللّٰہ ہم سے ستر ماں سے زیادہ پیار کرتا ہے شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ کھبی سوچا ہم اس کے کتنا قریب ہیں نہیں ہیں وقت پڑنے پر ہی یاد کرتے ہیں اللہ پاک کو۔۔سورۃ یونس وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾اور جب آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے ہمیں پکارتا ہے لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا یونہی بھلے کر دکھائے ہیں حد سے بڑھنے والے کو ان کے کام۔ایسا ہی ہے ہم ایسے ہی ہیں تکلیف میں یاد کرتے ہیں بس بھول ہیں رب العالمین کو اپنے کو بھی اس دنیا میں اس قدر کھو گئے ہیں رب العالمین کو بھول گئے اس دنیا میں آنے کا مقصد بھول گئے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں تم دنیا میں رہو دنیا تم میں نہ رہے۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے خود کو اس دنیا سے کچھ دیر کے لیے نکل کر خود کو ڈھونڈو کہ تم کیا ہو کیوں ہو کس ہو تم کون ہو تم کہاں سے آئے ہو کہاں جاؤ گے زندگی کی روز کی روز کی مصروفیات سے کچھ دیر کے لیے لیٹ جاؤ آنکھیں بند کر دو یہ محسوس کرو تم دنیا میں ہو ہی نہیں تم تم ہو ہی ہیں خود سے سوال کرو خود کو جانو خود کو پہچانوں ظاہر تو تم دیکھ چکے ہو اب اپنے باطن میں جھانکوں گم ہو جاؤ ڈھونڈتے ہوئے خود کو ۔انسان زندگی میں دو بار پیدا ہوتا ہے ایک بار تب جب اس دنیا میں آتا ہے ایک بار تب جب وہ خود کو پا لیتا ہے۔چشمت چونیست پردہ زرخ کی برافگندصاحب نظر کجاست کہ او خود عیاں بودترجمہتمہارے پاس دیکھنے والی آنکھ ہی نہیں ہے وہ اپنے رخ کا پردہ کیا اٹھائے کوئی ایسا صاحب نظر کہاں ہے؟جس پر وہ خود جلوہ عیاں کرے۔خواجہ معین الدین چشتی اجمیریاپنے رخ کا پردہ ہٹا دو دیکھ لو جلوہ کو جس کو طور سینین بھی برداشت نہیں کر پایا تھا وہ جلوہ ہماری ذات میں آ بسا ہے۔یقیناَ تو اپنے جہاں کے عکس کا نظارہ کرے گا اگر آئینہ دل میں تو اپنی جلوہ فرمائی کرے گا۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ اب آپ اپنے دل کے آئینے کے عکس میں کیا دیکھتے ہیں یہ پر منحصر ہے
انجان ہوں میں خود ہی اپنی ذات سے
بنا کر بھیجا گیا جس کو نائب اس دنیا میں
ختم شدہ