
السلام علیکم۔۔! مہوش صدیق قرطاس اردو ادب انٹرویو کارنر میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں میرا نام سبین مقصود ہے،آج ہم آپ سے مزے مزے سوالات کریں گے۔
وعلیکم السلام!جزاک اللہ پیاری!بہت شکریہ آپ کا۔
کیسے مزاج ہیں؟
جی میں بالکل ٹھیک ہوں الحمدللہ!آپ کیسی ہیں؟
کرم ہے اللہ پاک کا۔
تو پھر سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں؟
جی ضرور
1:- تو جی میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کو لکھنے کا شوق کب پیدا ہوا؟ اور ایک قاری سے لکھاری بننے کی کوئی وجہ؟ کوئی انسپریشن؟
میں اپنی بھتیجیوں عنایہ اور انابیہ خرم کو پریوں کی کہانیاں سناتی تھی۔انابیہ چونکہ ابھی چھوٹی ہے اس لیے وہ بس ہوں ہاں میں جواب دیتی ہے لیکن عنایہ کے تاثرات اور معصوم سوالات میری اس چھوٹی سی کہانی کو مزید لمبا کھینچ دیتے تھے،اور پھر اسی ایک کہانی کے زیر اثر ہم دونوں رات گئے تک گھنٹوں باتیں کرتی رہتی تھیں تب سے ہی اچانک مجھے کہانی لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اور جہاں تک رہی انسپریشن کی بات( نمرہ احمد)میم کے ناولز نے مجھے ہمیشہ انسپائر کیا ہے۔یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ میں نے ان کے ناولز سے بہت کچھ نیا سیکھا جو مجھے پہلے نہیں پتہ تھا جس کے لئے میں تاحیات ان کی بےحد مشکور رہوں گی۔
2:- یہ احساس کب ہوا کہ آپ لکھ سکتی ہیں؟
تین سال پہلے میرے ذہن میں بیٹھے بیٹھے اچانک لائنز آ جاتیں خواہ وہ کسی نظم یا غزل کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوتیں میں انہیں فوراً پیج پر لکھ لیتی تھی۔
3:- سب سے پہلے اردو ادب کی کونسی صنف پہ طبع آزمائی کی؟ اور کس حد تک کامیاب ہوئیں؟
میں نے اردو ادب کی صنف ناول نگاری سے ہی شروعات کی ہے۔”محبت سے خدا تک کا سفر “میرے کیرئیر کا پہلا ناول ہے جسے میں ابھی بھی لکھ رہی ہوں۔
4 اپنے خیال کو قرطاس پر اتارنے کے بعد اِسے کسی پلیٹ فارم تک کیسے لائیں؟ اس میں کس قسم کی مشکلات آئیں؟
میں اسٹڈی کمپلیٹ کرنے کے بعد اپنے فارغ اوقات میں ناول ہی پڑھتی تھی۔میں نے تقریباً تین سو سے زیادہ ناولز ریڈ کیے ہیں۔انہیں پڑھتے وقت کچھ صفحات کے بعد ہمیں ویب سائٹ کا ایک نمبر اور ای میل ایڈریس وغیرہ نظر آتا تھا۔جسے ہم بیکار چیز سمجھ کر فورا پیج آگے بڑھا دیتے تھے کیونکہ وہ ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا تھا۔ہاہاہا۔۔۔کون جانتا تھا ایک دن ناول لکھنے کے بعد ہم انہی پیجز کو کسی نایاب موتی کی طرح ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں گے،اور پھر انہی پیجز میں سے ہم نے ایک نمبر تلاش کیا اور اس پر میسیج سینڈ کیا۔غیر متوقع طور پر اگلے ہی منٹ کے اندر اندر جواب آیا اور پھر ہم نے اس ویب سائٹ کے اونر سے اس ناول کے سلسلے میں بات کی۔انہیں ہمارے ناول کی پہلی قسط پسند آئی تو انہوں نے اس سے اگلے دن ہی اسے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر کے اس کا لنک ہمیں سینڈ کر دیا۔
5:- گھر والوں کا ردِعمل کیسا تھا آپ لکھاری ہیں؟
میرے گھر والے بہت supportive نیچر کے مالک ہیں،مجھے موبائل میں ٹائپنگ کا کچھ خاص تجربہ نہیں تھا۔ اس لئے میں جب بھی لکھنے کیلئے اپنے ابو جی یا بھائیوں سے پیپرز کا کہتی وہ مجھے فوراً لا کر دے دیتے تھے۔وہ تیرہ اگست کا دن تھا۔جشن ازادی کی تیاریاں اس وقت عروج پر تھیں۔اچانک ویب سائٹ لنک اوپن کرنے پر جب میں نے اپنا نام انٹرنیٹ پر دیکھا تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی۔میں نے تمام گھر والوں کو اکٹھا کیا اور انہیں اپنا نام دکھایا۔سب میری اس خوشی پر بےحد خوش تھے۔
6:- کس فرد نے سب سے زیادہ سپورٹ کیا اس کیرئیر میں؟
کسی ایک نے نہیں بلکہ میرے گھر کے ایک ایک فرد نے مجھے بہت زیادہ سپورٹ کیا۔بس جب کبھی طبیعت خراب ہوتی ہے تب میری امی مجھے کچھ دن لکھنے سے منع کر دیتی ہیں۔
7 جب آپ لکھتی ہیں تو آپکا اہم نقطہ نظر کیا ہوتا ہے اپنے لفظوں سے روشنائی بکھیرنا یا کہانی کی جانب قاری کی توجہ مرکوز کروانا؟
لکھتے وقت میری توجہ صرف ایک ہی چیز پر مرکوز ہوتی ہے۔میں چاہتی ہوں میرا قلم کسی کی ہدایت کا موجب تو بن جائے لیکن کسی کی گمراہی کا نہیں۔اس سوچ کے علاوہ باقی اور کوئی چیز میرے ذہن میں نہیں آتی۔
8:- آپ نے سب سے پہلے لکھنے کے لئے ناول جیسی مشکل اردو ادب کی صنف کو ہی کیوں چُنا،حالانکہ افسانہ،افسانچہ اور ناولٹ سے بھی تو آغاز ممکن تھا؟
میں بچپن سے ہی ایک قابل(کمپیٹینٹ) لڑکی رہی ہوں۔اس لئے مشکل چیلنجز مجھے بےحد پسند ہیں۔میں نے ناول ہی پڑھے تھے اس لئے ناول ہی سے اپنے کیریئر کی شروعات کی۔
9:- ناول کے کس کردار کو آپ نے دل سے لکھا؟
چونکہ میرا ناول بہت طویل ہے اس لئے میں نے اس کا ایک ایک کردار بہت دل لگا کر لکھا۔جیسے ایک ماں کیلئے تمام بچے یکساں ہوتے ہیں۔وہ ان میں سے کسی ایک کو کبھی نہیں چن سکتی بالکل اسی طرح مجھے بھی اس ناول کے ایک ایک کردار سے دلی محبت ہے۔میں ان میں سے کسی ایک کو کبھی نہیں چن پاؤں گی۔ہاں البتہ میرے ریڈرز اس چناؤ میں اہم کردار کر سکتے ہیں۔وہ بتا سکتے ہیں انہیں ناول کا کونسا کردار سب سے زیادہ پسند آ رہا ہے۔
10:- کیا آپ کے ناولز میں حقیقت اپنی جھلک دکھاتی ہے؟
جی کسی حد تک۔
11:-آپ کو حقیقت پر لکھنا پسند ہے یا فینٹسی؟
جیسے کہ اپ جانتی ہیں ایک لکھاری کا کام ہی لکھنا ہوتا ہے۔وہ پہلے ایک کردار کو سوچتا ہے اور پھر کسی موتی کی طرح لفظوں کی صورت میں انہیں ایک لڑی میں پرو دیتا ہے جس سے ایک کہانی جنم لیتی ہے۔اسی طرح میں بھی اپنے ناولز حقیقت اور فینٹیسی کے حسین امتزاج کے ساتھ ہی لکھتی ہوں اور لکھتی رہوں گی ان شاءاللہ۔
12:-آپ کہانی اپنی مرضی سے لکھتی ہیں یا ویسی جیسے آپ کے قاری کہتے ہیں؟
پہلے تو میں کہانی کو بالکل اپنی ذہنی سوچ کے مطابق مکمل لکھتی رہتی ہوں اس کے ساتھ ساتھ میں اپنی بڑی بہنوں کو قسط وار پڑھنے کیلئے دیتی ہوں۔اگر انہیں بھی پسند آئے تو پھر میں اسے نیکسٹ لیول تک لے کر جاتی ہوں۔
13:-آپ اپنے آپ کو آئندہ سالوں میں رائٹنگ کیرئیر کے حوالے سے کس مقام پر دیکھ رہی ہیں؟ کہاں تک اچیو کر پائیں گی اس فیلڈ میں؟
مستقبل کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یہ سب تو قسمت کے فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔ہاں البتہ اگر اللہ نے چاہا تو اسی رائٹنگ پروفیشن کے ذریعے وہ مجھ ناچیز کو آسمان کی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں اور اگر اس سب میں اللہ کی مرضی نہ ہو تو میں ایک لکھاری کے طور پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی چیز کیلئے اپنا ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتی۔
14:- کبھی ایسا ہوا کہ آپ لکھنے سے اکتا گئی ہوں؟
کبھی نہیں شاید مرتے دم تک بھی نہیں اکتاؤں گی۔
15:- کبھی تنقید ہوئی تو آپ نے اس کا سامنا کیسے کیا؟ یا اگر آئیندہ ہوگی تو اس کے لئے خود کو تیار کیا ہے آپ نے؟
میرے خیال سے تنقید برائے اصلاح تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر کسی نے بنا جانچے پرکھے مجھ پر کوئی الزام لگایا تو میں اسے کچھ بھی کہنے کی بجائے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دوں گی۔میری نیت صاف ہے اس لئے مجھے کسی اور سے کوئی غرض نہیں۔
16:-کس لکھاری کو پڑھنے کا شغف رکھتی ہیں؟ اور اُس لکھاری کی کوئی خاص بات؟
مرحومہ اقرا صغیر احمد!
کا ناول”بہاروں کے سنگ سنگ”مجھے بہت زیادہ پسند ہے،وہ جوائنٹ فیملی سسٹم ناول لکھتی تھیں۔
17:-آپ کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟
میں اپنے قریبی رشتوں کو لے کر بہت زیادہ حساس ہوں۔اگر کوئی میری فیملی اسپیشلی میرے بھائی خرم اور نعمان کے بارے میں کچھ بھی الٹا سیدھا بولے گا تو یہ سب میری برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔
18:-آپ کی طاقت کیا ہے؟
فیملی کا ساتھ۔
19 آپ کے ذاتی مشاغل اور دلچسپیاں کیا ہیں؟
گھر کے کام کاج کے بعد ناول لکھنا،کرکٹ دیکھنا،اور بچوں کے ساتھ کھیلنا۔
20:- آپ کا پسندیدہ رنگ ؟اور پسندیدہ کھانا ؟
رنگوں میں مجھے سیاہ اور سفید رنگ بہت زیادہ اٹریکٹ کرتے ہیں۔اور کھانے میں مجھے پلاؤ پسند ہے۔
21:-آپ کا پسندیدہ شعر اور شاعر کا نام؟
مرزا غالب!ان کا ایک شعر مجھے بےحد پسند ہے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے۔
22:-ضرورت پڑنے پر کبھی اپنے قلم کو پیسوں پر ترجیح دیں گی؟
میں ہر صورتحال میں اللہ تعالٰی سے ہی مدد مانگتی آئی ہوں اور ہمیشہ مانگتی رہوں گی۔۔مجھے ان کے فیصلوں پر پورا بھروسہ ہے۔۔ان شاءاللہ وہ مجھے بہترین راہ کی طرف گامزن کریں گے جو میرے حق میں ہر لحاظ سے بہتر ہو گی۔
23:- آپ کی کون سی تحریر آپکے دل کے قریب ہے؟
میرا پہلا ناول ” محبت سے خدا تک کا سفر “میرے دل کے بےحد قریب ہے۔
24 آپ کا پہلا ناول ” محبت سے خدا تک کا سفر” خوبصورت نام ہے یقیناً کہانی بھی خوبصورت ہوگی کیا سوچ کر لکھا آپ نے یہ ناول؟ کوئی خاص پیغام جو آپ اس ناول کے ذریعے دینا چاہ رہی ہوں؟
جزاک اللہ!آپ کے ان خوبصورت الفاظ کا بےحد شکریہ۔میں نے اس ناول میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی لکھی ہے جو اپنی دنیاوی محبت میں اسقدر کھوئی رہتی تھی کہ اسے اپنی آخرت تک کی ہوش نہیں رہی۔۔پھر ایک دن اچانک اس کی زندگی میں ایک ایسی لڑکی کی آمد ہوتی ہے جو اپنی تبلیغ کے ذریعے اسے دنیاوی محبت سے خدا کی محبت تک کا سفر طے کرواتی ہے۔
اس ناول کو لکھنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور انسان کی محبت میں فرق جان سکیں۔جب کوئی انسان ہمیں کسی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے تو ہم اسے مطلبی،خودعرض،مفاد پرست جیسے کئی اور القابات سے نوازنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جب ہم اللہ تعالیٰ کو عین ضرورت کے وقت ہی یاد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انسانوں کی طرح ہمیں ہمارے اس برے وقت میں دھتکارتے نہیں بلکہ ہمارے بکھرے وجود کو اپنی رحمت کے ذریعے سمیٹ کر اک ایسا سکون قلب عطا کر دیتے ہیں جو اندر تک ہماری روح کو سرشار کر دیتا ہے اسی لیے دنیاوی لذتوں اور آسائشوں سے ہٹ کر صرف اور صرف اپنی آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے کیونکہ یہاں موجود ہر ایک چیز نے فنا ہو جانا ہے۔۔۔قائم رہنی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی کی محبت ہے۔۔اس لئے ہمیں ہمیشہ وہی کام کرنے چاہئیں جو ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔
25:-آپ نے ناول کا اختتام پہلے سے سوچ کر رکھا ہے یا وقت آنے پر کہانی اپنا اختتام خود لکھوائے گی؟
جی میں اختتام پہلے سوچ چکی ہوں۔۔اور ان شاءاللہ اسی کے ساتھ ہی اسٹوری کو لے کر چلوں گی۔
26:-رائٹنگ بلاک کا شکار ہوئی ہیں کبھی؟ اس سے ایک لکھاری کیسے نمٹ سکتا ہے؟
الحمدللہ۔۔ابھی تک تو نہیں۔۔آئیندہ بھی دعاگو ہوں اللہ تعالی ہر لکھاری کو اس قسم کی صورتحال سے بچا کر اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
27:-کہانی خود آپنے آپ کو لکھواتی ہے یا آپ اسے لکھتی ہیں؟
میں ایک ناول کو لکھتے ہوئے اسے تین مراحل سے گزارتی ہوں۔۔پہلے نمبر پر اسے اپنے ذہن میں مکمل لکھتی ہوں۔۔اور پھر اسے پیپر فارم میں لکھتی ہوں۔۔اور پھر ٹائپنگ کرتی ہوں۔جب ہم کافی کرداروں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں تو وہی کردار خودبخود لکھاری کے قلم کے ذریعے اپنی شخصیت کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
28:-زندگی کو کس نظریے سے دیکھتی بوجھ یا خوبصورت؟ اور خوبصورت تو کس طرح سے؟ اگر بدصورت تو آخر کیوں؟
زندگی داراالامتحان ہے۔۔یہ ہر بدلتی صورتحال کے ساتھ اپنا ایک نیا روپ دھار لیتی ہے۔ہر کوئی اسے اپنے نظریے کے مطابق دیکھتا ہے۔۔جب انسان کو خوشیاں ملتی ہیں تو یہ اس کے لیے کسی خوبصورت دیوی کی طرح بن جاتی ہے۔اور جب اسے کوئی مشکل درپیش آتی ہے تو یہی زندگی اس کے لیے ایک ان چاہا بوجھ بن جاتی ہے جس کا وزن اٹھانا اسے دنیا کا دشوار ترین امر لگتا ہے۔
29:- آنے والی نئی تصنیف کا نام اور صنف؟
ایک سٹوری ذہن میں گردش کر تو رہی ہے جسے میں اپنے پہلے ناول کے ساتھ ساتھ لکھنے کا سوچ رہی ہوں۔۔نام ابھی تک کنفرم نہیں ہے۔اپنی تحریر کا نام سوچنا ایک مشکل کام ہے جسے سوچنے میں مجھے کافی وقت لگ جاتا ہے۔
30:-آپ نے زندگی اور حالات سے کیا سیکھا؟
یہاں تقریباً ہر کوئی اپنے مفاد کے بارے میں سوچتا ہے کسی کے پرخلوص جذبات و احساسات کسی کیلئے کوئی معانی نہیں رکھتے۔۔اگر کسی کیلئے کوئی معانی رکھتے ہیں تو اس میں ضرور اس کا کوئی نہ کوئی اپنا مفاد چھپا ہوتا ہے۔
31:-اپنے قلم کےلئے کوئی قیمتی الفاظ؟
قلم ایک ایسی طاقت ہے جس سے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا جا سکتا ہے۔۔انہیں اپنی کوششوں کے ذریعے جہاں تک ممکن ہو سکے راہ حق کی ترغیب دلائی جا سکتی ہے ۔میری دعا ہے اللہ تعالی مجھے اس قلم کے ذریعے نیکی پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔یا رب العالمین۔
32:-زندگی جینے کا کوئی ایک قول/ اصول بتائیں..
ہمارے والدین نے ہمیں زندگی کو بہترین انداز میں گزارنے کا ایک ہی اصول سکھایا ہے صورتحال چاہے جیسی بھی ہو سچائی کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔۔جھوٹے کو وقتی طور بھلے ہی کوئی کامیابی مل جائے لیکن سچائی ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔۔جھوٹ بولیں تو اسے یاد رکھنا پڑتا ہے لیکن اگر سچ بولیں تو اسے یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہمارے ذہنوں میں پہلے سے ہی نقش ہوتا ہے۔میرے والدین کا کہنا ہے سچے انسان کیلئے یہی کافی ہے کہ اسے قیامت کے دن جھوٹ بولنے کی المناک سزا نہیں بھگتنی پڑے گی۔اس لیے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہیے اور سچ کا ہی ساتھ دینا چاہیے۔
33:-قارئین کی نذر کوئی پیغام؟
ویسے تو میرا ناول “محبت سے خدا تک کا سفر “قارئین کیلئے ایک پیغام ہی ہے۔۔لیکن اگر پھر بھی آپ کہتی ہیں تو میں اپنے قارئین سے یہی کہنا چاہوں گی۔
معزز قارئین۔۔!زندگی ہمیں وہی راہ نہیں دکھاتی جس پر ہم چلنا چاہتے ہیں بلکہ زندگی تو ہمیں ان راستوں پر چلاتی ہے جس پر چلتے ہوئے ہم یا تو کندن بن کر متوازن چال چلنا سیکھ لیں یا پھر کسی بزدل کی مانند مٹی کے ڈھیر کی طرح خاکستر بن کر کسی کے پاؤں تلے روند دیے جائیں۔ہر قسم کی صورتحال میں صبر اور امید کا دامن ہرگز نہیں چھوڑیں کیونکہ صبر اور دعا مومن کے ہتھیار ہیں جو کوئی اپنی پریشانی، تنگی،تکلیف میں ان ہتھیاروں سے مسلح ہو گا مصیبت کی اس جنگ میں فتح بالآخر اس کا مقدر ضرور بنے گی۔خود بھی خوش رہیں اور اپنے آس پاس بھی مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں۔
34:-قرطاس اردو ادب گروپ کے لئے چند الفاظ۔۔
“قرطاس اُردو ادب” گروپ ایک فیملی کی طرح کام کرتا ہے۔ایڈمن سمیت یہاں موجود تمام ٹیم ممبران ایک دوسرے کو بہت زیادہ سپورٹ کرتے ہیں۔اگر کسی کو کام کرنے میں کوئی مشکل پیش آ رہی ہو تو سب لوگ جہاں تک ممکن ہو سکے اس ممبر کی ہیلپ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
تو یہ تھیں مشہور و معروف رائٹر مہوش صدیق جنھیں کسی تعریف کی ضرورت نہیں،اور مہوش آپ کا بہت شکریہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکال کر ہمیں دیا اور ہماری اس نششت کا حصہ بنیں۔
“آپ کا بھی بہت شکریہ سبین آپ نے اتنے مزے مزے کے سوالات کیے۔
نوازش مہوش!اب مجھے اور مہوش کو اجازت دیں،اللہ حافظ
معزز قارئین۔۔! اگر آپ ان کی شخصیت کے بارے میں مزید سوال پوچھنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیں کمنٹ باکس میں بتاتے جائیں ہم وہ سوال بھی اپنے مہمانوں تک پہنچائیں گے اور ہم امید کرتے ہیں ہمارے مہمان آپ کے ہر سوال کا جواب ضرور دیں گے۔۔
آپ کا بہت بہت شکریہ مہوش صدیق آپ نے ہمارے گروپ کےلئے وقت نکالا۔
فی امان اللہ