Insani Pemany Heart touching afsaana by Yusra Kanwal

#افسانہ

#انسانی_پیمانے#یسریٰ_کنول_کے_قلم_سے

وہ دونوں یونیورسٹی کے گراٶنڈ میں لگے درخت کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھے تھے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ کا احساس انسانوں کو مسرور کیے ہوۓ تھا۔ وہ بھی موسم سے لطف اندوز ہورہے تھے پر دل لطف پہ آمادہ نہیں تھا اور نہ ہی اسے یہ موسم لبھا رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں نہ “دل کے موسم اچھے ہوں تو سارے موسم اچھے ہیں”۔دونوں خاموش بیٹھے تھے جب مشارب نے بولنا شروع کیا”دریاب! یار کبھی کبھی میں سوچتا ہوں یہ انسان ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ اپنی مرضی سے ہمیں اچھا سمجھتے ہیں اور اپنی ہی راۓ پہ ہمیں برا قرار کردیتے ہیں۔ آخر کوٸی ہمیں ہماری طرح کیوں نہیں سمجھتا” وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا اور پاس سے گزرتے اسٹوڈنٹس کو دیکھنے لگا۔”کیا ہوا ہے مشارب خیریت تو ہے اتنی اداس باتیں کیوں کررہے ہو۔ کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟” دریاب نے اس کے چہرے کو دیکھا جہاں اداسی واضح طور پہ دیکھی جاسکتی تھی۔”ہوا تو کچھ نہیں بس لوگوں کی اپنے بارے میں راۓ جان کر افسوس ہوتا ہے۔ لوگ ہمیں اوپر اوپر سے دیکھ کر راۓ قاٸم کرلیتے ہیں اندر کے بارے میں کوٸی سوچتا ہی نہیں ہے۔ جبکہ زیادہ اہم تو اس ڈھانچے میں موجود دل ہوتا ہے نہ۔ پھر بھی دل کی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ انسان ایسے ہوگٸے ہیں کہ دل کو توڑنے کا کوٸی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے””دیکھو مشارب تم اس لیے پریشان ہو کیونکہ لوگ تمہیں ویسا نہیں سمجھتے جیسے تم اصل میں ہو جیسا تمہارا دل ہے۔ بلکہ لوگ تمہیں اپنے اندازوں میں پرکھتے ہیں” اس نے سوالیہ نظروں سے مشارب کو دیکھا۔ وہ اس کی اداسی کا سبب معلوم کرنا چاہتا تھا۔”ہاں دریاب۔ میں تنگ آگیا ہوں لوگوں سے ان کی سوچ سے۔ ان کا کیا جاتا ہے میرے بارے میں باتیں کر کے اور صرف بات میری نہیں ہے۔ لوگ کسی کے بارے میں بھی کیوں کچھ کہتے ہیں۔ خاموش رہیں، خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کو بھی رہنے دیں۔ لازمی ہے اپنے الفاظوں میں دوسروں کو تولنا۔” وہ بولتے بولتے تھک گیا تھا اس لیے خاموش ہوگیا اور درخت کے تنے سے ٹیک لگالی او پاٶں لمبے کرکے پھیلا لیے۔”دیکھو میرے دوست اس دنیا میں ہر چیز کے لیے پیمانے بنتے ہیں اور جس بارے میں تم بات کر رہے ہو یہ انسانی پیمانے ہیں جو سامنے والے انسان کو اپنے مطابق ناپتے ہیں۔ دنیا کے عام پیمانوں اور انسانی پیمانوں میں فرق ہی یہ ہے کہ دنیاوی پیمانے چیزوں کو اُن کے مطابق اور انسانی پیمانے انسانوں کو خود کے مطابق تولتے ہیں۔ یہ پیمانے صرف تمہیں ہی نہیں سب کو ہی تکلیف دیتے ہیں۔انسانی سوچ کا ایک مسٸلہ ہے جب کسی کو اچھا سمجھ لیا تو بس پھر وہ شخص کتنا بھی برا کیوں نہ ہو اس انسان کے لیے اچھا ہی رہے گا۔ اور جب کوٸی نظر میں برا بن گیا پھر وہ ایڑیاں ہی کیوں نہ رگڑ لے وہ برا ہی رہے گا۔مشارب یہ جو تمہیں اپنے آس پاس اتنے لوگ نظر آرہے ہیں تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب خوش ہیں؟ نہیں! یہ سب بھی کہیں نہ کہیں انہی انسانی پیمانوں کے ستاۓ ہوۓ ہیں۔ یہ بھی کسی کی نظروں سے اور کسی کے دل سے گرے ہیں انداز الگ ہوگا طریقہ مختلف ہوگا پر ہوگا ضرور۔ انہیں بھی کسی خاص انسان کی سوچ سے اختلاف ہوگا۔ یہ دلوں کو چیرتے لہجے، تلخ الفاظ، جانچتی نگاہیں انہیں بھی تکلیف دیتی ہونگی۔ پر یہ خود کو خوش ظاہر کیے ہوۓ ہیں کیونکہ یہ کرنا ضروری ہے ورنہ ایک پیمانے سے گر کر یہ کسی اور انسان کے الفاظوں میں تولے جارہے ہونگے۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے میرے دوست اسے سمجھو” اس نے ایک لمبی وضاحت دی تاکہ اس کے دوست کا دل ہلکا ہوجاۓ۔ الفاظ درد اور دوا دونوں کا کام کرتے ہیں۔”پھر مجھے بتاٶ دریاب لوگوں کی سوچ کو کیسے بدلوں کیسے بتاٶ انہیں کہ میں ویسا نہیں ہوں جیسا وہ مجھے سمجھتے ہیں۔ میرا باطن میرے ظاہر سے بہت مختلف ہے۔ میں اوپر سے تھوڑا تلخ ہوں تو اندر سے کٸی زیادہ نرم بھی ہوں۔ لوگ آخر مجھے میری طرح کیوں نہیں سمجھ لیتے” یہ لڑکا کسی اپنے کے ہاتھوں بہت ٹوٹا تھا شاید۔ کسی کے لفظوں نے اس کا سکون چھین لیا تھا”ہم لوگوں کی سوچ ان کی راۓ یا کچھ بھی نہیں بدل سکتے مشارب۔ تم چاہے کتنے بھی اچھے ہو یا برے لوگ تمہیں ویسا ہی سمجھیں گے جیسا وہ سمجھنا چاہیں گے. انسان بہت دوغلے ہوتے ہیں۔ تم نےسنا ہی ہوگا، محبت میں براٸیاں اور نفرت میں اچھاٸیاں بھول جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں لوگوں کے بارے میں سوچنے کی بجاۓ خود کو پُر سکون رکھنا چاہیے۔ ہم جیسے بھی ہیں وہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا خدا اور خدا کا جاننا ہی سب سے ضروری ہے یاد رکھنا۔ لوگ تمہیں اچھا یا برا سمجھ کر اور مان کر جنت یا دوزخ نہیں دینگے۔ یہ کام صرف خدا نے کرنا ہے۔ یہ انسان ہمیں کتنی ہی عدالتوں میں کھڑا کر کے الفاظوں کے ذریعے جانچتے رہیں پر اصل عدالت صرف ایک ہی ہوگی قیامت کا دن جس کا جج خدا ہوگا۔ خود کو انسانوں کے پیمانوں میں تولنے سے بہتر ہے۔ تم نیک ہو تو مزید نیک اعمال کرو تاکہ خدا کے ترازو جب تمہارے اعمال ناپیں تو تمہارا اچھا ہونا سارے عالم پہ واضح ہوجاۓ۔ انسانوں کے لیے اچھا بننا یا ان کی نظر میں اچھا دکھنا ضروری نہیں ہے۔ آج کل کے ہر انسان کی اچھا بننے کی تعریف(Definition) ہی الگ ہے۔ ایسی میں کس کس کے آگے اچھا بنو گے۔ کس کے بناۓ گٸے پیمانوں پہ پورا اترو گے۔ بہتر ہے اللہ کے لیے اچھا بنو جو دل اور روح دونوں کو سکون دے۔” دریاب کتنا پیارا بولتا تھا۔ مشارب نے فخر سے اپنے دوست کو دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔ دریاب کے لفظوں نے اس کے دل کو سکون پہنچا دیا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے اب کیا کرنا ہے۔ الفاظ دوا کا کام کرچکے تھے اور دکھ دھرے کے دھرے رہ گٸے تھے۔ولیم شیکسپیٸر کے ڈراما ہاملیٹ میں ایک بات لکھی ہے کہ “دنیا میں کچھ بھی بہت اچھا یا برا نہیں ہے لیکن ہماری سوچ اسے ایسا بناتی ہے”۔__________________________

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Verified by MonsterInsights