Mohabbat se Khuda tk ka safar famous army based novel by Mehwish siddique episode 15 part 2

“یار شوبی۔۔!! تو دیکھ رہا ہے آج کل یہ نیلی آنکھوں والا لڑکا جب بھی دیکھو اس لڑکی کے آس پاس ہی نظر آرہا ہوتا ہے۔۔” شوبی کے ایک دوست نے اس کو مخاطب کر کے کہا کیونکہ شوبی تب سے ہی ان دونوں کو سٹاف روم سے باہر نکل کر آپس میں باتیں کرتا سلگتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اب اچانک اپنے دوست کی آواز پر ایک پل کیلئے چونک اٹھا تھا۔۔۔
“ہاں۔۔ دیکھ تو میں بھی رہا ہوں بلکہ میں تو اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی سوچ رہا ہوں۔۔” شوبی نے ذومعنی لہجے میں ایک بات کہی تھی جس پر کچھ ہی فاصلے پر کام کرتا سویپر بھی اپنی جھکی نگاہیں اسی طرف اٹھا کر ضرار اور حیا کو سرسری انداز میں دیکھنے لگا تھا۔
“ان دونوں کے بارے میں کیا سوچنا شوبی صاحب۔۔!! یہ دونوں تو ایسے ہی ہیں۔۔”سویپر کی بات پر شوبی سمیت اس کے تمام دوستوں کے بھی کان ادھر کھڑے ہو چکے تھے۔
” اس دن جب یہ دونوں ایک کمرے میں بند تھے۔یہ لڑکی اس قدر ڈری اور سہمی ہوئی باہر نکلی تھی کہ میں کیا بتاؤں۔۔”
” میں تو اس کی حالت دیکھ کر ایک دم ڈر ہی گیا تھا کہ پتہ نہیں اس کے ساتھ اندر کیا ہوا ہے۔۔ مگر یہ تو اگلے تھوڑے ہی دنوں میں پھر سے ایک ساتھ ہی دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔۔”شوبی کے تیزی سے بگڑتے تاثرات سے بےنیاز سویپر اپنی ہی دھن میں مسلسل بولتے ہوئے اس دن کی روداد سنا رہا تھا۔
” مجھے تو لگا تھا جس قدر یہ ڈرے سہمے انداز سے کمرے سے باہر نکلی تھی یہ تو دوبارہ اس لڑکے کے آس پاس بھی کبھی نہیں بھٹکے گی۔۔ مگر یہ تو پھر سے اسی کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے۔۔” سویپر نے جھاڑو کو ایک سائیڈپر رکھ کر کچرا کچھ ہی فاصلے پر موجود ڈسٹ بن میں پھینکتے ہوئے شوبی کو سرسری انداز میں سارا واقعہ بتا دیا۔۔
عنقریب یہ خبر کسی اور کے لئے کس قدر بھاری بوجھ بن کر اس پر گرنے والی ہے سویپر اس بات سے مکمل طور پر انجان تھا۔
شوبی کا چہرہ اسوقت شدید اہانت کے مارے سرخ پڑ گیا تھا۔
شوبی پچھلے کافی دنوں سے اس لڑکی حیا کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا اسے نجانے کیوں یہ لڑکی اس کو تھپڑ مارنے کے باوجود بےحد اچھی لگنے لگی تھی۔ اس لیے وہ آج کل میں ہی اس سے اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا۔
اس کے سب دوستوں نے اس میں یہ تبدیلی نوٹ کی تھی وہ جان بوجھ کر حیا کی کلاس کے اردگرد بلاوجہ چکر لگاتا رہتا تاکہ کسی طرح اس کو حیا کی ایک جھلک بھلے دور سے ہی دیکھنے کو مل جائے۔۔ مگر آج سویپر کے منہ سے کہی گئی ساری باتیں سن کر وہ بنا کسی سے کچھ بھی کہے فورا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔
“یہ۔۔۔ اس کو کیا ہوا۔۔؟؟” ایک اور لڑکے نے سرگوشی نما آواز نکالتے ہوئے اس کو وہاں سے جاتا دیکھ کر ساتھ والے لڑکے سے پوچھا جس پر وہ سوالیہ انداز میں کندھے اچکاتا پھر سے نئی سگریٹ سلگانے میں مصروف ہو گیا تھا۔
?????
زاویار آج کافی دنوں بعد اپنی کار لے کر باہر آیا تھا۔ وہ بنا مطلب ہی سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ سامنے ایک ہجوم پر اٹھ گئی تو وہ بھی بےاختیار اپنی کار سے اتر کر وہیں آ گیا جہاں پولیس وردی میں ملبوس ایک لڑکی دو ہٹے کٹے لڑکوں کو اچھی طرح پھینٹی لگا رہی تھی۔
زاویار نے اچانک اس کو ایک تھپڑ مار کر گھومتے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ چھا گئی تھی کیونکہ وہ بہادر،نڈر لڑکی کوئی اور نہیں انسپیکٹر ماریہ تھی۔
پھر وہ جلدی سے ہجوم کو اپنے ہاتھوں سے پیچھے ہٹاتا ہوا آگے بڑھ کر اس کی طرف آیا تھا جو اب ان زخمی لڑکوں کو خود ہی اٹھ کر یہاں سے تیز قدموں سے بھاگنے کا کہہ رہی تھی۔
انکو گرتے پڑتے وہاں سے بھاگتے دیکھ کر وہ پھر سے اپنی گاڑی کی طرف آ گئی جو ابھی بھی سڑک کے کنارے بند پڑی ہوئی تھی۔
“جائیے آپ سب لوگ بھی یہاں سے۔۔ مدد کے لیے کسی نے آگے نہیں بڑھنا ہوتا۔۔لیکن تماشہ دیکھنے کے لئے سب آگے آ جاتے ہیں۔۔” ماریہ نے اپنا جھکا سر بونٹ پر سے اٹھا کر سخت لہجے میں کہا تو آس پاس موجود سارے لوگ ایک ایک کرتے فورا وہاں سے ہٹنے لگے تھے
۔ تبھی اچانک ادھر آتے زاویار کی نگاہ ایک لڑکے پر گئی جس نے اپنے موبائل میں یہ ساری ویڈیو ریکارڈ کر لی تھی۔یہ سب منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں غصے سے مزید پھیل گئیں اور پھر وہ تیز قدموں سے بھاگتے ہوئے فورا اس کے پاس آ گیا تھا جو اب اپنی بائیک سٹارٹ کرتا وہاں سے جانے لگا تھا۔
“ابھی کے ابھی میرے سامنے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرو ورنہ تمہارا یہ سارا حلیہ بگاڑ کر رکھ دوں گا۔۔ پھر نہ کہنا۔۔” زاویار نے شدید طیش کے عالم میں اس لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر سخت نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا۔
ماریہ زاویار کی تیز مگر سخت آواز پر اپنا جھکا سر بونٹ سے اٹھاتی فورا ان دونوں کی طرف آگئی۔
“کیسی ویڈیو۔۔؟؟” ماریہ نے زاویار کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اب اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے پوچھا تھا۔
“یہ جو آپ ابھی ان لڑکوں کی دھلائی کر رہیں تھی وہ یہ سب ایک ویڈیو میں ریکارڈ کر چکا ہے۔۔”زاویار نے غصیلے انداز میں کہنے کے ساتھ ساتھ اس لڑکے کو زورآور جھانپڑ دے مارا تھا جو پہلے سے ہی اس انسپیکٹر لڑکی سے ڈرا ہوا تھا اب اس کو اپنی طرف غصے سے بڑھتے دیکھ کر اس نے جلدی سے موبائل نکال کر کپکپاتے ہاتھوں سے ماریہ کے بنا کچھ کہے اسکے سامنے ہی اس ویڈیو کو تو کیا اپنا پورا گیلری کا فولڈر ہی سرے سے ڈیلیٹ کر دیا تھا جس پر زاویار کے لبوں پر دھیمی مسکراہٹ چھا گئی تھی۔
“دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔اب دوبارہ کبھی آس پاس بھی نظر آئے تو منہ توڑ دوں گی تمہارا۔۔”ماریہ نے سخت لہجے میں وارن کرتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہو کر اسے جانے کیلئے باقاعدہ راستہ دیا جس پر وہ تیزی سے بائیک سٹارٹ کرتا ہوا فورا وہاں سے چلا گیا تھا۔
“آآئیے۔۔ میں آپ کو ڈراپ کر دوں۔۔ کہاں جانا ہے آپ کو۔۔؟؟”زاویار نے اسے پھر سے اپنی بند گاڑی کی طرف بڑھتے دیکھا تو ڈراپ کرنے کی آفر کر دی۔
“اس سب کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔تم بھی جاؤ یہاں سے۔۔” ماریہ ایک ہی نظر میں جیل میں ملنے والے اس لڑکے کو فورا پہچان گئی تھی جو سب لوگوں کے جانے کے بعد بھی ابھی تک یہیں ہی کھڑا ہوا تھا۔
“اوکے۔۔اگر آپ میرے ساتھ نہیں جانا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔تھوڑا یچھے ہٹیں۔۔۔ میں اسے دیکھتا ہوں شاید سٹارٹ ہو جائے۔۔” زاویار نے اسے تھوڑی جگہ دینے کا کہا جس پر وہ کچھ سوچتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی تھی کیونکہ اس سے واقعی کار کسی طور سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔
“ایم سوری۔۔!! لگتا ہے کسی مکینک کو ہی بلوانا پڑے گا۔۔” زاویار نے اپنی تمام تر کوششوں کو رائیگاں جاتے دیکھ کر تھوڑا خجل انداز سے کہا تھا۔
“ہمم۔۔کہہ تو ایسے رہے تھے۔۔ادھر تم ایک نظر اسے دیکھو گے اور کار فورا سٹارٹ ہو جائے گی۔۔” ماریہ نے اسے ایک نظر دیکھ کر سخت لہجے میں اس پر طنزیہ وار کیا جس پر زاویار کی بےساختہ ہنسی نکل گئی تھی۔
“دیکھیئے۔۔ میں نے مکینک کو میسج کر دیا ہے۔۔ وہ بس تھوڑی دیر میں آتا ہی ہوگا۔۔آآئیے میں تب تک آپ کو آپ کے پولیس اسٹیشن تک ڈراپ کر دوں۔۔”ماریہ کو پھر سے انجن کی تاروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھ کر زاویار نے سے پھر سے اسے ڈراپ کرنے کی آفر دہرا دی ۔۔۔
“اوکے۔۔ میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔۔ لیکن ان لڑکوں کا حال اچھے سے یاد ہے نا۔۔؟؟”
” اگر تمہارا بھی ایسا کوئی ارادہ ہے تو ان لڑکوں کی حالت کو اچھے سے ذہن میں بٹھا لینا۔۔” ماریہ نے انگشت شہادت اٹھا کر وارننگ دیتے ہوئے کہا اور پھر خود اس کے ساتھ آ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔
“جی جی میں سمجھ چکا ہوں۔۔ جو بھی آپ کہنا چاہ رہیں ہیں۔۔” زاویار تو اس کے مان جانے پر ایک دم خوشگوار موڈ میں آ گیا اس لیئے دھیمے سے مسکراتے ہوئے فورا کار سٹارٹ کرنے لگا تھا۔
تھوڑی ہی دور ڈرائیو کے بعد زاویار نے ماریہ کو اسکے پولیس اسٹیشن کے باہر ڈراپ کر دیا۔ ماریہ اسے “تھینکس” کہہ کر بنا اس کا کوئی جواب سنے کار سے باہر نکتی پولیس اسٹیشن کے اندر چلی گئی تھی۔
“آج اس لڑکے کو ویڈیو بناتے دیکھ میں نے جلدی سے ڈیلیٹ کروا دی۔۔حالانکہ یہی کام تو میں خود بھی ایک لڑکی کے ساتھ پہلے کر چکا ہوں۔۔۔”
” لیکن آج وہی کام اس لڑکے کو کرتے دیکھ کر مجھے اس قدر برا کیوں لگ رہا تھا۔۔؟؟” زاویار جو اسٹئیرنگ پر سر جمائے چپ چاپ وہیں ایک سائیڈ پر کار کھڑی کر کے تھوڑی دیر پہلے کے واقعات کو ذہن میں دوڑانے لگا تو اس کو فورا شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔۔
“میں نے بھی تو اس لڑکی زینب ابراہیم کے ساتھی یہی سب گھٹیا حرکت کی تھی۔۔”اسے اپنے اندر سے ہی کئی آوازیں سماعت بن کر سنائیں دے رہیں تھیں۔
“تم اپنے ایک تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے اس حد تک گر جاؤ زاویار۔۔۔شیم آن یو۔۔!!!”زاویار نے ایک جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا اور اپنے ہاتھوں کا مکہ بنا کر اسٹئیرنگ پر دے مارا۔ “میری وجہ سے اس بیچاری لڑکی پر پتہ نہیں کیا کیا بیت رہی ہو گی۔۔”زاویار آج اپنی کی گئی ہر حرکت پر دل سے شرمندہ ہو رہا تھا۔ندامت اس کے تاثرات سے عیاں ہو رہی تھی تبھی اچانک اس کے ذہن پر وہ دن عکس بن کر چھانے لگا جب وہ اپنے شاہ زیب ماموں سے ملنے ان کے آفس گیا تھا۔
“تم لوگ سب کے سب نالائق اکٹھے کیے ہوئے ہو۔۔”
“شرم سے ڈوب مرو تم سب۔۔۔!!تم لوگوں سے اس ابراہیم آفندی کی کنسٹرکشن کمپنی کا ایک سکینڈل نہیں ڈھونڈا جا رہا۔۔کتنے مہینے گزر گئے اور تم لوگوں کے ہاتھ ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں لگا۔۔” شاہ زیب ماموں اپنے تمام جونئیر رپورٹرز پر کافی غصیلے انداز میں بھڑک رہے تھے۔
“سر۔۔!!وہ کنسٹرکشن کمپنی اتنی ایمانداری سے ہر کام کرتی ہے کہ کسی بھی قسم کا دھوکہ دہی، فراڈ وغیرہ آج تک کسی کے ساتھ نہیں ہوا۔۔”
” ہم ایک ایک بندے کے پاس جا کر ان سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔۔مگر ان میں سے کوئی ایک کلائنٹ بھی پیسوں کے لالچ میں آ کر بھی اس شخص کے خلاف نہیں بول رہا۔۔” ایک جونیئر رپورٹر نے اپنے اندر تھوڑی ہمت مجتمع کر کے ساری حقیقت شاہ زیب ماموں کے گوش گزار کر دی جس پر وہ فورا ہتھے سے اکھڑ گئے تھے۔
“میں نے یہاں تمہیں اس ابراہیم آفندی کے قصیدے پڑھنے کے لئے نہیں رکھا۔۔ مجھے جلد از جلد اس کی کمپنی کا نام اور ساکھ دونوں ڈوبتے ہوئے چاہیے۔۔”
” اس کے لئے جو بھی کرنا پڑے کرو۔۔ جتنے پیسے لگتے ہیں لگاؤ مجھے اس کی فکر نہیں ہے۔۔” شازیب ماموں اس وقت بات کرتے ہوئے کسی بپھرے ہوئے شیر کی طرح لگ رہے تھے جس کو ہر حال میں اپنی بےعزتی کا بدلہ اتارنا تھا چاہے اس کیلئے اسے کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
“Got it…??” شاہ زیب ماموں نے سر جھکائے رپورٹرز کو دیکھ کر سختی سے بھرپور لہجے میں پوچھا۔
جس پر تمام رپورٹرز نے”یس سر”کہتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر ایک ایک کرتے آفس سے باہر چلے گئے تھے۔
” کیا ہو گیا ماموں۔۔؟؟ اتنا پریشان لگ رہے ہیں۔۔۔سب خیریت تو ہے نا۔۔۔؟؟؟” زاویار نے شاہ زیب ماموں کو ریوالونگ چئیر پر بیٹھتے ہوئے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے دیکھا تو سرسری لہجے میں ان سے پوچھنے لگا۔
“یار ہونا کیا ہے۔۔!!اس ابراہیم آفندی نے میرے ساتھ کام کرنے سے صاف لفظوں میں منع تو کیا ہی کیا اوپر سے اپنے گارڈز کے سامنے میری بری طرح انسلٹ کر کے رکھ دی۔۔۔”اپنے دلعزیز ماموں کے لبوں سے انسلٹ کا سن کر زاویار کی کشادہ پیشانی پر فورا گہری سلوٹیں ابھر گئیں تھیں۔
“میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔اس کیلئے چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔۔” شاہ زیب ماموں گلاس میں موجود پانی پی کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
“ہمم۔۔صحیح۔۔”زاویار کو “ابراہیم آفندی”کا نام کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا لیکن وہ اس بارے میں شیور نہیں تھا اس لئے تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرکے وہاں سے نکل گیا تھا۔
یہ نام تو اس کو زینی کے منہ سے دہرانے پر ہی پتہ چلا تھا جب وہ اس کے گروپ کے پاس آ کر اس سے حد درجہ غصیلے لہجے میں بات کرنے لگی تھی۔
” تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی۔۔؟؟” زینی نے آتے ساتھ سخت لہجے میں کہتے ہوئے زاویار کا باقاعدہ گریبان پکڑ لیا۔
زینی کی اس حرکت پر زاویار سمیت لان میں موجود تمام لوگ اپنی اپنی جگہ حیرت کے مارے ششدر وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
کیونکہ زاویار پوری یونیورسٹی میں اپنی خوبصورت مردانہ وجہیہ پرسنالٹی کی وجہ سے سب سے پاپولر ترین لڑکا تھا۔لڑکیوں کا ایک بڑا جتھہ اس سے دوستی کرنے کیلئے ہمہ وقت اس کے آگے پیچھے منڈلاتا رہتا تھا۔اسی وجہ سے اس کا انداز بھی کچھ مغرورانہ اور شاہانہ سا ہو گیا تھا۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔؟؟کالر چھوڑو۔۔!!” زاویار نے زینی کو غصیلی نگاہوں سے گھور کر کہتے ہوئے اس کا ہاتھ خود سے پرے ہٹاتے ہوئے باقاعدہ جھٹک کر پیچھے دھکیل دیا۔
“کیا تمہیں اپنی بدتمیزی یاد نہیں۔۔؟؟”
” تم نے میری دوست کی تصویریں پوری یونیورسٹی میں لگوا دیں۔۔!!”
” شرم نہیں آئی تمہیں کسی شریف لڑکی کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے جس نے تمہارا کچھ بگاڑا بھی نہیں ہے۔۔” زینی تقریبا ہذیانی انداز میں اس پر چلا رہی تھی۔۔۔۔
“اوہ۔۔۔۔اچھا تو وہ شریف لڑکی تمہاری دوست ہے۔۔؟؟”اب کی بار یہ کہتے ہوئے زاویار کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی جس پر زینی کو مزید تپ چڑھ گئی تھی۔
زینی اپنی بے پناہ ذہانت اور معصومیت سے بھری دلکش شخصیت کی وجہ سے تقریبا پوری یونیورسٹی میں اک آئیڈیل لڑکی سمجھی جاتی تھی۔لڑکے تو کیا لڑکیاں بھی اس کی طرف اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھاتی رہتی تھیں۔لڑکوں کو تو وہ سرے سے ہی بھاؤنہیں دیتی تھی۔
وہ اپنی دوستوں میں بہت سیلیکٹو سی تھی اس نے باقی سب لڑکیوں کے ساتھ ہلکی پھلکی سلام دعا تو رکھی تھی مگر اس کی گہری دوستی صرف پریشے کے ساتھ تھی جس کی وجہ سے وہ آج یہاں کھڑی اس کیلئے بحث بازی کر رہی تھی۔
“تمہاری اس شریف لڑکی نے جو میرے دوست کی سب کے سامنے انسلٹ کی۔۔ اس کے بدلے تو یہ سب کچھ بھی نہیں ہے ڈئیر۔۔” زاویار اپنی کی گئی غیراخلاقی حرکت پر بالکل بھی شرمندہ نہیں تھا اس لئے ہنستے ہوئے کہہ کر باقاعدہ اسے چڑانے میں مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔”
“زاویار۔۔!! تم جیسے بگڑے لڑکوں کے لئے عزت کوئی معنی نہیں رکھتی ہو گی لیکن ہماری سوسائٹی میں عزت ہی ہر چیز پر فوقیت سمجھی جاتی ہے۔۔۔”زینی نے زاویار سمیت اس کے گروپ میں موجود تمام لڑکوں کو گھور کر کہتے ہوئے ان سب پر طنزیہ لہجے میں وار کیا۔
“بہت غرور ہے نا تمہیں اپنی اس دو کوڑی کی عزت کا۔۔!! دیکھنا ایک دن تمہاری یہی عزت بگاڑ کر نہ رکھ دی تو پھر۔۔۔”سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے زاویار کی آنکھوں کی نفرت ان کی بڑھتی سرخی سے واضح جھلک رہی تھی کہ اچانک زینی کے زناٹے دار تھپڑ کی آواز پورے ہال میں گونج کر رہ گئی جس پر زاویار غیر یقین انداز میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ابھی تک اسے ساکت نگاہوں سے ہی دیکھے جا رہا تھا۔ اسے اپنے آس پاس سب کی دبی دبی ہنسی واضح سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں زینب ابراہیم آفندی ہوں۔۔”
“آیئندہ مجھے کوئی معمولی لڑکی سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرنا۔۔”
“میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو تمہاری دھمکیوں کے ڈر سے چھپ کر گھر بیٹھ جاؤں گی۔۔ مجھے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا اچھے سے آتا ہے۔۔”زینی اپنی انگشت شہادت اٹھا کر اسے وارن کرنے کے بعد فورا وہاں سے چلی گئی تھی۔
“اب تم دیکھتی جانا زینب ابراہیم آفندی۔۔۔ اب جو میں تمہارے ساتھ کرنے والا ہوں نا اسے تمہاری سات پشتیں بھی بھولنا چاہیں تو کبھی نہیں بھول پائیں گی۔۔”زاویار نے ضبط کے چکر میں اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچتے ہوئے نفرت آمیز لہجے میں سوچ کر اپنے قدم یونیورسٹی کی پارکنگ کی طرف بڑھا دیے۔اس کا ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اس نے اپنے تمام دوستوں کو زینی پر نظر رکھنے کو کہا تھا۔ ایک دن اس کے اسی دوست نے یہ ویڈیو اسے لا کر دکھائی تھی جس کے پرپوزل سے پریشے نے صاف انکار کر دیا تھا۔
ویڈیو کو پورا دیکھنے کے بعد اس کے چہرے پر زہرخند مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
“ہاہاہا۔۔۔اب آئے گا مزہ۔۔۔۔!!”زاویار نے ہنستے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کالر کو فخریہ جھاڑتے ہوئے کہا۔
“ویری نائس بڈی۔۔۔”زاویار نے اپنے دوست کے کارنامے پر اس کو سراہا اور پھر اس ویڈیو کو اپنے موبائل میں سینڈ کرنے کے بعد اس لڑکے کے موبائل سے ڈیلیٹ کر دی اور پھر مسرور چال چلتے ہوئے یونیورسٹی سے نکل کر سیدھا شاہ زیب ماموں کے آفس آ گیا۔ اس کے ہر ایک انداز میں فاتح جیسا غرور واضح جھلک رہا تھا۔
“ارے برخوردار۔۔!!آج بڑے دنوں بعد چکر لگایا تم نے۔۔؟؟ کہاں مصروف تھے تم۔۔؟” شاہ زیب ماموں نے مصافحہ کرتے ہوئے اسے سامنے والی چیئر پر بیٹھنے کا ہاتھ سے اشارہ کیا اور پھر خود بھی اپنی اپنی ریوالونگ چئیر پر واپس آ کر بیٹھ گئے۔
“کیا لو گے تم۔۔؟؟ویسے آج کافی خوش دکھائی دے رہے ہو۔۔ آخر بات کیا ہے۔۔؟؟”شاہ زیب ماموں کو اس کے انگ انگ سے خوشی کی مہک پھوٹتی دکھائی دی تو اسے پوچھے بنا نہ رہ سکے۔
“یار ماموں۔۔ بس یہ سمجھیں آج آپ کا ابراہیم آفندی سے بدلہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔۔اور۔۔”زاویار نے معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر سجائے مسکاتے لہجے میں بات کی جس پر وہ حیرت کے مارے چونکے بنا نہ رہ سکے کیونکہ وہ اس نام کے پیچھے پچھلے کئی مہینوں سے ڈیپریشن کا شکار ہوئے جا رہے تھے۔
“کیا۔۔؟؟کیا کہا تم نے۔۔؟ ابراہیم آفندی۔۔۔ صحیح سنا میں نے۔۔؟؟” شاہ زیب ماموں کو اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا اس لیے دوبارہ پوچھنے لگے۔
ان کی اس حالت پر زاویار کا بے ہنگم قہقہہ آفس میں گونج اٹھا تھا۔ کیونکہ وہ اس کو اس قدر حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے دنیا کا کوئی آٹھواں عجوبہ ان کے سامنے آ کر بیٹھ گیا ہو۔
“جلدی بتاؤ یار۔۔۔ پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہو۔۔؟؟”شاہ زیب ماموں نے چئیر سے اٹھتے ہوئے اسے مصنوعی غصے سے گھور کر کہا۔۔۔۔۔۔۔
“یار ماموں۔۔!!تھوڑا صبر سے کام لیں۔۔ آپ تو ہائپر ہو رہے ہیں۔۔” زاویار نے انہیں اپنے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے تھوڑا پرسکون رہنے کا کہا تو وہ ایک جگہ ٹھہر کر لمبے لمبے سانس لینے لگے۔
“یار ماموں۔۔!! آپ بھی نا۔۔۔”زاویار ان کی عجیب حرکتوں پر بےساختہ خود کو ہنسنے سے روک نہ پایا۔
“یہ دیکھیں۔۔!! آپ کے لیئے ایک قیمتی خزانہ لایا ہوں جس کو دیکھ کر آپ بہت زیادہ خوش ہوجائیں گے۔۔”زاویار نے ہاتھ میں موجود اپنا موبائل ہوا میں لہراتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
“مطلب۔۔؟؟”اسوقت شاہ زیب ماموں کا انداز ناسمجھی سے بھرپور لگ رہا تھا۔
“پہلے آپ غور سے اس ویڈیو کو دیکھیں۔۔” زاویار نے موبائل فون میں موجود ویڈیو کو پلے کر کے شاہ زیب ماموں کے ہاتھ میں تھما دی۔جسے کافی دیر تک دیکھنے کے بعد ان کے چہرے کے تاثرات گھبراہٹ سے یکلخت تبدیل ہو کر مسکراہٹ سے بھر گئے تھے۔
“واہ میرے چیتے۔۔۔ یہ تو تو نے کمال کردیا۔۔” “تو میرا چینل جوائن کر لے۔۔ یہ سارے رپورٹرز جن کو میں اتنی لمبی لمبی تنخواہیں دیتا ہوں۔۔ان سب میں سے کوئی بھی یہ کام نہ کر سکا جو تو نے کر دکھایا ہے۔۔”شاہ زیب ماموں خوشی خوشی اس ویڈیو کو ری پلے کر کے پھر سے دیکھنے میں محو ہو گئے تھے۔
“آفٹر آل۔۔زاوی تو ایک ہی ہے۔۔۔ میرے جیسا تو کوئی اور نہیں ہو سکتا نا۔۔۔!!”زاویار نے ہنستے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں فخریہ کالر جھاڑا۔
“یہ تو بالکل ٹھیک کہا تم نے۔۔!!”شاہ زیب ماموں نے اس کو سراہتی نگاہوں سے دیکھ کر اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اور پھر اس کے کچھ ہی دنوں بعد اس ویڈیو کو عجیب و غریب طریقے سے توڑ مروڑ کر ایڈیٹنگ کے بعد اپنے چینل پر لگا دی جو ایک دن کے اندر ہی اندر سوشل میڈیا پر اس قدر وائرل ہو گئی تھی کیونکہ اس ویڈیو میں ایک سیلیبرٹی کا نام جڑا تھا جو اس وقت پاکستان کی فلم انڈسٹری پر ایک چمکتے ہوئے ستارے کی طرح پوری طرح چھایا ہوا تھا۔
ان کی اس ٹرامپل کی گئی ویڈیو نے ان کے چینل کی ریٹنگ کچھ ہی دنوں میں آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دی تھی۔
شاہ زیب ماموں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر پورا کڑاہی میں تھا۔اور ان دنوں زاویار بھی بہت خوش دکھائی دے رہا تھا کیونکہ اس کے تھپڑ کا بدلہ جو پورا ہو گیا تھا۔ اس نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا تھا۔
اس لڑکی زینب کی عزت کو اس نے میڈیا چینلز کی زینت بنا کر دو کوڑی کی کر دی تھی۔
اچانک پولیس موبائل کے سائرن کی آواز پر وہ اپنے ماضی کی سوچوں سے باہر نکل آیا۔ اس نے ایک سرسری نظر اطراف میں دوڑانے کے بعد گہرا سانس لیا اور پھر پر سوچ نگاہوں سے کار واپس سٹارٹ کر دی۔اب اس کی کار کا رخ شاہ زیب ماموں کے آفس کی طرف تھا کیونکہ وہاں جا کر اسے ایک بہت ضروری کام سرانجام دینا تھا۔۔
?????
زینی اور اذلان کل رات سے کراچی پہنچ چکے تھے۔اذلان نے پورے راستے میں ایک دفعہ بھی زینی کو مخاطب کرنا گوارا نہیں کیا تھا۔اس سب کے برعکس ائیرپورٹ کے راستے میں جو کوئی بھی فین ملا اس کو بہت اچھے طریقے سے ڈیل کیا تھا۔ زینی اپنے جھکے سر سمیت چپ سادھے بس اس کے ساتھ ساتھ چلے جا رہی تھی۔
کراچی ائیرپورٹ پہنچنے کے بعد ایک مؤدب انداز میں کھڑے ایک آدمی نے اذلان کو سیلیوٹ کے انداز میں سلام کرتے ہوئے اس کے ہاتھ میں موجود ٹرالی سے سارا سامان لے کر کار کی ڈگی میں پھرتی سے رکھا۔تب تک زینب اور اذلان بھی دونوں کار کی پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔
زینب نے خود سے چند ایک فٹ کے فاصلے پر بیٹھے اذلان کو ایک نظر بھر کر دیکھا مگر وہ سارے راستے اسے یکسر طور پر نظرانداز کئے اپنے موبائل میں مصروف کچھ نہ کچھ ٹائپ کرنے میں ہی محو رہا۔
تقریبا آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد کار ایک وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ایک محل نما شاندار گھر کے سامنے رکی جس کی نمبر پلیٹ پر”اذلان پیلیس”کے الفاظ واضح کنندہ کئے گئے تھے۔
اتنے عرصے میں اذلان نے بھی پہلی بار سرسری انداز میں اطراف میں نگاہ گھما کر اوپر دیکھا تب تک گیٹ پر موجود سیکیورٹی گارڈز نے مستعدی سے گیٹ کھول دیا اور پھر ڈرائیور کے پورچ میں کار روکنے پر وہ دونوں بھی کار سے باہر نکل آئے۔
زینی پورچ میں کھڑی اس عالیشان گھر کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کیونکہ اس کیلئے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔نجانے کتنی ہی بار وہ اذلان کی ذات کے بارے میں سرچ کرتے کرتے ان سب گھروں کی تصویروں کو بھی گوگل پر ہزاروں دفعہ دیکھ چکی تھی۔اذلان سے وابستہ ہر ایک چیز کے بارے میں معلومات رکھنا اس کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا۔
کچھ ہی دیر بعد اذلان نے زینی کو “اذلان پیلیس” میں اکیلا چھوڑ کر سیدھا اندر آنے کی بجائے وہیں کھڑے کھڑے ڈرائیور سے مین ڈور کھلوا کر بیگز ایک کمرے میں رکھنے کا حکم صادر کر دیا۔
اذلان کی حد درجہ لاتعلقی کی وجہ سے زینی اپنی آنکھوں کو بار بار بھیگنے سے روک رہی تھی۔ اس کے سارے الفاظ اندر ہی اندر دم توڑ گئے تھے۔اذلان کے بیگانگی اور اجنبیت سے بھرے انداز پر اس کے اندر کچھ بھی کہنے یا سننے کی مزید سکت نہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
زینی ابھی تک خوبصورت لان کے وسط میں موجود راہداری کے شروع میں ہی بت بنی کھڑی ہوئی تھی کہ اچانک اذلان کی سرد نگاہ نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر وہ اس سے بنا کچھ کہے اس کی سائیڈ سے گزرتا ہوا ڈرائیور کو کار پھر سے سٹارٹ کرنے کا کہہ کر خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھنے کی ہی دیر تھی کہ ڈرائیور اور اذلان گاڑی زن سے بھگا کر گھر سے باہر چلا گئے۔
زینی غیر یقین انداز میں گھری اذلان کے جانے کے بعد بےجان قدموں سے چلتی ہوئی گھر کے اندر آ گئی تھی۔
اس نے گھر کے اندر قدم رکھتے ہی اطراف میں نگاہ گھما کر دیوار پر لگے سوئچ بورڈ کے بٹن پر ہاتھ رکھ کر تمام لائٹس آن کر دیں۔فرنیچر، دیواروں پر لگی رنگا رنگ پینٹنگز سمیت گھر کی ہر چیز کی نفاست اذلان کے اعلی ترین ذوق کی واضح نشاندہی کر رہی تھی۔ تبھی کوریڈور میں آگے بڑھتے ہوئے اس کی سرسری نگاہ سامنے ہی نظر آتے ادھ کھلے دروازے کی طرف گئی جس کے بیڈ کی بیک وال پر اذلان کا جائنٹ سائز فوٹو فریم لگا ہوا تھا۔اس تصویر میں موجود اذلان کی مسکراتی نگاہوں نے بےاختیار ہی زینی کی ساری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔نجانے کتنی ہی دیر زینی دیوانوں کی طرح مبہوت نگاہوں سے اس تصویر کو دیکھتی رہی تھی۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد اپنے اندر اچانک پیاس کا احساس جاگ اٹھنے پر اس نے اپنا ہینڈ بیگ وہیں کاؤچ پر رکھا اور پھر دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی۔۔ابھی وہ متلاشی نگاہوں سے کچن کو ہی ڈھونڈ رہی تھی کہ اچانک گھر کی ساری لائٹس بند ہونے کی وجہ سے آس پاس گھپ اندھیرا چھا گیا۔۔
“آآہ۔ہ۔ہ۔۔۔”کچھ نظر نہ آنے کی وجہ سے آگے بڑھتے ہوئے اس کا پاؤں پوری قوت سے کسی چیز سے ٹکرایا تو وہ درد کے مارے کراہتے ہوئے دوہری ہوتی وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
“آآہ۔ہ۔۔۔ اتنے اندھیرے میں تو مجھے کوئی ونڈو بھی نظر نہیں آ رہی۔۔۔یہاں تو میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔”زینی نے گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ کر اپنا پاؤں پکڑتے ہوئے درد سے چور لہجے میں کہا تھا۔
اندھیرے کی وجہ سے اسکے اندر بڑھتے اضطراب اور گھٹن نے اس کا سانس لینا تک محال کر دیا تھا۔ کافی دیر تک وہ گہرے گہرے سانس لیتی خود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتی رہی اس کے آنسو ایک ندی کی صورت میں بہہ کر اس کے گالوں کو مسلسل بگھونے لگے تھے۔
اذلان پوری رات شوٹنگ میں بزی ہونے کی وجہ سے اپنے ڈرائیور کے ساتھ صبح
10 بجے کے قریب گھر واپس آیا تھا۔
” سر۔۔!!آپ کو کچھ چاہیئے تو نہیں۔۔؟؟”اشفاق نے کار پورچ میں روکنے کے بعد تیز تیز قدموں سے اذلان کو آگے بڑھتے دیکھ کر اس کے پاس جا کر سوالیہ نگاہوں سے پوچھا جس پر اذلان نفی میں سر ہلا کر اپنے قدم گھر کے اندر کی جانب بڑھا گیا ۔
“اشفاق سے کہہ کر آج ہی سارے کے سارے ملازموں کو دوبارہ کام پر بلوانا پڑے گا۔۔” اذلان مین ڈور بند کرتے ہوئے آہستہ آواز میں بڑبڑایا کیونکہ پچھلے کافی عرصے سے اس کی کراچی میں کوئی بھی لگاتار شوٹنگ نہیں ہو رہی تھی اس لئے اس گھر میں اسکا کم وبیش ہی آنا جانا ہوتا تھا۔
“یہ اتنا اندھیرا کیوں ہے یہاں۔۔ ؟؟”
“حد ہے یار۔۔میری زندگی میں اتنا اندھیرا بھرنے کے بعد بھی ان محترمہ کو سکون نہیں ملا جو یہاں گھر پر بھی فل اندھیرا کیے آرام سے بیٹھی ہیں۔۔۔۔۔۔” اذلان نے گھر کے اندر ابھی قدم رکھا ہی تھے کہ اس کا استقبال پورے گھر میں چھائے گھپ اندھیرے نے کیا تھا۔اس نے طنزیہ انداز میں بڑبڑانے کے ساتھ ساتھ دروازہ کھلا چھوڑتے ہوئے اندازے سے ہاتھ بڑھا کر لائٹس کے سارے بٹن آن کیے مگر وہ سارے کے سارے پہلے سے ہی آن پا کر اذلان کی آنکھیں پریشانی کے مارے ایک پل کیلئے اپنا حجم مزید پھیلا گئیں۔۔۔ اس لیے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وولٹیج روم میں جا کر سامنے لگی DB وال چیک کرنے لگا جہاں پر وولٹس کی ساری سرخ بتیاں بند شو ہو رہیں تھیں۔
“ڈیم اٹ۔۔۔!!یہ لائٹ کیسے خراب ہو گئی۔۔۔؟؟اور زینب۔۔زینب کہاں ہے اس وقت۔۔؟؟” اذلان کو اپنے ذہن میں پہلی بار زینب کا خیال عکس بن کر گردش کرتا محسوس ہوا تو اسے فورا تشویش نے آن گھیرا کیونکہ وہ یہاں کراچی آ کر زینب کو سرے سے ہی بھول گیا تھا۔
“سر۔۔!!میں نے ابھی لائٹ۔۔”اذلان تیز قدموں سے چلتا ہوا کمرے کے دروازے کے پاس ہی پہنچا تھا کہ اسکے موبائل کی رنگ ٹون نے اس کی ساری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔
“گھر کے اندرونی حصے کی لائٹ پتا نہیں کب سے خراب ہے۔۔۔اشفاق تم اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتے ہو۔۔اور یہ سیکیورٹی گارڈز کہاں ہیں۔۔؟؟وہ لوگ سو رہے تھے کیا۔۔؟؟”اشفاق ابھی لائٹ کے بارے میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اذلان نے ازحد سنجیدہ تاثرات سمیت متلاشی نگاہوں سے اطراف میں نگاہ گھما کر زینی کو ڈھونڈتے ہوئے اسے فورا کھری کھری سنا دیں۔
“ایم سوری سر۔۔!!کل رات یہاں سے جانے سے پہلے تک تو ٹھیک تھی۔۔پتا نہیں پھر۔۔۔۔اور وہ سیکیورٹی گارڈ تو شاید بھابی کی وجہ سے۔۔۔”بات کرتے ہوئے اشفاق کا انداز بھی کچھ حواس باختہ سا لگ رہا تھا کیونکہ اشفاق اذلان کی اپنی فیملی کو لے کر پوزیسیونیس سے بخوبی اگاہ تھا اس لئے اس نے یہاں سے جانے سے پہلے ہی دونوں سیکیورٹی گارڈز کو گھر کے اندر جانے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔اور اسی حکم کے پیش نظر ان لوگوں نے لائٹس کو بند ہوتا دیکھنے کے باوجود بھی گھر کے اندر قدم نہیں رکھا تھا ۔انہیں لگا شاید زینب نے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے جان بوجھ کر ساری لائٹس آف کر دی ہیں۔اس لئے انہوں نے اس بات پر زیادہ کان دھرنا ضروری نہ سمجھا۔
“اسوقت مجھے اور کچھ نہیں سننا۔۔۔جلد ازجلد کسی الیکٹریشن کو فون کرو اور اسے ٹھیک کراؤ فورا ۔۔۔!!”اذلان نے اشفاق کے منہ سے لفظ “بھابی”کا ذکر سن کر اسکی پوری بات سنے بنا ہی اپنا حکم صادر کرتے ہوئے فورا فون ڈسکنیکٹ کر دیا۔
“زینب۔۔۔۔!! زینب۔۔!! آپ کہاں ہیں اس وقت۔۔۔؟؟” اذلان اپنے کمرے اور کوریڈور کے اطراف میں دیکھنے کے بعد بالآخر لاؤنج میں پہنچ کر بلند آواز میں زینب کو پکارنے لگا تھا۔ اس نے ہاتھ میں تھامے موبائل کی ٹارچ جلدی سے آن کر لی۔
ابھی وہ دھیمی چال چلتا ہوا ٹارچ کے سہارے آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک کسی چیز سے ٹکرا کر اوندھے منہ نیچے گرنے ہی والا تھا کہ اس نے بمشکل خود کو سنبھالا دے کر نیچے گرنے سے بچا لیا تبھی اس کی نگاہ بےاختیار زینب پر جا کر ٹھہر سی گئی جو اس وقت ایک پلر کے قریب بے ہوشی کی حالت میں آڑے ترچھے انداز میں نیچے زمین پر گری ہوئی تھی۔
زینب کو اس طرح بے سدھ حالت میں نیچے گرا ہوا دیکھ کر اس کے حواس بری طرح شل ہو کر رہ گئے اور اس منظر کو دیکھتے ہوئے اس کی سیاہ رنگ، چمکدار آنکھیں ایک پل کیلئے جھپکنا تک بھول گئیں تھیں۔
“اٹھیں زینب۔۔!!زینب کیا ہوا آپکو۔۔؟؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔؟؟”لمحہ بھر ہی لگا تھا اذلان کو سنبھلنے میں اور پھر وہ اختیار زینب کی جانب لپکا اور اس کے قریب جا کر ازحد فکرمند تاثرات سمیت ایک ساتھ کئی سوالات کر بیٹھا۔
اسوقت حد درجہ گھبراہٹ اور پریشانی کے مارے اتنے سرد موسم میں بھی اس کی کشادہ پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہو کر اسے عرق آلود کر گئے تھے۔
اذلان نے زینب کو ہوش میں لانے کیلئے اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ نرمی سے تھپتپھایا تب ہی اسے اندازہ ہوا کہ زینب تو اس وقت برف کی سل کی مانند ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔
زینب نے اس وقت اتنی سخت سردی کے موسم میں بس سادہ سا سوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔اور مستزاد اس پر کوئی گرم شال وغیرہ بھی نہیں اوڑھ رکھی تھی۔
اذلان نے ایک ہاتھ سے اپنے ماتھے پر سے پسینے کے قطروں کو صاف کرتے ہوئے ٹارچ کو سامنے موجود ٹیبل پر رکھا اور پھر سے دوبارہ زینی کی طرف آ گیا۔اور پھر گہرا سانس بھرتے ہوئے اس نے نیچے جھک کر زینی کے نرم و نازک وجود کو اپنے کسرتی بازوؤں میں اٹھایا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ٹارچ کی مدھم نیلی روشنی میں اذلان کا چہرہ اس وقت سپاٹ لگ رہا تھا۔
زینی کی تیزی سے مدھم ہوتی دھڑکنوں کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ اذلان کے چہرے کے تاثرات کو ازحد سنجیدگی کا رخ دے رہی تھی۔
اس نے جلدی سے اپنے کمرے میں آتے ہی بیڈ پر زینی کو لٹا کر ٹارچ کو سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور پھر پھرتیلے انداز سے الماری سے دو تین کمفرٹر ایک ساتھ نکال کر زینی پر اچھے سے ڈال دیئے۔اس کے بعد وہ بھاگ کر کچن میں آیا اور جلدی سے پانی کی بوتل فریج سے نکال کر کمرے میں آنے کے بعد زینی کو چمچ سے بار بار پانی پلانے کی کوشش کرنے میں لگا ہوا تھا۔
اس وقت اس کو خود پر شدید غصہ آ رہا تھا آج صرف اور صرف اس کی لاپرواہی کی وجہ سے زینب کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ پریشانی کے مارے اس کے ماتھے پر بار بار پسینہ آ رہا تھا۔ کچھ ہی منٹوں میں وہ گھن چکر بنا ادھر سے ادھر پھر رہا تھا۔
“اوں۔۔ہ۔۔ہوں۔۔”جیسے ہی اس کے حلق سے پانی کے چند قطرے نیچے اترے کچھ ہی سیکنڈز کے بعد زینی کے منہ سے ہلکی سی کراہ نما آواز نکلی جس پر اذلان نے باقاعدہ اونچی آواز میں گہرا سانس لیا اور پھر زینب کے چہرے پر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پھیلا کر اس کا ٹمپریچر چیک کیا۔
اس کی زینی کے متعلق کچھ دیر پہلے کی سوچوں کے بالکل برعکس نجانے کیوں اس وقت اذلان کا دل اپنی زندگی کو اندھیرے سے بھر دینے والی لڑکی کی آنکھوں کی پہلی سی چمک اور روشنی دیکھنے کو بار بار مچل رہا تھا۔
اذلان ابھی تک زینی کی موندی آنکھوں کو ہی ساکت نگاہوں سے دیکھے جا رہا تھا تبھی اسے زینی کے وجود میں ہلکی سے رمق محسوس ہوئی اس لیئے وہ بےاختیار ہی زینی کے چہرے سے ہاتھ ہٹاتا فورا بیڈ سے اٹھ کر مضطرب انداز میں کھڑکیوں کے پردے ایک سائیڈ پر کرنے لگا تاکہ کمرے میں تھوڑی دن کی روشنی آ سکے۔
ابھی وہ پردے کو ہاتھ سے ہٹانے ہی لگا تھا کہ کمرہ ایک ہی سیکنڈ میں پوری طرح روشنیوں سے نہا گیا۔
زینی جو اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتی ہوئی سر کو تکیے سے اٹھانے کی ناکام کوشش کر ہی رہی تھی کہ اچانک کمرے میں اتنی روشنیوں کو چلتے دیکھ کر اسکی آنکھیں چند پل کیلئے چندھیا سی گئیں۔
“لیٹی رہیں آپ۔۔!! کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر آ رہا ہے آپ کا چیک کرنے۔۔”
اذلان نے اپنا رخ واپس موڑا تو زینی کو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر واپس اٹھتے دیکھا تو اسے ایک نظر بغور دیکھنے کے بعد نرم لہجے میں اسے یونہی بیڈ پر لیٹنے کا کہا تھا جس پر وہ تھوڑا سا اٹھ کر پھر سے لیٹ گئی۔
اسوقت اس کے ہاتھوں کی نرم گداز ہتھیلیاں اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کی پیشانی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کئے ہوئے تھیں کیونکہ اب نقاہت اور کمزوری کے باعث اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔
اس سے پہلے کہ اذلان اسے اسکی طبیعت کے بارے میں کچھ اور پوچھتا تبھی اسے ڈور ناک ہونے کی آواز اپنی سماعتوں میں سنائی دی اور پھر وہ الٹے قدموں سے چلتا ہوا ڈاکٹر کو اندر روم میں ہی لے آیا تھا کیونکہ وہ کچھ ہی دیر پہلے اپنے فیملی ڈاکٹر کو فورا گھر پر آنے کا میسیج سینڈ کر چکا تھا۔
“اذلان بیٹے۔۔!! میں نے آپ کی وائف کو ایمرجنسی ڈوز لگا دی ہے اور ساتھ میں کچھ میڈیسن بھی لکھ دی ہیں۔۔آپ بہت جلد یہ کسی نزدیکی میڈیکل سٹور سے منگوا لیجیئے۔۔”ڈاکٹر نے کمپلیٹ چیک اپ کے بعد زینی کو سکون کا انجیکشن بھی لگا دیا اور پھر انہوں نے روم سے باہر آ کر اذلان کو اک سفید چٹ ہاتھ میں تھما دی جس پر اذلان نے “تھینک یو انکل۔”کہہ کر اثبات میں سر ہلانے کے ساتھ ساتھ وہ چٹ پاس ہی مؤدب انداز میں کھڑے اشفاق کے ہاتھ میں تھما دی جس پر وہ فورا تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا میڈیسن لانے کیلئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
“اذلان بیٹے۔۔! مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کہنی تھی۔۔”ڈاکٹر نے کوریڈور میں اذلان کے ساتھ ساتھ دھیمی چال چلتے ہوئے اس کو سنجیدہ اور نرم لہجے سے مخاطب کیا جس پر اذلان کے بڑھتے قدموں کو فورا بریک لگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جی جی انکل۔۔!پلیز آپ بلاجھجھک بتائیں۔۔کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔؟”اذلان کو لگا شاید ان کا کوئی فیملی یا فنانشیل ایشو ہے جس کے بارے میں وہ اسپیشلی اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
“مجھے آپکے ہزبینڈ وائف کے پرسنل میٹرز میں مداخلت تو نہیں کرنی چاہیئے تھی لیکن بیٹے۔۔۔”ڈاکٹر کے ان الفاظ پر اذلان کے چہرے کے تاثرات یکلخت تبدیل ہو گئے تھے جو ڈاکٹر کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکے تھے۔۔۔
“انکل۔۔!!آپ یہ۔۔۔”اذلان کے لہجے کی سنجیدگی اور اسکا تیزی سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے کچھ ہی فاصلے پر موجود صوفے پر بیٹھنے کا کہا جس پر اذلان بادل ناخواستہ ان کے ساتھ آ کر مضطرب انداز میں بیٹھ گیا۔اسے اپنی پرسنل لائف کسی کے ساتھ بھی ڈسکس کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔اسے عجیب سی کوفت ہو رہی تھی جو اسوقت کسی حد تک اس کے چہرے سے بھی عیاں ہو رہی تھی۔
“میں آپکی مینٹلی کنڈیشن سمجھ سکتا ہوں اذلان۔۔لیکن ایک ڈاکٹر اور آپکے انکل ہونے کے ناطے آپکو بتانا میرا فرض ہے۔۔”ڈاکٹر اقرار کی اتنی لمبی تمہید باندھنا اذلان کو کسی حد تک گہری سوچوں میں مبتلا کر چکا تھا۔۔۔کیونکہ وہ اذلان کی ایمرجنسی میں کی گئی شادی کی وجوہات سے پوری طرح واقفیت رکھتے تھے۔
” اس وقت آپکی وائف کو کسی شدید مینٹلی سٹریس کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اس قدر بری طرح ڈیپریشن کا شکار ہیں۔۔”ڈاکٹر اقرار کے منہ سے لفظ”ڈیپریشن”سن کر بےاختیار ہی اذلان کا سر ازحد شرمندگی کے مارے تھوڑا نیچے جھک گیا تھا۔
“اس لیئے بہتر یہی ہوگا کہ آپ انہیں کسی طرح ریلیکس رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ اس عمر میں اتنا زیادہ سٹریس میں نے عموما کبھی نہیں دیکھا۔۔”ڈاکٹر اقرار نے اذلان کے جھکے شانے پر نرمی سے ہاتھ رکھا تو وہ خود کے اعصاب پر قابو پاتا ہوا پھر سے انکی طرف متوجہ ہوا تھا۔
” ان کی ہیلتھ کو ٹھیک رکھنے کے لیے انہیں جتنا ہو سکے اتنا مینٹلی طور پر کمفرٹیبل کروائیں۔۔۔ ان کا پر سکون رہنا ان کی صحت کے لئے بہت اچھا ثابت ہوگا۔۔اس طرح وہ بہت جلدی ریکور بھی ہو جائیں گی۔” ڈاکٹر نے اپنے مخلصانہ مشورے سے اذلان کو نوازا کیونکہ انہیں وہ دونوں میاں بیوی کے جیسے رشتے کے برعکس ایک دوسرے سے کافی الگ تھلگ سے رہتے محسوس ہو رہے تھے۔
“آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔زیادہ فکر نہیں کرو۔۔ہمم۔۔؟؟” ڈاکٹر اقرار اذلان کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ وہ سکندر صاحب کے قریبی دوستوں میں سے ہی ایک تھے۔ اس لئے انہیں پتا تھا کہ اذلان ان کی بات کا برا نہیں مانے گا اس لئے رسان سے سمجھانے کے بعد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرم لہجے میں تسلی بھی دی تھی۔
جس پر جوابا اذلان صرف ہلکا سا مسکرانے پر ہی اکتفا کر سکا تھا۔
چند ضروری ہدایات کے بعد اقرار انکل نے اذلان سے واپسی کی اجازت طلب کی اور وہاں سے چلے گئے۔
ڈاکٹر کو داخلی دروازے تک چھوڑنے کے بعد اذلان پریشان انداز میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا گھر میں واپس آ رہا تھا۔
اسوقت اس کے ذہن پر گہری سوچوں کے بادل چھائے ہوئے لگ رہے تھے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کے آپسی رشتے کی وجہ سے زینب اس قدر مینٹلی سٹریس لے رہی ہے۔۔سٹریس میں تو وہ خود بھی تھا مگر وہ ایک مرد تھا اس لیے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کی وجہ سے ہر بڑی سے بڑی پریشانی آرام سے برداشت کر رہا تھا۔لیکن اس سب کی وجہ سے زینب کی حساس طبیعت پر کتنا گہرا اثر پڑ رہا ہے اس کا اندازہ اسے آج ڈاکٹر کی باتوں کے بعد سے ہو رہا تھا۔
“اتنی خراب طبیعت میں تو باہر کا کھانا ان کے لئے صحیح نہیں ہو گا۔۔”اذلان نے کچھ دیر بعد اپنے سر کو نفی میں جھٹک کر سوچوں سے آذاد کیا اور خود کمرے میں واپس آ کر زینی کو غنودگی کی حالت میں سوتے ہوئے دیکھا تو سیدھا کچن میں آگیا۔کیونکہ اب اسے اپنے ہاتھوں سے زینب کیلئے کچھ ہلکا پھلکا سا ناشتہ تیار کرنا تھا۔
اور پھر اس نے فریج میں سے ایک انڈہ نکال کر فرائی کیا اور پھر دو سلائس کو گرم کرکے ایک ڈش میں پانی اور ڈاکٹر کی بتائی گئی میڈیسن ترتیب سے رکھنے لگا تھا۔
“اس بار میرے ذہن سے پتا نہیں یہ کیسے سلپ ہو گیا۔۔۔یہاں آنے سے پہلے ہی مجھے نوری آنٹی کو فون کر دینا چاہیئے تھا۔”اذلان اپنا شیف گاؤن اتارنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آواز میں بڑبڑا بھی رہا تھا۔
نوری آنٹی اذلان کی شیف تھیں۔۔ اذلان جب بھی یہاں کراچی آتا ان دنوں نوری آنٹی کو کچن کے کام کیلئے بلا لیتا تھا۔ باقی کے سارے دنوں کی تنخواہ انہیں ہر مہینے لازمی مل جاتی تھی بھلے ہی وہ یہاں کوئی کام کریں یا نہ کریں۔
اذلان نے انہیں مزید کسی کے گھر بھی کام کرنے سے صاف منع کر دیا تھا۔وہ انکی اور انکی بارہ سالہ نواسی کی ہر ضرورت بنا ان کے کچھ بھی کہے خود ہی پوری کر دیا کرتا تھا۔اس لئے نوری آنٹی بھی اذلان کو اپنے بیٹوں سے بھی بڑھ کر چاہتیں اور اس کا ہر کام بخوشی خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتیں تھیں۔اشفاق اپنا ناشتہ خود ہی بنا لیا کرتا تھا اس لئے نوری آنٹی آجکل چھٹی پر تھیں۔اشفاق نے تو ناشتہ وغیرہ بنانے کی اجازت مانگی تھی مگر اذلان نے اشفاق کو کہنے کی بجائے خود بنانے کو ترجیح دی۔ اشفاق اس کی بیوی کیلئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنائے اس کے دل کو یہ اقدام کچھ مناسب نہیں لگ رہا تھا اس لیے اس نے اسے صاف منع کر کے واپس بھیج دیا تھا۔اور ویسے بھی اذلان کی ازلی پوزیسیسیونیس اس بات کی کہاں اجازت دیتی تھی۔۔???
اذلان جب ناشتہ تیار کر چکا تو پھر وہ شیف گاؤن اتارنے کے بعد ڈش لے کر اپنے اور زینب کے مشترکہ کمرے کی طرف چل دیا تھا۔
“زینب۔۔۔!!! آپ پہلے ناشتہ کر لیں پھر اس کے بعد میڈیسن بھی لینی ہے آپ کو۔۔”اذلان نے نیم سوئی جاگی کیفیت میں مبتلا زینب کو شانوں سے تھام کر اپنے ہاتھ کا سہارا دیتے ہوئے دو تکیوں کے ساتھ ٹیک لگوا کر سیدھا بٹھا دیا تھا۔ اس کی آنکھیں ابھی ابھی غنودگی کے باعث بار بار بند ہو رہی تھیں۔
اذلان ایک پل کے لیے اس کو ساکت نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا تھا کیونکہ ایک دو دن کے اندر اندر ہی اس کا چہرہ کتنا پژمردہ اور بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے پپوٹے نیچے سے ابھر کر تھوڑی سوجن کا شکار لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
نیند کے ہیوی انجیکشن اور کمزوری کے باعث اس کے ہاتھ بار بار کپکپا رہے تھے۔
“رکیں آپ۔۔!میں کھلا دیتا ہوں۔۔”اذلان نے زینی کے لرزاہٹ کا شکار ہوتے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے نرمی سے پیچھے کیا اور پھر خود اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر زینی کو کھلانے لگا جس کو آنکھیں بند کیے وہ بنا کچھ کہے اذلان کا حکم سمجھ کر بڑی مشکل سے چبا رہی تھی۔
اس کے سر میں ابھی بھی درد ہو رہا تھا۔ درد کی شدت کے باعث چپکے سے اس کی آنکھ کے کنارے سے آنسو نکل کر اذلان کے دائیں ہاتھ کی پشت کو بگھو گئے تھے جو اس وقت اپنا چہرہ نیچے جھکائے نوالہ بنانے میں مصروف تھا اچانک اپنے ہاتھ پر کچھ نم سا محسوس ہونے پر چونکتے ہوئے اپنا جھکا سر اٹھا کر زینب کو دیکھنے لگا جو اسوقت اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے شدت سے دبا رہی تھی۔
“زیادہ درد ہو رہا ہے۔۔؟؟” اذلان نے زینی کی چہرے پر تکلیف کی شدت کے آثار ظاہر ہونے پر اس کو زرد پتے کی طرح خشک پڑتے دیکھا تو بے اختیار ہی ٹشو سے اپنے ہاتھ صاف کرنے کے بعد اس سے ازحد فکرمند لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔
لیکن زینی کے منہ سے کوئی بھی جواب نہ پا کر اذلان نے بے اختیار ہی اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو پوری طرح ڈھانپے اسکے ہاتھ ہٹا دیئے مگر وہ اذلان کے لمس پر اپنی بھیگی اور پرنم نگاہوں سمیت اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد خود کے اعصاب پر قابو نہ پاتے ہوئے پھر سے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر شدت سے رو دی۔اس بار نہ چاہتے ہوئے بھی اذلان کا دل زینی کے اس طرح شدت سے رونے پر پھٹ سا گیا تھا۔۔۔۔
“ریلیکس زینب۔۔!!آپ یہ پانی کے ساتھ میڈیسن لیں۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کچھ ہی دیر میں اس سے سر کا درد غائب ہو جائے گا اور پھر آپ پوری طرح ٹھیک ہو جائیں گی۔۔” اذلان نے بمشکل اپنی نگاہیں زینی کے آنسؤوں سے تر چہرے سے ہٹائیں اور پھر اسکے گال کو کسی چھوٹے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے جلدی سے پانی کا گلاس پکڑ کر اس کو میڈیسن تھمانے لگا۔
زینب نے اذلان کی پوری بات سن کر اپنی انکھ کے کنارے سے بہتے آنسو اپنی ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے کپکپاتے ہاتھوں سے میڈیسن پکڑ کر منہ میں رکھ لی اور پھر تھوڑا سا پانی پی کر پھر سے تکیے پر سر رکھ کر واپس لیٹ گئی تھی کیونکہ اس سے ابھی صحیح سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ اس کا پورا وجود بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار لگ رہا تھا۔
اذلان نے اب بیڈ سے اٹھتے ہوئے دوبارہ اس پر کمفرٹر ڈال کر لائٹ آف کر دی تاکہ وہ ریسٹ کرلے مگر فوراً ہی اسے زینی کی پرنم آواز اپنی سماعتوں میں سنائی دی تھی۔
“ل۔ لائٹ۔ٹ بند نہیں کریں پلیز۔ز۔۔ پچھلے پندرہ گھنٹوں سے اندھیرے میں رہ رہ کر ہی میری طبیعت۔۔” زینی کی اذیت سے بھری آواز سن کر اذلان کا بڑھا ہوا کچھ دیر تک ہوا میں ہی معلق رہ گیا تھا کہ اس کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ جب سے اسے گھر چھوڑ کر گیا ہے تب سے ہی زینب اس اذیت سے دوچار ہے۔
بات کے آخر میں زینب کی آواز حلق میں آنسؤوں کا گولہ اٹک جانے کی وجہ سے اذلان کو تھوڑی بھاری اور زکام ذدہ سی لگ رہی تھی۔
اذلان کے چہرے پر شرمندگی کی جھلک نمایاں ہونے لگی تھی۔اس نے اپنے بائیں ہاتھ کی مٹھی سختی سے بھینچی اور دائیں ہاتھ سے کمرے کی ساری لائٹس دوبارہ آن کر دیں۔۔
“میں نے ساری لائٹس آن کر دی ہیں۔۔اب آپ آرام سے سو سکتی ہیں۔”اذلان نے اس کی طبیعت کے پیش نظر اسے ریسٹ کرنے کا کہا اور پھر دروازہ تک کھلا چھوڑ کر ویسے ہی باہر آ گیا۔تاکہ زینب کو اس کمرے میں کسی قسم کا کوئی ڈر محسوس نہ ہو۔
کمرے کے دروازے کے باہر تقریبا پانچ یا چھ فٹ کے فاصلے پر ایک ڈبل سیٹڈ صوفہ تھا جس پر آ کر اذلان تھکے ماندے انداز میں بیٹھتے ہوئے اپنی آنکھیں موندے سر کو صوفے کی پشت پر ٹکا گیا تھا۔
“اگر میری اس لاپرواہی کی وجہ سے زینب کو کچھ بھی ہو جاتا تو۔۔۔”اذلان کو اندر سے اپنی ہی آواز اک سوال بن کر سنائی دی جس پر اس کی آنکھیں اک انجانے احساس کے تحت جھٹ سے کھل گئیں تھیں۔اس کی آنکھیں رتجگے اور شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے حد سے زیادہ سرخی بھر گئیں تھیں۔اب وہ اپنا سر ہاتھوں میں تھامے گہری سوچوں میں مبتلا ہو چکا تھا۔
اذلان نے خود بھی کل دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا لیکن زینب کی ابتر حالت دیکھ کر اس کی بھوک سرے سے ہی اڑن چھو ہو چکی تھی۔اس کا کچھ بھی کھانے کو تو کیا پانی تک پینے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا۔
کچھ دیر زینی اور اپنی سوچوں میں محو رہنے کے بعد اذلان کا دھیان عفان اور ایان کی طرف گیا تھا کیونکہ سرپرائز دینے کے چکر میں اس نے یہاں کراچی آنے سے پہلے ان دونوں کو ہی انفارم نہیں کیا تھا۔ اور یہاں گھر پر واپس آتے ہی زینب کی اتنی خراب طبیعت دیکھ کر اذلان کو ان سے بات کرنے کا بالکل بھی وقت نہ ملا تھا۔
?????
“شمسہ رکو۔۔! میں بھی آ رہی ہوں۔۔” سنی اپنے دوستوں کے گروپ کے ساتھ کوریڈور میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا کہ اچانک کسی لڑکی کے منہ سے “شمسہ” نام کا ذکر سن کر اسے دور سے آتی دو لڑکیاں دکھائی دیں۔ ایک اس سے تھوڑا آگے چل رہی تھی جس نے چہرے پر مکمل حجاب اوڑھ رکھا تھا اور دوسری اس کے پیچھے پیچھے آتی تقریبا تیز تیز قدموں سے بھاگ کر اس کے پاس آ رہی تھی۔
“شمسہ۔۔!! یہ تم ہو۔۔؟؟؟”سنی اس حجاب والی لڑکی کو بغور دیکھنے کے بعد شمسہ کی آنکھوں کے منفرد ڈارک براؤن رنگ سے ہی اس کو پہچان پایا تھا ورنہ اس نے چہرے پر تو مکمل پردہ کر کے اسے اچھے سے کور کیا ہوا تھا۔۔
اس لیے وہ بھی تیز قدموں سے بھاگتے ہوئے اچانک اس کے راستے کے آگے حائل ہو کر اسے حیرت سے بھری نگاہوں سے سرتاپا دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
شمسہ اس کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر ایک پل کیلئے حواس باختہ سی ہو گئی تھی۔وہ ماسک مین کے خوف سے اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی مگر پھر کیا کرتی یونیورسٹی تو آنا ہی تھا۔ اس لئے آج کتنے دنوں بعد اپنی ہمت مجتمع کر کے آئی تھی مگر یہاں آتے ہی اس کا سنی سے ٹکراؤ ہو گیا تھا۔
اس کا دل اطراف میں نگاہ گھماتے شدت سے دھڑک رہا تھا۔نجانے کیوں اسے بار بار ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ماسک مین کی سرد نگاہیں اسے آس پاس کہیں نہ کہیں دیکھ رہیں ہیں۔
“یار شمسہ۔۔!! تم نے اپنا موبائل کیوں آف کر رکھا ہے۔۔؟؟
” میں اتنے دنوں سے تمہیں کال کر کر کے تھک چکا ہوں مگر ہر بار تمہارا نمبر ہی سرے سے آف مل رہا تھا۔۔”
“کیا ہوا تمہیں۔۔؟؟سب خیریت تو ہے نا۔۔؟؟” سنی اب اس سے اپنے مخصوص دلفریب انداز میں ہی بات کر رہا تھا۔ تبھی شمسہ غیر محسوس انداز میں اس سے اپنا فاصلہ بڑھاتی تھوڑا پیچھے ہٹ گئی تو سنی کو شمسہ کا یہ اقدام اندر ہی اندر کچھ ناگوار سا گزرا اس لئے سوالیہ انداز میں اپنے ہاتھ گھماتے ہوئے اس کا چہرہ یک ٹک نگاہوں سے بغور دیکھنے لگا تھا۔
“وہ۔۔سنی وہ میرا دل نہیں کرتا موبائل یوز کرنے کا اس لیے پاورآف کر کے رکھ دیا ہے۔۔” شمسہ نے اپنے جھکے سر کے ساتھ سرگوشی نما انداز سے اسے بتایا اور پھر تیز تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگی مگر سنی پھر اس کے راستے میں حائل ہو گیا تھا جس پر شمسہ کے قدموں کو اچانک بریک لگانا پڑی ورنہ ان دونوں کی ٹکر لازمی تھی۔
سنی کی یہ حرکت شمسہ کو اندر ہی اندر تلملانے پر مجبور کر گئیں تھی۔اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ سخت سست سناتی تب تک شمسہ کی دوست بھی وہاں آ گئی۔ وہ ان دونوں کے اس بڑھتے تعلق کو اچھے سے جانتی تھی اس لئے یہاں آکر کسی مجسمے کی طرح چپ سادھ کر کھڑی رہ گئی۔
“آؤ نا شمسہ پلیز۔۔!! کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔۔۔میں تمہیں بتا نہیں سکتا میں آج کتنا خوش ہوں تمہیں یہاں اپنے سامنے دیکھ کر۔۔۔میں تو۔۔” سنی اپنے مکر کو چالو رکھتے ہوئے جان لٹانے کے انداز میں کہتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ فرط محبت سے تھامنے لگا جس پر شمسہ تیز لہجے میں بولتی ہوئی فورا وہاں سے چلی گئی تھی۔
” سنی۔۔!! ہماری کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے میں چلتی ہوں۔۔”شمسہ کی نظر اندازی نے سنی کو اندر ہی اندر تپ سی چڑھا دی تھی۔اس کا انداز صاف جان چھڑانے والا لگ رہا تھا۔
پہلے تو شمسہ کے حجاب نے اس کو حیرت زدہ کردیا تھا مگر اب شمسہ کے اجنبیت اور بیگانگی سے بھرے رویے نے اس کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
وہ وہیں کھڑا کچھ دیر تک اس کی پشت کو سخت نگاہوں سے گھورتا رہا اور پھر وہ نفی میں سر جھٹکتے وہاں سے چل کر اپنے دوستوں کے پاس آکر ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف ہوگیا لیکن بار بار اس کا دھیان شمسہ کے بدلتے رویے اور اس کے ہر ایک بدلتے انداز پر جا رہا تھا جس میں سے ایک اس کا حجاب اوڑھنا بھی شامل تھا۔
?????
فاطمہ عفان کے روم سے سیدھا انیکسی کے اندر جانے کی بجائے لان میں موجود جھولے پر آ کر شکستہ انداز میں بیٹھ چکی تھی۔ ماضی کے گھنیرے بادل عثمان کی یادوں کی صورت میں اس پر بری طرح چھا گئے تھے۔ وہ انہی سوچوں کے بھنور میں پھنسی ماضی کی یادوں میں کہیں گم ہو گئی تھی۔
“السلام علیکم بابا۔۔!!” اختر صاحب اور سونیا بیگم لاؤنج میں اس وقت شمسہ کے ساتھ ہی آرام دہ انداز میں صوفے پر بیٹھے ہلکی پھلکی گپ شپ کر رہے تھے کہ اچانک عثمان کی سوبر سی آواز سن کر سب کے سر پیچھے کی طرف مڑ گئے تھے جہاں عثمان اپنی نیم خوبصورت مسکراہٹ سمیت ایک شرمیلی سی لڑکی کے ساتھ لاؤنج کے دروازے کے وسط میں کھڑا ہوا تھا۔
“عثمان بھائی۔۔!!! آپ۔۔۔؟؟”
” میں نے آپ کو ان دنوں اتنا مس کیا۔۔ اس بار تو آپ نے آنے میں کافی ٹائم لگا دیا۔۔”شمسہ نے بھاگ کر آتے ہوئے عثمان سے گلے ملنے کے ساتھ ساتھ شکوہ بھی کیا اور اب اس کی نظر اپنے بھائی کے بالکل ساتھ کھڑی لڑکی کی طرف اٹھ گئی تھی جو ان سب کو دیکھ کر تھوڑا گھبراہٹ کا شکار ہوتے بار بار اپنا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔
“ارے عثمان۔۔!! تمہارے ساتھ یہ لڑکی کون ہے۔۔؟؟” سونیا بیگم بھی اس انجان لڑکی کو اپنے گھر پر دیکھ کر چونک گئی تھی کیونکہ عثمان تو ابھی بھی وہیں شمسہ کے پاس ہی کھڑا اس سے مل رہا تھا مگر ایمان فاطمہ نے آگے بڑھتے ہوئے اختر صاحب کے آگے شائستگی سے جھک کر سلام کیا تھا جس پر اختر صاحب نے بھی مجبوری میں ہی سہی مگر دھیمے سے مسکرا کر اس کے سر پر پیار دیا اور اس کے سلام کا جواب دے کر وہیں کھڑے ہوگئے تھے۔
فاطمہ اب سونیا بیگم سے مصافحہ کر رہی تھی جس پر بادل ناخواستہ سونیا بیگم نے بھی اسے تھوڑا سا اپنے ساتھ لگا کر واپس چھوڑ دیا اور پھر وہ اپنی حیرت پر تھوڑا قابو پاتے ہوئے سیدھا عثمان سے ہی مخاطب ہوئیں تھیں کیونکہ انہوں نے بچپن سے ہی عثمان کے لبوں سے آج تک کسی بھی لڑکی کا ذکر نہیں سنا تھا اور اب تو وہ سیدھا گھر ہی لے آیا تھا یہ بات انہیں اندر ہی اندر بری طرح چونکنے پر مجبور کر گئی تھی۔
شمسہ بھی غیر یقین انداز سے اپنے بھائی کو ہی دیکھے جا رہی تھی جو چپ چاپ کھڑا سب کے چہروں کے تاثرات جانچنے کی سعی کر رہا تھا۔
“شمسہ بیٹے۔۔!! یہ آپکی بھابھی ہیں۔۔۔ایمان فاطمہ۔۔۔”فاطمہ اب واپس عثمان کے ساتھ ہی کھڑی ہو گئی تھی جس پر عثمان نے اس کا ہاتھ نرمی سے تھام کر اپنی نیم مسکراتی آواز میں کہتے ہوئے سب پر حیرت کا اک نیا بم پھوڑ دیا تھا ماسوائے اختر صاحب کے جو اس لڑکی کو عثمان کے ساتھ کھڑا دیکھتے ہی فورا پہچان گئے تھے کہ ہو نہ ہو یہ لڑکی ضرور عثمان کی بیوی ہی ہو سکتی ہے۔
“کیا۔۔؟؟؟بھابی۔ی۔ی۔۔۔!!!” شمسہ اور سونیا بیگم کے منہ سے یک بستہ حیرت سے بھری آواز ابھر کر لاؤنج کی ساکت فضا میں گونج کر رہ گئی تھی۔
“عثمان۔۔!!بھابھی ہی کہا نا تم نے۔۔؟؟” سونیا بیگم نے اب کی بار ایک نظر فاطمہ کو سرتاپا دیکھتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے پوچھا جس پر عثمان نےاپنی جھکی نگاہوں سمیت “جی” کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
“بھائی آپ نے شادی کرلی اور مجھے بتایا بھی نہیں۔۔؟؟”شمسہ نے عثمان کو دیکھتے ہوئے اپنی مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا۔
” دیٹس ناٹ فئیر بھائی۔۔ آپ نے اتنی پیاری من موہنی سی بھابھی کو ہم سے چھپا کر رکھا۔۔!!” شمسہ نے اب نیا رشتہ جاننے کے بعد آگے بڑھتے ہوئے فاطمہ کو پرجوش انداز میں دوبارہ گلے لگایا جس پر فاطمہ اس کے اس معصومانہ انداز پر مسکرائے بنا نہ رہ سکی تھی۔
“ایم رئیلی سوری بیٹے۔۔!!میں نے بابا کو فون کیا تھا مگر انہوں نے۔۔۔”عثمان نے شمسہ کو منانے کی کوشش کرتے ہوئے شکوہ کناں نگاہوں سے اب کی بار اختر صاحب کو ایک نظر دیکھا جس پر وہ سب کے سامنے تھوڑا شرمندہ دکھائی دے رہے تھے۔
“قصور تو شاید صرف اس کا تھا۔۔۔اس کی وجہ سے مجھے عثمان کے ساتھ ایسے بی ہیو نہیں کرنا چاہیے تھا مگر اب کیا کروں۔۔۔اب تو صاف انداز میں وہاں آنے سے انکار بھی کر چکا ہوں۔۔” اس دن بھی عثمان سے بات کرنے کے بعد وہ کافی دیر تک یہی سب سوچتے ہوئے اندر ہی اندر اپنے اس رویے پر خود کو سختی سے ملامت کرتے رہے تھے مگر اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے تھے۔لیکن اس دن کے بعد سے ہی وہ اندر ہی اندر ایک عجیب سی گھٹن کا شکار ہو رہے تھے جس کی وجہ وہ اب تک خود بھی جاننے سے قاصر تھے۔
اگر کسی رشتے میں ایک دوسرے کی فکر اور عزت کی پرواہ کی بجائے ضد،انا،بغض،عناد اور ہٹ دھرمی اپنی جگہ بنانے لگیں تو خود ہی سمجھ لیجیے اس میں محبت اور خلوص کی پائیدار اینٹوں کی مضبوط بنیادیں وقت کی اشد ضرورت ہے وگرنہ اس کو گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا کیونکہ کسی کمزور رشتے کو اپنی دانشمندی سے سنبھالا دینے کی بجائے حالات کے حوالے کر کے ٹوٹنے کیلئے چھوڑ دینا عقلمندی کی علامت نہیں ہے۔یہ عادت تو سراسر حماقت ذدہ لوگوں کی خصلت میں شامل ہوتی ہے جو کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے ہی شکست مان کر اس کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
“ارے آپ لوگ ابھی تک ایسے ہی کھڑے ہیں۔۔آآیئے نا پلیز۔۔۔!!”شمسہ بھاگ کر کچن میں موجود ملازمہ کو لوازمات تیار کرنے کا کہہ کر واپس آئی تو ان دونوں کو ہنوذ وہیں لاؤنج میں ہی اختر صاحب کے پاس کھڑے دیکھ کر خوش دلی سے فاطمہ کو ویلکم کرتے ہوئے باقاعدہ اس کا ہاتھ تھام کر لاؤنج کے اندر لے آئی۔
زاویار بھی اچانک گھر میں غیر معمولی شور گونجتا سن کر سیڑھیوں کے زینے اترتا ہوا نیچے لاؤنج میں آ گیا۔
“السلام علیکم۔۔!!”زاویار عثمان سے زیادہ بات تو نہیں کرتا تھا مگر سلام دعا اس کے بڑے ہونے کی وجہ سے ہمیشہ پہلے ہی کیا کرتا تھا۔
“وعلیکم السلام۔۔!! کیسے ہو زاویار۔۔؟؟”عثمان نے آگے بڑھ کر اسے فرط محبت سے خود میں بھینچ کر زور سے گلے لگایا تھا جس پر وہ کوئی خاص رردعمل ظاہر نہ کر سکا۔ اس نے سلام کے علاوہ فاطمہ کو بھی دوبارہ خود سے مخاطب نہ کیا تھا۔
“جی میں ٹھیک ہوں۔۔congratulations ..for your wedding “زاویار بھی شمسہ کے منہ سے بھابھی کا ذکر سن کر اپنی پھیکی مسکان سمیت عثمان کو مبارکباد دینے لگا۔
“تھینکس یار۔۔!!” عثمان نے دوبارہ اس کو گلے ملتے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا۔اس کے تمام تر خشک اور سرد رویوں کے باوجود عثمان اسے ہمیشہ کسی چھوٹے بچے کی طرح ہی ٹریٹ کیا کرتا تھا۔
اچھے اخلاق والوں سے تو ہر کوئی خوش اخلاقی سے ہی پیش آتا ہے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔۔۔۔آپ کے اخلاق کے اعلی ترین ہونے کا ثبوت تب ملتا ہے جب آپ کسی کی سرد مہری اور اس کے اکھڑ مزاج کے باوجود اس سے مسکرا کر بات کریں۔اس کی دل سے عزت کریں۔۔اس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد اس کے خلاف آپ کے دل میں کوئی بھی بدگمانی اپنی جگہ نہ بنائے۔۔۔۔۔
سب کو لگتا ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تو ناممکن سی بات ہے لیکن ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشکل ترین امر کا بھی عملی نمونہ پیش کر کے دکھایا۔حضرت محمد خاتم النبیین کا اسوہ حسنہ ہی اعلی ترین اخلاق کا عملی نمونہ ہے۔
“آپ لوگ بیٹھیں۔۔ میں چلتا ہوں۔۔ مجھے دوستوں کے ساتھ باہر کسی ضروری کام سے جانا ہے۔۔”زاویار جو عثمان کے اس قدر سچی پرخلوص محبت پر کچھ دیر کیلئے نرم پڑتے ہوئے آہستگی سے مسکرا رہا تھا۔عین اسی وقت اس کی نگاہ اپنی مام کے چہرے پر جا کر چند پل کیلئے ٹھہر سی گئی۔وہ اپنی مام کا تیزی سے بگڑتا ہوا موڈ دیکھ چکا تو فوراً وہاں سے چلا گیا۔
سونیا بیگم کو اس وقت شمسہ پر بھی تاؤ آ رہا تھا جو اپنی مام کے تاثرات سے بےنیاز فورا اس لڑکی کی آؤ بھگت میں لگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ملازمہ نے چائے اور مختلف اقسام کی اسنیکس لا کر سب کو سرو کر دیں۔ عثمان اور اختر صاحب ایک دوسرے کے مقابل صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شمسہ اور فاطمہ عثمان کے ساتھ ہی جڑ کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔ سونیا بیگم سارے لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کچھ دیر کے بعد وہاں سے اٹھ کر چلیں گئیں تھیں۔
اختر صاحب جو ہمیشہ عثمان کے آنے پر اس جگہ سے چلے جایا کرتے تھے مگر آج پتا نہیں کیوں وہ وہاں سے ایک انچ بھی ہل نہیں پائے تھے۔ انہوں نے عثمان سے کچھ کہا تو نہیں تھا مگر آج اسے پہلے کی نسبت نظر انداز بھی نہیں کیا تھا۔
عثمان ان کے اس رویے میں غیر معمولی سی تبدیلی پر بھی دل سے خوش ہو گیا تھا۔آخر کو اس کو یہ چھوٹی سی خوشی بھی تو کتنے سالوں بعد ہی نصیب ہوئی تھی۔
وہ اپنی زندگی میں آئی چھوٹی سی چھوٹی خوشی کی بھی دل سے قدر کرتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کیا کرتا تھا۔کیونکہ شکر کی عادت انسان کیلئے ایک ایسی نعمت ہے جو اس کی خوشیوں میں لگاتار اضافہ کرتی رہتی ہے۔
“فاطمہ۔۔۔!!کیا میں آپ کا میری زندگی میں آنا مبارک سمجھوں پھر۔۔۔؟؟” آج بابا نے کتنے سالوں بعد مجھ سے اپنی ناراضگی تھوڑی کم کی ہے۔۔۔وگرنہ تو۔۔” عثمان نے شمسہ کو کوئی چیز لانے کے لئے وہاں سے اٹھتے دیکھا تو سرگوشی نما آواز میں فاطمہ سے مخاطب ہوا تھا جس پر فاطمہ اس کے چہرے کو پہلے کی نسبت کافی مطمئن دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دی۔۔۔
“انشاء اللہ۔۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔” فاطمہ نے اس کی ادھوری بات کے جواب میں آہستہ آواز میں مخاطب ہوتے ہوئے عثمان سے کہا۔بات کرتے ہوئے ان دونوں کے لب بمشکل ہی ہل رہے تھے۔وہ دیکھ تو آس پاس رہے تھے لیکن باتیں ایک دوسرے سے ہی کر رہے تھے۔
اچانک فاطمہ کی کسی بات پر عثمان کے عنابی ہونٹ پورے دل سے مسکرائے تھے۔عین اسی وقت اختر صاحب کی نگاہ بھی اپنے اس خوبرو،نوجوان بیٹے کی طرف اٹھ گئی تھی جس کو انہوں نے نجانے کتنے سالوں تک خود سے دور رکھا تھا۔ کافی دیر تک وہ بنا پلکیں جھپکائے اپنی پر نم انکھوں سمیت اس کے ہنستے مسکراتے چہرے کو فرط محبت سے دیکھتے رہے تھے۔
“اوکے بابا۔۔!! ہم پھر چلتے ہیں۔۔”اس کے تھوڑی ہی دیر بعد عثمان نے شائستگی سے بھرپور لہجے میں اختر صاحب سے اجازت چاہی تھی جس پر وہ پہلی بار اسے ساکت نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔
جانے کیوں ان کا دل پہلی بار اس کے جانے کی بات پر ایک پل کیلئے دھڑکنا بھول گیا تھا اور وہ بے اختیار ہی ایک جھٹکے سے صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ابھی وہ کچھ کہنے کیلئے اپنے لب وا کرنے ہی لگے تھے کہ ان سب کو شمسہ کی کھنکتی آواز نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
“یہ میں کیا سن رہی ہوں بھائی۔۔؟؟آپ بھابھی کو بس اتنی ہی دیر کے لئے ملوانے لائے تھے۔۔!!”
” ایسے نہیں ہو سکتا اگر آپ زیادہ دیر نہیں رک سکتے تو کم از کم ایک ہفتے کے لیے تو۔۔۔”شمسہ کی اس اپنائیت پر عثمان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی در آئی جس پر اس نے جلدی سے خود کے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے ایک نظر اختر صاحب کو دیکھا اور پھر شمسہ کے سر پر فرط محبت سے پیار کیا۔
“ایم سو سوری بیٹے۔۔!!مگر آپ جانتے تو ہو میں یہاں نہیں رک سک۔۔”عثمان نے شمسہ کو اپنے ساتھ لگا کر اسے پیار سے منانا چاہا مگر شمسہ اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر فورا عثمان سے دو قدم پیچھے ہٹتی منہ پھلا کر گویا ہونے لگی تھی۔
فاطمہ دونوں بہن بھائیوں اس کے اس پیار بھرے رشتے پر دھیرے سے مسکراتے ہوئے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
“کچھ دن کیلئے تو اور رکیے نا۔۔ بھائی پلیز۔۔۔!!”شمسہ کا انداز تھوڑا ملتجیانہ تھا۔ “اگر آج آپ نہیں رکے تو میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔ ہمیشہ کے لیے روٹھ جاؤں گی اور پھر آپ کے سو دفعہ منانے پر بھی نہیں مانوں گی۔۔” شمسہ کے اس لاڈ سے بھرے انداز پر عثمان کی آنکھیں بےاختیار نمکین پانیوں سے بھر گئیں تھیں۔۔۔۔۔
“عثمان۔۔!! شمسہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔”اختر صاحب کی سنجیدہ آواز پر لاؤنج میں موجود سبھی افراد ایک پل کیلئے چونک اٹھے تھے۔
“ت۔ت۔ تم اور فاطمہ بیٹی کچھ دنوں کیلئے تو یہاں رکو۔۔ اگر زیادہ دیر نہیں رک سکتے تو۔۔۔۔”نجانے کتنے سالوں بعد اختر صاحب نے آج عثمان سے کوئی بات کی تھی۔
عثمان کیسے ان کا بڑھایا ہوا ہاتھ نہ تھامتا اس لئے فورا اپنے مخصوص نرم انداز میں “جی بابا جیسے آپ کہیں۔۔”کہہ کر کچھ دنوں کیلئے وہیں رکنے کا ارادہ کر لیا۔
“یہ ہوئی نا بات۔۔” شمسہ خوشی کے مارے چہک اٹھی تھی۔ عثمان نے شمسہ کو اتنا خوش دیکھ کر اس کے سر پر پیار دے کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔
دو دن تک وہ پولیس اسٹیشن بھی نہیں گیا تھا۔ سارے کے سارے کام گھر سے ہی کیا کرتا تھا۔ایمان فاطمہ اور عثمان اختر صاحب کے پہلے کی نسبت بدلتے رویے پر دل سے خوش تھے۔
سونیا بیگم اختر صاحب کے ڈر کی وجہ سے بھلے ہی زبان سے کچھ نہیں کہتیں تھیں مگر انہوں نے آج بھی دل سے ان کو ایکسیپٹ نہیں کیا تھا۔
عثمان اور فاطمہ لاؤنج میں بیٹھے شمسہ کے ساتھ ہلکی پھلکی خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک عثمان کے موبائل کی بیپ کی آواز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔
“فاطمہ۔۔!!مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے۔۔ میں ابھی کچھ دیر میں آتا ہوں۔۔۔”عثمان کے موبائل پر اچانک ایک دھمکی آمیز میسج موصول ہوا تھا جس میں بہت جلد اس کی عزت کو خاک میں ملانے کی دھمکی دی گئی تھی۔
یہ میسیج پڑھ کر اس کی آنکھیں شدید غصے کی وجہ سے اپنا حجم مزید پھیلا گئیں تھیں۔ فاطمہ کو عثمان کے ازحد سنجیدہ تاثرات اور آنکھوں کی بڑھتی سرخی سے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تو اس نے شمسہ کی وجہ سے بنا کچھ کہے ہی فورا اسے سوالیہ نگاہوں سے ایک ابرو اوپر اچکاتے ہوئے پوچھا تھا مگر اس نے آہستگی سے مسکرا کر نفی میں سر جھٹکتے ہوئے فاطمہ کو ریلیکس کیا مگر بتایا کچھ نہیں تھا۔ اور پھر وہاں سے اٹھ کر ڈرائنگ روم میں آ کر کسی سے فون پر سنجیدہ انداز میں بات کرنے لگا تھا۔
” السلام علیکم سر۔۔!!”عثمان جو اسوقت جےڈی سے اس دھمکی آمیز میسیج کے موصول ہونے کا ذکر کرنے ہی لگا تھا لیکن فون کے اسپیکر سے جےڈی کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر وہ کچھ پل کیلئے چونک گیا تھا۔۔۔۔
“جےڈی۔۔!! کیا ہوا۔۔؟؟ کچھ پریشان سے لگ رہے ہو۔۔۔۔۔؟؟” عثمان نے اپنے مسئلے کو بتانے سے پہلے اس کے مسئلہ کو جاننا چاہا۔ وہ بچپن سے ہی ایسے تھا اپنے مسئلے کو چھوڑ کر ہمیشہ دوسروں کا خیال پہلے رکھا کرتا تھا۔
“سر۔۔!! میرے سورسز کی انفارمیشن کے مطابق۔۔۔”جےڈی نے اپنی پیشانی دھیرے سے مسلتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا تھا۔
“ہمم۔۔۔!!کہو جےڈی میں سن رہا ہوں۔۔”جےڈی کا ازحد سنجیدہ انداز دیکھ کر عثمان کو کچھ کھٹکا سا لگا تھا اس لئے وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔
“سر۔۔!!میرا مطلب۔۔میرے سورسز کے مطابق آپ۔پ کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔”جےڈی نے تقریبا ہکلاتے ہوئے اپنی زبان سے یہ الفاظ کتنی مشکل ادا کئے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا۔
جےڈی کے ان الفاظ نے ایک پل کیلئے ڈرائنگ روم کے اندر دھیمی چال چلتے عثمان کے قدموں کو بریک لگا دی تھی۔اس کے دونوں لب آپس میں سختی سے پیوست لگ رہے تھے۔
“سر۔۔!!میری بات مانیں۔۔ آپ کچھ دنوں کے لیے آفس نہیں آئیں گے۔۔ پلیز۔۔۔!!!”جےڈی نے ازحد گھبرائے ہوئے لہجے میں کہتے ساتھ ایک نطر زیان کو بھی دیکھا تھا جو اس وقت اپنا سر ہاتھوں میں تھامے اس کے مقابل کرسی پر کچھ ہی فاصلے پر مضطرب انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔وہ دونوں اس وقت اکٹھے اختر صاحب کے گھر جا کر پرسنلی عثمان سے مل کر بات کرنے لگے تھے کہ تبھی عثمان کا فون آ گیا اور پھر وہ یہیں اس سے بات کرنے لگے تھے۔
“لسن جےڈی۔۔!!ایک ایماندار اور اپنے پیشے سے وفا کرنے والا کوئی بھی آفیسر کسی غنڈے یا پھر کسی بدمعاش سے ڈر کر گھر میں نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔ یہ کس قسم کی فضول بچگانہ باتیں کر رہے ہو تم۔۔؟؟” عثمان جو پہلے ہی اس میسیج پر شدید غصے میں گھرا ہوا تھا اب جےڈی کے منہ سے چھپ کر گھر بیٹھنے کی بات نے اس کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔اس کے چہرے پر کافی عرصے بعد وہی سختی در آئی تھی جس سے اس کی گردن کی رگیں تن کر باہر کو ابھرنے لگیں تھیں۔
“اپنی سیفٹی کیلئے کوئی پیشگی اقدامات اٹھانا ڈر کی بات نہیں ہوتی عثمان۔۔۔”عثمان کے ضدی انداز پر اب زیان سے رہا نہ گیا تو فون کا اسپیکر اونچا ہونے کی وجہ سے وہیں بیٹھے بیٹھے پریشان کن لہجے میں بولنے سے خود کو روک نہیں پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“تم۔۔۔۔!!زیان تم بھی یہاں ہو۔۔۔؟؟تم دونوں اس وقت اکھٹے ہو ضرور کوئی نہ کوئی بہت بڑی بات ہے۔۔ جلدی بتاؤ مجھے۔۔”عثمان کو ان دونوں کا یوں ایک ساتھ اکٹھے ہو کر بات کرنا شدید حیرت میں مبتلا کر گیا تھا۔
“یار۔۔!! وہ ناصر ملک کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔۔”زیان کے منہ سے ناصر ملک کا نام سن کر عثمان نے ضبط کے چکر میں اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی سختی سے بھینچ لی۔۔۔۔۔۔
” اس نے یقینا کچھ بہت بڑا کرنے کا سوچ رکھا ہے۔۔۔ مگر کیا یہ ابھی تک صحیح سے پتہ نہیں چل سکا۔۔۔” جےڈی کی بتائی ہوئی رپورٹ زیان نے ازحد سنجیدہ لہجے میں عثمان کے گوش گزار کر دی۔۔۔۔۔
عثمان نے بھی اب جوابا انہیں انجان نمبر سے موصول ہوئے دھمکی آمیز میسیج کے بارے میں بتا دیا جس پر وہ دونوں ایک پل کے لئے شاک میں آ گئے تھے۔
انہیں بالکل بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ناصر ملک عثمان سے اپنی ذاتی دشمنی کا بدلہ اتارنے کیلئے اس کی فیملی کو بیچ میں لا کر ایسے اوچھے اور گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آئے گا۔۔۔اس بات کا تو انہیں بھی اچھے سے اندازہ تھا کہ فاطمہ کو اس ناصر ملک کی پہنچ سے بھی کافی دور لے جانے پر وہ ایک بپھرے ہوئے زخمی شیر کی مانند اندر ہی اندر تلملا رہا ہے لیکن انہیں اس ناصر ملک جیسے شاطر اور مکار ترین آدمی سے اس قسم کے بزدلانہ وار کی ہرگز توقع نہ تھی۔
“اور باقی رہی میری جان کو خطرے والی بات تو یار تم دونوں مجھے اچھے سے جانتے ہو۔۔ میں موت سے ڈرنے والا انسان ہرگز نہیں ہوں۔”عثمان نے پروفیشنل انداز میں ایک دو باتوں کے بعد اپنے لہجے کو پوری طرح مطمئن ظاہر کیا۔
“لیکن عثمان سر پھر بھی آپ۔۔۔”عثمان کی بات پر بھی جےڈی کے پریشانی سے بھرپور تاثرات میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا تھا اس لئے سنجیدگی سے گویا ہونے لگا مگر عثمان نے آہستگی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کی بات کو بیچ میں ہی کاٹ دیا جس پر جےڈی کو پھر سے خاموش ہونا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“یار جےڈی۔۔! موت اگر لکھی ہے تو وہ گھر پر بھی آ کر ہی رہے گی۔۔۔ کوئی بھی انسان موت کے آگے تن کر نہیں کھڑا ہو سکتا۔۔کسی بھی انسان میں اتنی اوقات کہاں کہ رب کریم کے فیصلوں کے آگے اپنی چلا سکے۔۔”عثمان نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے ان کو رسان سے سمجھانا چاہا تھا۔
” لیکن مجھے اس وقت اپنی نہیں۔۔۔ فاطمہ اور شمسہ کی فکر کھائے جا رہی ہے۔۔۔ کیونکہ رفعت آپا کے بارے میں عموما کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔”فاطمہ اور شمسہ کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کا لہجہ تھوڑا رندھا ہوا لگ رہا تھا جو زیان اور جےڈی کی سماعتوں سے مخفی نہیں رہا تھا۔
” ویسے تو اللہ تعالی ہی بہترین محافظ ہے لیکن یار اگر مجھے کچھ بھی ہو جاتا ہے کچھ بھی۔۔۔ تو پلیز تم دونوں کبھی بھی ان سے بے خبر نہیں رہنا۔۔۔”یہ بات کہتے ہوئے فون پر عثمان کی گرفت بےاختیار ہی تھوڑی دھیمی پڑ گئی تھی۔
” یہ دونوں میری ذمہ داری ہیں۔۔ میرے بعد تم لوگوں کو ان کا بہت سارا خیال رکھنا ہے۔۔اوکے۔ے۔۔؟؟” عثمان نے یہ ساری باتیں بڑے دل اور بھرپور ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں تھیں۔مگر اس سب کے باوجود وہ پھر بھی اپنے لہجے کو پرنم ہونے سے روک نہیں پایا تھا۔
فاطمہ جو اس کا مضطرب چہرہ اپنی حساس طبیعت کی وجہ سے فورا دیکھ چکی تھی۔اب شمسہ کو کسی ٹیسٹ کی تیاری کرنے کیلئے اپنے کمرے میں جاتے دیکھ کر وہ عثمان کا پتہ کرنے یہاں اس کے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم تک چلی آئی مگر اب یہاں یہ ساری باتیں سن کر اس نے اچانک اپنے دل کی دھڑکنوں کو بند ہوتے دیکھ کر اپنے دل والی جگہ پر دایاں ہاتھ رکھا اور پھر بےآواز روتے ہوئے اپنے منہ پر بایاں ہاتھ رکھ کر دروازے کے پاس نیچے زمین پر ہی گرنے کے انداز سے بیٹھتی چلی گئی۔
فاطمہ اسوقت غیر یقینی کیفیت میں گھری ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے اندر اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے تک کی بھی سکت نہ رہی تھی۔ اس وقت اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو کر بھیگتا چلا گیا جسے صاف کرنے کی اس نے زحمت تک نہ کی تھی۔
اس کے کان مختلف قسم کے شور کی آوازیں پیدا کرتے ہوئے سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔اسے اب ادھ کھلے دروازے سے عثمان کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔یا پھر آواز تو آ رہی تھی مگر اس کے اندر جو شور برپا ہو گیا تھا ان سب میں یہ آوازیں کہیں نیچے ہی دبتی چلی گئیں۔آنسؤوں کی صورت میں آنکھوں کے گرد اندھیرا کسی گھنیرے بادل کی صورت میں چھانے لگا تھا تبھی اچانک اسے دروازے کے تھوڑے قریب سے ہی عثمان کی آواز واضح سنائی دینے لگی تھی۔
“اس کے متعلق سارا ریکارڈ اور کیسیز کی پرانی فائلز وغیرہ سب کچھ میرے پرسنل آفس لاکر میں ہوگا۔۔ وہاں سے تمہیں ساری انفارمیشن مل جائے گی۔۔” عثمان اب ان دونوں کو ذومعنی لہجے میں کچھ ضروری ہدایات دے رہا تھا۔
“اب بس بھی کرو یار۔۔!! تم تو فضول میں ہی ہمیں ڈرائے جا رہے ہو۔۔”عثمان کو اس قسم کی باتیں کرتے دیکھ کر زیان نے اسے دو ٹوک لہجہ اپناتے ہوئے فورا ٹوک دیا۔
“ا۔ا۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا سر۔۔ ہم سب ہیں نا۔۔اکٹھے مل کر یہ معاملہ بھی سورٹ آؤٹ کرلیں گے۔۔۔”جےڈی نے اس کی ہمت بندھانا چاہی۔
“پہلے بھی تو ہم سب نے مل کر کتنے مشکل ترین کیسیز سولو کئے ہیں۔۔یہ ناصر ملک کیا چیز ہے۔۔۔دیکھ لیں گے اس کو بھی۔۔”زیان کی بات پر عثمان کے لب بھی بےساختہ دھیرے سے مسکرا دیے تھے۔اس کے ذہن کے پردے پر ان تینوں کے بیتے دنوں کی یادیں عکس کی صورت میں واضح لہرانے لگیں تھیں۔
” تم اس قسم کی باتیں کر کے ہمیں ڈراؤ تو نہیں یار پلیز۔۔۔”زیان کی آواز اب بات کرتے ہوئے تھوڑی کپکپا بھی رہی تھی۔ وہاں موجود ہر نفس کا دل اس وقت بری طرح اتھل پتھل کا شکار لگ رہا تھا۔ہر کوئی اپنے اپنے تئیں ایک دوسرے کی ہمت بننے کی پوری کوشش کر رہا تھا ماسوائے دروازے کے پار بیٹھی ایمان فاطمہ کے جس کا اس وقت رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔اب وہ اپنے گھٹنوں میں سر دیے ڈر کے مارے لرزتے وجود کے ساتھ مسلسل بےآواز روئے جا رہی تھی۔۔۔۔۔
“ایک سچے پولیس آفیسر کو ہر وقت اس قسم کے حالات سے گزرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔۔”عثمان کے لہجے میں عزم کی جھلک واضح دکھ رہی تھی۔
” اس لیے میں نے خود کو ہمیشہ اس سیچوایشن کے لئے تیار بھی رکھا ہے۔۔” “فاطمہ کو بھی میں آہستہ آہستہ ٹرین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ابھی وہ میری ایسی باتیں سن کر تھوڑا پریشان ہو جاتی ہے۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ بھی خود ہی سمجھ جائیں گی۔۔”کوریڈور کے اندر زمین پر بیٹھی ایمان فاطمہ کو عثمان کی ان باتوں کا مطلب آج سمجھ آیا تو اس کے رونے کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔اس لئے اب وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی خود کو سسکیوں سمیت رونے سے روک نہیں پائی تھی۔۔۔۔
عثمان اب سرگوشی نما آواز میں پتا نہیں اور بھی کیا کیا ہدایات دے رہا تھا مگر فاطمہ کا ذہن تو اس کی جدائی کی بات پر ہی اٹک کر رہ گیا تھا۔ اس کو اپنی سماعتوں میں اور کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔
“فاطمہ۔۔۔۔!!!آپ یہاں۔۔۔؟؟؟”عثمان کافی دیر بعد بات کر کے ڈرائنگ روم سے باہر آیا تو اچانک فاطمہ کو دروازے کے بالکل پاس دیوار کے سہارے نیچے زمین پر بیٹھے دیکھ کر فورا ساری صورتحال سمجھ گیا تھا کہ فاطمہ ضرور اس کی ساری باتیں اپنے کانوں سے سن چکی ہے اس لیے ہی اتنا شدت سے رو رہی ہے۔
“یار فاطمہ۔۔!! پلیز آپ رونا تو بند کریں۔۔۔” عثمان نے اب نفی میں سر جھٹکتے ہوئے نیچے جھک کر اس کو اپنے بازؤوں کے سہارے زمین سے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کیا تھا مگر وہ اب بھی اپنے منہ پر ہاتھ رکھے شدت سے روئے جارہی تھی۔
“یار۔۔!!آپ جانتی ہیں۔۔آپ کو اس طرح روتے دیکھ کر مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔پھر بھی آپ۔۔”عثمان فاطمہ کا آنسؤوں سمیت روتا ہوا چہرہ دیکھ کر درد سے بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا مگر فاطمہ نے عثمان کی یہ بات سن کر اسے بیچ میں ہی ٹوک کر اس کی بات کو کاٹ دیا۔
“او۔اور جو آپ ایسی باتیں کرکے مجھے اتنی تکلیف دیتے ہیں۔۔اس کا کیا ہاں۔۔؟؟ آپ کو اس بات کا اندازہ کیوں نہیں ہو رہا عثمان۔۔۔یہ سب سن کر میں کتنی تکلیف میں ہوں۔۔۔۔۔”فاطمہ کا انداز شکستہ تھا اور آنکھیں شکوہ کناں انداز میں عثمان کو ہی دیکھے جا رہیں تھیں۔
عثمان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے فاطمہ کو فرط محبت سے تھام کر اپنے ساتھ لگایا اور سیدھا اپنے کمرے میں لے آیا۔فاطمہ اس کے شانے کےساتھ لگی بھی مسلسل آنسو بہاتی رونے میں مصروف تھی۔
کاش فاطمہ اس بات کا اندازہ لگا سکتی کہ اس کی آنکھ سے بہنے والا ایک ایک آنسو عثمان کو سیدھا اپنے دل پر کسی بھاری بوجھ کی طرح گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
“عثمان۔۔!! میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر۔۔۔ میں ایک لمحے کے لیے خود کو آپ سے جدا سمجھنے کی کوشش بھی کرتی ہوں نا۔۔۔ت۔تت۔۔ تو میرا دل پھٹ جاتا ہے۔۔”
” میں کیا کروں یہ سب میرے خود کے بس میں بھی نہیں رہا۔۔”
“عثمان۔۔!! میں آپ سے الگ ہونے کا تصور میں بھی سوچ نہیں پا رہی۔۔۔ میں کیسے زندہ رہ پاؤں گی آپ کے بغیر۔۔” فاطمہ کی اس بکھری حالت پر عثمان خود کی آنکھوں میں آئی نمی کو فورا پیچھے دھکیلتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگائے کمرے کے وسط میں کھڑا نرمی سے اس کے بالوں کو سہلا کر اسے پر سکون کرنے کی بھرپور سعی کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
” عثمان۔۔!! اب آپ کبھی بھی باہر نہیں جائیں گے۔۔۔ پلیز۔ز۔۔۔وعدہ کریں مجھ سے۔۔۔” فاطمہ نے آنسؤوں سمیت رو کر عثمان کا ہاتھ اپنے نرم گداز ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا جس پر عثمان فقط گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔۔۔
“فاطمہ۔۔!! آپ جانتی ہیں نا۔۔ میں آپ سے کتنی محبت کرتا ہوں۔۔ہممم۔۔؟؟”عثمان کی مخصوص نرم،حلاوت آمیز آواز پر فاطمہ کی نگاہیں کچھ پل کیلئے جھپکنا بھول کر اسے ساکت نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہو گئیں تھیں۔
“میں آپ کو اس طرح ٹوٹی اور بھکری حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔۔ پلیز سنبھالیں خود کو۔۔!!”عثمان کا انداز اب ملتجیانہ لگ رہا تھا۔
” مجھے لگا تھا آپ میرے لئے۔۔ میری محبت کے لئے ہمیشہ بہادری اور نڈرپن کا مظاہرہ کریں گی مگر۔۔۔” عثمان نے محبت سے چور لہجے میں کہہ کر اس کے بہتے آنسو اپنے ہاتھوں کے پورروں سے نرمی سے صاف کیے مگر فاطمہ اس کی بات کاٹتی بیچ میں ہی گویا ہونے لگی۔
“عثمان۔۔!!اگر آپ ایسی باتوں کو بہادری کہتے ہیں نا تو مجھے نہیں بننا کوئی بہادر وہادر۔۔۔۔ میں بزدل ہی ٹھیک ہوں۔۔”فاطمہ کے لہجے میں اب چڑچڑاپن نمایاں لگ رہا تھا۔اس کے اس قدر معصوم انداز پر عثمان کے دل کی دھڑکنیں ایک پل کیلئے منتشر ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔
” مجھے اپنی زندگی میں ہر پل،ہر لمحہ آپ کا ساتھ چاہیے اس کے لیے میں تا عمر بھی بزدل بننے کے لیے تیار ہوں۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔” فاطمہ اس کے شانے کے ساتھ لگی پرنم لہجے میں اپنے دل کی باتیں کر رہی تھی جس پر عثمان اگر کوئی اور وقت ہوتا تو خوشی سے مسکرا اٹھتا مگر جب سے اسے دھمکی آمیز میسیج موصول ہوا تھا اسے اپنی کم فاطمہ اور شمسہ کی فکر زیادہ رہنے لگی تھی۔
فاطمہ کے ندی کی صورت میں بہتے آنسو اس کی ڈریس شرٹ میں مسلسل جذب ہوتے جا رہے تھے۔
” مان۔۔!!یہ تو پھر میری محبت کی ہار ہوگی نا۔۔ جس نے آپ کو مضبوط بنانے کی بجائے الٹا کمزور بنا دیا ہے۔۔” عثمان اب اس کو اپنے سامنے کھڑا کرکے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھامتے ہوئے شیریں لہجے میں کہہ کر اس کو الفت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
عثمان کو جب بھی فاطمہ پر ٹوٹ کر پیار آتا وہ اسے”مان”کے نام سے پکار کر مخاطب کیا کرتا تھا۔
اس کا کہنا تھا فاطمہ اس کی زندگی کا واحد “مان”ہے جس پر اسے ناز ہے۔۔۔۔۔
عثمان کی نرم گرم نگاہوں کا مرتکز خود کو جان کر فاطمہ فورا اپنی نگاہیں نیچے جھکانے پر مجبور ہو گئی تھی۔
” آپ کی محبت میرے لئے ایک طاقت ہے جس کو میں محسوس کر کے دنیا کے ہر حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ خود میں پیدا کرتا ہوں۔۔”عثمان اب اسے اپنی مخصوص نرم آواز میں رسان سے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا تھا۔
“فاطمہ۔۔!! آپ کی محبت نے تو مجھے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔۔” عثمان نے اس کی محبت کو اپنے لیے طاقت کا درجہ دیا تھا۔
“اگر میری محبت آپ کے لیے طاقت ہے تو آپ نے تو مجھ میں اور جینے کی امنگ بھر دی ہے عثمان۔۔۔”
” ورنہ تو شادی سے پہلے تک میں یہی سوچتی رہتی تھی کہ اگر میری زندگی میں ماما کا وجود بھی نہ ہوتا تو میں نے تو کب کا مر جانا تھا۔۔” فاطمہ نے نرمی سے عثمان کا ہاتھ تھامتے ہوئے پہلی بار کھل کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا تھا۔
“مجھے اپنی زندگی خود پر ایک بھاری بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں لگتی تھی۔۔”فاطمہ کی اس بات پر عثمان نے بےاختیار اسے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے بالوں پر اپنی محبت کی مہر ثبت کر دی۔وہ اسے کسی نازک آبگینے کی طرح قیمتی جان کر خود میں سمیٹ چکا تھا۔
آج پہلی بار عثمان کو فاطمہ کی محبت کا شدت سے اندازہ ہو رہا تھا وگرنہ تو وہ اپنی زبان سے کبھی کچھ نہیں کہتی تھی۔
“آپ جانتی ہیں فاطمہ۔۔!! ہم یہ پولیس فورس کیوں جوائن کرتے ہیں۔۔۔؟؟”عثمان کے سوال کے جواب میں فاطمہ کچھ نہیں بول پائی تھی۔
” تاکہ ہم اپنے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔۔۔۔۔”فاطمہ کو خاموش پا کر عثمان نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا۔
“اور جب بات ہمارے ملک پاکستان اور اسکی قوم کی آتی ہے تو ہم اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔۔۔”اپنے ملک کو لے کر عثمان کے لہجے میں حب الوطنی کی واضح جھلک نظر آ رہی تھی۔
“اور ویسے بھی شہادت کا رتبہ پانے کے لئے تو ہر سچا پولیس آفیسر ہمہ وقت خود کو تیار رکھتا ہے کیونکہ شہید مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔۔”نہ چاہتے ہوئے بھی “شہید” لفظ فاطمہ کے وجود میں کپکپی سی طاری کر گیا تھا۔
” اور جب ہم اس کا درجہ قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور احادیث میں پڑھتے ہیں نا تو ہم میں سے ہر ایک کا دل اس رتبہ کو پانے کیلئے شدت سے بےتاب ہو رہا ہوتا ہے۔۔”
” اگر ہماری زندگی میں کبھی بات ملک و قوم کی آئے تو ہمیں کسی بھی قربانی کو دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے پھر چاہے وہ آپ کی اپنی جان ہی کیوں نہ ہو۔۔”یہ باتیں سنتے ہوئے فاطمہ کے آنسو لڑیوں کی صورت میں اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے جن کو وہ بار بار اپنی ہتھیلی سے صاف کرنے کی کوشش میں انہیں مزید سرخیوں سے بھر چکی تھی۔۔۔۔۔۔
” اور میں تو برائی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں۔۔۔ اگر اس کی وجہ سے مجھے کچھ ہو بھی جاتا ہے تو یہ تو اچھی بات ہے نا کیونکہ شہادت جیسا عظیم رتبہ ہر کسی کے مقدر میں نہیں لکھا ہوتا۔۔”عثمان کے چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
“عثمان ۔۔!! ایسی باتیں نہیں کریں نا۔۔۔پلیز میں یہ سب نہیں سن سکتی۔۔”عثمان کو بار بار شہادت کا ذکر کرتے دیکھ کر فاطمہ بےاختیار اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتی اس سے تھوڑا دور جا کر مضطرب انداز میں کھڑی ہو گئی تھی۔
“یار فاطمہ۔۔۔!!یہی تو میں آپ کو کب سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔”عثمان گہرا سانس بھرتے ہوئے پھر سے فاطمہ کے قریب آ کر اس سے بالشت بھر کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا تھا جس پر فاطمہ نے بےاختیار ہی اپنے ہاتھ کانوں سے ہٹا کر گرانے کے انداز سے نیچے لٹکا دیئے۔
“فاطمہ۔۔!! ہر کام ہماری سوچ اور توقعات کے مطابق کبھی نہیں ہوتا۔۔”
“زندگی ہمیشہ ہمیں وہی راہ نہیں دکھاتی جس پر ہم چلنا چاہتے ہیں۔۔بلکہ زندگی تو ہمیں ان راستوں پر چلاتی ہے جس پر چلتے ہوئے ہم یا تو کندن بن کر متوازن چال چلنا سیکھ لیں یا پھر کسی بزدل کی مانند مٹی کے ڈھیر کی طرح خاکستر بن کر کسی کے پاؤں تلے روند دیے جائیں۔۔۔۔۔”
“کیونکہ تقدیر میں ہمیشہ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالی نے ہمارے مقدر میں پہلے سے ہی لکھ دیا ہوتا ہے۔۔۔ البتہ ہم اپنی بھلائی کیلئے اپنے رب کریم کے حضور دعا ضرور کر سکتے ہیں۔۔۔”عثمان کے چہرے کی دھیمی، دلکش مسکراہٹ اور اسکا حلاوت آمیز لہجہ فاطمہ کے جلتے دل پر کسی پھوار کی مانند برستے ہوئے اس کو پہلے کی نسبت آہستہ اہستہ پر سکون کر رہا تھا۔
“مان۔۔ ہم دونوں کو ہی ایک دوسرے کے لئے اللہ تعالی سے ڈھیر ساری خوشیوں کی دعا مانگنی چاہیے۔۔” عثمان کی گہرائی سے بھرپور مدلل انداز میں کہی گئی باتیں سن کر اس کا ایمان مزید مضبوط ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔عثمان کے لبوں سے پھر سے “مان”لفظ سن کر فاطمہ کے بہتے آنسو پل بھر کو تھم سے گئے تھے اور وہ بےاختیار اپنا جھکا سر اٹھا کر عثمان کو ساکت نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔
“وہ۔۔وہ تو میں ہر نماز کے بعد روز مانگتی ہوں۔۔” عثمان کی دارفتگی سے بھرپور نگاہوں کی تپش سے فاطمہ کو شرم کے مارے اپنے گال دہکتے محسوس ہوئے تو فورا اس سے ہچکچانے کے انداز میں کہہ کر بیڈ کے کارنر پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔
عثمان نے فاطمہ کو پہلے کی نسبت تھوڑا پرسکون محسوس کیا تو دھیمے سے مسکرا کر اس کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتا ہوا اس کے بالکل پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔وہ دونوں اسوقت بیڈ پر پاؤں نیچے لٹکائے ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
“کیا مانگتی ہیں۔۔؟؟” عثمان نے فاطمہ کے چہرے کے تاثرات کو دلچسپ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ابرو اچکا کر سوالیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔
“آپ کا ساتھ۔۔!!!” فاطمہ کے لبوں سے برجستہ یہ الفاظ نکل گئے جس کے کچھ ہی سیکنڈز بعد خود ہی اپنی بات پر غور کرتی خجل ہونے کے انداز میں اپنی زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
عثمان کی معنی خیز مسکراہٹ سے فاطمہ کے کان کی لوئیں تک سرخ پڑ گئیں اور اس کی سفید دودھیا رنگت مزید گلنار ہو گئی اس لئے وہ جلدی سے اپنی نگاہیں چرائے فورا وہاں سے اٹھنے لگی تو عثمان نے اس کی اس معصوم ادا پر دھیمے سے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر اسے واپس دوبارہ اسی جگہ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
اب عثمان نے فاطمہ کے گرد اپنے بازؤوں کا حلقہ بنا کر اس کے گرد اپنا مضبوط حصار باندھ لیا تھا۔فاطمہ کی آنکھیں عثمان کی محبت پر پھر سے بھیگنے لگیں تو اس نے بےاختیار اپنا سر عثمان کے شانے پر ٹکا دیا جس پر عثمان نے اس کے نرم و نازک، پری پیکر وجود کو کسی خوبصورت پھول کی طرح اپنے ساتھ لگا کر خود میں سمیٹ لیا تھا۔
ان دونوں کے درمیان نجانے کتنے ہی پل بنا کسی بھی بات کے خاموشی کی نذر ہو گئے تھے۔فاطمہ اس کے شانے پر سر ٹکائے آرام سے بیٹھی رہی تھی۔
ان کا یہ خوبصورت، منفرد مزاج کپل کسی شوخ وچنچل کپل کی طرح تو نہیں تھا لیکن ان دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ان کی چاہت کا تو یہ عالم تھا کہ وہ دونوں ہی جان چھڑکنے کی حد تک ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔وہ دونوں ہی سنجیدہ مزاج اور حقیقت پسند،اور کم گو وصف رکھتے تھے۔
انہیں آجکل کے لڑکے لڑکیوں کی طرح محبت میں بڑی بڑی ڈینگیں مارنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔اور نا ہی فاطمہ کو یہ سب پسند تھا۔۔۔عثمان اس سے کبھی بھی محبت میں چاند تارے توڑ کر لانے جیسی باتیں نہیں کیا کرتا تھا مگر اس کے کیے گئے ایک ایک عمل اور کہی گئی ایک ایک بات سے فاطمہ کیلئے محبت کی اک خوبصورت جھلک نمایاں ہوتی تھی جس کے حسین رنگ اس کی زندگی میں بکھر کر کسی قوس قزح کی طرح فاطمہ کو رنگینیوں سے بھر دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح فاطمہ بھی اپنی زبان سے بھلے ہی بار بار اپنی محبت اور اپنی چاہت کی شدت کا اقرار نہیں کیا کرتی تھی لیکن اس کی جھکی نگاہوں میں لمحہ بہ لمحہ عثمان کیلئے بڑھتی عقیدت اس کو واضح نظر آ جاتی تھی۔اسی لیے اس کے دل میں بھی فاطمہ کی عزت اور محبت وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔
ان کے اس حسین رشتے نے ان دو دلوں کو اسقدر مضبوطی سے جوڑ دیا تھا جس کی جدائی کا سوچنا ہی ان دونوں کیلئے سوہان روح عمل ثابت ہو رہا تھا مگر عثمان پھر بھی خود کے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے اسے تسلی دینے کی ناکام کوشش کرنے میں لگا ہوا تھا جس کا پہلی بار کوئی خاص اثر فاطمہ پر ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا وگرنہ تو اس کے ایک بار کچھ کہنے پر بھی فاطمہ فورا سمجھ جایا کرتی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے تاثرات سے ہی ایک دوسرے کے دل کی بات فورا سمجھ جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر آج بات کچھ اور تھی جسے فاطمہ سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی اسی لئے فاطمہ کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے عثمان نے اپنی بات کا پھر سے آغاز کیا جس پر فاطمہ اپنا سر اس کے شانے سے اٹھاتی اسے یک ٹک نگاہوں سے بغور دیکھنے لگی تھی۔
“فاطمہ۔۔۔!!آپ کو اور مجھے اللہ سے ہمیشہ اپنے لئے بہتری کی دعا مانگنی چاہیے۔۔پھر جو ہمارے حق میں بہتر ہوگا اللہ تعالی وہی فیصلہ کریں گے۔۔”عثمان کا لہجہ اب تھوڑا سنجیدہ اور گھمبیر لگ رہا تھا۔فاطمہ بنا پلکیں جھپکائے اس کی ساری باتیں انہماک سے سن رہی تھی۔
” ہمیں ہمیشہ اپنی خواہشات اللہ تعالی کو بتانے کی بجائے صرف اللہ سے اپنی بہتری کی دعا مانگنی چاہیے کیونکہ کبھی کبھی ہم ایسی چیز اللہ تعالی سے ضد باندھ کر مانگ لیتے ہیں جو ہمارے حق میں ذرہ برابر بھی بہتر نہیں ہوتی اور پھر اس کا خمیازہ ناچار ہمیں بعد میں بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔۔۔۔”عثمان کی باتوں پر فاطمہ کی دھڑکنیں بار بار منتشر ہو رہیں تھیں۔
“میں آپ کو ایک سچی کہانی کے بارے میں بتاتا ہوں۔۔۔”عثمان نے فاطمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اس پر اپنی گرفت مضبوط کر دی تھی۔
“ایک لڑکا ایک لڑکی کو بہت شدت سے چاہتا تھا۔۔حتی کہ دن رات فرض، نوافل نمازوں میں اس کے پانے کی دعائیں کیا کرتا تھا پھر اس کی زندگی میں ایک دن وہ بھی آیا جب اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کر کے وہ لڑکی اس کو عطا کر دی۔۔”
” لیکن جب ان کی شادی ہوئی۔۔۔”وہ لمحے بھر کے توقف کے بعد گویا ہوا۔
” فاطمہ۔۔!! ان کی شادی ایک سال سے بھی زیادہ نہیں چل پائی کیونکہ ان دونوں کی سوچیں ایک دوسرے سے بالکل برعکس تھیں۔”
” اس لئے انہوں نے فورا Divorce لے لی۔۔”طلاق کے نام پر فاطمہ کی آنکھیں پل بھر کیلئے جھپکنا بھول کر غیر یقین انداز میں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اتنی شدت سے کی گئی محبت کا اس طرح کا بھیانک انجام اس کی سمجھ سے بھی بالاتر لگ رہا تھا۔
” آخر میں پھر کیا ہوا وہ خود ہی اپنے ہر کیے پر پچھتانے لگا۔وہ خود سے ہی نادم تھا کہ کیسے اس نے دن رات ایک کر کے اس کو اپنے رب سے مانگا تھا۔۔”
” اس لیے اس کے حق میں یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ اپنے رب سے اس کی رضا مانگتا۔۔ کیونکہ جو اس کی رضا ہے۔۔ وہ ہمارے حق میں ہر لحاظ سے بہتر ہے نہ کہ ہماری اپنی رضا کیونکہ علم الغیب تو ہمیشہ سے ہی اللہ کے پاس ہے۔۔۔ وہ بہترین حکیم ہے وہی اچھے سے جانتا ہے ہمارے حق میں کیا چیز بہتر ہے اور کیا نہیں۔۔”
عثمان نے اس کو پر مدلل انداز کے ساتھ اپنا پوائنٹ آف ویو بھی سمجھا دیا جسے سن کر فاطمہ پہلے کی نسبت اب کافی حد تک پرسکون دکھائی دے رہی تھی جسے دیکھ کر عثمان نے اس کی سرخ تمتماتی گال پر اپنا ہاتھ پچکارنے کے انداز سے رکھ کر نرمی سے تپھتپھا دیا۔۔۔
“آپ یہاں بیٹھیں۔۔ میں ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔” عثمان کو کسی ضروری کام سے باہر جانا تھا اس لئے اپنی نرماہٹ سے بھرپور آواز میں کہہ کر آہستگی سے مسکراتے ہوئے خود وہاں سے اٹھ کر اپنی کلائی میں رسٹ واچ باندھنے ہی لگا تھا کہ فاطمہ فورا چونک کر بیڈ سے اٹھ بیٹھی۔
“آ۔۔آآپ باہر۔ر جا رہے ہیں۔۔؟؟” فاطمہ بے ربط سا بولتے ہوئے اندر تک لرز کر رہ گئی تھی۔اس کے دل کے کونے میں ڈر اپنی مستقل جگہ بنا کر بیٹھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
“نہیں۔۔۔ ہم باہر جا رہے ہیں۔۔ آپ جلدی سے ریڈی ہو جائیں۔۔ ہم آج لنچ باہر ہی کریں گے۔۔” عثمان کے باہر جانے کا سن کر فاطمہ کے چہرے کا رنگ بھک سے اڑ گیا تو اس نے اپنا ضروری پلان کینسل کر کے اس کو بھی ساتھ لے جانے کا سوچ لیا تاکہ فاطمہ کے دل میں بیٹھا خدشہ کسی حد تک کم ہو سکے۔۔۔۔۔۔
“عثمان۔۔۔۔!!یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟؟ باہر تو وہ۔۔ وہ نن ۔۔ناصر ملک۔۔” فاطمہ کی ہکلانے کے انداز میں کہی بات سن کر عثمان نے اپنے تیزی سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ فورا آگے بڑھتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیا تھا۔
وہ ایمان فاطمہ کے لبوں سے کسی نامحرم کا نام نہیں سن پایا تھا۔۔ عثمان کی بے لوث محبت نے اس ناصر ملک کا ڈر فاطمہ کے اندر سے نکال کر کہیں دور پھینک دیا تھا لیکن اب اس خدشے کو پھر سے سر اٹھاتا دیکھ کر عثمان کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی تھوڑی سنجیدگی طاری ہو گئی اور اس نے اس کے سوال کا کوئی بھی جواب نہ دیتے ہوئے سرے سے بات ہی بدل دی۔
“فاطمہ۔۔۔آپ جلدی سے ریڈی ہو جائیں میں تب تک بابا اور باقی سب کو بھی ساتھ چلنے کا کہتا ہوں۔۔”عثمان نے اپنی فیملی لنچ کا پلان فاطمہ سے شیئر کیا تو فاطمہ یہ سوچتے ہوئے کافی حد تک پرسکون ہو گئی تھی کہ صد شکر ہے کہ سب فیملی ممبرز ان کے ساتھ جا رہے ہیں۔۔
کچھ ہی دیر بعد عثمان بھی اپنی مردانہ وجاہت سے بھرپور پرسنالٹی کے ساتھ نک سک تیار ہو کر کھڑا خود پر اپنا فیورٹ کلون مستعدی سے اسپرے کر ہی رہا تھا کہ اس کی نگاہ آئینے میں نظر آتے فاطمہ کے عکس پر جا کر ایک پل کیلئے ٹھہر سی گئی تھی۔ فاطمہ ڈریسنگ روم سے تیار ہو کر ہی باہر آئی تھی چہرے پر صرف حجاب اوڑھنا باقی تھا۔
فاطمہ کو باہر گھومنا پھرنا اتنا پسند نہیں تھا وہ ہمیشہ گھر پر رہنے کو زیادہ ترجیح دیتی تھی لیکن کبھی کبھار عثمان کے بار بار اصرار کرنے پر وہ اس کے ساتھ جانے کیلئے ہامی بھر دیتی تھی۔۔ وہ لوگ ہمیشہ فاطمہ کے پردے کی وجہ سے ریسٹورینٹ کا ایک فیملی کیبن بک کروا لیا کرتے تھے جہاں پر کوئی بھی آتا جاتا انہیں دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ویٹرز کے آنے پر فاطمہ جلدی سے حجاب اوڑھ لیتی اور پھر ان کے وہاں سے چلے جانے کے بعد وہ لوگ آرام سے ڈنر کر لیا کرتے تھے۔۔۔۔
“بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ۔۔”عثمان نے ایک بھرپور نگاہ اس کے سراپے پر ڈالی اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر اسے سراہتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خمارآلود لہجے میں اس کی تعریف کی جس پر فاطمہ فورا سٹپٹاتی ہوئی اس سے تھوڑا فاصلے پر جا کر حجاب کو اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے پن اپ کرنے لگی تھی۔کیونکہ عثمان کی اتنی سی قربت میں بھی اس کو فورا اپنے پسینے چھوٹتے ہوئے محسوس ہونے لگے تھے۔اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے تر ہو کر نمی سے بھر گئیں تھیں۔
عثمان اس کی حد درجہ گھبراہٹ سے محفوظ ہوتا ہوا آہستگی سے مسکرا کر نفی میں سر جھٹکتے ہوئے اپنی وائٹ ڈریس شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اس کو بازؤوں تک فولڈ کرنے لگا تھا۔
“باقی سب ریڈی ہو گئے۔۔؟؟” فاطمہ نے حجاب کو پن اپ کرنے کے بعد اپنا کلچ ہاتھ میں پکڑ کر اس کے اندر اپنا سیل فون ڈالتے ہوئے مصروف سے انداز میں پوچھا۔
“نہیں یار۔۔ وہ شمسہ کا کل سکول میں کوئی سرپرائز ٹیسٹ ہے اس لئے وہ اس کی تیاری کر رہی ہے۔۔اس نے تو کہا تھا وہ آ کر رات دیر تک تیاری کر لے گی لیکن میں نے اس کو اسٹڈی کا حرج کرنے سے صاف منع کر دیا۔۔۔۔۔”
” اور زاوی۔۔۔ وہ تو پہلے سے ہی باہر ہے۔۔ اور بابا کسی ارجنٹ میٹنگ میں گئے ہیں۔۔ اور ماما بھی اپنی کسی دوست کے ساتھ باہر جا رہی ہیں۔۔۔۔اس لئے۔۔” عثمان نے جان بوجھ کر فاطمہ کو سونیا بیگم کے صاف انکار کے بارے میں نہ بتایا تھا تاکہ ایمان فاطمہ کے دل میں ان کے لئے عزت میں کوئی کمی نہ آئے۔حالانکہ سونیا بیگم نے گھر میں فری ہونے کے باوجود اس کے دعوت نامے کو بنا سوچے سمجھے تحقیرآمیز انداز میں فورا ریجیکٹ کر دیا تھا۔ان کے صاف انکار پر عثمان کا چہرہ مارے اہانت اور تذلیل کے احسا س سے سرخ پڑ گیا تھا لیکن پھر بھی وہ ان کا ہر سخت سست رویہ،ان کی ہر روکھی سوکھی بات چپ چاپ سہہ کر اندر ہی اندر گھٹتا رہتا اور پھر سے اگلی بار ان کو اپنے اسی مخصوص نرم لب و لہجے میں ہی مخاطب کیا کرتا تھا۔
سونیا بیگم کو لگتا تھا شاید اس پر ان کے کسی ظلم یا زیادتی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اس لئے وہ ہمیشہ اس سے ایسے ہی سختی سے پیش آتیں تھیں۔لیکن وہ اس بات سے یکسر انجان تھیں کہ ان کی ہر بات پر اس کے معصوم دل پر کیا کچھ نہیں گزرتی مگر پھر بھی وہ ہر بار درگزر کرنے کے بعد ان کے رتبے کا لحاظ کرتے ہوئے پھر سے اسی نرم مسکراہٹ کے ساتھ ہی بات کرتا کہ شاید اس بار ہی ان کو ماں کی ممتا کا احساس ہو جائے اور وہ اسے زاویار کی طرح اپنے ساتھ لگا کر پیار کرتے ہوئے اسے دل سے ایکسیپٹ کر لیں مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی اسے ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑا تھا۔۔۔۔اس لئے وہ شکستہ انداز میں کوریڈور کو عبور کرتے ہوئے ان کے آج تک کے سارے رویوں کو عکس کی صورت میں یاد کرتا چلا گیا اور پھر اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچنے پر اس نے ضبط کے چکر میں اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچی اور پھر اپنی آنکھیں پورے زور سے میچ کر دوبارہ کھولتے ہوئے کمرے کا ہینڈل دبا کر واپس کمرے میں آگیا جہاں فاطمہ ڈریسنگ روم میں تیار ہو رہی تھی۔عثمان نے گہرا سانس بھرتے ہوئے اپنی منفی سوچوں کو خود سے آذاد کیا اور خود کے اعصاب پر تیزی سے قابو پاتے ہوئے خود بھی فریش ہونے کیلئے واش روم میں چلا گیا تھا۔
عثمان اب سب کے نا جانے کا بتاتے ہوئے اس کا ہاتھ نرمی سے تھام کر باہر کیلئے قدم بڑھانے لگا تھا مگر فاطمہ کو ہنوذ وہیں کھڑا پا کر عثمان نے سوالیہ انداز میں اسے تکتے ہوئے اپنا رخ واپس موڑا تھا۔۔۔
“اگر کوئی بھی نہیں جا رہا تو پھر ہم بھی رہنے دیتے ہیں نا۔۔اگر آپ کا باہر کا کھانا کھانے کا موڈ ہو رہا ہے تو ادھر ہی کچھ آرڈر کر لیتے ہیں۔۔” فاطمہ کا لہجہ اس وقت ملتجیانہ لگ رہا تھا کیونکہ وہ عثمان کو اکیلے باہر ہی تو نہیں جانے دینا چاہتی تھی۔ اس کا دل اکیلے باہر جانے کا سن کر پھر سے کانپ اٹھا تھا۔
“بالکل نہیں۔۔۔ پلان بنایا ہے تو اس پر عمل بھی کریں گے۔۔۔”عثمان کی اس بات پر فاطمہ منہ بسور کر رہ گئی تھی۔
“چلیں نا فاطمہ چلتے ہیں۔۔ پھر کل سے مجھے ڈیلی آفس بھی جانا ہے۔۔ آج ذرا فری ہوں تو سوچا آپ کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرتے ہیں۔۔۔” عثمان نے اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہہ کر اس کا باقاعدہ ہاتھ تھاما اور اسے زبردستی اپنے ساتھ لئے پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔
عثمان نے اگنیشن میں چابی گھما کر کار سٹارٹ کرتے ہوئے زیر لب “بسم اللہ”کہنے کے بعد سفر کی بھی دعا پڑھی تھی۔ فاطمہ اس کی چھوٹی چھوٹی عادتوں پر اسے غور سے دیکھتی رہتی تھی اور پھر بعد میں خود بھی اپلائی کرنے کی پوری کوشش کرتی تھی۔۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہیں۔۔؟؟” عثمان نے اس کو اپنی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے پایا تو دھیمے سے مسکراتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگا تھا۔
“میں دیکھ رہی ہوں۔۔آپ سے جتنا بھی ممکن ہو سکے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔۔”
“مجھے آپ کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے عثمان۔۔”فاطمہ کی اس تعریف پر عثمان کے لب بھی بےساختہ دھیرے سے مسکرا دئیے۔۔۔۔۔۔
“آپ کو پتا ہے۔۔۔ میں کبھی کبھار جلدبازی کے چکر میں کام سے پہلے “بسم اللہ” پڑھنا بھول جاتی ہوں لیکن آپ اپنے ہر کام سے پہلے “بسم اللہ الرحمن الرحیم” پڑھنا کبھی نہیں بولتے۔۔” فاطمہ نے مسکراتے ہوئے خلوص دل سے اس کی تعریف کی تھی۔
“فاطمہ۔۔۔!!ہمیں ہماری زندگی کا گزارنے کا ہر ایک اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا کرتے ہوئے بنانا چاہیے۔۔”عثمان کی ذہانت سے بھرپور آنکھیں اسوقت مزید چمک رہیں تھیں۔
“جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت پر مستقلا عمل کرتے ہیں نا تو دل کو اتنا سکون اور قرار ملتا ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔۔” عثمان نے ڈرائیو کرتے ہوئے اس کو محبت سے چور لہجے میں کہا تھا۔اس کے انگ انگ سے خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی مہک پھوٹتی ہوئی واضح محسوس ہو رہی تھی۔
فاطمہ نے عثمان کے لہجے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کو محسوس کیا تو اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔
“آپ کو پتہ ہے فاطمہ۔۔!! میں نے آپ کے آنے کے بعد اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کب کب محسوس کی۔۔؟؟”
عثمان اور فاطمہ ریسٹورنٹ میں موجود پہلے سے بکڈ کیبن کی طرف آ گئے اور پھر اچانک وہاں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ادھر ادھر کی باتوں کے دوران عثمان نے فاطمہ کا ہاتھ تھام کر اسے نرم لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
“کب۔۔؟؟” فاطمہ بھی عثمان کے سوال کے جواب میں سوال کرتی اسے دلچسپ نگاہوں سے دیکھنے میں محو ہو گئی۔
“جب جب ہم دین اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بات کرتے ہیں نا۔۔ تب تب میں نے آپ کے چہرے پر بکھرتے حسین رنگ اور نگاہوں میں ایک دلچسپ سا اشتیاق دیکھا ہے۔۔”
” یہ لمحات میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں فاطمہ۔۔”
” جب آپ کا چہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سن کر خوشی سے چمک اٹھتا ہے نا۔۔ وہ چمک میری زندگی کے لیے اس قدر معنی رکھتی ہے۔۔ مجھے۔۔مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ان لمحوں میں مجھے کوئی بہت قیمتی اور نایاب سا تحفہ مل جاتا ہے۔۔”
” جیسے کسی بچے کو کوئی سرپرائز گفٹ ملے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے نا ہوبہو وہی فیلنگز آپ کے چہرے کی چمک اور خوشی دیکھ کر میری ہوتیں ہیں۔۔”عثمان نے اسے دارفتگی سے بھرپور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا جس پر فاطمہ شرم کے مارے سرخ پڑتی ہوئی فورا اپنا چہرہ نیچے جھکا گئی کیونکہ وہ زیادہ دیر اس کی نرم گرم نگاہوں کی تاب نہ لا سکی تھی۔عثمان اسکی اس معصوم ادا پر بےساختہ دھیرے سے مسکرا دیا تھا۔
“چلیں۔۔!!” کھانا کھانے کے بعد عثمان نے ویٹر کو بل کے ساتھ بھاری ٹپ بھی دی جس پر وہ “بہت شکریہ سر”کہتا ہوا مؤدب انداز میں سر کو ذرا سا خم دے کر فورا وہاں سے چلا گیا تھا۔
عثمان فاطمہ کو اپنے ساتھ لیئے ریسٹورینٹ سے باہر آ کر مین راہداری عبور کرتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔۔
کار کے پاس آکر فاطمہ کو اچانک یاد آیا کہ اس کا کلچ اس کے موبائل سمیت وہیں رہ گیا ہے۔ عثمان نے اسکے ساتھ چلنے کا کہا تھا مگر وہ اسے کار سٹارٹ کرنے کا کہتی تیز قدموں سے چلتے ہوئے ریسٹورینٹ کے اندر چلی گئی۔
عثمان اب کار کو روڈ کے کنارے لا کر کھڑا کرتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے وہیں انتظار کرتے ہوئے کسی سے فون پر ضروری بات کرنے لگا تھا۔
بات کرتے ہوئے بھی اس کی نگاہیں ریسٹورینٹ کے داخلی دروازے پر ہی چپکی ہوئیں تھیں تبھی کچھ دیر بعد اسے فاطمہ ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے سے باہر آتی دکھائی دی۔ عثمان اس کو دور سے آتے دیکھ کر اب پوری طرح موبائل میں محو ہو کر کسی سے بات کرنے لگا تھا۔ اس کی کار روڈ کی ایک سائیڈ پر کھڑی ہوئی تھی کہ اچانک مخالف سمت سے آتے کسی تیز رفتار ٹرک نے آکر اس کی کار کو جان بوجھ کر زورآور ٹکر دے ماری۔
اس اچانک افتاد پر عثمان کے ہاتھ سے موبائل فون نیچے گر گیا۔اور وہ ایک جھٹکے سے سر اٹھاتے ہوئے اس ٹرک کو دیکھنے لگا تبھی اس نے اس ٹرک میں سوار ایک نقاب پوش آدمی کو پسٹل جیب سے نکالتے دیکھا تو اس کی آنکھیں فورا ادھر آتی فاطمہ پر اٹھ گئیں۔
اسے لگا وہ آدمی شاید فاطمہ پر اٹیک کرنے لگا ہے اس لئے اس نے اپنی سرخ شعلہ بار نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے ایک جھٹکے سے کار کا سائیڈ ڈور کھولا اور اس پر پسٹل سے اٹیک کرنے ہی لگا تھا کہ اس آدمی نے عثمان کو کار سے باہر نکلتے دیکھ کر اپنا تھوڑا سا سر باہر نکالا اور اس کے کچھ کرنے سے پہلے ہی آؤ دیکھا نا تاؤ ایک ساتھ کئی گولیاں سیدھا عثمان کے سینے میں اتارتے ہوئے اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا اور پھر فورا وہاں سے فرار ہو گئے۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی گونج سے فضا میں ایک بےہنگم شور برپا ہو گیا تھا اور اس کے بعد وہاں کا ماحول چند پلوں کیلئے ساکت پڑ گیا تھا۔۔۔۔
عثمان جو فاطمہ کا دفاع کرنے کیلئے ابھی پسٹل کا ٹریگر دبانے ہی لگا تھا کہ اس آدمی کی گولیوں نے اسے وہیں بے سدھ ہو کر نیچے لڑکھڑا کر گرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عثمان کی سفید ڈریس شرٹ خون آلود ہو کر سرخ رنگ میں تبدیل ہو چکی تھی۔
“ع۔عثمان۔ن۔ن۔ن۔۔”اس اچانک درپیش صورتحال سے فاطمہ کے اوسان خطا ہو گئے۔ جس نے اس کے لرزتے وجود کو ایک مجسمے کی طرح ساکت کر دیا تھا۔اور پھر کچھ ہی سیکنڈز کے بعد عثمان کو اپنی آنکھوں کے سامنے یوں نیچے گرتے دیکھ کر فاطمہ کے بچے کچھے حواس بحال ہوئے تبھی فاطمہ کے حلق سے چیخ نما آواز برآمد ہوئی جسے سن کر عثمان تکیف کے مارے کراہتے ہوئے اپنی تیزی سے بند ہوتی آنکھوں سمیت اسے اپنی طرف تیز قدموں سے بھاگ کر آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
فاطمہ کو ادھر آتے دیکھ کر عثمان نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے ہوئے اپنا خون سے بھرا کپکپاتا ہاتھ آہستگی سے فضا میں بلند کیا مگر جیسے ہی اس کی پرنور آنکھوں کی روشنی مدھم پڑی اس کی آنکھیں فورا بند ہو گئیں اور ہوا میں معلق ہاتھ گرنے کے انداز سے نیچے زمین پر لٹک گیا جس پر فاطمہ کی دل دہلا دینے والی چیخ نے عثمان کی طرف لپکتے لوگوں کو خود کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Verified by MonsterInsights