
?ناول
?محبت سے خدا تک کا سفر
?تحریر
?مہوش صدیق
سارہ بیگم کے جانے کے بعد ابراہیم صاحب پھر اسی کرسی پر اپنا سر ہاتھوں میں لیے ڈھنے کے انداز سے بیٹھ گئے تھے۔
“بعض اوقات بہت سے دکھ ہمارے حواسوں پر حاوی ہو کر ہم سے ہماری سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں سلب کر دیتے ہیں۔اس صورتحال میں ہمارے اندر ان الفاظ کا بھی ذخیرہ آٹومیٹیکلی ختم ہو جاتا ہے جس سے ہم اپنے ٹوٹے،بکھرے اور شکستہ دل میں ایک مبہم سی امید جگا سکیں۔۔”
“اس حالت میں تسلی آمیز الفاظ بھی انسان کے اندر ہی اندر گھٹ کر اپنا دم توڑ دیتے ہیں۔”
“انسان اپنے اس بکھرے وجود کے ساتھ کسی دوسرے کو کیا تسلی دے سکتا ہے جب وہ خود اپنے اندر ایک چھڑی ہوئی جنگ سے مقابلہ کر رہا ہوتا ہے جس میں دور دور تک اس کو اپنی کامیابی کے کوئی امکانات روشن ہوتے نظر نہیں آتے۔”
“زندگی میں درپیش ہر دکھ،درد،مصیبت،پریشانی اللہ تعالی کے ایک لفظ “کن”کی محتاج ہے۔”
“اگر انسان زندگی میں آئے ہر اچھے اور برے موڑ پر اللہ تعالی پر اپنے توکل کو مضبوط کر لے تو اللہ تعالی اپنی رحمت اور حکمت سے نہ صرف اس انسان کو اس پریشانی سے باہر نکالتے ہیں بلکہ اس کو ایسا سکون قلب عطا کر دیتے ہیں جس سے اس کی زندگی میں ہر طرف طمانیت ہی طمانیت اپنے ڈیرے ڈالتی ہوئی نظر آئے گی۔۔”
?????
“جے ڈی۔۔۔ اب ان کا وہاں رہنا کسی خطرے سے خالی نہیں.. اب ہمیں جلد از جلد انہیں وہاں سے شفٹ کرنا ہے۔۔” ٹائیگر کے سنجیدہ لہجے پر جے ڈی پرسوچ نگا ہوں سے اپنی پیشانی کو دھیرے سے مسلنے لگا تھا۔
“ٹائیگر سر! یہ سب کرنا کیسے ہے۔۔؟ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔” جے ڈی نے پریشان اور تفکرآمیز انداز سے کہا تھا۔
“اب ہمیں ان کو لاہور سے سیدھا کراچی شفٹ کرنا ہے اور یہ کرنا کیسے ہے وہ سب میں سوچ چکا ہوں۔۔۔” ٹائیگر نے ساری تفصیل جے ڈی کو سنجیدہ لہجے میں رسان سے سمجھا دی تھی۔
“اوکے ٹائیگر سر! میں انکی کراچی میں شفٹنگ کی ساری تیاری کرواتا ہوں۔۔” جے ڈی نے سارا پلان سن کر طمانیت سے پر لہجے میں کہا تھا۔
“اوکے۔۔ اگر اس کام میں کوئی بھی پرابلم ہو تو مجھے انفارم کر دینا۔۔میں سب دیکھ لوں گا۔” ٹائیگر نے سنجیدہ لہجے سے کہتے ہوئے فون ڈسکنیکٹ کر دیا تھا۔
?????
“زینی بیٹے! اب کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔؟” سکندر شاہ نے زینی سے پوچھا جو اس وقت سر جھکائے خود کو ناشتہ کرنے میں مصروف ظاہر کر رہی تھی۔
“ج۔جی انکل۔۔! میری طبیعت پہلے سے کافی بہتر ہے۔۔” زینی نے جھکا سر اٹھا کر سکندر شاہ کو جواب دیا جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دیئے۔
عاصمہ بیگم نے ایک نظر اذلان کی طرف بھی دیکھا جو کسی کی طرف دیکھے بنا چپ چاپ اپنا ناشتہ کر رہا تھا۔
“اور اذلان تمہاری طبیعت۔۔؟” سکندر شاہ نے اب زینی سے پوچھنے کے بعد اذلان سے پوچھا جو دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ بابا اس کی طبیعت کے بارے میں کبھی نہیں پوچھیں گے۔۔
کیونکہ بابا اس دن کی اذلان کی بد تمیزی کی وجہ سے اس سے ابھی تک ناراض تھے۔ایک دم اذلان سکندر صاحب کی آواز اپنی سماعتوں میں سن کر حیرت کے مارے چونک اٹھا تھا۔
“جی جی بابا۔۔!! میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔۔” ڈائیننگ روم میں اذلان کی ایک دم خوشی سے بھرپور چہکتی آواز گونجی جس پر سب نے شکر ادا کیا کیونکہ سکندر شاہ اذلان سے پچھلے کچھ دنوں سے تھوڑے کچھے کچھے سے تھے۔
عاصمہ بیگم بھی اب اذلان کے چہرے کی خوشی محسوس کر کے تھوڑا پر سکون ہو گئیں تھیں۔
“میں نے اور تمہارے بابا نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔ کیوں نا اس ہفتے اذلان اور زینی کا ریسیپشن رکھ لیں۔۔؟؟” عاصمہ بیگم نے ناشتے کی میز پر سب کو اپنے اس نئے فیصلے سے آگاہ کیا جس پر اذلان اور زینی کی نگاہیں کچھ پل کیلئے ایک دوسرے سے ٹکرا کر رہ گئیں تھیں۔
“لیکن بابا!وہ میری نئی فلم ہٹ ہونے کی وجہ سے شاہ زر اس ہفتے ایک پارٹی دے رہا تھا تو اس لئے میں کہہ رہا تھا کہ۔۔” اذلان نے ریسیپشن کو ٹالنے کے لیے ایک پارٹی کا بہانہ کیا جو شاہ زر نے اپنے گھر پر رکھی تھی۔ حالانکہ اس کا وہاں جانے کا کوئی موڈ نہیں بن رہا تھا۔
مگر اسی ہفتے میں دو دن باقی تھے اسی لیے اس نے پلان چینچ کر لیا تھا۔ تاکہ بابا کسی طور یہ ریسیپشن کا آئیڈیا اپنے ذہن سے نکال دیں۔ کیونکہ وہ ابھی میڈیا کو ہرگز فیس نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“تو وہ پارٹی تم اپنے گھر پر ہی رکھ لو۔۔۔ ریسیپشن کے دن وہاں بھی تو سب لوگ انوائٹیڈڈ ہی ہوں گے۔۔” سکندر شاہ نے رسان سے حل بتا کر اذلان کے سارے پلان پر پانی پھیر دیا۔ جس پر وہ کچھ بھی کہہ نہ سکا۔۔۔۔
کیونکہ ابھی ابھی تو سکندر شاہ اذلان کی خراب طبیعت کی وجہ سے دوبارہ اس سے بات کرنا شروع ہوئے تھے۔ اسی لئے وہ کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا۔
“ہاں جی بابا۔۔! یہ پلان ٹھیک رہے گا۔۔ ہے نا اذلان بھائی۔۔؟؟” عالیان نے شرارتی انداز میں مسکرا کر کہا جس پر اذلان نے اسے گھوری سے نوازا۔
“پھر تو بہت مزہ آئے گا۔۔ ماما ابھی تو اتنی تیاری بھی کرنی ہوگی۔۔ آپ مجھے لسٹ بنا دیجئے گا۔۔ پھر ہم سب مل کر تیاری کر لیں گے۔۔” عائشہ بھابھی نے بھی فورا ایکسائیڈڈ ہوتے ہوئے کہا۔
“میں عفان بھائی کو بھی میسج کر دیتا ہوں وہ تو آج جلدی آفس چلے گئے تھے۔۔” عالیان نے فورا موبائل پکڑتے ہوئے عفان کو بھی میسیج کر دیا۔
زینی خاموشی سے سر جھکائے سب کی باتیں اور نت نئے پلان کے آئیڈیاز سن رہی تھی۔اسے اس وقت اذلان کی طرف دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل امر لگ رہا تھا۔۔۔
اس لئے اس نے ایک بار بھی نگاہ اٹھا کر اوپر نہ دیکھا کیونکہ ریسیپشن کا سن کر زینی اس کے چہرے کا رنگ فورا متغیر ہوتے دیکھ چکی تھی۔یہ سب دیکھ کر اس کی آنکھیں نم تو ہوئیں مگر وہ خود پر جلدی سے قابو پا چکی تھی۔۔ اتنے عرصے میں اور کسی چیز کا تو پتا نہیں لیکن اس نے اپنے جذبات یکسر دوسروں سے چھپانا ضرور سیکھ لیا تھا۔
?????
“اوفف۔۔ کیا مصیبت ہے یار۔۔؟؟” مریم نے اچانک کلاس کی چئیر پر موجود اپنی نوٹ بک سامنے ہی موجود ٹیبل پر پٹخنے کے انداز سے رکھ دی۔ روشان جو کلاس ختم ہونے کے بعد کب سے مریم کو چپکے چپکے دیکھ رہا تھا۔اچانک اس کے اس انداز پر اٹھ کر اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔
“اینی پرابلم مریم۔۔؟؟” روشان نے مریم کے پاس آکر ساتھ والی چیئر پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔۔ یہ میتھس کا ایک کوئسچن کب سے سولو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔۔ سارا صحیح ہو رہا ہے بٹ لاسٹ میں دیکھوں تو آنسر بک کے ساتھ میچ نہیں کر رہا۔۔” مریم نے اکتائے ہوئے لہجے میں اسے بتایا۔ کیونکہ وہ پچھلے پچیس منٹ سے اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر یہ سوال اس سے کسی طور حل نہیں ہو پا رہا تھا۔
“ادھر لائیں۔۔ میں ٹرائی کرتا ہوں۔۔” روشان نے اس کے ہاتھ سے نوٹ بک لی اور ایک نظر سارے حل کیے ہوئے سوالوں کو بغور دیکھنے لگا۔
“یہ تو ایسے ہی سولو ہونا تھا جیسے آپ نے کیا ہے۔۔” روشان نے نوٹ بک سے سر اٹھا کر مریم سے کہا جو اسوقت اپنے گلاسز اتار کر اسے ہی دیکھ رہی تھی کیونکہ اسکی آنکھیں اس سوال کو حل کرتے کرتے اب درد کرنے لگیں تھیں۔
“وہی تو۔۔ اسی لئے مجھے بھی اب غصہ آ رہا ہے۔۔۔پتا نہیں سولو کیوں نہیں ہو رہا۔۔”مریم نے روشان سے کہا جو اس کے سوال کو دو سے تین مرتبہ دیکھ چکا تھا اس کو بھی ایسے ہی لگ رہا تھا۔
“چلیں ایسا کرتے ہیں ضرار کے پاس چلتے ہیں۔۔۔ اس کو اس پرابلم کا سولوشن لازمی پتا ہوگا۔۔” روشان کے دماغ میں اچانک ضرار کا خیال آیا۔
“ہمم۔۔۔!ٹھیک ہے مل کر ٹرائی کرتے ہیں۔۔پھر ہی شاید سولو ہو جائے۔۔۔” مریم بھی اب اپنی بکس سمیٹ کر روشان کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ ان کا رخ اسی لان کی جانب تھا کیونکہ ضرار ہمیشہ فارغ اوقات میں وہیں بیٹھ کر پڑھتا رہتا تھا۔
?????
“مریم!! یہ دیکھو میرا نیا دوست۔۔ ریحان۔۔” مریم ضرار اور روشان کے ساتھ ریاضی کا کوئی سوال حل کرنے میں مصروف تھی کہ اچانک سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جس کو حیا اپنے ساتھ لائی تھی۔
ضرار نے حیا کی آواز سن کر بھی اپنا سر جھکائے رکھا مگر روشان اس کو اگنور نہ کر سکا تھا۔
“ریحان! یہ میری بہن مریم۔۔” حیا نے مریم سے باقاعدہ ریحان کا تعارف کروایا جو اسوقت اپنی پوری بتیسی نکالے کھل کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم نے بھی ہاتھ بڑھا کر مصافحہ تو کیا مگر اب وہ ناسمجھی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
“اوفف یار مریم! اتنا ہنساتا ہے اتنا ہنساتا ہے۔۔ میرے تو ہنس ہنس کر جبڑے دکھنے لگ گئے ہیں۔۔” حیا اب ریحان کے ساتھ کھڑی باقاعدہ اس کے ہنسانے کی تعریف کر رہی تھی۔
“اچھا لگ بھی ایسے ہی رہا ہے۔۔ تم اس کے ساتھ کافی خوش بھی دکھائی دے رہی ہو۔۔” مریم نے حیا کو اس قدر خوش دیکھا تو ریحان کو پھر سے دیکھنے لگی جو اب اسے ہی تھوڑا منہ کھولے ہنس کر دیکھ رہا تھا۔
“ہاں یار!بہت مزہ آ رہا ہے۔۔ ریحان ذرا ان کو بھی ایک جوک سناؤ۔۔” حیا نے اب ریحان سے مسکراتے ہوئے کہا جو فٹ سے اپنا بیگ رکھ کر حیا کا حکم ماننے لگ گیا تھا ۔
ضرار کو غصہ تو بہت آیا تھا مگر وہ مٹھیاں بھنیچے مریم کی وجہ سے خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ وہ لوگ سوال حل کر رہے تھے اور یہ دونوں یہاں انہیں ڈسٹرب کرنے آ گئے تھے۔
“ایک بوڑھی عورت کب سے سویٹر بن رہی تھی اس کی اون ختم ہونے لگی تو وہ جلدی جلدی سویٹر بنانے لگی تاکہ اون ختم ہونے سے پہلے ہی سارا سویٹر بن لوں۔۔” یہ جوک سن کر حیا تو ہنس ہنس کر باقاعدہ لوٹ پوٹ ہو رہی تھی اور اب اس کے ساتھ ساتھ ریحان بھی جاندار قہقہہ لگا کر ہنس رہا تھا۔
ان کو اس طرح ہنستے دیکھ کر مریم کے ہونٹوں پر بھی دھیمی مسکراہٹ در آئی۔ روشان تو ان کے اس انداز پر باقاعدہ ہنس ہی دیا تھا جس پر ضرار نے اسے گھور کر نفی میں سر جھٹک دیا تھا۔ حیا اب ہنستے ہنستے ریحان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ چکی تھی۔
“ریحان بس بھی کرو ۔۔۔۔ اب تو ہنس کر میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔۔” حیا کا ایک ہاتھ ابھی بھی ریحان کے کندھے پر تھا۔۔جانے کیوں ضرار اس منظر کو دیکھ کر خود کو سلگنے سے روک نہیں پایا تھا۔
“یار حیا!ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ ؟؟تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ لوگ بھوت بنگلے والی سائیڈ پر ہی ہوں گے۔۔” ریحان کا انداز بالکل سادہ تھا جس پر حیا ایک دم گڑبڑائی ضرور تھی مگر پھر بہت جلد خود پر قابو پا گئی۔
بھوت بنگلے کے نام پر ضرار، مریم اور روشان تینوں ان کی طرف پھر سے متوجہ ہو چکے تھے۔
“کیونکہ میں نے مریم کی کلاس فیلو سے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ضرار کے پاس کوئی سوال حل کرنے گئے ہیں۔۔”
” تو مجھے پتہ چل گیا کہ یہ لوگ بھوت بنگلے میں ہی ہوں گے کیونکہ یہ جناب ادھر ہی بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔۔” حیا کے عام سے انداز میں بدتمیزی کرنے پر مریم نے اس کو گھورا مگر وہ یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھ گئی۔
“ہاہاہا۔۔ صحیح کہا حیا۔۔ ان کے پاس بھوت نہیں آتے ہوں گے نا کیونکہ وہ کہتے ہوں گے۔
“ہمیں اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا صاحب۔۔۔ ان کی نیلی آنکھوں سے لگتا ہے۔۔”
ریحان ضرار کی نیلی آنکھوں کی چمک پر بات کرتے ہوئے باقاعدہ ہنس دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی حیا کا بھی بے ساختہ قہقہہ گونجا جس پر ضرار کو مزید غصہ آچکا تھا۔
وہ ابھی کچھ کہنے کے لیے اپنے لب وا کرنے ہی لگا تھا کہ روشان نے اس کے گھٹنے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ کیونکہ اسوقت ضرار کا دل کر رہا تھا اس ریحان کی بتیسی نکال کر رکھ دے جو وہ بار بار نکال رہا تھا۔
“اسٹاپ اٹ حیا۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔۔ ہم پڑھ رہے ہیں۔۔” مریم نے اب کی بار غصے سے حیا کو ڈانٹا جس پر حیا کو فورا تپ چڑھ گئی تھی۔۔
“ہاں ہاں چلو ریحان۔۔ ہم چلتے ہیں۔۔ کچھ نالائق لوگ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں انہیں پڑھنے دیتے ہیں۔۔” حیا نے اس دن کا بدلہ آج ضرار سے لیا تھا اور پھر ریحان کو لے کر واپس جانے لگی جو اسوقت ہونقوں کی طرح منہ کھولے ان سب کے تاثرات کو دیکھ رہا تھا جو حیا کی اس بات پر اچھے خاصے بگڑ کر رہ گئے تھے۔
“جسٹ شٹ اپ حیا۔۔۔ حد ہوتی ہے بدتمیزی کی بھی۔۔ تم بار بار اپنی لمٹس کیوں کراس کر جاتی ہو۔۔ اب میں پورا ایک دن تم سے بات نہیں کروں گی۔۔”
مریم نے ضرار کا غصے سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھا تو حیا کو سختی سے ڈانٹے بنا نہ رہ سکی۔
اس کی تیز آواز پر حیا نے غیر یقین انداز سے اپنا رخ اس کی جانب موڑا۔۔ کیونکہ اسے اپنی اس قدر تذلیل وہ بھی اس کھڑوس ضرار کے سامنے ہرگز منظور نہ تھی۔۔۔
“مریم! تم مجھے ان لوگوں کی وجہ سے ڈانٹ رہی ہو۔۔۔ میں ابھی میں بابا کو فون کرتی ہوں۔۔اب وہ خود ہی تم سے بات کریں گے۔۔”
حیا نے اپنا بیگ انہی کی ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھ کر باقاعدہ کہنے کے ساتھ ساتھ اپنا موبائل بھی نکال لیا تھا اور اب فون کان کے ساتھ لگا کر کھڑی ہوگئی تھی۔
“اب یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔؟”
ضرار اور روشان حیرت سے بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
پورا ایک دن بات نہ کرنے والی بات پر حیا کو شدید غصہ آ گیا تھا کیونکہ وہ مریم سے بالکل بھی دور نہیں رہ سکتی تھی۔
اس وقت ضرار کو یہ لڑکی بالکل ہی پاگل لگ رہی تھی۔
فون کے اسپیکر سے رنگ ٹون کی آواز ابھر رہی تھی تبھی کچھ ہی سیکنڈز بعد اچانک اسپیکر سے حسن صاحب کی مسکراتی ہوئی آواز سن کر مریم نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر باقاعدہ اپنا سر پیٹ لیا تھا۔
“ہیلو۔۔و۔و بابا۔۔” حیا نے اب باقاعدہ منہ پھلا کر انہیں مخاطب کیا تھا۔
“جی بابا کی جان۔۔۔!!” حسن صاحب کی مسکراتی آواز وہاں بیٹھے تمام نفوس خاموشی سے سن رہے تھے۔
“بابا!! آپ کی جان بہت ڈسٹرب ہے۔۔” حیا نے لاڈ بھرے انداز سے حسن صاحب کو مخاطب کیا تو ضرار بے اختیار ہی اس کے معصوم سراپے سے اپنی جھیل جیسی شفاف نیلی آنکھیں ہٹا نہ سکا تھا۔
“کیوں بھئی!! کیا ہوا میری حیا کو۔۔” حسن صاحب جو ابھی ابھی میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد کام سے فارغ ہوتے ہوئے اپنے آفس آئے ہی تھے کہ حیا کی کال دیکھ کر دھیمے سے مسکرا اٹھے۔
وہ ہر روز انہیں بات بے بات فون کرتی رہتی تھی جس پر وہ اس کی ساری گفتگو انہماک سے سنتے تھے۔
“آپ کی حیا کو مریم نے غیروں کی وجہ سے ڈانٹا ہے۔۔۔۔ اور کہتی ہے پورا ایک دن بات نہیں کروں گی۔۔” حیا نے یہ کہتے ہوئے باقاعدہ ضرار کو دیکھا جو اب بھی اسے ہی بغور دیکھ رہا تھا اور اس کے “غیروں” لفظ پر زور دینے پر اس نے اپنے عنابی ہونٹوں پر امڈتی مسکراہٹ کو بمشکل ہی قابو کیا تھا۔
مریم حیا کے فون کو گال پر ہاتھ رکھے خاموشی سے سن رہی تھی کیونکہ وہ تو شروع سے ہی اس سب کی عادی تھی۔۔
“ارے بھئی! یہاں تو میری حیا کو رلانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔۔ اس لیے اتنی اداس لگ رہی ہے میری جان۔۔” حسن صاحب نے حیا کی پر نم آواز سے ہی اس کے دل کا حال جان لیا تھا۔ بابا کے اس قدر درست اندازے پر حیا ایک دم گلاب کے پھول کی مانند کھل اٹھی تھی۔
“آپ فون دو ذرا مریم کو۔۔میں ابھی خبر لیتا ہوں۔۔۔ آپ نے بالکل بھی ٹینشن نہیں لینی۔۔ اوکے۔۔؟؟” حسن صاحب نے مریم کو فون دینے کا کہا تو حیا نے باقاعدہ اونچی آواز میں “اوکے بابا” کہا اور ساتھ ہی ساتھ مسکراتے ہوئے مریم کو بھی دیکھا تھا۔
اب مریم نے سب سے پہلے فون پکڑ کر اسپیکر سے ہٹا کر والیم کو نارمل کیا تھا۔
“کیسی ہو بیٹا۔۔؟” حسن صاحب نے مریم سے پوچھا۔
” جی بابا !!میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔”
مریم نے آہستہ آواز میں بتایا کیونکہ اس کو سب کے سامنے ایسے بات کرتے ہوئے شرم آ رہی تھی۔ مگر حیا اب اس سب سے بے نیاز ریحان کے ساتھ اپنی باتوں میں مصروف ہو چکی تھی۔
” مریم بیٹا! آپکو پتا تو ہے۔۔حیا کتنی سینسٹیو ہے اور آپ اس سے پورا ایک دن بات نہ کرنے کا کہہ رہی ہو۔۔”
” آپ جانتی تو ہو وہ آپکے بنا ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔۔” حسن صاحب نے مریم کو پیار سے سمجھایا۔
“جی بابا! میں جانتی ہوں۔۔” مریم نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
“آپ تو میری بہت سمجھدار بچی ہو نا اس کا خیال رکھنا۔۔۔ اگر وہاں رونا شروع ہوگئی نا تو پھر آپ سے سنبھالی نہیں جانی۔۔ ہاہاہا۔۔” حسن صاحب مریم کو حیا کا خیال رکھنے کا کہہ کر آخر میں خود بھی ہنس دیے۔
“جی بابا! آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں میں فون رکھتی ہوں۔۔ایم سوری آپ کو ڈسٹرب کیا۔۔ اللہ حافظ۔۔”
“کوئی بات نہیں بیٹا۔۔ آپ دونوں بس اپنا خیال رکھنا۔۔” حسن صاحب نے فرط محبت سے کہا جس پر مریم بھی دھیرے سے مسکرا دی۔
روشان مریم کی اس خوبصورت مسکراہٹ میں کہیں کھو کر رہ گیا تھا۔
مریم نے اٹھ کر اب حیا کو اس کا فون تھمایا اور فورا اس سے گلے ملنے لگی تھی۔۔ اب وہ دونوں بہنیں ایک دوسرے کے ساتھ لگی باقاعدہ مسکرا رہیں تھیں۔
“پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے۔۔
ایک ہزاروں میں میری بہنا ہے۔۔
ساری عمر ہمیں سنگ رہنا ہے۔۔”
ریحان اپنی بے سری آواز میں گیت گا کر ان سب کو ہنسا رہا تھا۔
“ڈرامے باز کہیں کی۔۔!! خواہ مخواہ اتنا ٹائم ویسٹ کر دیا۔۔” ضرار اپنی عادت کے مطابق پھر سے وقت ضائع ہونے پر آہستگی سے بڑبڑا کر رہ گیا تھا۔
?????
اذلان ابھی ابھی وائٹ پینٹ کوٹ پہنے پنک ٹائی لگائے نک سک تیار ہو کر اپنے کمرے میں جا رہا تھا کیونکہ وہ اپنا موبائل بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر ہی رکھ کر اپنے ساتھ والے روم میں ریسیپشن کیلئے تیار ہو رہا تھا۔
زینی، زمل اور عائشہ بھابی کو بیوٹیشن اسی روم میں تیار کر رہی تھی۔
زمل اور عائشہ بھابی تو ریڈی ہو کر نیچے چلی گئی تھی مگر زینی ابھی بھی تیار ہو کر ڈریسنگ مرر کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
زینی اسوقت آئینے کے سامنے بیٹھی سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ اچانک اسے اپنی سماعتوں میں تیز قدموں کی چاپ سنائی دی۔تھوڑی ہی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا تو سامنے ہی اذلان کھڑا تھا۔
اذلان نے ایک نظر زینی کو سرتاپا دیکھا تو چند پل کے لئے اسے یک ٹک نگاہوں سے دیکھتا ہی رہ گیا۔
کیونکہ اسوقت زینی ولیمے کی دلہن بنی کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔ اس نے لائٹ پنک کلر کی میکسی زیب تن کیے ہوئے تھی اور اس کا یہ نیا ہیئر سٹائل اس کو بہت سوٹ کر رہا تھا۔
حالانکہ اس نے بیوٹیشن کو زیادہ میک اپ کرنے سے صاف منع کر دیا تھا۔ مگر پھر بھی بیوٹیشن کے کمال ہاتھوں نے اس کو اس ہلکے سے میک اپ میں بھی باربی ڈول کی طرح بنا دیا تھا۔
اذلان چند پل کے لیے بے اختیار اس کے خوبصورت سراپے سے نگاہیں نہ ہٹا سکا تھا۔
“چلیں بھئی! بعد میں ایک دوسرے کو دیکھ لیجئے گا۔۔ اذلان بھائی نیچے سارے مہمان آ چکے ہیں۔۔۔” اچانک زمل کی کھنکتی ہوئی آواز پر وہ دونوں ایک ساتھ چونکے تھے۔ اذلان تو خجل ہوتا ہوا باقاعدہ سر کھجا کر آگے بڑھتے ہوئے جلدی سے موبائل پکڑنے لگا تھا۔
زمل اذلان کی گھوری کی پرواہ کئے بنا اس کی ہڑبڑاہٹ پر بے ساختہ ہنسنے لگی تھی۔ اور پھر وہ زینی کا دوپٹہ سیٹ کر کے اذلان کو زینب کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کا کہنے لگی۔
زینی اسوقت وقت بری طرح نروس لگ رہی تھی۔ اسی لیے وہ کنفیوز انداز میں بار بار اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔
“چلیں۔۔” اذلان نے زینی کو آہستگی سے مخاطب کیا تو زینی بھی دھیمی چال چلتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چل دی۔
“ایسے نہیں بھائی۔۔ صحیح سے لے جائیں نا۔۔ بالکل ہیرو ہیروئن کی طرح۔۔۔”
آفٹر آل میرا بھائی بھی ہیرو ہے اور میری پیاری سی بھابھی بھی کسی ہیروئن سے کم نہیں ہیں۔۔” زمل نے اپنی ہی دھن میں کہتے ہوئے مسکرا کر زینی کا ہاتھ باقاعدہ اذلان کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔
مگر وہ یہ ہرگز نہیں جانتی تھی کہ اس کی مزاح کے انداز میں کہی گئی بات اذلان کو ان ینگ ایکٹرز کی بات پھر سے یاد دلا جائے گی۔۔۔
اس کے چہرے پر پھر وہی پہلے والی سختی چھا گئی تھی جو چند لمحے پہلے تھوڑی کم ہو کر رہ گئی تھی۔
“چلیں۔۔” اذلان نے اب کی بار سختی سے زینی کا ہاتھ تھاما تو زینی اذلان کے اس قدر سرد انداز پر ایک پل کے لیے اس کو دیکھتی رہ گئی ۔اذلان کے اس قدر سرد انداز پر اس کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں پھر سے نمکین پانی بھر آیا تھا ۔حالانکہ اسے تو اب تک اذلان کے اس رویے کی عادت ہو جانی چاہیئے تھی۔
زمل اب تیز تیز قدموں سے کوریڈور میں آگے بڑھتی وہاں سے جا چکی تھی ۔مین گیٹ کے سامنے والے لان میں شاندار پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔
یہاں ہر طرف رنگ و نور کی برسات چھائی ہوئی لگ رہی تھی۔مردانہ و زنانہ قیمتی پرفیومز کی مہک لان میں کھڑے تمام نفوس پر عجب سحرانگیزی طاری کر رہی تھی۔کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو نے کھانوں کے شوقین لوگوں کی بھوک میں یکسر اضافہ کر دیا تھا۔
سارے مہمان آپس میں کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کھا پی کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ویٹر لان کے چاروں اطراف اپنے ہاتھوں میں پلیٹس لے کر کچھ نہ کچھ تھامے ادھر سے ادھر آتے جاتے لوگوں کو سرو کر رہے تھے۔
اچانک سپاٹ لائٹ کی چمک پر سب لوگ اس طرف متوجہ ہوئے جہاں اذلان اور زینی ریڈ کارپٹ پر کسی خوبصورت کپل کی طرح ایک ساتھ چلتے ہوئے آ رہے تھے۔ سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم ان دونوں کو ایک ساتھ آتے دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیئے۔
اس وقت آحل بھی کافی پرجوش دکھائی دے رہا تھا۔ اس لئے خوشی کے مارے ادھر ادھر دوڑیں لگا رہا تھا۔
اس پارٹی میں میڈیا کو انوائٹ نہیں کیا گیا تھا ۔کیونکہ اذلان نے سب کو سختی سے منع کر دیا تھا۔ اس پارٹی میں کچھ قریبی دوست، احباب اور کئی مشہور بزنس مین اور ان کی فیملیز کے ساتھ اذلان کے کچھ کو اسٹارز اور اس کی نئی فلم کے سارے اداکار بھی موجود تھے۔
شاہ زر صاحب اور صوفیہ کے ساتھ کچھ سینئر اداکار اسٹیج کی ایک سائیڈ پر کھڑے ہوئے تھے۔ ان دونوں کو پرفیکٹ کپل کی طرح ایک ساتھ آتے دیکھ کر صوفیہ کے چہرے پر جلن کے واضح آثار نمایاں ہو رہے تھے۔
اس وقت سب لوگ ان کی طرف متوجہ تھے۔ کیونکہ ایونٹ آرگنائزر نے اسپاٹ لائٹ صرف ان کی جوڑی پر ڈال کر پورے ہال کو گھپ اندھیرے میں ڈبو کر رکھ دیا تھا۔
ہال میں چھائی تاریکی میں وہ دونوں رات کے اس گھپ اندھیرے میں چاند کی طرح چمک رہے تھے۔ اذلان اپنی بھرپور مردانہ وجاہت کے ساتھ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گھنی مونچھوں کے ساتھ ہلکی ہلکی بئیرڈ کٹ شیو بھی تھی جو اس کو مزید جاذب نظر بنا رہی تھی۔
زینی بھی اپنے پنک ڈریس کے ساتھ لائٹ جیولری پہنے ہوئے ایک کنول کے پھول کی نوخیز کلی کی طرح نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔اب وہ دونوں دھیمی چال چلتے اسٹیج پر جا چکے تھے۔ جسے سفید اور گلابی رنگ کے پھولوں کے ساتھ سجایا گیا تھا۔
بیک وال پر لگے خوبصورت گلابی پھول دلکش منظر کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ اس کے سامنے خوبصورت سفید رنگ کے صوفے پر بیٹھا یہ جوڑا انتہائی شاندار لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ زینی نروس انداز میں سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی مگر وہاں موجود فوٹوگرافرز اسے بار بار کوئی نہ کوئی پوز دینے کا کہہ رہے تھے جس پر وہ بری طرح گھبرا رہی تھی۔
البتہ اذلان اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ فل کانفیڈینٹ انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہال میں موجود سب لوگ آ کر ان کو گفٹس کے ساتھ ساتھ شادی کی مبارکباد پیش کر رہے تھے۔
“اذلان یار چلو۔۔ ادھر ایک فوٹو گرافر کو ہماری فلم کی پوری کاسٹ کا ایک پوز چاہیے۔۔۔” سب لوگ تقریبا مبارکباد دے کر جا چکے تو شاہ زر صاحب مبارکباد دینے کے بعد اذلان کو یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ لیے اسٹیج سے نیچے اتر گئے تھے۔۔
اسٹیج سے تھوڑی دور وہ سب لوگ پوز دینے کے بعد آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔
اچانک اسٹیج پر زینی کو اکیلا پا کر کسی کی دو آنکھوں نے اسے خباثت بھری نظروں سے مسکرا کر دیکھا تھا۔
?????
“باس۔۔!! اس سے پوچھیں آخر یہ جاوید آپ کو اس حویلی کی رپورٹ کیوں نہیں دے رہا۔۔” کبیر پاشا نے آج پھر جاوید کو ناصر ملک کو دوسرے کئی کاموں کی رپورٹ دیتے ہوئے دیکھا تو فورا ناصر ملک کو اس حویلی کا یاد دلا اپنی ایک آنکھ بند کرتا ہوا جاوید کو چڑانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔
“پاشا! تجھے بتایا تو تھا میں نے۔۔ آج کل پولیس اس حویلی کے آس پاس گھوم رہی ہے۔۔” ناصر ملک نے ایک ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے کبیر پاشا کو رسان سے سمجھایا تھا۔
“باس! آپ کب سے اس دو ٹکے کی پولیس سے ڈرنا شروع ہوگئے۔۔” کبیر پاشا نے سیدھا سیدھا ناصر ملک کی غیرت پر وار کیا جس پر ناصر ملک فورا غصے سے بولنے لگے مگر جاوید نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔ جس کو کبیر پاشا بھی بخوبی دیکھ چکا تھا۔
“پاشا! جتنی فکر تجھے اس حویلی کی رپورٹ کی ہے۔۔ مجھے اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔۔ “
“میں بس ملک صاحب کا بزنس آسمان کی بلندیوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔۔ ایک حویلی کی خاطر میں ملک صاحب کی سالوں سے کمائی گئی عزت کو داؤ پر نہیں لگا سکتا۔۔” جاوید نے بڑے آرام سے کبیر پاشا کو مدلل انداز میں سمجھایا جس پر ناصر ملک فخر سے اکڑ کر رہ گیا۔
“تجھے کیا پتا ملک صاحب کی عزت کا، نام کا۔۔۔؟؟”
” ناصر ملک کا نام سنتے ہی لوگ کانپ جایا کرتے تھے۔۔ مگر ان پانچ سالوں میں ہم ملک سے باہر کیا چلے گئے۔۔ پولیس نے اپنا ڈنڈا چلانا شروع کر دیا ہے جو کبھی ہمارے آگے جھکا ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔”
“میں اس دو ٹکے کی پولیس سے ہرگز نہیں ڈرتا۔۔۔ جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لے۔۔ “
“میں اب اس حویلی کی رپورٹ ملک صاحب کو بہت جلد خوشخبری کی صورت میں دوں گا۔۔۔”
” بھروسہ رکھیں۔۔ ملک صاحب آپ کے نام کی حفاظت یہ پاشا مرتے دم تک کرتا رہے گا۔۔” کبیر پاشا کا جوش مارنے والا انداز دیکھ کر ناصر ملک خوش تو ہوا مگر پھر بھی اس نے پاشا کو محتاط رہنے کا کہا۔۔۔۔
“پاشا! تو میرا سب سے پرانا کھلاڑی ہے۔۔ اس لئے میں تیری بھی اتنی ہی عزت کرتا ہوں۔۔ جتنی اس جاوید کی۔۔”
” تم دونوں آپس میں مقابلہ بازی بند کر کے اکٹھے میرے لئے کام کرو پھر تم دونوں کا جوش وجذبہ اس شہر کیا کئی دوسرے بڑے شہروں کو بھی میرا کرنے میں بہت زیادہ کام آئے گا۔۔۔”
” مجھے اپنی وہی پرانی عزت اور ساکھ ویسے ہی چاہیے جتنی کہ پانچ سال پہلے تھی۔۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ تم دونوں مل کر کام کرو۔۔” ناصر ملک نے ان دونوں کو اکٹھا بٹھا کر رسان سے سمجھایا جس پر جاوید نے تو فورا “جی ملک صاحب” کہہ کر ناصر ملک کو خوش کر دیا مگر کبیر پاشا پر سوچ انداز میں ویسے ہی بیٹھا رہا۔
“تو کچھ بھی کر لے جاوید۔۔ تیرا نام میرے نام کے ساتھ جڑنا میرے لیے کسی توہین سے کم نہیں۔۔”
” کل کا آیا لڑکا آج ملک صاحب کے لئے میرے برابر ہو گیا۔۔ اس سے بڑھ کر کام سرانجام دیے ہیں میں نے۔۔۔ ابھی میں یہ کام کر کے ملک صاحب کی نظروں میں پھر سے کھلاڑی نمبر ون بن جاؤں گا۔۔” ناصر ملک اس کام کو سوچتے ہوئے دھیرے سے مسکرا دیا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ ناصر ملک نے تو نہیں دیکھی تھی البتہ جاوید کی عقاب نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکی۔
?????
زینی نے سب کو مہمانوں کے ساتھ مصروف دیکھا تو خود ہی اسٹیج سے نیچے اتر آئی۔۔ کیونکہ اذلان اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں محو ہو گیا تھا۔ گھر کے باقی سب لوگ اس وقت میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔۔
زینی وہاں اکیلی بیٹھی بوریت کا شکار ہو رہی تھی کیونکہ عاصمہ بیگم اور زمل کو بار بار کسی نہ کسی کا بلاوا آ جاتا تو مجبورا انہیں زینی کے پاس سے اٹھ کر وہاں جانا پڑتا۔
تبھی زینی ادھر ایک راؤنڈ صوفے پر بیٹھی چند عورتوں کے پاس سے گزر کر آگے بڑھنے لگی جہاں پر زمل شاید اپنی کسی پرانی دوست سے محو گفتگو تھی ۔تو ان میں سے اچانک ایک عورت کی تیز آواز سن کر اس کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔
“جتنا مرضی ماڈرن زمانہ آ جائے۔۔ ہم تو کبھی ایسی حرکت نہ کریں جس سے زمانے بھر میں ہماری رسوائی ہو جائے۔۔” صوفے پر بیٹھی ایک عورت نے نخوت سے ناک کو اوپر چڑھا کر کہا جس پر باقی سب بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگی تھی۔
“ہمم۔م۔صحیح بات ہے۔۔۔اتنا بھی کیا شوق امیر گھر میں شادی کرنے کا۔۔ کہ اپنی محبت کے قصیدے پڑھ پڑھ کر ساری دنیا والوں کو سناتے پھریں۔۔۔”
” توبہ توبہ!! کیسی کیسی لڑکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو اپنے ساتھ یہ تک کر دیتی ہیں۔۔۔” دوسری عورت نے بھی اپنا حصہ ڈالا جس پر زینی کا رنگ ان کی تحقیرآمیز باتیں سن کر لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔
“بھئی! اس کے ماں باپ نے اسکی تربیت ہی ایسی کی ہوگی۔۔۔”
میرا تو ماننا ہے۔۔ اس لڑکی کا اتنا قصور نہیں جتنا اس کے ماں باپ کا ہے۔۔” ایک آنٹی نے بھی اپنی عمر کے تجربے کے لحاظ سے بات کی۔
وہ اور بھی اس طرح کی کئی کٹیلی،طنزیہ باتیں کرتے ہوئے زینی کے کردار کی دھجیاں اڑا رہیں تھیں۔۔
مگر یہ سب باتیں سن کر زینی کے اندر مزید وہاں کھڑے ہونے کی سکت نہ رہی تھی۔۔ وہ اپنی بھیگی آنکھوں سمیت آہستہ آہستہ چلتی ہوئی لان کے پچھلے حصے کی طرف آ کر وہاں موجود سنگل بنچ پر بیٹھ کر بے آواز روتے ہوئے مسلسل آنسو بہانے لگی۔
“چچ۔چچ۔۔ اذلان شاہ کو تو لگتا ہے تمہاری بالکل بھی قدر نہیں ہے۔۔۔ اس کے نزدیک تو تمہارے ان آنسوؤں کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہو گی ڈئیر۔۔۔” ایک شوخ لڑکے کی آواز پر زینی نے روتے ہوئے اپنا جھکا سر اوپر اٹھایا اور اپنی بھیگی آنکھوں سے اسے بغور دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
“شٹ اپ!! جسٹ لیو می آلون ۔۔”زینی نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا جس پر وہ بے ہنگم قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ اس لڑکے کا قہقہہ بھی بالکل اسی کی طرح ہی عجیب تھا۔
“اوفف یار۔۔۔!! تمہارا تو غصہ بھی کتنا پیارا ہے۔۔ اذلان کو تمہارے اس نوخیز حسن کی بالکل بھی پروا نہیں ہے۔۔ “اس شوخ لڑکے نے ڈھٹائی کی ہر حد پار کرتے ہوئے کہا جس پر زینی غصے سے چیخ اٹھی تھی۔
پارٹی میں آرکسٹرا پر بجتی دھیمے میوزک کی دھنوں کے باعث کسی تک اس کی آواز نہیں پہنچ پا رہی تھی۔
“تم ہوتے کون ہو مجھ سے ایسے بات کرنے والے۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔” زینی نے غصے سے کہا اور اپنے قدم آگے بڑھا دیے کیونکہ اسے اس لڑکے کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔
“تمہاری ان حسین آنکھوں کے آنسو میں اپنے ہاتھوں سے چن سکتا ہوں پریٹی گرل۔۔ اس بے حس اذلان کے لئے اپنے قیمتی موتیوں جیسے آنسو بہا کر کیوں اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔۔”
شوخ لڑکا ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس کے گلابی رخسار پر اپنا ہاتھ رکھ کر باقاعدہ اس کے آنسو صاف کرنے لگا تو وہ تڑپ کر فورا ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔۔
کھڑکی کے اس پار کھڑا ضرار یہ منظر اپنی جھیل جیسی پتھریلی آنکھوں سے فورا دیکھ چکا تھا۔ اس کی نیلی آنکھیں اس وقت سرخ انگاروں کا روپ دھارے ہوئے لگ رہیں تھیں۔ اس نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچ لیں اور کھڑکی کا پردہ واپس برابر کر دیا۔۔
“ڈ۔ڈ۔ڈونٹ ٹچ می۔۔۔”زینی نے اس کا ہاتھ بری طرح جھٹکا اور جلدی سے آگے بڑھنے لگی۔۔ مگر اس لڑکے نے اس کا ہاتھ تھام کر اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔
زینی اس لڑکے کی اس گھٹیا حرکت پر ششدر رہتے ہوئے باقاعدہ رو دی۔ اور پھر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی۔
اس کی اس ناکام کوشش پر وہ لڑکا خباثت سے ہنستے ہوئے اس کے ماتھے پر جھولتی ہوئی لٹ کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کرنے لگا۔۔ جس پر زینی اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کو ایک زورآور تھپڑ رسید کر چکی تھی۔
اس وقت اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے وہ اپنے ایک ہاتھ سے اس کے ہاتھ پر زور زور سے مکے مار رہی تھی کہ اچانک تیز قدموں کی چاپ سن کر وہ لڑکا بھاگتے ہوئے پچھلے دروازے کی جانب بڑھ کر گیٹ سے باہر نکل گیا۔
زینی اس کو وہاں سے جاتے دیکھ کر نیچے وہیں بیٹھ کر اپنا سر ہاتھوں میں دیے بری طرح رونے لگ گئی۔ اس میں اب کھڑے ہونے کی بھی سکت نہ رہی تھی کہ اچانک اذلان کی تیز آواز پر اس نے اپنا جھکا سر پھر سے اوپر اٹھایا تھا۔
“حد ہوتی ہے لاپرواہی کی۔۔۔ ماما آپ کو کب سے وہاں ڈھونڈ رہی ہیں اور آپ یہاں آرام سے بیٹھی ہوئی ہیں۔۔” اذلان نے لان کے پچھلے حصے میں بیٹھی ہوئی زینی کو دیکھ کر غصے سے کہا۔
کیونکہ سب لوگ کھانا کھا چکے تھے اور کئی لوگ تو واپس اپنے اپنے گھروں کو بھی جا رہے تھے۔
عاصمہ بیگم نے زینی کو وہاں کہیں موجود نہ پا کر اذلان سے زینی کے بارے میں پوچھا تھا۔
“اذلان۔۔ زینی کہاں ہیں بیٹے۔۔۔ ؟؟وہ بھی کھانا کھا لیتیں۔۔۔بچی نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا۔۔۔” عاصمہ بیگم اذلان کے پاس آکر فکرمند لہجے میں گویا ہوئیں تھیں۔
“ماما یہیں کہیں ہوں گی۔۔ انہوں نے کھانا ہوگا تو خود ہی کھا لیں گی۔۔”
” وہ کوئی چھوٹی بچی تھوڑی ہیں جسے آپ اس طرح پیمپر کر رہی ہیں۔۔” اذلان کو عاصمہ بیگم کا اس کے لئے ازحد فکرمند ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لہجے کی کڑواہٹ کو قابو میں نہ رکھ سکا۔
وہ شروع سے ہی اپنے قریبی رشتوں کو لے کر بہت پوزیسیسو تھا۔اسے لگتا تھا وہ اپنے تمام گھر والوں کی چاہت کا بلا شریک مالک ہے۔۔۔اب سارے گھر والوں کا یوں زینی کو اس سے بھی زیادہ اہمیت دینا اذلان کو بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
“اذلان۔۔!! بری بات بیٹے۔۔ اب وہ تمہاری ذمہ داری ہیں۔۔۔ اس کا خیال رکھنا بھی تمہارا فرض ہے۔۔” عاصمہ بیگم نے اپنے اس لاڈلے بیٹے کو رسان سے سمجھایا تھا۔
“عاصمہ بیگم! بات سنیے گا ذرا۔۔” عاصمہ بیگم کو اذلان کے پاس کھڑا دیکھ کر سکندر شاہ نے آواز دی۔۔ شاید انہوں نے کسی مہمان کو سی آف کرنا تھا اس لئے انہوں نے عاصمہ بیگم کو اپنے پاس بلا لیا تھا۔
“جی آ رہی ہوں۔۔” عاصمہ بیگم جلدی سے کہہ کر وہاں سے جانے لگی مگر اذلان کو زینی کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو کھانا کھلانے کی بھی ذمہ داری اسے سونپ دی جو اسوقت بظاہر موبائل میں مصروف دکھائی دے رہا تھا۔
اب ان کے وہاں سے جانے کے بعد ادھر ادھر دیکھنے لگا کیونکہ اس کے سارے دوست جا چکے تھے۔۔ اس کی متلاشی نگاہیں اب زینی کو اطراف میں ڈھونڈ رہی تھی۔
“کیا ہوا آپ کو۔۔۔؟؟” اذلان اب تک غصیلے لہجے میں ہی اس سے بات کر رہا تھا۔ اچانک
اس کے سامنے آکر اس کے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے رخساروں کو دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آیا جو گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی بری طرح رو رہی تھی۔
اذلان کو اپنے سامنے دیکھ کر زینی پھر سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر پوری شدت سے رو دی۔
اذلان زینی کے اتنا شدت سے رونے پر ایک دم پریشان ہو کر رہ گیا۔۔ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر انہیں ہوا کیا ہے۔۔؟؟
” آپ اپنے ماما بابا کو مس کر رہی ہیں کیا۔۔؟؟” اذلان نے بے اختیار اس کو جلدی سے اپنا ہاتھ بڑھا کر زمین سے اٹھایا۔ اور اب اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر نرم لہجے سے پوچھ رہا تھا جو اب بھی بنا بات کیے بس مسلسل روئے جارہی تھی۔
اذلان کے پوچھنے پر اس نے بنا کچھ کہے نفی میں گردن ہلا دی اور پھر سے روتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
اذلان نے بے اختیار اپنا ہاتھ بڑھا کر زینی کے ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹا دیے۔۔ وہ دوسری بار اپنے سامنے زینی کو اس طرح بکھری ہوئی حالت میں دیکھ رہا تھا۔
“شش۔۔۔ریلیکس زینب۔۔۔بتائیں تو صحیح۔۔۔ ہوا کیا ہے آپ کو۔۔؟؟” اذلان کے دوبارہ پوچھنے پر زینی بے اختیار ہی اپنا سر اس کے شانے پر ٹکا کر بری طرح رو دی۔
زینی کی اس حرکت پر وہ ایک پل کے لیے تو سن ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے میں ہی اس کو خود سے دور ہٹا دینا چاہتا تھا۔
ابھی اس نے اپنے بازو اسے خود سے پیچھے کرنے کے لیے اوپر کیے ہی تھے کہ اس کی اگلی بات پر وہ ایک پل کے لیے ساکت ہو کر رہ گیا تھا۔ زینی کے متواتر بہتے آنسو اس کی ڈریس شرٹ میں مدغم ہو کر جذب ہو رہے تھے۔
“و۔و۔وہ لڑکا م۔م مجھے۔۔۔باربار ٹچ۔چ۔چ کر رہا تھا۔۔” زینب کے ان ہکلاتے الفاظ پر اذلان ایک دم برف کی سل کی مانند اپنی جگہ پر فریز ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت اور شدید غصے کے مارے اپنا حجم مزید پھیلا گئیں تھیں۔ زینب اٹک اٹک کر کہتے ساتھ پھر سے رو دی۔
جانے کیوں اب اذلان اسے خود سے الگ نہ کر پایا تھا بلکہ اس کا حصار زینب کے گرد مزید مضبوط ہو کر رہ گیا تھا۔
“ک۔کون۔ن۔۔؟؟” اذلان نے یہ الفاظ اپنی زبان سے کتنی مشکل سے ادا کیے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر فی الوقت وہ خود کے غصے پر قابو پا کر زینب کو پرسکون کرنا چاہتا تھا جو اس وقت بری طرح رو رہی تھی۔ اذلان کی آنکھیں ضبط کی حدوں کو چھونے کے باعث سرخ انگارہ لگ رہیں تھیں۔
“م۔م۔مجھے نہیں پتہ۔۔۔” زینی ڈر کے مارے کپکپاتے ہوئے لہجے میں یہ الفاظ ادا کر رہی تھی اس وقت وہ بری طرح گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔
اذلان جب زینی کو چپ کروانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا کہ ان کے پاس سے ضرار دبے پاؤں سے چلتا ہوا وہاں سے گزر گیا تھا جسے ان دونوں کی نگاہوں نے ہی نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔
“آپ پریشان نہ ہوں۔۔ میں ادھر آپ کے پاس ہی ہوں۔۔” اذلان اسے آہستگی سے خود سے پیچھے کر کے کچھ بات کرنے ہی لگا تھا مگر وہ ڈر کر اس کا ہاتھ کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح دوبارہ تھام چکی تھی۔ اذلان نے اب اسے نرم لہجے میں تسلی دی تھی۔
اسے اب خود پر بے انتہا غصہ آ رہا تھا کہ وہ کیسے اتنا لا پرواہ ہو سکتا ہے۔۔
“زینی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔” یہ سوچ ہی اس کو بری طرح اندر سے ہلا کر رکھ چکی تھی۔
اب اس کو خود سے زیادہ اس شخص پر غصہ آ رہا تھا جس نے اس کی بیوی کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
مگر ابھی وہ خود کے تنے اعصاب پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا تاکہ زینی کسی طرح پرسکون ہو جائے پھر بعد میں ہی وہ اس معاملے کا پتہ کروائے گا۔
اذلان اسے اپنے ساتھ لیے پچھلے دروازے سے اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔
زینی اس کے ساتھ لگی بری طرح کانپ رہی تھی۔ اذلان نے اب اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حلقہ بنا رکھا تھا کیونکہ اس کا وجود ڈر کے مارے ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ اذلان زینی کو اپنے بازو کے گھیرے میں لیے اپنے کمرے میں واپس لے آیا تھا۔
“آپ لیٹیں یہاں پر۔۔۔” اذلان نے اسے بیڈ پر بٹھا کر کہا جس پر وہ پھر سے گھبرا گئی۔
“ن۔ن۔نہیں۔۔ وہ پھر سے آ جائے گا۔۔ میں نہیں لیٹ رہی۔۔۔”زینی نے ازحد گھبرائے ہوئے لہجے میں کہتے ساتھ تیزی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس وقت وہ کسی خوف زدہ ہرنی کی مانند حد سے زیادہ سہمی ہوئی لگ رہی تھی۔
“میں۔۔۔ میں یہاں آپ کے پاس ہی ہوں۔۔ وہ یہاں نہیں آ سکتا۔۔ آپ آرام کریں میں آپ بھی آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں۔۔” اذلان کے کہنے پر وہ بیڈ پر لیٹ تو گئی مگر پھر اذلان کے یہاں سے باہر جانے کا سن کر وہ ہڑبڑاہٹ کے عالم میں فورا اٹھ بیٹھی۔
“نہیں پلیز۔۔ آپ نہیں جائیں۔۔۔ م۔م۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔” زینی نے جلدی سے اذلان کا ہاتھ تھام لیا جو اس کے اوپر کمفرٹر ڈال کر خود باہر جانے لگا تھا۔
“اوکے۔۔! ریلیکس۔۔ میں نہیں جا رہا۔۔ انٹرکام سے ہی ملازم سے کہہ کر کھانا منگوا لیتا ہوں۔۔” اذلان نے اب کی بار اپنا ہاتھ اٹھا کر اس کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ ادھر ہی ہے کہیں نہیں جارہا ہے جس پر زینی کے چہرے پر ہلکی طمانیت کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ مگر اندر سے ابھی بھی وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار لگ رہی تھی۔
اذلان انٹرکام سے ملازم کو کھانا لانے کا کہہ کر اب خود مضطرب انداز سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے ماتھے پر سے اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا جو اس کو بار بار شدید غصے کی وجہ سے آ رہا تھا۔۔
مگر اس وقت وہ خود کو کنٹرول کر کے زینی کو سنبھال رہا تھا جو ابھی بھی بے آواز آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ اسے بار بار اس لڑکے کا ہاتھ تھامنا اور اس کے چہرے پر لگانا زینی کو حد درجہ اذیت سے دوچار کر رہا تھا۔
وہ بار بار اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کسی نادیدہ چیز کو صاف کر رہی تھی۔۔ اذلان کا دل ایک پل کیلئے اس کی یہ حالت دیکھ کر کٹ کر رہ گیا تھا۔
“زمل! ہم کمرے میں آرام کرنے لگے ہیں۔۔” اذلان نے زمل کو میسج کر دیا تھا تاکہ وہ سب لوگ ان کی ٹینشن نہ لیں۔
تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو زینی اچانک آواز سن کر پھر ڈر کر اٹھ بیٹھی تھی۔
“ریلیکس۔۔! میں دیکھ رہا ہوں۔۔ ویٹر کھانا لے کر آیا ہو گا۔۔” اذلان نے فورا اس کے چہرے کا اڑتا ہوا رنگ دیکھ لیا تھا۔ اس لیے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا جو ابھی بھی بے چین انداز سے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
ملازم کھانا دے کر واپس جا چکا تھا۔ اذلان اس کے پاس بیڈ پر ہی کھانے کی ڈش رکھ چکا تھا۔
“سب سے پہلے تو آپ یہ کھانا کھائیں۔۔ آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔” اذلان نے زینی کو ایک نظر دیکھ کر فکرمند لہجے سے کہا تھا۔
“نہیں۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔” زینی کا لہجہ اسوقت ناراضگی سے بھرا لگ رہا تھا۔
اچانک ہی اسے اذلان کا اپنے ساتھ سرد رویہ یاد آ گیا تو اسے یہ سب سوچتے ہوئے پھر سے رونا آنے لگا تھا۔
” اگر اذلان اس کے ساتھ ایسا رویہ روا نہ رکھتا تو وہ پریشان ہو کر ادھر نہ آتی اور نہ ہی اس کے ساتھ یہ سب حادثہ پیش آیا ہوتا۔۔”وہ اپنے ساتھ درپیش اس صورتحال کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کی بجائے ہر چیز کیلئے اذلان کو ہی قصوروار ٹھرا رہی تھی۔۔
زینی نے یہ کہتے ساتھ اپنے ہاتھوں سے ڈش باقاعدہ غصے سے پرے دھکیل دی تھی۔
اذلان جو بیڈ کے پاس کھڑا اس کے کھانے کا ویٹ کر رہا تھا اچانک اس کے سرد لہجے پر حیران رہ گیا تھا۔
“پلیز۔۔ اس وقت ضد نہیں کریں اور کھانا کھا لیں۔۔ ماما نے کہا تھا آپ کو کھانا کھلانا ہے۔۔” اذلان کو اب زینی کا انداز کسی ضدی بچے کی مانند لگ رہا تھا۔۔ اسوقت وہ کسی روٹھے ہوئے بچّے کی طرح اپنے چہرے کا رخ دوسری جانب کر چکی تھی۔
اس کے رخساروں پر ابھی بھی آنسوؤں کے نشانات واضح تھے۔ کیونکہ اس کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
زینی کو اذلان کی اس بات پر پھر سے رونا آگیا تھا۔
“اذلان اس کا خیال صرف اور صرف عاصمہ بیگم کی وجہ سے رکھ رہا ہے ورنہ اس کا خود کا بالکل بھی دل نہیں کرتا کیونکہ اذلان تو اس سے بے انتہا نفرت کرتا ہے۔۔۔ “یہ سب سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں کے پپوٹے پھر سے نمکین پانیوں سے بھر گئے۔
اذلان نے اسے کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگاتے دیکھا تو گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے اس کے بالکل پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
“بہت ہی ضدی لڑکی ہیں آپ تو۔۔۔” اتنے عرصے میں پہلی بار اذلان نے اسے غصیلے لہجے سے کہا تھا ورنہ اب تک وہ بڑے تحمل سے ہی بات کر رہا تھا۔ جس پر زینی نے اپنا رخ اس کی جانب کیا اور اسے پرنم نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
“کھائیں۔۔۔! منہ کھولیں جلدی سے۔۔” اذلان نے باقاعدہ نوالہ بنا کر اس کے سامنے کیا تھا۔
“نہیں۔۔ مجھے نہیں کھانا اگر آپ کو کھانا ہے تو آپ کھا لیں۔۔” زینی نے غصے سے اپنا رخ دوسری جانب کرکے نروٹھے پن کا بھرپور مظاہرہ کیا جس پر اذلان نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کا چہرہ خود کی طرف کیا اور زبردستی نوالہ بنا کر اس کے منہ میں ڈال دیا۔ جس پر وہ حیرت کے مارے کھلی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی اور بمشکل حلق کے اندر جاتے نوالے کو زبردستی نگلنے لگی تھی۔
اس کی آنکھوں سے پھر سے پانی کے قطرے موتی بن کر اس کے رخساروں پر گرے جسے بے اختیار اذلان نے اپنے ہاتھ کے پوروں سے صاف کیا اور پھر اسے سر جھکائے جلدی جلدی کھانا کھلانے لگا۔
“اذلان! بس اور نہیں کھانا پلیز۔۔” زینی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تو اذلان نے اس کو ایک نظر دیکھ کر اپنا ہاتھ کھانے سے روک لیا۔
اور اس کو اپنے ہاتھ سے پانی پلا کر ساتھ میں نیند کی میڈیسن دے دی تاکہ وہ آرام سے سو سکے اور اس حادثے کو بھول کر خود کو تھوڑا پر سکون محسوس کرے۔۔۔۔
زینی نے چپ چاپ میڈیسن کھائی اور کمفرٹر کو اپنے ہاتھ میں سختی سے تھام کر واپس لیٹ گئی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ میڈیسن کے زیراثر نیند کی وادیوں میں غوطہ زن ہونے لگی تھی۔
اسے سوتے پا کر اذلان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کر دی۔
اذلان ابھی تک اس کے سرہانے ایک سائیڈ پر بیٹھا ہوا تھا۔زینی کے سونے کے بعد اذلان نے موبائل پکڑ کر زمان کو میسیج سینڈ کیا۔
“زمان! پچھلے لان کی جانب جو کیمرہ لگا ہے۔۔ اس کی آج کی ساری فوٹیج مجھے جلد از جلد کاپی کرکے بھیجو۔۔” زمان آج تقریب کی وجہ سے ادھر ہی رکا تھا۔ وہ ابھی فری ہو کر اپنے کمرے میں لیٹا ہی تھا کہ اچانک اذلان کا میسیج دیکھ کر جلدی سے اٹھ بیٹھا۔
“جی سر! سب خیریت تو ہے نا۔۔؟” زمان نے فورا رپلائی کیا۔
اذلان ابھی تک زینی کو ہی یک ٹک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر ابھی بھی اذیت رقم تھی۔ ایک بار پھر اس کو ملال نے آن گھیرا تبھی کچھ ہی دیر بعد میسج کی بیپ نے اسے دوبارہ اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
“وہ سب بعد میں بتاؤں گا پہلے یہ کام کرو جلدی۔۔”اذلان نے اسے فورا رپلائی کیا کیونکہ وہ جلد از جلد اس شخص تک پہنچنا چاہتا تھا جس نے زینی کو ایک ہی جھٹکے میں اس حال تک پہنچا دیا تھا۔
“ایم سوری سر! ایک بیڈ نیوز ہے۔۔ جس کیمرے کا آپ کہہ رہے ہیں اس میں کوئی ٹیکنیکل خرابی ہے جس کی وجہ سے وہ کل سے کام نہیں کر رہا۔۔” زمان نے سی سی ٹی وی روم سے فوٹیج چیک کرکے فورا بتایا۔ زمان کو اب خود کی لاپرواہی پر بھی شدید غصہ آ رہا تھا۔
” پتا نہیں کیا پرابلم ہو گئی ہے جو اذلان سر اتنا پریشان لگ رہے ہیں۔۔۔مجھے اس تقریب سے پہلے سب کچھ چیک کر لینا چاہیے تھا۔۔”وہ دھیرے سے اپنی پیشانی مسلتا ہوا پر سوچ انداز میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔۔لیکن اب وہ پچھتاوے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔۔
“اوہ شٹ یار۔۔!! اسے بھی آج ہی کے دن خراب ہونا تھا۔۔” زمان کا میسیج دیکھ کر اذلان نے غصے سے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر مارا تو شور کی آواز سن کر زینی کی موندی آنکھیں پھر سے کھل گئیں۔۔ وہ اب پریشان نگاہوں سے اذلان کو دیکھ رہی تھی جو اس کے سرہانے بیٹھا اس کی نیند ڈسٹرب ہونے پر ایک دم چونک گیا۔
“ریلیکس زینب! میں ادھر ہی ہوں آپ کے پاس۔۔ آپ آرام سے سو جائیں۔۔” اذلان نے اسے نرم لہجے میں تسلی دی تو وہ پھر سے آنکھیں بند کر کے تھوڑی ہی دیر میں واپس غنودگی میں چلی گئی۔ اس کی گھنی، لانبی پلکیں جو پہلے آہستہ آہستہ لرز رہی تھی اب غنودگی میں جانے کے باعث ساکت ہو کر رہ گئیں تھیں۔ اذلان کو صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی آنکھوں کے پپوٹے زیادہ رونے کے باعث سوج چکے ہیں۔۔
” اب کیسے پتہ چلے گا اس شخص کا۔۔؟؟”
آخر ہے کون وہ ذلیل انسان جس نے یہ گھٹیا حرکت کرنے کی ہمت کی۔۔؟؟ اس کے ذہن کے پردے پر سوچوں کے گہرے سیاہ بادل ایک ساتھ لہرا کر اس کے غصے کو ساتویں آسمان تک پہنچا رہے تھے۔
?????
“فاطمہ آپی! یہ منافق کی کیا پہچان ہوتی ہے۔۔؟ یہ عام لوگوں میں سے کیسے پہچانے جاتے ہیں۔۔” سویرا نے فاطمہ سے سوال پوچھا جو اس وقت انہیں قرآن پاک کی تفسیر پڑھا رہی تھی۔ ایک آیت پر آکر اس نے فاطمہ سے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔
“منافقت دو طرح کی ہوتی ہے سویرا:
(1) عملی منافقت۔
(2) اعتقادی منافقت۔
عملی منافقت کی مزید پانچ اقسام ہیں:
(1)جب بولے تو جھوٹ بولے۔
(2)جب وعدہ کرے تو جھٹلا دے۔
(3)جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
(4)جب جھگڑا ہو تو فحش کلامی پر اتر آئے۔
(5)جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے۔
اسی طرح اعتقادی منافقت کی بھی مزید اقسام ہیں:
(1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا۔
(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانا۔
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا۔
(4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی کسی چیز سے بغض رکھنا۔
(5)دین کی اہانت پر خوش ہونا۔
(6)دین کا نصرت پسند نہ ہونا۔
اس کی صحیح ترین تعریف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں بھی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“تم قیامت کے دن سب سے بدترین اس شخص کو پاؤ گے جو دوغلہ ہے ادھر لوگوں سے کچھ بات کرتا ہے اور ادھر لوگوں سے کچھ بات کرتا ہے۔۔”
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بندے کی تعریف کرتا ہے اور دوسری جگہ جا کر اسی بندے کی برائیاں کرنے لگ جائے تو وہ منافقت کی ہی ایک مثال ہے۔
ان کے لیے قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی وعید قرآن پاک میں سنائی گئی ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
” بشر المنافقین بان لھم عذابا الیما۔”
ترجمہ:
” منافقوں کو(بشارت) سنا دو ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔۔”
اور جو میں نے اس کی پہلی اقسام بیان کی ہیں:
سب سے پہلے تو یہ تھی کہ بات کرے تو جھوٹ بولے۔۔ اس شخص کے ہر بول میں جھوٹ ہی جھوٹ ہوگا۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لیے بھی جھوٹ بولنا کوئی گناہ نہ سمجھتا ہو گا۔
اسی طرح وعدہ کر کے مکر جانا بھی منافقوں کی خصلت میں شامل ہے۔
جب ہم ان کے پاس کوئی امانت رکھتے ہیں تو ان کا ایمان خراب ہو جاتا ہے اور وہ اس میں خیانت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
اور جب کہیں کوئی جھگڑا ہو رہا ہو تو وہ فحش کلامی پر اتر آئے گا وہ یہ بھی نہیں سوچے گا کہ آیا میں حق بات کر رہا ہوں یا نہیں۔۔کہیں میری کہی بات کسی پر بہتان نا بن جائے۔۔ میری بات کس پر تہمت نہ بن جائے۔ اس کے منہ میں بس جو آئے گا وہی بک دے۔ گا وہ بولنے سے پہلے بالکل بھی نہیں سوچے گا۔
اور جب کبھی معاہدے کی بات ہوگی وہ یکطرفہ معاہدہ توڑنے میں بھی گریز نہیں کرے گا۔
یہ سب تو عملی منافقت کی مثالیں ہیں۔
اور جو دوسری قسم ہوتی ہے اعتقادی منافقت کی ان کا تو عقیدہ ہی سرے سے غلط ہوتا ہے۔
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو جھٹلانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں گے اور اسی طرح جب ان کے سامنے کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ اس میں سے اپنے مطلب کی باتیں بس استعمال کر لیں گے جس طرح بیان کی گئی ہو وہ اس پر پوری طرح عمل نہیں کرتے۔
رسول اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنے میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔
دین کی اہانت میں خوش ہونا ان کی عادات میں شامل ہے۔
آپ انہیں کبھی بھی دین کی مدد کرنے والے نہیں پائیں گے۔وہ اس دین اسلام کو پھیلانے میں بالکل بھی مدد نہیں کرتے۔
اس قسم کے منافقوں کی سزا قیامت کے دن سخت ترین ہوگی۔
“یہ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔۔”
دوزخ کے سات درجے ہیں جن میں سے سب سے آخری درجے میں منافقوں کو رکھا جائے گا۔
آپ کو پتا ہے جب عہد نبوی تھا تب بھی منافقوں کی ایک قسم پائی جاتی تھی۔ یہ لوگ ادھر تو اسلام قبول کرنے والے بن جاتے جب مگر جب عملی کسی چیز کا مظاہرہ کرنا ہوتا تو فوراً پیچھے ہٹ جاتے۔
ایسے ہی جنگ کے حالات میں ان کا یہ بہانہ ہوتا تھا کہ ہمارے گھروں کے دروازے کھلے پڑے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سب کچھ پتہ چل جاتا تھا کہ کون لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور کون لوگ سچ اور حق کے ساتھ ہیں۔
جب کبھی جنگ میں کامیابی ملتی تو خوب بڑھا چڑھا کر باتیں کرتے کہ ہم نے یہ کر دیا ہم نے وہ کر دیا۔ مگر جب کبھی میدان جنگ میں حالات کے پیش نظر کامیابی نہ ملتی تو فوراً وہاں سے بھاگ جاتے۔
اور اپنی جان تو بچاتے ساتھ میں دوسروں کو بھی ورغلانے کا کام کیا کرتے تھے۔
جنگ احد میں بھی ایسے ہی لوگوں کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ماننے کی سزا ملی تو منافق لوگ شہیدوں کو دیکھ کر کہتے
” اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تو ان کے ساتھ یہ سب نہ ہوا ہوتا۔۔”
ان کے دلوں میں نفاق ہوتا ہے جو بات کو ادھر تو صحیح کہہ رہے ہوتے ہیں اور ادھر جا کر اسی بات کو غلط قرار دے دیتے ہیں۔
“آئی ہوپ سب کو سمجھ آ گئی ہو گی۔۔” فاطمہ نے لاؤنج میں بیٹھی تمام لڑکیوں سے پوچھا.
“جی آپی۔۔” سب نے یکطرفہ جواب دیا۔
“اوکے! آپ لوگ اپنا لیسن یاد کریں۔۔ میں ابھی تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔۔” فاطمہ نے ان کو رسان سے سمجھایا اور خود اٹھ کر آمنہ بیگم کو ایک نظر دیکھنے چلی آئی۔ ان کو گہری نیند سوتا پاکر وہ دروازہ بند کر کے پھر سے بچوں کو سبق پڑھانے واپس لاؤنج میں آگئی۔
?????
“السلام علیکم انکل!”پریشے آج ضامن بھائی کو کہہ کر زینی کے گھر آئی تھی۔
شاید اس کی ہی بات مان کر انکل اور آنٹی زینی سے پھر سے بات کرنا شروع کر دیں۔
اسی سلسلے میں وہ آج یہاں آئی تھی۔ ضامن بھائی اس کو یہاں چھوڑ کر کسی ضرور ی کام کے لیے آفس واپس چلے گئے تھے۔
“وعلیکم السلام۔۔!” ابراہیم صاحب نے بمشکل زیرلب جواب دیا اور پریشے کو ڈرائینگ روم میں بٹھا کر خود وہاں سے چلے گئے۔ اتنے میں سارہ بیگم بھی ڈرائینگ روم میں آ چکی تھی۔
“کیسی ہو بیٹا۔۔؟” سارہ بیگم پریشے سے مل کر کافی خوش ہوئیں تھیں۔ کیونکہ انہیں پریشے بھی بالکل زینی کی طرح ہی عزیز تھی۔
ان کی آنکھوں میں تو باقاعدہ آنسو جاری ہو گئے تھے۔ پریشے کو دیکھ کر ہی بے اختیار انہیں زینی کی یاد پھر سے آگئی۔
“جی آنٹی۔۔! میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ بتائیں۔۔ آپ اور انکل ٹھیک ہیں۔۔؟” پریشے جو ہمیشہ کم کم ہی بولتی تھی اب تھوڑا فریش ہو کر ابراہیم صاحب اور سارہ بیگم سے مخاطب ہو رہی تھی تاکہ ان کے مرجھائے ہوئے چہرے ذرا کھل جائیں مگر ابراہیم صاحب تو اسے وہیں چھوڑ کر خود اسٹڈی روم میں چلے گئے تھے۔
“ہم ٹھیک ہیں بیٹے۔۔!آپ کے انکل کے رویے کے لیے میں معذرت چاہوں گی۔۔ آج کل وہ بہت زیادہ پریشان ہیں نہ بس اسی لیے۔۔” سارہ بیگم نے ابراہیم صاحب کے رویے کی معذرت چاہی کیونکہ وہ پریشے سے بنا کوئی بات کیے ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔ جس پر پریشے ایکدم شرمندہ ہو کر رہ گئی تھی۔
“ک۔کوئی بات نہیں آنٹی۔۔! آپ لوگ میرے ماما اور بابا کی طرح ہیں مجھے بالکل بھی برا نہیں لگا۔۔” پریشے نے تھوڑا مسکرا کر بات کا اثر زائل کرنا تاکہ وہ زیادہ شرمندگی محسوس نہ کریں۔
“مجھے پتا چلا تھا آپ کے اور ولی کے رشتے کا۔۔ بیٹا بہت بہت مبارک ہو آپکو۔۔”
” ولی بہت اچھا بچہ ہے۔۔ہمیشہ آپ کا بہت خیال رکھے گا۔” سارہ بیگم نے چند ایک باتوں کے بعد ان کے نئے رشتے کی مبارکباد دی اور ساتھ ساتھ ولید کی بھی تعریف کی۔
“ارے میرا نام کون لے رہا ہے۔۔ ضرور کوئی نہ کوئی برائی ہی کر رہا ہوں گا۔۔ “ولی کسی ضروری کام کے سلسلے میں ابراہیم صاحب سے ملنے آیا تھا کہ اچانک اپنا نام سن کر سیدھا ڈرائینگ روم میں ہی چلا آیا۔
مگر وہاں سامنے صوفے پر بیٹھی پریشے کو دیکھ کر چند پل کیلئے ہکا بکا رہ گیا کیونکہ وہ اس ویڈیو کے معاملے کے بعد سے اب اسے براہ راست دیکھ رہا تھا۔
“برائی کس نے کرنی ہے میرا بچہ تو ہے ہی اتنا نیک اور شریف۔۔” سارہ بیگم نے ولی کو باقاعدہ اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا جس پر وہ کھل کر مسکرا دیا اور ساتھ ہی ساتھ پریشے کو ایک نظر دیکھنے لگا جو اسوقت سر جھکائے کنفیوز انداز میں اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔
“آپ لوگ بیٹھو! میں ذرا اسنیکس اور چائے لے آؤں۔۔” سارہ بیگم اٹھ کر کچن میں جانے لگی تو پریشے بھی گھبرا کر فورا اٹھ بیٹھی تھی۔۔
“ن۔ن نہیں آنٹی۔۔!اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ میں ابھی کھانا کھا کر آئی ہوں آپ یہیں میرے پاس ہی بیٹھیں۔۔” پریشے کی ازحد گھبراہٹ کو سارہ بیگم اور ولی دونوں نے محسوس کیا تھا۔ ولی اس کے اس رویے پر کچھ پل کیلئے دنگ رہ گیا تھا۔
“اوکے بیٹے۔۔! ریلیکس میں یہیں ہوں۔۔۔ اور پری بیٹے آپ کو ولی سے گھبرانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔۔۔ ہمارا بچہ بہت شریف ہے۔۔” آنٹی اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے وہیں بیٹھ گئی اور ملازمہ کو سب کچھ لانے کا آرڈر دینے کے بعد ساتھ میں ہلکا پھلکا مذاق کرکے ماحول کو لائٹ کرنا چاہا تھا۔
“میں جانتی ہوں آنٹی۔۔ پر وہ شیزا بھابی۔۔” پریشے نے ولی کے تاثرات میں فورا تبدیلی محسوس کی تو جھکے سر کے ساتھ منمنانے کے انداز میں وضاحت دی کیونکہ اسے شیزا بھابی سے بہت ڈر لگتا تھا کہ کہیں وہ پھر سے کوئی بات نہ بنا دیں۔
“کوئی حال نہیں۔۔۔”ولی پریشے کے اسقدر ڈرپوک انداز پر اسے کچھ پل کیلئے دیکھتا رہ گیا اور پھر ہلکے سے نفی میں سر جھٹکتے ہوئے مصنوعی غصے سے زیرلب بڑبڑانے لگا۔
“آنٹی۔۔! آپ پلیز زینی سے بات کرلیں وہ بہت زیادہ پریشان ہے۔۔” پریشے نے تھوڑی دیر ٹھہر کر وہی بات کی جس کے لیے وہ یہاں آئی تھی۔
“میں جانتی ہوں بیٹے۔۔! میں خود کیسے صبر کر رہی ہوں یہ صرف میں ہی جانتی ہوں۔۔” “مگر ابراہیم صاحب نے زینی سے رابطہ رکھنے سے منع کیا ہے اور میں ان کے حکم کی خلاف ورزی کر کے ان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی۔۔” سارہ بیگم بھرائے ہوئے لہجے میں بات کرنے کے ساتھ ساتھ آخر میں خود بھی رو دی۔ اس پر ولی نے ان کو اپنے ساتھ لگا کر سہارا دیا اور ان کے بہتے انسو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے لگا۔
سارہ بیگم ولید کو ہمیشہ اپنا بیٹا کہتیں تھیں اور ولید بھی انہیں ہمیشہ اپنی ماما کی طرح ہی ٹریٹ کیا کرتا تھا۔
“مگر آنٹی۔۔! زینی خود کو بہت تنہا فیل کر رہی ہے۔۔ وہ آپ سب کو بہت یاد کرتی ہے۔۔”پریشے نے سارہ بیگم کو منانے کے لیے ایک اور کوشش کی مگر اس بار بھی سارہ بیگم اس کی بات کے آگے سے کچھ بول ہی نہ سکی۔۔
“پریشے! میں بہت جلد زینی سے ملنے جاؤں گا۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔پھر چاہے مجھے انکل کو بتائے بغیر ہی کیوں نہ جانا پڑے۔۔”
ولید نے پریشے کو ازحد پریشان ہوتے دیکھا تو فورا تسلی دی کیونکہ وہ سارہ بیگم کی اس بات پر رونے والی ہو گئی تھی۔
“جی ٹھیک ہے۔۔” پریشے نے سرگوشی نما آواز میں جواب دیا۔
ملازمہ چائے اور اسنیکس وغیرہ رکھ کر جا چکی تھی۔ سارہ بیگم نے چائے کا کپ پریشے کو پکڑایا جسے وہ بمشکل ہی تھام سکی ورنہ اس کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔
“کب ہو رہی ہے آپ کی انگینجمینٹ۔۔؟”سارہ بیگم نے بات بدل کر ولی سے پوچھا جس پر اس نے پریشے کو ایک نظر دیکھا۔
“جی آنٹی! وہ ماما اور بابا تو کہہ رہے تھے کہ بہت جلد ضامن بھائی سے بات کریں گے۔۔” ولی نے سارہ بیگم کو احد صاحب اور عظمت بیگم کی بات بتائی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر دھیرے سے مسکرا دیں۔
“آنٹی! وہ مجھے گھر جانا تھا کیا آپ کا ڈرائیور مجھے ڈراپ کردے گا۔۔” پریشے نے کچھ دیر بیٹھ کر ہچکچاتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا کیونکہ اسے ولید کی نرم گرم نگاہوں کی تپش اندر ہی اندر بری طرح جھلسا رہی تھی جس سے اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے بھر کر رہ گئیں تھیں۔
“پریشے! میں آپ کو ڈراپ کردوں گا۔۔ میں نے واپس آفس جاتے ہوئے اسی سائیڈ سے ہی جانا ہے۔۔” سارہ بیگم کے جواب سے پہلے ہی ولید فورا بول اٹھا۔
تو پریشے اس بات پر ولید کو تو کچھ نہ بول سکی مگر اس کا دل فورا عجیب انداز میں دھڑکنے لگا تھا۔
“ولی آپ کو ڈراپ کر دے گا پریشے۔۔” سارہ بیگم کے دل کو ولید کی بات سن کر تسلی ہوئی تھی کیونکہ وہ پریشے کو تنہا ڈرائیور کے ساتھ نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔
پہلے تو ہمیشہ زینی ڈرائیور کے ساتھ خود جا کر پریشے کو اس کے گھر ڈراپ کر کے آتی تھی مگر اب۔۔۔؟؟ ان کی سوئی پھر زینی پر اٹک کر رہ گئی تھی۔
“ج۔ج۔جی آنٹی۔۔” پریشے نے ولید سے نگاہیں چرائے آہستہ آواز میں سارہ بیگم کو جواب دیا ۔۔
?????
“تم اندھے ہو کیا۔۔؟؟ سامنے سے آتی گاڑی دکھائی نہیں دے رہی۔۔؟؟” شوخ لڑکے نے نائٹ کلب کی پارکنگ سے مرسڈیز کار نکال کر روڈ پر لانا چاہی تو روڈ کے بالکل بیچ و بیچ کسی کو کھڑے پاکر غصیلے لہجے سے بولا جس پر سامنے کھڑا لڑکا اپنی پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے سرد تاثرات سمیت اسے غصے سے گھورنے لگ گیا تھا۔
“اندھے ہونے کے ساتھ ساتھ بہرے بھی ہو کیا۔۔؟؟ جو سنائی بھی نہیں دے رہا تمہیں۔۔۔ ہٹو سامنے سے۔۔” شوخ لڑکے نے سنگل روڈ کے بیچ و بیچ کھڑے لڑکے کو غصے سے کہہ کر خود بھی اپنی کار سے باہر نکل آیا اس وقت اکا دکا لوگ اس روڈ سے گزر رہے تھے۔
“کیا ہے۔۔؟ کیوں سامنے اس۔۔۔” شوخ لڑکے کی بات کو ضرار کے زوردار تھپڑ نے مکمل ہونے سے پہلے ہی روک دیا تھا۔
“یو ایڈیٹ۔۔بلڈڈی۔۔ یو سلیپ می۔۔” لڑکا شاید شراب کے نشے میں دھت تھا اس لیے اس سے صحیح سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا اس لئے فورا گالیاں بکنے کے ساتھ ساتھ ضرار پر جھپٹنے کی بھی کوشش کرنے لگا۔
مگر ضرار کے پے در پے تھپڑ اور گھونسوں نے اس کے رہے سہے حواس بھی گم کر دیے تھے۔
“آئیندہ کسی بھی لڑکی کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک بار سوچ ضرور لینا۔۔۔” شوخ لڑکا اس کو پہچان نہیں پا رہا تھا کیونکہ اس نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ضرار کے پے در پے وار سے وہ لڑکا درد کے مارے اب دوہرا ہو کر پیٹ کے بل گر چکا تھا۔ اب ضرار نے غصے میں آکر ایک زوردار کک اس کی کمر میں ماری اور پھر وہ غصے سے اسے ایک نظر گھورتا وہاں سے چلا گیا۔
اس نے اپنے آپ کو بڑی مشکل کنٹرول کیا حالانکہ وہ اس کی کوئی نہ کوئی ہڈی پسلی تو توڑ ہی چکا تھا مگر اس کا دل شدت سے چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے ان ہاتھوں سے ہی اس کی جان لے لے جو اس کے گھر کے کسی فرد کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کی نیلی آنکھوں میں چلتے چلتے پھر سے وہی عکس لہرآیا جب یہ لڑکا زینی کا ہاتھ زبردستی پکڑ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پھر سے وہی وحشت طاری ہوئی اسی لئے اس نے پھر واپس آ کر اس کو مکے مارنا شروع کر دیے۔ تب تک کئی لوگ وہاں آ چکے تھے۔ کئی لوگوں نے بہت زور لگا کر اسے اس لڑکے سے بمشکل پیچھے ہٹایا ورنہ وہ تو اس کی جان لے کر ہی دم لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس نے غصے سے ایک اور بھاری تھپڑ مار کر اس کا گریبان جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے اسکے سر پر ایک بھاری بوٹ سے پھر زوردار کک ماری اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
لوگ ضرار کے اس قدر جنونی انداز کو دیکھ کر حیرت ذدہ تھے۔ مگر اس کے چہرے پر چھائی سختی اور اس کے ازحد سنجیدہ تاثرات دیکھ کر کسی کے اندر اس سے کوئی بھی سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
پھر وہ کسی سے بنا کچھ کہے وہاں سے چل دیا۔کئی لڑکوں نے اس بے ہوش لڑکے کو گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال پہنچایا اور اس کا علاج شروع کروایا۔
ڈاکٹر اس زخمی لڑکے کی ابتر حالت دیکھ کر ایک دم پریشان ہو چکے تھے جسکے وجود کو ضرار نے ایک ہی جھٹکے میں بری طرح روند ڈالا تھا۔
?????
“ماما! آج مریم نے مجھے اپنے دوستوں کے سامنے ڈانٹا تو میں نے بھی بابا سے کہہ کر اسے خوب ڈانٹ کھلوائی۔۔” حیا گھر آکر رفعت بیگم کو کالج کی ساری روداد سنا رہی تھی .وہ اپنی ہر بات آ کر سب گھر والوں سے شیئر کیا کرتی تھی۔
“حیا۔۔!تم اب بچی نہیں رہی۔۔ بڑی ہو چکی ہو۔۔ کب بڑوں والی حرکتیں کرو گی تم۔۔ہاں۔۔۔؟؟” اس کی توقع کے عین مطابق رفعت بیگم سے اسے ڈانٹ پڑ رہی تھی جس پر وہ بے ساختہ ہنستے ہوئے اپنے کمرے میں جانے لگی۔
“اسی لیے۔۔ میں نے بابا کو فون کیا تھا آپ کو نہیں۔۔۔ آپ نے تو الٹا مجھے ہی ڈانٹنا تھا۔۔” مریم اس کے کمرے کے دروازے سے باہر چہرہ نکال کر بات کرنے کے انداز پر قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے رفعت بیگم کو کھانا کھانے کا کہنے لگی۔ حسن صاحب ابھی آفس سے واپس نہیں آئے تھے۔
مریم اور رفعت بیگم نے کھانا کھا کر برتن سمیٹے تو رفعت بیگم مریم کو بھی پڑھنے کا کہہ کر خود لاؤنج میں آ کر حسن صاحب کے گھر آنے کا انتظار کرنے لگیں۔
“کیسی ہیں آپ۔۔؟؟” حسن صاحب کی نرم آواز سن کر صوفے پر بیٹھی رفعت بیگم نے آہستہ آواز میں جواب دیا اور صوفے سے اٹھتے ہوئے ان کے ہاتھ سے کوٹ اور آفس بیگ بھی لے لیا۔
“ج۔ جی۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔” حسن صاحب کو رفعت بیگم کے رویے میں تھوڑا بدلاؤ محسوس ہوا تو فورا ان کا ہاتھ تھام کر انہیں واپس اپنے پاس بٹھایا اور سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
“کیا ہوا آپ کو۔۔ کچھ پریشان پریشان سی لگ رہی ہیں۔۔؟؟” حسن صاحب نے رفعت بیگم کا پریشان چہرہ دیکھ کر فورا پڑھ لیا تھا۔
“نہیں کچھ نہیں۔۔ آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے کھانا لگاتی ہوں۔۔ “رفعت بیگم نے پاس سے اٹھنا چاہا تو حسن صاحب نے انہیں دوبارہ اپنے پاس واپس بٹھا لیا۔
“کھانا نہیں کھانا۔۔۔ پہلے آپ مجھے یہ بتائیں آپ اتنا پریشان کیوں ہیں۔۔؟”
“آپ جانتی ہیں نا۔۔ آپ کا پریشان چہرہ دیکھ کر کھانا تو کیا میں پانی کی ایک بوند بھی اپنے گلے سے نہیں اتار سکتا۔۔ بتائیں کیا بات ہے۔۔؟؟” حسن صاحب کو لگا کوئی سیریس بات ہے اس لیے فکر مند لہجے میں گویا ہوئے۔
“نہیں حسن۔۔ ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔۔۔وہ تو میں بس حیا کے لئے تھوڑی پریشان ہوں۔۔” رفعت بیگم نے سرگوشی نما آواز میں کہا جس پر حسن صاحب ایک دم سیدھے ہو بیٹھے تھے۔
“حیا۔۔؟؟ حیا کے لیے پریشان۔۔ مگر کیوں۔۔؟؟ کیا ہوا میری حیا کو۔۔؟؟”حسن صاحب فورا پریشانی سے اٹھ بیٹھے اور حیا کے کمرے میں جانے لگے جس پر رفعت بیگم نے انہیں بازو سے تھام کر فورا روک لیا۔
“بس۔۔۔ اسی بات کو لے کر میں پریشان ہو رہی ہوں حسن۔۔ جو آپ حیا کے لیے اس قدر پوزیسیسیونیس کا شکار ہیں۔۔” رفعت بیگم کی بات سن کر حسن صاحب نے انہیں ناسمجھی سے دیکھا۔
“رفعت!! آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔۔؟؟” حسن صاحب نے اب باقاعدہ واپس صوفے پر بیٹھ کر سنجیدگی سے بھرے لہجے میں پوچھا تھا۔
“دیکھیں حسن۔۔! آپ جانتے ہیں۔۔حیا مجھے بھی اتنی ہی عزیز ہے۔۔ پورے گھر بھر کی لاڈلی ہے۔۔”رفعت بیگم نے تمہید باندھنی شروع کی۔
” مگر ہمیں اسے ہر بات میں فیور نہیں کرنی چاہیے۔۔ بات چاہے کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو پھر بھی ہم اسے لاڈلی کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔۔ یہ سب چیزیں اس کی شخصیت کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔۔”
“مطلب۔۔؟” حسن صاحب کو رفعت بیگم کی بات بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
“حسن! بچے کو ہر بات پر Appreciate نہیں کرنا چاہیے۔۔ کیونکہ پھر وہ بچہ آپ کی تعریف کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ اس میں مزید بہتری کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔۔”
” اور پھر وہ اپنے سیکھنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں کھو دیتا ہے۔ جب کوئی اس کی اتنی ہی قدر نہیں کرتا جتنی آپ اس کی کرتے ہیں تو وہ دوسروں کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اس کو بات بے بات آپ کی تعریف کی بیساکھی ساتھ ہی چاہیے ہوگی اوپر اٹھنے کے لئے وہ خود سے کبھی بھی کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔۔”
“جب کبھی آپ غلط بات پر اس کو غلط کہیں گے تب ہی اس کو سمجھ آئے گی نا کہ کیا چیز صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں نہ میری بات۔۔ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔۔؟؟” رفعت بیگم نے انہیں رسان سے سمجھایا اور پھر انہیں دیکھنے لگ گئیں جو انہیں ہی بغور سن رہے تھے۔
حسن صاحب نے ان کے سوال پر گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے اپنا چہرہ نیچے جھکا لیا اور آہستگی سے گویا ہوئے۔
“یار! میں کیا کروں یہ دونوں بیٹیاں مجھے اتنی عزیز ہیں کہ ان کے بغیر تو میں اپنے آپ کو خالی خالی سا محسوس کرتا ہوں۔۔ان دونوں نے مجھے اپنا اس قدر عادی بنا لیا ہے۔۔” حسن صاحب کے لہجے میں واضح محبت و شگفتگی کا عنصر شامل تھا۔
“کیا آپ جانتے نہیں مجھے بھی وہ اتنی ہی عزیز ہیں۔۔ مگر ہم نے ان کی تربیت کرنی ہے حسن۔۔ یہ ان کے مستقبل کا سوال ہے۔۔”
“ہمم۔۔۔ کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہی ہیں۔۔چلیں یہ سب بھی آہستہ آہستہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔” حسن صاحب نے تھوڑا ہنستے ہوئے بے چارگی سے کہا تو رفعت بیگم بھی بے ساختہ ہنس دیں کیونکہ وہ اچھے سے جانتیں تھیں کہ یہ ان کے لئے کس قدر مشکل کام ہے۔۔
“بابا۔۔بابا جانی آپ آگئے۔۔؟؟ دیکھیں ابھی تھوڑی دیر پہلے ماما مجھے بہت زیادہ ڈانٹ رہیں تھیں۔۔ “حیا تیزی سے بھاگتے ہوئے باہر آئی تو حسن صاحب کے گلے میں لاڈ سے بازو حائل کئے اور پھر ان کو رفعت بیگم کی شکایت کرنے لگی جو اب ان دونوں کو ہی بغور دیکھ رہیں تھیں۔
“دیکھتے ہیں اب حسن صاحب کیا کرتے ہیں۔۔؟؟”
“اچھا۔۔؟؟ایسا ہے کیا۔۔؟ ابھی میں ان کی خبر لیتا ہوں۔۔ بھئی کیوں ڈانٹا جا رہا ہے میری بیٹی کو۔۔؟؟” حسن صاحب کے اتنا کہنے پر اندر جاتی ہوئی رفعت بیگم نے انہیں کنکھیوں سے دیکھا تو انہیں پھر یاد آ گیا کہ ابھی تو اتنا بڑا لیکچر دیا ہے پھر سے بھول گئے ہیں۔۔۔
تو پھر وہ اپنی زبان کو دانتوں تلے دباتے ہوئے حیا کو سامنے بٹھا کر پوری توجہ سے اس کی باتیں سننے لگے مگر اب وہ پہلے کی طرح ہنس نہیں رہے تھے۔۔ ورنہ وہ ہمیشہ اس کی ہر شرارت پر ہنس رہے ہوتے تھے۔۔ وہ اچھے سے جانتے تھے انہیں مرحلہ وار یہ سارے مراحل طے کرنے ہیں کیونکہ حسن صاحب کے رویے میں فورا تبدیلی آنا حیا کسی طور برداشت نہ کر پاتی۔
رفعت بیگم ان باپ بیٹی کے پیار کو دیکھ کر آہستگی سے مسکرا کر کچن میں چلی گئیں تھی۔
?????
زینی اچانک سو کر اٹھی تو اپنے سرہانے بیٹھے بیٹھے سوئے ہوئے اذلان کو دیکھا تو اسے کچھ پل کے لیے ساکت نگاہوں سے دیکھتی ہی رہ گئی۔
اس کے ذہن کے پردے پر رات کا منظر پھر سے لہرایا تو اس نے اپنی دکھتی ہوئی آنکھوں پر ایک دم ہاتھ رکھا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے مسلنے لگی۔
اذلان کو ابھی تک اپنے کمرے میں موجود دیکھ کر زینی کافی حد تک مطمئن نظر آئی تو بنا شور کئے اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد فریش ہو کر واپس آئی تو اذلان بھی تب تک اٹھ چکا تھا۔ شاید وہ واش روم میں پانی گرنے کی آواز پر ہی گہری نیند سے جاگا تھا۔
زینی نے اپنے گیلے بالوں پر ٹاؤل اچھے سے لپیٹ رکھا تھا۔ وہ اسوقت لائٹ پستہ کلر کے سوٹ میں ملبوس تھی۔ اب اس نے اپنے گیلے بالوں کو تولیے سے آزاد کر کے ہیئر برش کرنا شروع کر دیا۔ اذلان بے اختیار اس کے کمر تک آتے لمبے ،سلکی اور گھنے بال دیکھ کر مندی مندی آنکھوں سے بیڈ کی پشت پر ٹیک لگا کر اس کو مبہوت نگاہوں سے دیکھتا ہی رہ گیا۔
زینی آئینے میں اسے خود کو دیکھتا پا کر ایک دم جزبز سی ہوئی تو ہیئر برش اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔
کمرے کی ساکت فضا میں اچانک شور کی گونج نے اذلان کو سکتے سے باہر نکالا اور پھر وہ خجل ہوتا ہوا جلدی سے جھک کر شوز اتارتے ہوئے اپنے سلیپرز پاؤں میں اڑسنے لگا۔ وہ ابھی تک رات کے پینٹ کوٹ میں ہی ملبوس تھا اس نے اپنے کپڑے تک چینج نہ کیے تھے از حد پریشان ہونے کی وجہ سے وہ ویسے ہی بیٹھا رہ گیا اور رات کو جانے کب سوچتے سوچتے اس کی بھی آنکھ لگ گئی اسے بالکل بھی اندازہ نہ ہوا۔
“اب آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟؟” اذلان ڈریسنگ روم سے اپنے کپڑے لیے واش روم میں جانے لگا تو اس کو دیکھتے ہوئے پوچھے بنا نہ رہ سکا تو اس کے جواب میں زینی نے فورا “جی” کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
اذلان اس کے چہرے کے تاثرات کو پہلے کی نسبت تھوڑا پر سکون دیکھ کر واش روم میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اذلان بھی تیار ہو کر آگیا اور پھر وہ دونوں نچلے فلور کی جانب چل دیئے۔
“آپ کل رات کے واقعے کا ذکر کسی سے مت کریے گا۔۔ وہ میٹر میں خود سنبھال لوں گا۔۔” اذلان نے زینی کو رات کی نسبت کافی پرسکون پایا تو نرم لہجے میں گویا ہوا تھا۔
“جی ٹھیک ہے۔۔” زینی نے جواب میں بھرپور فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا تو بے اختیار ہی اذلان کو زینی کا رات والا روپ یاد آ گیا جب وہ اس کے ساتھ ضد باندھ کر بیٹھ گئی تھی اور پھر اس نے زبردستی اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا تھا۔
یہ سب سوچتے ہوئے اذلان کے گھنی مونچھوں تلے خوبصورت عنابی ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ نے جگہ بنا لی جسے وہ جلدی سے کنٹرول کرتا ہوا لاؤنج میں آ گیا تھا جہاں آحل اور عینی بھاگ کر اس سے لپٹ گئے تھے۔
اس سے مل کر اب وہ دونوں زینی سے ملنے لگے تھے۔ زینی ان کو اپنے ساتھ لیے باقی سب کو سلام کرتے لاؤنج میں آ کر بیٹھ گئی۔ اب وہ سب کچھ بھول کر بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی باتوں میں حصہ لینے لگ گئ۔ اس کے چہرے پر رات کے دکھ کا شائبہ تک نظر نہیں آ رہا تھا شاید وہ بھی اس فیملی میں گھل مل سی گئی تھی۔
یہاں پر سب لوگ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔
“آج ہم نے اسپیشلی اذلان بھائی اور زینی کی پسند کا ناشتہ بنوایا ہے۔۔” عائشہ اور زمل نے مسکراتے ہوئے زینی اور اذلان کو کہا جس پر زینی خوش دلی سے مسکرا دی۔
“مطلب۔۔ ہم تو ایویں ہی آئے ہوئے ہیں یہاں پر۔۔ کیوں زیان بھائی۔۔؟؟” عالیان نے جھوٹا منہ بناتے ہوئے کہا تو زیان نے بھی جوابا سر اثبات میں ہلا دیا۔
“تو اور کیا۔۔؟؟ یار ویسے ہم تھوڑا پرانے ہو گئے ہیں۔۔ یہ لوگ ابھی نئے نئے کپل ہیں نا اس لئے ابھی ان کی خاطر داری ہو رہی ہے۔۔”
زیان نے عالیان کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا جس پر لان میں بیٹھے تمام نفوس آہستگی سے مسکرا دیے تھے۔
“یہ دیکھیں ناظرین! سپر اسٹار اذلان شاہ کے بھتیجے ضرار کو۔۔ دیکھئے یہ کس طرح بے رحمی سے اس نوجوان کو رات کے اندھیرے میں بری طرح پیٹتا جارہا ہے۔۔ غور سے دیکھیے ناظرین ہم آپ کو آج کی بریکنگ نیوز سے آگاہ کر رہے ہیں۔۔”
“جو ویڈیو آپ کی ٹی وی اسکرینز پر چل رہی ہے۔۔ اس میں پہلے تو اس لڑکے نے اس بیچارے کو بری طرح مارا پھر واپس جا کر پھر کچھ سوچتے ہوئے لوٹ کر واپس آیا اور پھر اس کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنانے لگا۔۔۔”
“آپ کو بتاتے چلیں ناظرین! اگر وہاں لوگ آ کر مداخلت کرتے ہوئے اس کو نہ بچاتے تو یہ امیر باپ کی اولاد اس لڑکے کی جان لے کر ہی دم لیتا۔۔” “جس طرح آپ ٹی وی کی سکرین پر یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔۔ ہم نے اس رات کے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہے اور یہ ہم آپ کے سامنے ساری حقیقت واضح کر رہے ہیں۔۔”
“ہمارے رپوٹر سلمان احمد اس لڑکے کی طبی حالت کے بارے میں ابھی آگاہ کریں گے بتائیے سلمان احمد کیا نئی رپورٹ سامنے آئی ہے۔۔ اس بارے میں آگاہ کیجئے ہمارے ناظرین کو۔۔”
” یہ کل رات کا واقعہ ہے ہماری اطلاعات کے مطابق۔۔ کل رات اداکار اذلان سکندر شاہ کے گھر ولیمے کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ جس میں انہوں نے میڈیا کو تو انوائٹ نہیں کیا تھا مگر ان کے بھتیجے نے میڈیا پر آکر ان کا یہ عمل بری طرح اکارت کر دیا۔”
“ناظرین۔۔۔!یہ نائٹ کلب کی پارکنگ کی فوٹیج ہے جس میں یہ لڑکا ضرار شاہ اس لڑکے کی کار کے سامنے تن کر کھڑا رہا اور اس کے کافی منع کرنے کے باوجود ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا تو ایک آدھ بات کے بعد ضرار نے اس کو بے دردی سے مارنا شروع کر دیا۔ وہاں پر موجود عینی شاہدین کے بیانات سے پتہ چلا کہ اس نیلی انکھوں والے لڑکے نے زبان سے کوئی بات نہیں کہی بس بری طرح مارتا رہا اور پھر اپنی کار لے کر وہاں سے چلا گیا۔۔ جی!!”
“بہت شکریہ سلمان احمد آپ کی اس رپورٹ کا۔۔”
“آپ نے دیکھا ناظرین۔۔۔یہ دولت کے نشے میں چور بگڑی ہوئی اولادیں کس طرح بدمعاشیاں کرکے لوگوں کو ڈراتی دھمکاتی ہیں۔۔”
“ہماری اطلاعات کے مطابق اس لڑکے کو سر پر کافی گہرے زخم آئے ہیں مگر ابھی تک اسے ہوش نہیں آیا ہے۔۔ جب اسے ہوش آیا تو ہم اس زخمی لڑکے کا بیان بھی آپ کے سامنے رکھیں گے۔۔”
وہ نیوز اینکر ایک بار پھر سے اسی بریکنگ نیوز کو پڑھنے لگی تو عاصمہ بیگم نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کر دیا۔
سب کے چہرے اس وقت حیرت کے مارے سفید لٹھے کی مانند لگ رہے تھے۔ اذلان بھی اس وقت اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھے شدید دکھ بھری کیفیت سے بند ٹی وی کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔
ضرار اس وقت کھانا کھانے کے لیے ادھر ہی آ رہا تھا کہ ٹی وی پر اپنی فوٹیج چلتے دیکھ کر بےتاثر انداز سے واپس جانے لگا تو عفان کی سخت ،غصیلی آواز نے اس کے بڑھتے قدم وہیں جکڑ لیئے۔
“ضرار۔ر۔۔۔۔یہ سب کیا ہے۔۔؟؟”عفان کے سرد لہجے پر ضرار ایکدم رکا اور ان کی اس بات پر اس کا چہرہ فورا نیچے جھک گیا۔
“ضرار!ایم آسکنگ یو۔۔ ڈیم آنسر می۔۔؟؟” عفان کے اسقدر سخت لہجے پر بھی ضرار نے اپنی جھکی نگاہیں اوپر نہ اٹھائیں تھیں۔ جس پر اذلان آگے بڑھا اور عفان بھائی کو صوفے پر بٹھا دیا۔
“عفان بھائی! پلیز آپ یہاں بیٹھیں۔۔ میں اس سے خود بات کرتا ہوں۔۔” اذلان نے فورا ضرار کو اپنے کمرے میں جانے کا کہا تو وہ دھیمے قدموں سے چلتا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
“ضرار یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔۔؟اذلان مجھے تو اتنا غصہ آرہا ہے کیا بنے گا اس کا۔۔؟ اگر اس لڑکے کو کچھ ہوگیا تو۔۔؟؟” عفان بھائی پریشان انداز میں اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر رہ گئے۔
تو اچانک زیان کی آواز پر سبھی چونک اٹھے۔
“عفان بھائی !کوئی کچھ نہیں کر سکتا آپ ٹینشن نہ لیں۔۔ یہ لڑکا مجھے شراب کے نشے میں دھت دکھائی دے رہا ہے۔۔ میں ابھی پولیس اسٹیشن سے جا کر اس کی میڈیکل رپورٹ نکواتا ہوں۔۔”
“دیکھیے گا وہ خود پھنس جانے کے چکر میں ضرار پر کوئی کیس نہیں کریں گے۔۔ اور رہی بات میڈیا کی تو یہ سب تو ان کا روز کا کام ہے۔۔”
“آج نہیں تو کل سب لوگ اس حادثے کو بھول ہی جائیں گے۔۔ آپ لوگ پریشان نہ ہوں میں ابھی پولیس سٹیشن جا رہا ہوں۔۔۔وہاں جا کر خود بات کرتا ہوں۔۔” عفان بھائی کو تو یہ بات سن کر یک گونہ سکون محسوس ہوا۔
تبھی اذلان نے زیان کو مخاطب کیا۔
“زیان میں بھی چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔۔شاید ادھر کوئی ضرورت ہو میری۔۔” زیان نے اذلان کو اس ملک کے جانے مانے ایکٹر ہونے کی نشاندہی کرواتے ہوئے فورا نفی میں سر ہلا دیا۔
” میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ۔۔” عالیان زیان کے منع کرنے کے باوجود زبردستی اس کے ساتھ چل پڑا جس پر زیان نے اسے “اوکے” کا سائن شو کر دیا۔
سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم بھی پریشان انداز سے بیٹھے ہوئے تھے مگر زیان کی بات پر سبھی تھوڑا ریلیکس ہو گئے۔
زینی آحل اور عینی کو شور کی وجہ سے باہر لے گئی تھی۔ اس کے پیچھے ہی زمل اور عائشہ بھابی بھی آگئیں۔
“بھابی سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ کوئی پرابلم تو نہیں ہے نا۔۔؟ ضرار تو ٹھیک ہے نا۔۔؟؟” زینی نے بچوں کو کھلاتے ہوئے پوچھا تو عائشہ بھابی نے زیان کی بات بتائی جس پر وہ “تھینک گاڈ”کہتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگی تھی۔
“ان شاءاللہ۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ اذلان بھائی ضرار سے بات کرنے گئے ہیں۔۔ وہ ضرار کو بھی ریلیکس کرلیں گے۔۔”زمل نے زینی کو تسلی دی اور خود بھی مطمئن ہو گئی کیونکہ اسے پتا تھا زیان سب معاملہ سنبھال لیں گے اور رہی بات ضرار کی اس کے لیے تو صرف اذلان ہی کافی تھا۔
?????
“ماما!ہمیں کراچی جانا ہے آپ اپنے ذہن کو ابھی سے تیار کرلیں۔۔” فاطمہ نے آمنہ بیگم کے بالوں میں ہیئر برش کرتے ہوئے کہا تھا۔
“کراچی؟؟لیکن وہاں کیوں فاطمہ۔۔؟؟” آمنہ بیگم نے سوالیہ انداز میں گھبراتے ہوئے پوچھا۔
انہیں لگا شاید یہاں پھر کوئی ان کیلئے نیا مسئلہ کھڑا کر رہا ہے۔۔
“وہ ماما۔۔ آپ کے علاج کے لیے ایک ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ ملی ہے۔۔” فاطمہ نے اسپتال وغیرہ کا نام بتایا جس پر اسے آمنہ بیگم کی پریشان زدہ آواز اپنی سماعتوں میں سنائی دی۔
“لیکن کیوں بیٹا۔۔کراچی سے علاج کروانا ضروری ہے کیا۔۔ ؟؟ادھر کے ڈاکٹر کی میڈیسن لے تو رہی ہوں فرق کرنا ہوگا تو پڑ جائے گا۔۔” آمنہ بیگم اب دوائیاں کھا کھا کر تھک چکیں تھیں۔
“پلیز ماما! آپ میرے لئے چل رہی ہیں۔۔ اوکے۔۔؟؟” فاطمہ نے آمنہ بیگم کو اپنا حوالہ دیا۔
“فاطمہ !جو پیسہ کماتی ہو سارا مجھ پر لگا دیتی ہو۔۔ اب میری عمر ہو چکی ہے۔۔ کیوں اپنا وقت اور پیسہ مجھ پر ضائع کیے جا رہی ہو۔۔؟” آمنہ بیگم کے لہجے میں مایوسیاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھیں۔
“ماما! آپ سے کتنی بار کہا ہے مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کریں پلیز۔ز۔” فاطمہ کی آواز شدت جذبات سے رندھ چکی تھی۔
“آپ کے علاوہ میرا ہے ہی کون۔۔ آپ کو تو ذرا بھی میری پروا نہیں ہے ۔۔” فاطمہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے دھیمے لہجے سے گویا ہوئی۔ وہ ہمیشہ ہمت سے ہی کام لیتی تھی مگر جب کبھی آمنہ بیگم کی ایسی باتیں سنتی تو پھر وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی خود کے اعصاب پر قابو نہ رکھ پاتی تھی۔
“اسی لئے تو کہہ رہی ہوں۔۔ اپنا گھر بساؤ۔۔ میری زندگی کا تو کوئی بھروسہ نہیں ہے۔۔پتا نہیں کب۔۔۔۔۔” آمنہ بیگم نے اپنے کئی بار کہی بات پھر سے دہرا دی جو وہ پچھلے پانچ سالوں سے فاطمہ کو کہہ رہیں تھیں مگر فاطمہ مسلسل نظر انداز کر رہی تھی۔
“ماما! بھروسہ تو کسی کی بھی زندگی کا نہیں ہے ۔۔کیا آپ کو پتا تھا کہ وہ ہمیں ایسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔۔؟؟ جس کے ساتھ ابھی اور خوشیاں دیکھنے کی دل سے تمنا کی تھی میں نے۔۔”
فاطمہ نے آج کتنے دنوں بعد آمنہ بیگم کے سامنے اس کا ذکر کیا تھا ورنہ وہ کبھی بھی آمنہ بیگم کے سامنے اس کا ذکر اپنے لبوں پر نہ لاتی تھی کیونکہ آمنہ بیگم اس کا ذکر سن کر فورا پریشان ہو جایا کرتیں تھیں۔
آمنہ بیگم ہمیشہ کی طرح اس کی بات سن کر پریشان ہو گئی تھی مگر وہ اپنی بیٹی کو بھی کوئی تسلی نہ دے سکیں اس لیے خاموش ہو کر رہ گئیں۔
فاطمہ نے انہیں ازحد خاموش دیکھا تو وہاں سے اٹھ کر اپنی اور آمنہ بیگم کی ضروری پیکنگ کرنے میں مصروف ہو گئی۔
?????
“ہیپی برتھ ڈے ڈیئر۔۔!!” چمکیلے ماسک پہن کر آتی شمسہ کی فرینڈز نے گلے ملتے ہوئے اسے وش کیا جس پر وہ “تھینک یو” کہتی آہستگی سے مسکرا دی۔
آج کافی دنوں بعد اس کی طبیعت کچھ بہتر محسوس ہو رہی تھی۔ اسی لیے سونیا بیگم نے اختر صاحب سے پارٹی رکھنے کا کہا تو وہ بھی شمسہ کی حالت کو دیکھ کر مان گئے۔
کیونکہ آج وہ اتنے دنوں بعد اسے کافی فریش محسوس کر رہے تھے۔ دور کھڑے اس کو مسکراتے دیکھ کر ان کے دل کے کونے میں ایک سکون کی لہر دوڑ گئی اور پھر وہ اپنے دوست کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئے۔
“یار! یہ صحیح ماسک والا پلان بنایا ہے۔۔ بچوں نے کوئی پہچانا ہی نہیں جا رہا ہے۔۔” ان کے کولیگ نے ہنستے ہوئے اختر صاحب کو کہا تو وہ بھی ہنس کر نرمی سے گویا ہوئے۔
“ہاں یار! بس آج کل کے بچوں کی جو مرضی ہوتی ہے وہی کرتے ہیں۔۔” اختر صاحب بھی اب مسکراتے ہوئے اطراف میں دیکھنے لگ گئے۔
تھوڑی ہی دیر بعد سونیا بیگم نے اختر صاحب کو آواز دی تو وہ دونوں شمسہ کے ساتھ مل کر کٹ کرنے لگے۔ شمسہ نے باری باری دونوں کو کیک کھلایا تھا۔
“دیکھیں ڈیڈ! زاوی بھائی آج بھی میری اس خوشی کے موقع پر گھر نہیں آئے۔۔ اگر یہاں بڑے بھائی ہوتے تو وہ میری اس خوشی میں ضرور شریک ہوتے۔۔”شمسہ نے اختر صاحب کے ساتھ لگتے ہوئے شکایتی انداز سے کہا۔
اسے آج اپنے بڑے بھائی کی بہت یاد آرہی تھی اس لئے وہ پرنم آنکھوں سمیت مسکرا دی۔ اختر صاحب فرط محبت سے اسکی پیشانی چومتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کیونکہ انہیں بھی اس وقت زاوی پر شدید غصہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔
سب فرینڈز کھانے کے لیے آگے بڑھے تو وہ وہیں کھڑی خالی خالی نگاہوں سے سب کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک کسی کی جانی پہچانی آواز پر وہ ایک دم اپنے چہرے پر ہاتھ رکھتی ڈر کر بری طرح اچھلی تھی۔
“ہیپی برتھ ڈے ڈیئر۔۔!!” ماسک مین آج فل کالے سوٹ کی بجائے گرے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا۔ اپنی شاندار وجاہت اور لمبے قد کاٹھ کی وجہ سے وہ اس پارٹی میں سب کی نظروں کا مرتکز بنا ہوا تھا۔ مگر اس کے چمکیلے ماسک نے اس کا چہرہ سب سے یکسر چھپا رکھا تھا۔
شمسہ ہونق پن کا بھرپور مظاہرہ کرتی اپنے لبوں پر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھے ششدر کھڑی ہوئی تھی۔
“یہ ماسک مین یہاں بھی آ گیا۔۔”یہ الفاظ اس کے دل میں چل رہے تھے مگر وہ سکتے کے عالم میں کھڑی زبان سے کچھ بول ہی نہ سکی بس چپ چاپ اسے تکتی رہ گئی۔
“اتنا زیادہ مس کر رہی تھیں مجھے کہ میرے چہرے سے آنکھیں ہی نہیں ہٹ رہیں۔۔۔” ماسک مین نے ہاتھوں کی چٹکی بنا کر نرم مسکراتی آواز میں کہا تو وہ ایک دم خجل ہوئی اور پھر بنا کچھ کہے سر جھکا کر نیچے دیکھنے لگی۔
“میں نے ماسک مین کی آواز سن کر شور کیوں نہیں مچایا حالانکہ اتنے دنوں سے میں اسی کی وجہ سے ہی تو ازحد پریشان رہی ہوں۔۔”
اس کے زہن کے پردے پر گہری سوچوں کے سائے ایک ساتھ لہرانے لگے تھے۔
اتنے دنوں تک وہ اس کے حواس پر سوار رہا تھا مگر اب وہ اتنا گھبرا نہیں رہی تھی یا پھر شاید اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ماسک مین اس کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔
“یہ آپ کا گفٹ۔۔!!” ماسک مین نے شمسہ کو ازحد خاموش پا کر اپنا ہاتھ بڑھا کر ریپ کیا ہوا گفٹ شمسہ کی جانب بڑھایا تو شمسہ نے میکانکی انداز میں اسے چپ چاپ پکڑ لیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس بات کے زیر اثر یہ سب کر رہی ہے۔
“بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ۔۔ہمیشہ خوش رہا کریں۔۔ آپ کا چہرہ ایسے ہی ہنستا مسکراتا ہی اچھا لگتا ہے۔۔” ماسک مین کے الفاظ پر وہ فورا ہوش میں آ گئی اسے لگا ان الفاظ نے اس کے اندر جیسے کوئی روح پھونک دی ہو۔ وہ ایک دم اس کے خوش کرنے کی بات پر چونک کر اسے ساکت نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
“آپ مجھے اتنا ڈرا کر رکھتے ہیں۔۔۔ خوش کیسے رہوں۔۔؟” ماسک مین جو اس کو نرمی سے کہتے ہوئے اپنے قدم واپسی کیلئے آگے بڑھانے ہی لگا تھا کہ اچانک اتنے عرصے میں پہلی بار شمسہ کی آواز سن کر آہستگی سے مسکرا کر پیچھے مڑ کر اسے بغور دیکھنے لگا جو ابھی بھی اسے کنفیوز نگاہوں سے ہی دیکھے جا رہی تھی۔ اس وقت اس کے چہرے پر ہزاروں شکوے رقم تھے۔
“اگر آپ اپنا خیال خود رکھا کریں گی تو پھر میں آپ کو کبھی بھی نہیں ڈراؤں گا۔۔ جب آپ اپنا خیال نہیں رکھتیں تو پھر ہی مجھے سختی کرنی پڑتی ہے۔۔” ماسک مین سرگوشی نما آواز میں کہتے ہوئے اسے ایک نظر دیکھ کر اپنے ازلی پر اعتماد انداز سے چلتا ہوا مین ہال سے باہر نکل گیا۔
شمسہ اس وقت خوبصورت ریڈ میکسی میں نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔ ہال کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ جگہ جگہ بکھری سپاٹ لائٹس ہال کے اندر خوبصورت چمک پیدا کر رہی تھیں۔
وہ ماسک مین کے دیئے ہوئے گفٹ کو ایک کارنر میں رکھتی اپنی دوستوں کی جانب بڑھ گئی جو اسے کب سے اپنے پاس بلا رہی تھیں۔
آج اسے ماسک مین سے بالکل بھی ڈر نہیں لگا تھا ورنہ جب جب وہ اسں سے ملتا تھا اس کی طبیعت خراب ہو جاتی تھی۔
لیکن آج پہلے کی نسبت وہ خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔نجانے کیوں اس کے چہرے سے اب حقیقی خوشی عیاں ہو رہی تھی۔
سونیا بیگم اور اختر صاحب اکٹھے کھڑے اس کو مسکراتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
“آپ نے دیکھا اختر صاحب۔۔؟؟شمسہ پہلے سے کافی بہتر لگ رہی ہے نا میں نے بس اسی لئے ہی آپ کو پارٹی رکھنے کا کہا تھا۔۔” سونیا بیگم کو لگا کہ وہ پارٹیز مس کر رہی ہے اس لیے انہیں لگا کہ آج پارٹی میں آ کر وہ خود کو کافی فریش محسوس کر رہی ہے۔ تو اختر صاحب بھی ان کی اس بات پر آہستگی سے مسکرا دیے کیونکہ جو بھی ہو انہیں اپنی یہ بیٹی بہت عزیز ازجان تھی۔
لیکن وہ دونوں ہی اس بات سے انجان تھے کہ اس کی طبیعت کی خرابی اور بہتری کس وجہ سے ہے۔ اسی لیے سونیا بیگم اس بات سے انجان فخریہ مسکراتے ہوئے اپنے اس فیصلے کو سراہ رہیں تھیں۔
?????
“آپ ناراض ہیں مجھ سے۔۔؟؟” پریشے جو کب سے چپ چاپ ولی کو ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی اچانک سوالیہ انداز میں بول اٹھی۔۔۔۔
کیونکہ پہلے تو وہ اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ ولی تو زیادہ دیر چپ رہ ہی نہیں سکتا۔ وہ سارے راستے اس سے باتیں کرے گا مگر اس کا اس قدر گم صم انداز اسے ٹھٹکنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اسی لیے وہ اپنی سوچوں سے تنگ آ کر بالآخر خود ہی بول اٹھی۔ کیونکہ اب اسے شدت سے محسوس ہو رہا تھا جب وہ سارہ بیگم کے سامنے ایک دم گھبرا کر اٹھی تو تب ہی اس نے ولید کا پل بھر میں ہی چہرے کا رنگ متغیر ہوتے دیکھ لیا تھا۔
“شاید ولی کو اس بات کا بہت برا لگا ہو گا اس لئے کوئی بات نہیں کر رہا ہو گا۔”پریشے کے دل سے اک آواز ابھری۔
“نہیں۔۔ میں کیوں ہوگا ناراض۔۔۔؟” ولی نے بنا اس کی طرف دیکھے کہا جس پر پریشے اسکے اس قدر سنجیدہ انداز پر کچھ پل کیلئے اسے دیکھتی رہ گئی۔
“پھر آپ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کر رہے۔۔؟” پریشے کی آواز رندھی ہوئی لگ رہی تھی۔ بات کرتے ہوئے اس کے حلق میں آنسوؤں کا پھندہ سا اٹک کر رہ گیا۔
“آپ کی وجہ سے پریشے۔۔ کہیں میں آپ سے کوئی بات کروں اور آپ مجھ سے ڈر جائیں اور میں یہ ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔۔” ولی شدید صدمے میں تھا کیونکہ اس نے آج تک ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی کہ کوئی لڑکی اس سے ڈر کر دور بھاگے۔
پریشے کی اس حرکت پر وہ ایک دم دکھی ہو گیا تھا یا صرف اسے دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
“ایم سوری ولید۔۔ میں نے آپ کو ہرٹ کر دیا۔۔ایم رئیلی سوری۔۔میں تو” پریشے یہ کہتے ساتھ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگ گئی۔ ولی اس کے شدت سے رونے پر ایک دم گڑبڑا کر رہ گیا۔
” ریلیکس یار پریشے۔۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔ “ولی نے ایک دم اسٹئیرنگ سے ہاتھ اٹھا کر اسے چپ کروانا چاہا جس پر وہ اسے پرنم نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
ولی اس کی نمی سے بھرپور آنکھوں سے بمشکل نگاہیں ہٹاتے ہوئے سامنے روڈ کو دیکھتے ہوئے ڈرائیور کرنے لگا۔
“ولید! پلیز آپ مجھے غلط مت سمجھیں۔۔ اس ویڈیو کے بعد سے میں بہت زیادہ ڈر گئی ہوں۔۔۔”
” اس لیے میں کسی کو کوئی بھی بات کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی۔۔” پریشے نے آہستہ آواز میں اپنے گھبراہٹ کی اصل وجہ بتا دی جس پر ولی کو اس کی حالت پر شدید دکھ نے آن گھیرا تھا۔
“ایم سوری یار! میں تو بس تمہیں تنگ کر رہا تھا۔۔ مگر تم تو بہت ہی روندو نکلی۔۔ اگر تمہاری جگہ یہاں زینی ہوتی تو اس نے میرے بال کھینچ لینے تھے سچ میں۔۔ ہاہاہا۔۔” ولید نے ماحول کو لائٹ کرنے کے لیے جان بوجھ کر زینی کا ذکر کیا۔
کیونکہ وہ جانتا تھا زینی کی بات اس کو پرسکون کر سکتی ہے اس لیے فورا زینیً کا ذکر کرنے لگا جس پر پریشے بھی دھیمے سے مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
“غلطی ہمیشہ آپ کی ہی ہوتی ہو گی۔۔ اسی لیے وہ آپ کے بال کھینچتی ہے۔۔” پریشے نے فورا اپنی پرنم آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی اس انجانے میں کی گئی حرکت پر خود سے بھی شرمندہ تھی مگر اب وہ ولی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے یہ بات کہنے لگی تھی۔
“اچھا بھئی! تمہیں تو اپنی دوست ہی صحیح لگے گی نا۔۔ مجھ بیچارے کا پتہ نہیں کون خیال کرے گا۔۔؟؟”
” یا اللہ!اب آپ خود ہی دیکھ لیں ان ظالم لڑکیوں کو۔۔” ولید نے لڑاکا عورتوں کی طرح اوپر منہ کر کے دہائی دیتے ہوئے کہا جس پر پریشے قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
ولید اس کو یوں کھل کر ہنستے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔
اس نے جان بوجھ کر اس سے کسی ہوٹل میں کھانے پینے کا نہیں پوچھا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا شادی سے پہلے یہ سب پریشے کو ہرگز پسند نہیں آئے گا اس لیے وہ اسے اس کے گھر کے سامنے ڈراپ کرکے وہیں رکا رہا۔
وہ وہاں سے ایک انچ بھی نہیں ہلا تھا جب تک کہ پریشے اپنا گیٹ کھول کر گھر کے اندر نہ چلی گئی۔ اس کے اندر بڑھتے ہی وہ کار کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔ آج اس کا ارادہ کہیں اور بھی جانے کا تھا اس لئے فی الفور وہاں جانے کی تیاری کرنے لگا۔۔۔
?????
زمان جو کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا واپس آ کر کمرے میں اپنا موبائل چیک کرنے لگا تو اذلان سر کا میسیج دیکھ کر فورا چونک گیا۔۔۔
اسے کیمروں کو ٹھیک کروانے کے لیے کوئی ٹیکنیشن چاہیے تھا اس لئے وہ رات کو ہی نکل گیا تھا۔ اب اسے اپنی لاپروائی پر بہت افسوس ہوا تھا اس لیے وہ اپنا کام کرنے کے لئے تقریب کے فورا بعد چلا گیا تھا مگر جلدی جلدی میں موبائل گھر پر بھول گیا تھا اب اذلان سر کے میسج کا نوٹیفیکیشن اوپن کر کے زیر لب پڑھنے لگا جو اس نے لیٹ نائٹ کیا تھا۔
“زمان! فرنٹ کیمرے سے جو جو گھر میں داخل ہوا ہے ان سب کی کلئیر پکچرز لے کر جلدی سے میرے پاس آؤ ۔۔۔ باقی کا کام بعد میں بتاؤں گا۔۔” زمان اذلان کا میسج دیکھ کر بنا فریش ہوئے سی سی ٹی وی روم کی طرف چلا گیا۔ ساتھ ساتھ وہ اذلان کو بھی میسج کا رپلائی ٹائپ کرکے سینڈ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
“اوکے سر! میں ابھی یہ کام کرتا ہوں۔۔ ایکچوئلی میں رات سے ہی ان کیمروں کو ٹھیک کروا رہا تھا۔ اس لیے موبائل کمرے میں بھول جانے کی وجہ سے آپ کا میسیج اب دیکھ رہا ہوں۔۔ ایم سو سوری سر۔۔”
زمان نے اپنے میسج لیٹ پڑھنے کا بتا کر معذرت کی۔ وہ شرمندگی کے مارے بار بار معذرت کر رہا تھا کیونکہ اسے لگتا تھا اس کی لاپرواہی کی وجہ سے سر کو کسی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔۔ اب وہ خود کو کوستے ہوئے پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
?????
“ضرار!آر یو آل رائٹ۔۔؟؟” اذلان نے کمرے کا ڈور ناب آہستگی سے گھما کر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ضرار سے پوچھا جو اس وقت کھڑکی کے شیشے کے پار کے مناظر کے دیکھنے میں محو دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ازحد سنجیدگی طاری لگ رہی تھی۔
“جی چاچو۔۔!” ضرار نے بنا پیچھے مڑے وہیں کھڑے کھڑے ہی جواب دیا تو اذلان بھی اس کے ساتھ آ کر وہیں کھڑے ہوتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شیشے کے پار کے مناظر دیکھنے لگا۔
“ایم سوری چاچو۔۔! بٹ آج میں اپنے دل کی بات آپ سے شیئر نہیں کر پاؤں گا۔۔” ضرار نے اپنا چہرہ نیچے جھکاتے ہوئے اذلان سے کہا جو اس کے ساتھ کھڑا اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پہلے بھی جب کبھی وہ ڈپریس ہوتا تو بنا کسی سے کوئی بات کیے وہ اپنے کمرے میں آ جاتا۔
تھوڑی دیر بعد اذلان اس سے ہلکی پھلکی باتیں کرکے اس کی ہر پریشانی کو دور کرتا اور اس کے دل کی ہر بات اذلان اور زمل کے سوا اور کسی کو پتہ نہیں ہوتی تھی۔
اذلان اس کی سنجیدگی سے کہی بات پر اسے بغور دیکھنے لگا جو اب کھڑکی کے پاس سے ہٹ کر بیڈ کے کارنر کے ساتھ جا کر مضطرب انداز میں کھڑا ہو گیا۔ اس کا سر ابھی تک ہنوذ نیچے ہی جھکا ہوا تھا۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے نگاہیں چرا رہا ہو۔۔۔
“ضرار! کیا اس بات کا تعلق رات کے واقعے سے ہے۔۔؟؟” اذلان کے چہرے پر بھی اب ازحد سنجیدگی چھا گئی تھی۔ اس لئے اس نے بے تاثر لہجے میں ضرار سے پوچھا جس پر ضرار ایک دم گڑبڑا کر رہ گیا۔
“ک۔ک کیسا واقعہ چاچو۔۔؟؟میں تو رات کی پارٹی میں ہی نہیں تھا۔۔” ضرار ہڑبڑاہٹ کے عالم میں اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر سامنے پڑی بک اٹھا کر اس کے صفحات الٹ پلٹ کرنے لگا۔۔۔
“رات کو جو کچھ زینب کے ساتھ ہوا۔۔ کیا تم نے وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔؟؟” “کہیں اس بات کا تعلق اس لڑکے سے تو نہیں۔۔؟؟” اذلان نے ضرار کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا تو وہ بری طرح نظریں چرانے لگا۔
اذلان کی اس بات پر ضرار کی آنکھوں میں ہلکی نمی در آئی۔۔
“اذلان چاچو کیسے میرے دل کی ہر بات بنا کچھ کہے ہی جان لیتے ہیں۔۔؟”
“ضرار! میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں یار۔۔ بتاؤ مجھے آخر ہوا کیا تھا۔۔؟؟” اذلان کے چہرے پر سخت تاثرات چھا گئے تھے۔
کیونکہ اس ویڈیو میں ضرار اس لڑکے کو بڑی بے رحمی سے مار رہا تھا۔اسے اس وقت ہی شک ہو گیا تھا مگر اب اس کی جھکی نظروں نے اس پر سب کچھ کسی شفاف آئینے میں نظر آنے والے عکس کی طرح واضح کر دیا تھا۔۔
“تم مجھے یہ سب بتا سکتے تھے ضرار! میں خود یہ معاملہ ہینڈل کرتا۔۔ تم نے اپنی لائف کے ساتھ اتنا بڑا رسک کیوں لیا۔۔ہمم؟؟”
” تم جانتے بھی ہو اگر اس لڑکے کو کچھ بھی ہو جاتا تو تمہارا کیا ہوتا۔۔۔ عفان بھائی تو جیتے جی۔۔” اذلان نے اسوقت ضرار کے بازو پر ہاتھ رکھا ہوا تھا مگر عفان بھائی کا سوچ کر اس سے بات مکمل نہ ہو پائی تھی۔
“ایم سوری چاچو۔۔!! بٹ وہ زبردستی ان کا ہاتھ۔۔۔۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوا پھر۔۔۔” ضرار سے حد درجہ غصے کے باعث کچھ بولا ہی نہیں گیا جس پر اذلان کو اس لڑکے پر مزید تپ چڑھ چکی تھی۔
اسے رات کی زینی کی ابتر حالت پھر سے اپنی آنکھوں کے سامنے گردش کرتی محسوس ہوئی تو اسکی سفید دودھیا رنگت خود پر ضبط کرنے کے چکر میں سرخی مائل لگنے لگی۔وہ سخت غصے کے باعث اپنی مٹھیاں آپس میں بھینچ کر رہ گیا۔
“تم صرف اپنی اسٹڈی پر فوکس کرو۔۔۔ اس گھٹیا لڑکے کو تو اب میں دیکھ لوں گا۔۔” اذلان نے ضرار کو سخت لہجے میں ٹوک دیا۔ اسے اس لڑکے پر بھی شدید غصہ آ رہا تھا جس کی وجہ سے ضرار بلاوجہ میڈیا کی نظروں میں آ گیا تھا۔
“اس کو مزید دیکھنے کی ضرورت نہیں چاچو۔۔ میں نے اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کوئی اور اسے دیکھ سکے۔۔” ضرار نے یہ بات سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں کہی تھی جس پر بے اختیار اذلان کے ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ نے جگہ لے لی جسے اس نے فورا ضرار سے چھپا لیا تھا تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ اذلان اس کی اس حرکت پر اسے فیور کر رہا ہے۔
وہ ضرار کو ہمیشہ اپنے بیٹے کی طرح ہی ٹریٹ کیا کرتا تھا۔وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ ضرار آئیندہ ایسی کوئی بھی حرکت کرے جس سے اس کی اپنی لائف رسک میں آ جائے۔
“آئیندہ ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے ضرار۔۔ اس لڑکے نے جو کچھ زینب کے ساتھ کیا اس کو میں خود دیکھ لوں گا۔۔اب تم اس معاملے سے دور ہی رہو گے۔۔”
“از دیٹ کلئیر۔۔؟؟”اذلان نے اسے وارن کرتے ہوئے اپنے ساتھ لگایا اور آئندہ کیلئے محتاط رہنے کا کہا۔
“جی چاچو۔۔!!” ضرار نے آہستگی سے جواب دیا جس پر اذلان اسے ابھی دیکھ ہی رہا تھا تبھی زینی کمرے کے اندر داخل ہوئی تھی۔
وہ یہاں اذلان کو بلانے آئی تھی کیونکہ عاصمہ بیگم نے اسے بلانے کیلئے بھیجا تھا۔ مگر یہاں ادھ کھلے دروازے سے اپنا ذکر سن کر وہ وہیں ششدر کھڑی رہ گئی۔۔
اب زینی کو بھی اس سارے معاملے کا علم ہو چکا تھا کہ ضرار نے اس کی وجہ سے ایک لڑکے کو بڑی بے رحمی سے مارا ہے۔
ویڈیو میں تو بس ضرار دکھ رہا تھا اس لڑکے کا چہرہ واضح نہیں ہو رہا تھا ورنہ زینی تو فورا ہی اس لڑکے کو پہچان جاتی۔
مگر اب ساری بات سن کر وہ خود کو روک نہ سکی اور اندر آ گئی اس کی آنکھوں میں تیزی سے تیرتی نمی کسی بھی وقت اب آنسووؤں کی صورت میں بہنے کو بے تاب ہو رہی تھی۔ اس کے یوں اندر آنے پر ضرار اور اذلان ایک دم چپ ہوگئے۔
“آپ کو کوئی کام تھا زینب۔۔؟؟” اذلان نے زینی سے سرسری انداز میں پوچھا مگر اس کی اگلی بات سن کر وہ ایک دم خاموش ہو کر رہ گیا۔
“ایم سو سوری ضرار۔۔ایم رئیلی سوری اذلان۔۔!! “
“میری وجہ سے آپ دونوں کی لائف میں اتنی پرابلمز آگئیں۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے۔۔۔ پلیز آپ دونوں مجھے معاف کر دیں۔۔” زینب نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ان سے معذرت کی۔
اس سے شرمندگی کے مارے اپنی آنکھیں اٹھا کر اوپر بھی نہیں دیکھا جارہا تھا۔ بس بار بار اپنے بائیں ہاتھ کے پوروں سے اپنے رخساروں پر بہتے آنسو صاف کر رہی تھی۔
“زینب! آپ اپنے کمرے میں جائیں پلیز۔ز۔ز” جانے کیوں اذلان سے اس کا رونا دیکھا نہ گیا۔ اس لیے اسے وہاں سے جانے کا کہا۔
کیونکہ ضرار اپنی نظریں جھکائے اس کی باتیں چپ چاپ سن رہا تھا۔
“میں بہت بری ہوں۔۔۔ میری وجہ سے ضرار کو ڈانٹ پڑی۔۔۔”
” میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی سب میری وجہ سے پرابلمز میں ہیں۔۔ آئی ایم سو سوری۔۔” زینی نے روتے ہوئے ضرار کے بازو پر ہاتھ رکھا اور اس سے معذرت کی جس پر ضرار نے اپنا سر جھکائے آہستگی سے جواب دیا۔
“اٹس اوکے آنٹی! آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔۔ مجھے کوئی پرابلم نہیں ہوئی آپ کی وجہ سے۔۔” ضرار نے زینی کو اس قدر بری طرح روتے ہوئے دیکھا تو انہیں شرمندگی سے باہر نکالنا چاہا اور یہ الفاظ کہتے ساتھ وہ خود بھی کمرے سے باہر نکل گیا۔
اذلان اس کے بری طرح ہچکچاتے اور لرزتے وجود کو دیکھ رہا تھا اس لئے دھیمی چال چلتے ہوئے گہرا سانس بھر کر اس کے پاس آ گیا تھا۔
“ریلیکس زینب۔۔۔ اب سب ٹھیک ہے۔۔ ضرار کو آپ کی وجہ سے کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔۔۔ آپ یہ بات اپنے ذہن سے نکال دیں۔۔” اذلان نے زینی کے قریب آ کر ایک فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر سمجھایا جس پر زینی اسے بنا پلکیں جھپکائے یک ٹک نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
“م۔م مگر آپ کو تو ہوئی ہے نا۔۔؟؟” زینی نے اٹکتے ہوئے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ کر کہتے ہوئے پھر سے اپنی نظریں شرمندگی کے مارے نیچے جھکا لیں۔
اس پر اذلان گہرا سانس بھر کر اس سے اپنی نگاہیں چرا گیا مگر جوابا کچھ نہ کہہ سکا۔
“اگر اس لڑکے نے ضرار پر کیس کر دیا تو۔۔؟؟” زینی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیونکہ یہ فکر اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
“اگر ضرار کو اس کی وجہ سے کچھ ہوا تو وہ اس گلٹ کے ساتھ کیسے زندہ رہ پائے گی۔۔؟؟”
ایک پل کے لیے اذلان کو اس کا ضرار کے لئے فکر مند ہونا اچھا لگا تھا اس لئے وہ اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے بے اختیار دھیمے سے مسکرا دیا۔
“ضرار نے اسے اس لائق چھوڑا ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی کیس کر سکے۔۔ اور اگر تھوڑا چھوٹ بھی جاتا تو باقی کا رہا سہا کوٹہ اس خبیث کا میں پورا کر دیتا۔۔۔” اذلان نے اس لڑکے کی حالت کو بخوبی دیکھا تھا۔ اس کی اس بات پر زینی کا دل خوشگوار انداز میں دھڑک اٹھا۔ کچھ پل کے لئے وہ اسے ساکت نگاہوں سے دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔
“آپ پریشان نہ ہوں میں اس معاملے کو خود ہینڈل کر لوں گا۔۔ چلیں نیچے سب ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔” اذلان نے اس کا ڈرا اور سہما ہوا چہرہ دیکھا تو اس کو نرم لہجے میں تسلی دی۔ اور خود آہستگی سے اس کا ہاتھ تھام کر نیچے کی جانب چل پڑا۔ زینی بھی اس کے تسلی آمیز لہجے پر اب پہلے کی نسبت کافی مطمئن دکھائی دے رہی تھی۔
اس نے اپنے آنسو بائیں ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر صاف کیے اور اذلان کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
اسے اس پل اپنا آپ اذلان کے ساتھ بہت محفوظ تصور ہوا تو آہستگی سے مسکرا دی۔ وہ شروع سے ایسی ہی تھی جلد پریشان ہو جانے والی اور جلد ہی مطمئن ہو جانے والی۔۔ وہ دھوپ چھاؤں کا سا مزاج رکھتی تھی۔ اگر ایک ہی پل میں بہت زیادہ پریشان ہوتی تو دوسرے ہی پل وہ خوشی سے جھوم رہی ہوتی تھی۔
اس کی یہ خوشی تب دوہری ہوئی جب زیان نے سب کو خوشخبری سنا دی کہ کسی نے ضرار پر کوئی کیس نہیں کیا ہے۔ اسی لیے بے اختیار اس نے زیر لب کلمہ تشکر پڑھا اور پھر ریلیکس انداز میں سب کے ساتھ کھانا کھانے لگی۔
?????
” ماما!آج ہمیں ہسپتال جانا ہے۔۔ میں نے ڈاکٹر شفا سے اپائنٹمینٹ لے لی ہے۔۔” فاطمہ نے آمنہ بیگم کو ہسپتال جانے کے متعلق ساری ڈیٹیل سے آگاہ کیا۔
پچھلے دو دنوں سے وہ لوگ کراچی پہنچ چکے تھے۔۔ یہاں آ کر انہوں نے ہوٹل کا ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا تھا۔
فاطمہ نے تو اگلے ہی دن ہاسپٹل جانے کا کہا تھا مگر آمنہ بیگم نے تھکاوٹ کا کہہ کر ٹال دیا۔
آج وہ صبح صبح ہاسپٹل جا کر ڈاکٹر شفا کی اپائنٹمینٹ لے آئی تھی تاکہ ماما کو زیادہ دیر ویٹ نہ کرنا پڑے۔۔ کیونکہ ان کی حالت بھی تو اب ایسی نہ رہی تھی۔۔وہ بہت زیادہ بیمار رہنے لگیں تھیں۔
اس وجہ سے تو فاطمہ نے آمنہ بیگم کی ایک نہ سنی اور انہیں لیے کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کروانے کا سوچا۔
اس نے انٹرنیٹ پر اس ڈاکٹر کے بارے میں کافی پڑھا تھا۔
رفعت آپا نے اس ڈاکٹر کا ریفرنس اسے دیا تھا۔ اس لیے اس نے پوری ریسرچ کرکے آمنہ بیگم کو یہاں لانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی پریشانی دیکھ کر آمنہ بیگم بھی چپ ہو گئیں ورنہ ان کا تو گھر سے نکلنے کا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا۔
“کتنے بجے کی اپائنٹمنٹ ملی ہے۔۔؟؟” آمنہ بیگم نے نقاہت سے بھرے انداز میں پوچھا ۔ بی پی اور شوگر لیول حد سے زیادہ بڑھنے کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔
“آج شام پانچ بجے کی ٹائمنگ ملی ہے۔۔” فاطمہ نے سامنے لگی وال کلاک پر نگاہ دوڑاتے ہوئے آمنہ بیگم کو ٹائم بتایا اور پھر خود نماز کے لیے چلی گئی کیونکہ ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔
?????
“چھوٹی بیگم صاحبہ؟؟ آپ سے ملنے کوئی ولید صاحب آئے ہیں۔۔” زینی سب کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی عاصمہ بیگم کے ساتھ ہلکی پھلکی باتوں میں حصہ لے رہی تھی کہ اچانک ملازمہ کے منہ سے ولی کا ذکر سن کر اس کے چہرے پر خوشی کا اک جہاں آباد ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
“رئیلی آنٹی؟؟آپ نے ولید ہی کہا ہے نا۔۔؟؟زینی خوشی کے مارے چہکتے ہوئے ملازمہ سے دوبارہ کنفرم کر رہی تھی۔۔کیونکہ اسے اپنی سماعتوں پر بالکل بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
ولید کا نام سن کر فورا ہیً اذلان نے زینی کی جانب دیکھا جو اسوقت آحل کے ساتھ بیٹھا کوئی گیم کھیل رہا تھا۔
ولی کا نام سنتے ہی زینی کا مسرت اور خوشی سے بھرپور چہرہ دیکھ کر اذلان کے ماتھے پر سخت تیوری چڑھ گئی تھی۔
“آپ انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ.۔۔”عاصمہ بیگم نے ملازمہ سے کہا تو وہ “جی بیگم صاحبہ”کہتی اثبات میں سر ہلا کر فورا وہاں سے چلی گئی۔
“آنٹی! ولی آیا ہے مجھ سے ملنے۔۔ میں ابھی آتی ہوں۔۔” زینی نے اچھے خاصے پرجوش انداز میں کہا جس پر عاصمہ بیگم سمیت لاؤنج میں بیٹھے سارے نفوس اس کا اس قدر پرجوش انداز پہلی بار دیکھتے ہوئے آہستگی سے مسکرا دیئے ماسوائے اذلان کے جس کے ماتھے پر گہرے بلوں نے اپنی جگہ بنا کر واضح لکیریں بنانا شروع کر دیں تھیں۔
زینی تیز تیز قدموں سے تقریبا بھاگنے کے انداز سے چلتے ہوئے وہاں سے جا چکی تو عاصمہ بیگم نے اذلان کو پکارا جو اسوقت اپنی مٹھیاں سختی سے آپس میں بھینچے اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
جانے کیوں زینی کے لبوں سے ولید کا ذکر سن کر اس کی ازلی پوزیسیسیونیس پھر سے جاگ گئی تھی۔
“اذلان بیٹا! آپ بھی جاؤ زینی کے پاس۔۔” عاصمہ بیگم نے اذلان کو اپنی طرف متوجہ کیا جو خود بھی وہاں ڈرائینگ روم میں جانے کے لیے پر تول ہی رہا تھا۔
وہ بھی اس ولید کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا جس کے آنے سے اس کی بیوی کے چہرے پر ایسی رونق آ گئی تھی جیسے کسی باغیچے میں بہار کے موسم میں کھلنے والے خوبصورت پھول اس کی سر سبز و شادابی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
“جی ماما۔۔”اذلان بھرپور فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھیمی چال چلتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
?????
“ولی۔ی۔ی۔ی۔۔!!” زینی کی حیرت سے بھری پکار پر ولید جو اسوقت ڈرائنگ روم میں بیٹھا سرسری انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔
ایک دم خوشی کے مارے صوفے سے اٹھتے ہوئے زینی کو بغور دیکھنے لگا۔۔ آخر کتنے دنوں بعد جو اسے دیکھ رہا تھا۔
زینی ولی سے مصافحہ کرنے کے بعد ڈرائینگ روم کی میز پر موجود اتنی ساری چیزیں اور خوبصورتی سے پیک کئے ہوئے ڈھیر سارے گفٹس دیکھ کر حیران رہ گئی۔ کیونکہ پورا ٹیبل ان گفٹس اور کھانے پینے کی چیزوں سے بھرا پڑا تھا۔
“ولی۔۔۔یہ اتنا سب کچھ تم لائے ہو۔۔؟؟” زینی نے حیرت سے بھری نگاہوں سے ٹیبل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا جس پر ولید دھیمے سے مسکرا دیا۔
ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ٹیبل کی دوسری طرف جاتی زینی نے تمام صوفوں پر سے ایک ایک کشن اٹھا کر اس کی طرف پھینکنا شروع کر دیے۔
ولی اس اچانک حملے کیلئے تیار نہ تھا اس لئے ایک دم بوکھلا کر رہ گیا تھا۔
اب وہ قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے ایک آدھ کشن کو ہی کیچ کر پایا لیکن باقی سارے کے سارے سیدھے اس کے بازو پر لگ رہے تھے اور کوئی کشن اس کے سر پر لگ رہا تھا۔
“مجھے پاکستان آئے ہوئے اتنے دن گزر گئے۔۔ اور تمہیں اب میری یاد آئی ہے۔۔” زینی نے یہ کہتے ہوئے پھر سے اس پر کشنز کی بارش کر دی۔
اور اب وہ ہنستے ہوئے اپنا بچاؤ کر رہا تھا۔اب وہ بھی جوابا اس کی طرف ایک کشن اٹھا کر پھینکنے ہی لگا تھا کہ اچانک زینی کا تیزی سے پھینکا گیا کشن ولی کے تھوڑا سائیڈ پر جھکنے کی وجہ سے ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے سیدھا اذلان کے سینے پر جا لگا تو وہ ایک دم زینی کے اس وار پر اس کو ایک سرد نگاہ سے گھورتا ہوا اب ڈرائینگ روم کے اطراف میں سرسری انداز میں نگاہ گھمانے لگا۔
ڈرائینگ روم کی اس قدر بکھری حالت دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں۔