
میرا درد نہ جانے کوئی
تحریر
مہوش صدیق
ہمارا درد دوسروں کے لیے ماسوائے ایک قصے کے اور کچھ نہیں ہو گا۔۔۔جب ہم کسی کے سامنے اپنا درد بیاں کرتے ہیں کچھ دیر کیلئے لوگ ہمدردی دکھانے کے لیے “ہاہ،ہائے،بہت افسوس ہوا،بہت بڑا دکھ ہے جیسے الفاظ ادا کریں گے اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ اس پریشانی کو بھول کر اپنی زندگی میں ایسے مگن ہو جائیں گے جیسے ان پلوں کا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
یہ جاں گسل لمحات نہیں بھولتے تو صرف ہمیں کیونکہ ہم اس درد کو اپنے ساتھ ساتھ لے کر جی رہے ہوتے ہیں۔جب سے اس حقیقت کا پتہ چلا ہے تب سے خود کو سات پردوں میں چھپا لیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں ہیں خوشیاں بانٹنے سے بڑھ جاتی ہیں غم بانٹنے سے کم ہو جاتے ہیں لیکن میرا ماننا ہے جب بھی ہم کسی سے اپنا درد بانٹتے ہیں اسے نئے سرے سے زندگی مل جاتی ہے۔
بار بار ہرا ہونے سے زخم ایک دن ناسور بن جاتا ہے اور بلاشبہ یہ انسان کی جان لے کر ہی دم لیتا ہے۔۔
“میرا درد نہ جانے کوئی”
میرے نظریے کے مطابق اس کرب سے بچنے کا واحد حل یہی ہے۔