Memoona iram moonshah interview

ہمارے پیارے ڈیجیٹل قارئین میں ہوں آپکی میزبان سبین مقصود اور آج لائی ہوں میں ادب کے آسمان کے چمکتے ستارے کا انٹرویو جن کا نام ہے “میمونہ ارم مونشاہ” جو اپنی محنت سے آج اس مقام پہ ہیں کہ کسی بھی لحاظ سے تعارف کی محتاج نہیں “میمونہ ارم مونشاہ” نے اپنے رائٹنگ کیرئیر کے آغاز میں ہی ڈھیروں کامیابیاں اپنے نام کرتے ہوئے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

آپ کی تحاریر اس وقت پاکستان کے تمام نامور رسائل میں ہونے کے ساتھ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر بھی موجود ہیں۔جنہیں ادیب بھی سراہتے ہیں اور قارئین بھی، کہنے کو بہت کچھ ہے ان کے بارے میں لیکن چلیں انہی کی زبانی جانتے ہیں ۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میمونہ کیسی ہیں آپ؟وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔ الحمدللہ رب العالمین میں بالکل ٹھیک ہوں

چلیں سوالات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں

س:- کچھ اپنے بارے میں بتائیں ہمیں؟

میرا نام میمونہ ارم جبکہ نک مون ہے۔۔ گھر میں خاندان بھر اور دوستیں مجھے مون کہہ کر بلاتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے اور وہ مجھے لڑکا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔ لکھنے لکھانے کے ساتھ ساتھ علم و تدریس کے فرائض بھی انجام دیتی رہی۔۔۔

س: کیا آپ کا بچپن بھی شرارتوں سے بھرپور تھا؟ اپنی کوئی ایک شرارت کا واقعہ سنائیں ہمیں۔

بچپن بالکل ایسا تھا جیسے ہر لڑکی کا ہوتا شرارتیں کرتی تھی لیکن صورت سے معصوم لگتی تو بچ جاتی تھی۔ لیکن چونکہ میں دو بھائیوں اور ایک بہن سے چھوٹی ہوں تو گھر سے سب سے تنگ مجھے کیا جاتا تھا۔ ایک بار کیا ہوا کہ ہم سب بہن بھائی شرارتیں کر رہے تھے لیکن امی سے سب سے زیادہ ڈانٹ مجھے پڑی کیونکہ باقیوں نے مظلوم شکل بنا لی تھی اور میری ہنس نہیں رک رہی تھی۔

س:- دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کتنی حاصل کی؟میری تعلیم گریجویشن ہے ساتھ ہی میں نے بیوٹیشن کورس کر رکھا ہے۔۔۔

س:- ادب کی جانب کیسے مائل ہوئیں؟میں بچپن میں بچوں کے رسالے شوق سے پڑھا کرتی تھی۔ اس کے بعد میں نے نمرہ احمد کا ناول “قراقرم کا تاج محل“ پڑھا اور مجھے اردو ادب سے عشق ہوگیا

س:- ایک قاری سے لکھاری بننے تک کا سفر کیسا رہا رہا؟لڑکی ہونے کے ناطے مجھے قدم قدم پر طنز، تنقید اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں چونکہ مدیرہ، ایڈیٹوریل انچارج اور بہت سی چیزوں میں بانی کا کردار رکھتی تو مجھے عجیب و غریب جملے سننے کو ملتے بلکہ ابھی بھی ملتے ہیں”لڑکی ہو اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔” “جلد ہی ہار مان لو گی” “آپ میں لڑکی ہونے کا غرور کبھی کامیاب نہیں ہونے دینا” وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاؤہ شروع میں جن اداروں کے لیے محنت کی وہاں سے وہ پزیرائی نہ ملی جس کی میں حقدار تھی تو میں نے ایسی سب چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر ارادہ کیا کہ اب سے سب کچھ اکیلے کروں گی۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا رویہ ایسا تھا کہ میں گھبرا کر ہار مان لوں گی لیکن الحمدللہ میں ڈٹی رہی اور ثابت کیا کہ لڑکی ٹھان لے تو کچھ بھی کر سکتی ہے وہ صنف نازک سے صنف آہن کہلا سکتی ہے۔ اب تک کا سفر بہت دلچسپ رہا ہے۔۔۔

س:- سب سے پہلے اردو ادب کی کونسی صنف پہ طبع آزمائی کی؟ نیز کس حد تک کامیاب ہوئیں؟میں نثری نظمیں زیادہ لکھا کرتی تھی۔ ادبی دنیا میں قدم رکھتے ہی میں نے قسط وار ناول لکھنا شروع کیا۔ جس کی پہلی قسط پڑھنے پر ہی مجھے نمرہ احمد ٹو کا ٹائٹل ملا۔

س:- آپ نے باقاعدہ اپنے رائٹنگ کرئیر کا آغاز کب اور کیسے کیا؟مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کب سے لکھنا شروع کیا یا کیا سوچ کر اس میدان میں آئی۔ چار سال پہلے میں نے فیس بک پر اپنا ایک پیج بنایا تو ذہن میں آئے خیالات کو الفاظ کی صورت تحریر کر کے وہاں پوسٹ کرتی رہی۔ میں بابا کے متعلق بہت زیادہ لکھتی تھی اور قارئین کی طرف سے ملی پزیرائی نے آج مصنفہ کا درجہ دے دیا۔

س:-پہلی تحریر کی اشاعت پہ کیسا محسوس ہوا تھا؟بہت خوشی ہوئی تھی۔ پہلی تحریر میری نظم تھی جو اخبار میں شائع ہوئی۔

س:- لوگ عمر پوچھتے ہیں لیکن میں آپ سے آپ کا تجربہ پوچھوں گی کیسا تجربہ رہا اب تک ادبی دنیا میں کام کرنے کا؟

یوں سمجھیں کہ ان دو تین سالوں میں، میں نے اردو ادب کی ہر صنف کو پڑھنے کی جانچنے کی کوشش کی ہے۔ میرا تجربہ بہت اچھا رہا لوگ نیگیٹو رول نبھا کر بھی میرے لیے سبق کا باعث بنے اور مجھے یہ میرے لیے اچھا لگا ہے۔س:- آپ کے لکھنے کے شوق میں کس نے سب سے زیادہ آپ کو سپورٹ کیا ؟

میری دوست نے، وہ بھارت سے ہے۔ تب ایسا کچھ ہوا کہ میں مکمل ذہنی اذیت کا شکار ہو گئی تھی اس نے ہاتھ تھاما اور میں آج اگر مصنفہ کہلا رہی تو وجہ وہی ہے۔ س:- جب کوئی آپ کی لکھت پہ تنقید کرتا ہے تو کیسے رئیکٹ کرتی ہیں؟

بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک لکھاری کا دل اتنا وسیع تو ہونا چاہیے کہ وہ تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کو بھی قبول کرے۔ انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے اگر کوئی تنقید کرے بھی تو میں اس کی کہی باتوں کو ذہن میں رکھتی ہوں اور آگے کے لیے محتاط رہتی ہوں کہ پھر سے کوئی ایسا کچھ نہ کہے

س:- کبھی رائٹنگ بلاک کا شکار ہوئی ہیں؟کبھی نہیں۔۔۔ لیکن مجھے لگتا ہے میں جتنا لکھتی کم ہے۔۔۔

س:- ادبی دنیا میں آپ کس کو اپنا رہنما مانتی ہیں؟

میں خود کو ۔۔

۔ س:- اب تک کتنے اعزازات اپنے نام کروا چکی ہیں آپ؟ الحمدللہ رب العالمین کافی سارے ہیں اور سب سے قابل احترام وہ ایوارڈ جو مجھے میرے ناول ”میں ایسی ہی ہوں“ لکھنے پر ملا۔

س:- ڈھیروں مصروفیات میں سے لکھنے کےلئے وقت کب نکالتی ہیں؟

میرے لکھنے کا کوئی وقت طے نہیں ہے۔۔۔ جب ذہن میں جو آئے لکھنا شروع کر دیتی ہوں۔۔۔

س:- آپ نے ادبِ اطفال کےلئے بھی لکھا اور بڑوں کا ادب بھی ذاتی طور پہ آپ کو کیا لکھنا پسند ہے؟ مجھے ہر صنف پر لکھنا پسند ہے۔۔۔

س:- آپ کی کامیابی میں کس شخصیت کا کرادر سب سے اہم ہے؟

میں یہاں بھی میری دوست زبیدہ نسیم کا نام لوں گی ۔۔۔ س:- آپ کی نظر میں اُردو ادب کے حوالے سے سوشل میڈیا کیا کرداد ادا کر رہا ہے؟

جواب: میڈیا میں اگر عملی صحافت اور ڈراموں، وی لاگز کی بات کر رہے ہیں تو صحافت میں ادب کسی حد بہتر ہے۔ دیکھا جاتا ہے بولنے میں کافی حد تک الفاظ کی ادائیگی درست کرتے ہیں۔جبکے ڈرامہ سیریلز اور وہ لاگ میں عام بات چیت میں ادائیگی کے وقت بہت سی غلطیاں کر دیتے ہیں۔ ادب کا قواعد کا خیال نہیں کرتے ساتھ ہی ساتھ کافی حد تک ملاوٹ سے کام لیتے ہیں ۔۔۔

س:- آپ کے پسندیدہ لکھاری کون ہیں؟ کن کا لکھا آپ کو متاثر کرتا ہے ؟

مجھے کامل ڈائجسٹ کے لیے بہت سی تحاریر موصول ہوتی رہتی ہیں۔۔۔ کافی لکھاری بہترین لکھتے ہیں۔۔۔ بطور قاری مجھے نمرہ احمد کا لکھا ہی پسند ہے

س:- آپ نے اب تک تین ناولز لکھے “میں ایسی ہی ہوں” “محافظ” ، “میرے مہرباں” آپ کا اپنا کونسا پسندیدہ ہے؟تینوں ناول میں نے دل سے لکھے ہیں۔۔۔ جذباتی بھی بہت ہوئی۔ محافظ پسندیدہ ہے۔۔۔

س:- “قلم کتاب” جس میں آپ کی تحریر بھی شامل ہے اس کے بارے میں کچھ بتائیں ؟

میں یہاں خود کو خوش نصیب کہوں گی کہ ماشاءاللہ سے اتنے سینیئر ادیبوں اور شاعروں کی لکھت کے ہمراہ میری لکھی کہانی بھی موجود ہوگی۔۔۔

س:- آپ نے اب کتنی کتابیں مرتب کی ہیں نیز اور کتنی کرنے کا ارداہ ہے؟پانچ سے زائد کتابیں مرتب کر چکی ہوں اور تین پر مزید کام جاری ہے۔۔۔

سوال: “سفنوں کے بکھرتے رنگ” جس میں آپ کی نثری نظمیں ہیں اس کتاب کا نام بہت پیارا ہے آپ نے خود رکھا یا کسی نے تجویز کیا؟

جی اس کا نام بہت ہی پیاری چندا سفینہ اقبال نے تجویز کیا۔۔۔

س:- آج کل ادبی دنیا میں جو ایوارڈز اور اسناد کا ڈھیر لگ چکا ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

آج کل تو ایوارڈ بک رہے ہیں۔۔۔ یا تو ان کی قیمت ادا کی جائے تبھی ملیں گے ورنہ کچھ ادارے صرف خوشامدی لوگوں کو اس کا اہل بنائیں گے۔۔۔ اس لیے میں مزید رائے نہیں دے سکوں گی اسی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اپنا مخالف بنا چکی ہوں۔۔۔

س:- آپ نے “کامل ڈائجسٹ” کی ابتداء کب کی، اس میں آپ کی مدد کس نے کی، اور اب آپ نے اسے کیوں بند کر دیا ہے؟

کامل ڈائجسٹ کی ابتدا اگست 2020 سے ہوئی اس میں میری دوستوں سحر کنول، یاسمین قریشی، ماہ نور، رابعہ بصری، معارج زہرا نے ساتھ دیا۔۔۔ اور پچھلے دو ماہ سے اس رسالے کی اشاعت نہیں ہوئی۔۔۔ مکمل بند نہیں ہوا بس وجہ بے دھیانی ہے کیونکہ اس دوران میں سامنا کافی ذاتی مشکلات سے ہوتا رہا۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ جلد ہی نیا شمارہ سامنے ہوگا۔۔۔

س:- کیا آپ نے اپنی زندگی کو کسی کردار میں ڈھال کر کسی کہانی میں قلمبند کیا ہے؟

میرے مہرباں میں ”ماہی“ کا کردار ۔۔۔

س:- آپ کے لکھنے کے علاوہ اور کیا کیا مصروفیات ہیں؟میرا واٹس ایپ پر ادبی و تربیتی گروپ بھی ہے۔۔۔ میں پبلشر بھی کہلائی جاتی ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کی کتابیں شائع کروا چکی ہوں۔۔۔ اس کے علاؤہ میں بیوٹیشن بھی ہوں ، بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں

س:- آپ ماضی میں رہنے والوں سے ہیں یا حال کا مقابلہ کرکے خوش رہنے والوں میں سے؟

میں کہتی ہوں ہمیں آج یعنی حال میں جینا سیکھنا چاہیے ۔۔ جو گزر گیا سو گزر گیا جو آنا ہے اس کی خبر نہیں ۔۔ ہمارے پاس صرف حال ہے ہمیں اس میں رہنا چاہیے

س:- لکھاری نا ہوتیں تو کیا بنتیں؟ میں آرمی میں ہوتی ۔۔۔ میری سلیکشن ہو چکی تھی لیکن کچھ وجہ تھی میں نہیں جا پائی ۔۔

س:- آپ کی کتابیں آپ کے لئے کتنی اہم ہے کیا جذبات ہیں آپ کے اپنی کتابوں کے حوالے سے؟

س:- کیا آپ نے کبھی لکھنے سے پہلے ایک قاری کی حیثیت سے سوچا تھا کہ آپ مستقبل دن ایک نامور لکھاری کے طور پہ جانی جائیں گی ؟

ج: کبھی بھی نہیں۔۔۔ اور میں نامور کہاں ہوں ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔ میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ آپ کے نام کے بجائے کام بولتا ہے۔ اور میں نے بغیر تھکے خود کو نامور ہونے کے بجائے کام دار، منتظم لکھنے والا بنایا ہے۔ اور یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ بہترین لکھتے ہزاروں لوگ ہوں اور ان میں سے آپ کو عزت سے نوازا جائے۔

س:- مستقبل میں آپ اپنے کرئیر کے کس مقام پہ خود کو دیکھتی ہیں؟

جواب: میں کل کی نہیں سوچ رہی۔ میں اردوئے معلی کے لیے بہت کام کرنا چاہتی ہوں۔ اور لکھنا تو بحر کی صورت ہوتا ہے۔ یہ کہاں لے جاۓ کیا خبر!

س:- آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟

جواب: دو ہیں۔ بار بار زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور متعدد بار اللہ پاک کے گھر کی حاضری چاہتی ہوں۔ س:- آپ کی نظر میں اُردو ادب کیا ہے؟

جواب: اردو ادب میری نظر میں ہمارا وہ کنز مخفی ہے جو اور پوشیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے حلیے کے بعد ہمارا دوسرا تاثر ہماری زبان ہوتی ہے۔ اب چونکہ ہر چیز ملاوٹ زدہ ہے تو اردو کی مٹھاس کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس مٹھاس کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ادب ہے۔۔۔

س:- آپ کے خیال میں کیا آج کا ادیب اپنے فرائض نبھا رہا ہے؟

جواب: ادیبوں کی بھی اقسام ہیں۔ مختلف انداز سے سب اپنا کام کر رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو فقط فرض اتار رہے ہیں۔۔۔ اور کچھ دل و جان سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

س:- لکھاری اور قارئین کے لیے کوئی پیغام؟ جواب: لکھنے والوں کے لیے پیغام ہے کہ لکھاری معاشرے کی عکاسی کرتا ہے تو جتنا ہو سکے حقیقت کے قریب لکھیں اور لکھنے میں مثبت پہلو کو ہمیشہ شامل کریں۔ اور قارئین کو میرا پیغام ہے کہ کہانی کو کہانی کی طرح لیں، انہیں حقیقت میں شامل کرنا سراسر حماقت اور مستقبل قریب میں تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمیشہ خوش رہیں!

س:- “قرطاس اُردو ادب” کے لئے چند الفاظ؟امید ہے کہ قرطاس گروپ بغیر کسی تفریق کے صرف معیاری رائٹرز کو آگے لائے گا اور اپنے قارئین کو بہترین مواد مہیا کرے گا۔ اللہ اس گروپ کو ترقی دے۔

PDF Embedder requires a url attribute

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Verified by MonsterInsights