
مہنگائی
از قلم
بینش احمد
اٹک، پاکستان
ہمارے آباواجداد کی بے تحاشا قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ آج جس طرح ہم اپنے پیارے وطن میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس آزادی کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کچھ سہا ہے۔
سر کٹائے ، جاگیریں نیلام ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں خاندان کے خاندان دُنیا سے مٹ گئے صرف اور صرف دنیا کے نقشے پر اس پاک وطن کو لانے کےلئے۔
لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں۔پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے اِس کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جس میں سب سے پہلے نمبر پر ”مہنگائی “ہے۔
مہنگائی ایک ایسی چیز ہے جو ہر وقت خبروں میں رہتی ہے۔ آئے روز ہم یہ سُن رہے ہوتے ہیں کہ فلاں چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ لوگ ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور مہنگائی ہے کہ اْن پہ ہنس کے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔آج کل کے زمانے میں ایسا کوئی نہیں جو مہنگائی سے پریشان نا ہو۔ غریب اور مزدور طبقہ تو چولہا جلانے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں۔
ہر آنے والی حکومت اور کوئی اور وعدہ کرے نا کرے یہ وعدہ ضرور کرتی ہے کہ وہ مہنگائی کم یا ختم کردے گی۔لیکن یہ ایسا وعدہ ہے جس نے کبھی پورا نہیں ہونا ہے۔کرایہ جات٬سکولوں کی فیسیں٬ روز مرہ کی کھانے کی اشیاء یہ سب غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلائیں یا سکول کاخرچہ اٹھائیں۔
بچے کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جب بچے تعلیم ہی حاصل نہ کریں گے توہمارے ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ جو چیز بہت ذیادہ بکنے والی ہو اُس کی قیمت دْگنی ہو جاتی ہے۔مہنگائی نے عوام کی راتوں کی نیند اْڑا کے رکھ دی ہے۔دال، چاول، آٹا، سبزی، پھل الغرض روز مرہ کی چیزیں بھی ہماری دسترس سے دور ہو گئیں ہیں۔
اب تو جتنے پیسے گھر میں آتے ہیں اْسی حساب سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں اور کیسے خرچ کرنے ہیں۔ جس طرح سے مہنگائی روزبروز بڑھ رہی ہے،لگتا ہے دال چاول کھانا بھی مشکل ہو جائے گا۔پہلے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ غریب لوگ صرف دالیں اور سبزیاں کھا سکتے ہیں لیکن موجودہ دور میں تو غریبوں کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں آ رہا ہے۔
سبزی اور دالوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کاجو،بادام، پستہ یہ چیزیں تو صرف دکانوں میں سجنے کیلئے ہی رہ گئی ہیں۔ ہر کوئی قرضے لے کر اپنی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ بجلی، تیل، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
پٹرول آئے روز مہنگا ہو رہا ہے۔بیچاری عوام موٹر سائیکل کی بجائے سائیکل کو ترجیح دے رہی ہے۔آخر اس ملک میں غریب عوام کے لئے کیا رہ گیا ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں مہنگائی کی وجہ سے خود کشی کر رہے ہیں۔پچھلے دنوں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک باپ نے مہنگائی سے تنگ آ کر اپنے چار بچوں کی جان لے لی اور خود کو بھی مار ڈالا۔
سچ بات تو یہ کہ اب مرنا کون سا آسان ہے کہ کفن دفن کے اخراجات بھی ایک غریب کی پہنچ سے باہر ہیں۔مہنگائی کا کم یا ذیادہ ہونا ویسے تو حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے- لیکن عوام کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار حضرت عمرؓ کے دور میں گوشت کی قیمت میں اضافہ ہو گیا تو تمام لوگ آپؓ کے پاس شکایت لے کر آئے تو آپؓ نے کہا کہ گوشت کا استعمال کم کر دو۔
جب استعمال کم ہو جائے گا تو قیمت خُود بخود کم ہو جائے گی۔مہنگائی سے بچنے کا ایک آسان حل یہ ہے کہ جو چیز بہت مہنگی ہو رہی ہو اُس کا استعمال چند روز کے لئے با لکل ختم کر دیا جائے۔ اِس طرح جب ایک نہیں بِکے گی تو خود بخود اُس کی قیمت میں کمی آ جائے گی۔ایک آسان مثال بتاتی ہوں۔
ہم مارکیٹ جاتے ہیں تو کپڑوں کی سیل لگی ہوتی ہے یعنی وہ اپنی اصل قیمت سے بہت کم قیمت میں بِک رہے ہوتے ہیں۔تو ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں آپ کو بتاتی ہوں۔جب ایک چیز مہنگی ہوتی ہے تو سب لوگ تو نہیں خرید سکتے صرف چند لوگ خریدتے ہیں جن کے پاس ذیادہ پیسہ ہوتا ہے۔
مڈل کلاس لوگ اتنے مہنگے مہنگے کپڑے نہیں خرید سکتے۔اِس طرح دکانداروں کو نقصان ہوتا ہے کیونکہ اُن کا مال بِک نہیں رہا ہوتا تو وہ سیل لگا دیتے ہیں کہ کم پیسے ہی سہی لیکن آہیں گے تو سہی۔ اِس لیے ہم سب کو چاہیے کہ جب کسی چیز کی قیمت با لکل ہی برداشت سے باہر ہو تو اُس سے مکمل گریز کریں۔ مثال کے طور پر اگر گوشت مہنگا ہو رہا ہے تو مت خریدیں۔
یقین جانے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر آپ ہفتہ دو ہفتہ گوشت نہیں کھائیں گے تو۔ یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو مہنگائی کے سبب کتنے کتنے مہینوں گوشت کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتے۔ایک فرمان بھی ہے کہ اللہ بھی اُس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کرتا ہے، یعنی جب تک ہم کوشش نا کریں گے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ہم سب کو ایک ساتھ مل کر کوشش کرنی ہے اور اپنے ملکی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے۔
اِس کے ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بھی چاہیے کہ مہنگائی روکنے کیلئے مناسب اقدامات کرے تاکہ ایک غریب انسان دو وقت کی روٹی تو آسانی سے کھا سکے، ایک اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جو عام آدمی کا جینا آسان کرتی ہے۔(روزنامہ اساس میں شائع ہوا۔)