
?ناول
?محبت سے خدا تک کا سفر
?تحریر
?مہوش صدیق
زینی نیچے جھکتی ایک اور کشن اٹھا کر ولید کی طرف پھینکنے ہی لگی تھی کہ اچانک اپنے سامنے اذلان کو کھڑے دیکھ کر ازحد شرمندہ ہو کر رہ گئی۔ اذلان نے اس کا پھینکا ہوا کشن ابھی تک اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔
اچانک کشن کی بارش رکتے دیکھ کر ولید نے بھی زینی کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اپنے سامنے کھڑے اذلان کو دیکھ کر آہستگی سے مسکرایا اور پھر تھوڑا خجل ہوتے ہوئے اپنی زبان دانتوں تلے دبا کر پھر سے زینی کو دیکھنے لگا جو اسوقت ڈر کے مارے کبھی اذلان کو دیکھ رہی تھی اور کبھی ولید کو۔
ان کے حملوں کی وجہ سے ایک آدھ ڈیکوریشن پیس بھی ٹوٹ کر نیچے گر چکا تھا۔ نفاست سے سجایا گیا ڈرائنگ روم چند ہی منٹوں میں بری طرح بکھر کر رہ گیا تھا۔ جگہ جگہ کشن کے ڈھیر لگے نظر آ رہے تھے۔
“ہیلو۔۔ اذلان!ایم ولید۔۔ زینی کا فرسٹ کزن۔۔” ولید کی آواز پر اذلان چونکتے ہوئے اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ تھام کر اس سے مصافحہ کرنے لگا۔
زینی بھی ایک دم چپ کھڑی تھی۔اب اسے اچھی خاصی شرمندگی ہورہی تھی کہ یہ اس کے ماما بابا کا گھر نہیں ہے جہاں وہ یہ سب بچگانہ حرکتیں کیا کرتی تھی۔
اس لیے جلدی سے آگے بڑھتی ہوئی ایک ایک کر کے سارے کشن اٹھانے لگی اور اسی ہڑبڑاہٹ میں وہ ایک صوفے کے کشن دوسرے صوفے پر سیٹ کر رہی تھی۔
“ایم سوری! ایکچوئلی یہ ہمارا ملنے کا اسٹائل ہے۔۔ میں نے ہی پہلے زینی پر کشن پھینکا تھا۔۔ پھر زینی نے بھی ابھی پھینکنا شروع کیا ہی تھا کہ اچانک آپ اندر آ گئے اور وہ کشن۔۔۔” ولید ہر بار کی طرح زینی کی ساری غلطی چھپا کر سارا الزام اپنے سر لے رہا تھا۔حالانکہ اذلان سب کچھ اپنی آنکھوں سے پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔
زینی ہمیشہ کی طرح ولید کے سفید جھوٹ پر اسے ٹکٹکی باندھ کر بغور دیکھنے لگی تھی۔
“اٹس اوکے۔۔ آپ آئیے پلیز۔۔!!” اذلان نے بمشکل مسکراتے ہوئے میزبانی کے فرائض نبھائے اور خود آگے بڑھتے ہوئے اپنے پاؤں کے راستے میں آنے والا کشن اٹھا کر ایک طرف رکھا اور سامنے والے صوفے پر ولید کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“ج۔جی۔۔” ولید بھی اذلان کو پہلی بار براہ راست دیکھ رہا تھا۔اسی لئے اس کی شاندار وجاہت سے بھرپور پرسنالٹی سے مرعوب ہوئے بنا نہ رہ سکا۔
اذلان کی موویز اور انٹرویوز تو زینی اسے زبردستی دکھاتے ہوئے اذلان کی تعریفوں کے پل باندھ کر ہمیشہ اس کے کان کھاتی ہی رہتی تھی۔
اذلان نے اس وقت کاٹن کا سکائی بلیو سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا جو اس کی مردانہ وجاہت سے بھرپور پرسنلٹی پر بہت زیادہ جچ رہا تھا۔ ہلکی ٹرم کی گئی داڑھی اور مونچھیں اس کے چہرے کو مزید جاذب نظر بنا رہی تھی۔کھڑی ستواں مغرور ناک اس کو کسی ریاست کا شہزادہ ظاہر کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔
زینی کچھ ہی دیر میں سارے کشنز اٹھا کر ولید کے ساتھ اسی کے صوفے پر بے تکلف انداز میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی تو اذلان کو زینی کی یہ حرکت دیکھ کر پھر سے شدید غصہ آ گیا کہ کیسے اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ مگر اس نے بمشکل اپنی مٹھیاں سختی سے آپس میں بھینچ کر اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کی۔
اتنے میں عاصمہ بیگم اور سکندر شاہ بھی ڈرائینگ روم میں آگئے تھے۔ ولید نے صوفے سے اٹھ کر ان کو مسکراتے ہوئے سلام کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔
تب تک ملازمہ نے اسنیکس اور چائے سینٹر ٹیبل پر رکھی اور چائے بنا کر باقاعدہ ولی کو تھما دی۔ جسے اس نے اپنے پاس بیٹھی زینی کو ایک نظر دیکھتے ہوئے چپ چاپ تھام لیا۔۔۔۔
“احد اور عظمت کیسے ہیں بیٹا۔۔؟” سکندر شاہ نے مسکراتے ہوئے باقی سب کی خیریت دریافت کی تو ولی جوابا مسکراتے ہوئے ان سے بات کرنے لگا۔
“جی انکل! سب ٹھیک ہیں۔۔ ایکچوئلی وہ بھی میرے ساتھ یہاں آنا چاہتے تھے مگر کسی ضروری کام کی وجہ سے وہ نہیں آ سکے۔۔”
“لیکن میں زینی کو بہت زیادہ مس کر رہا تھا بس اسی لیے یہاں ملنے چلا آیا۔۔” ولی نے احد صاحب اور عظمت بیگم کا بتا کر اب خود زینی کو دیکھنے لگا جو اسے کچھ اداس اور مغموم سی لگ رہی تھی۔
“بہت اچھا کیا بیٹا۔۔ آتے جاتے رہا کرو۔۔ ہمیں بہت خوشی ہوگی۔۔” عاصمہ بیگم نے ولی کو خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا جس پر اذلان نفی میں سر جھٹک کر آہستہ آواز میں بڑبڑانے لگا۔
“ہمم۔۔م۔!! میں زینی کو بہت زیادہ مس کر رہا تھا بس اسی لیے یہاں ملنے چلا آیا۔۔” اذلان ولی کی کہی گئی بات کو زیرلب توڑ مروڑ کر خود سے بڑبڑانے لگا تھا۔
“اور اذلان۔۔آپ سنائیں۔۔ آپ کیسے ہیں۔؟” ولی نے اب اذلان کو براہ راست مخاطب کیا جس پر اذلان بمشکل مسکراتے ہوئے اپنے پراعتماد انداز سے جواب دینے لگا۔
“میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ بتائیں۔۔ انکل اور آنٹی پاکستان شفٹ ہوگئے۔؟” اذلان نے بھی کوئی بات کرنی تھی اس لیے انکل اور پھوپھو کی شفٹنگ کا پوچھ لیا جس پر ولید نے پوری روداد سنا ڈالی۔زینی خلاف توقع چپ سادھے ولید کی ساری باتیں خاموشی سے سن رہی تھی۔
“جی الحمداللہ۔۔ ہوگئے ہیں شفٹ۔۔ میں تو بچپن سے ہی پاکستان آتا جاتا رہتا ہوں مگر پچھلے دو سالوں سے یہی بزنس سیٹل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اس لیے ماما بابا بھی یہیں آگئے۔۔”
” اور یہ سب ہماری زینی کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے ورنہ میں تو پہلے کافی پریشان تھا کہ کیسے ادھر بھی سب سے ملنے جاؤں اور یہاں کے بزنس کو بھی دیکھوں۔۔بلآخر زینی نے بابا کو اپنی باتوں سے کنوینس کر ہی لیا۔۔۔۔۔۔۔۔”زینی اذلان کی ذہنی کشمکش سے بے نیاز اس وقت ولید کی بات پر دھیمے سے مسکرا رہی تھی۔وہ ہرگز نہیں جانتی تھی کہ اس کی یہ مسکراہٹ اذلان کو کس قدر طیش میں مبتلا کر رہی ہے۔
“زینی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سارے امیر لوگ باہر جا کر بزنس کرنے لگ جاتے ہیں جس سے کچھ خاص فائدہ پاکستان کو نہیں ہوتا۔ اسی نے ہی بابا کو سمجھایا کہ اگر ہم یہاں کوئی کاروبار شروع کریں گے تو یہاں کی لیبر کو روزگار ملے گا اور اس طرح پاکستان کی ایکسپورٹس بھی بڑھیں گی۔۔”
” جتنی نئی پروڈکٹس ہم بنائیں گے اتنا ہی پاکستان کا نام آگے بڑھے گا اور جتنے ورکرز کام کریں گے ان کے گھر والوں کی زندگیاں اتنی ہی آسان ہوں گی اور بھی پتا نہیں کتنے ہی قوی دلائل اس نے دیئے تب جا کر بابا مانے ورنہ بابا کا تو سویٹزرلینڈ میں اچھا خاصا بزنس چل رہا تھا۔۔”
“اور ویسے بھی میری بات بھلے ہی کوئی نہ مانے مگر زینی کی کہی بات تو سب نے ہر صورت ماننی ہی ہوتی ہے۔” ولید کی اتنی لمبی چوڑی بات پر سکندر شاہ نے بھی زینی کی تعریف میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
“بہت اچھی سوچ ہے زینی بیٹی کی۔۔ ہے نہ عاصمہ۔۔؟؟” سکندر شاہ نے بھی کھل کر تعریف کی جس پر زینی آہستگی سے مسکرا دی۔
سکندر شاہ کی بات پر عاصمہ بیگم نے بھی جوابا اثبات میں سر ہلا دیا۔
تبھی آحل بھاگتا ہوا زینی کے پاس آ گیا جس پر ولید اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
“یہاں بچے بھی ہیں۔۔؟ اس کا مطلب پھر تو یہاں زینی کا دل ضرور لگ گیا ہو گا ۔۔۔ورنہ میں زینی کے لیے کافی پریشان ہو رہا تھا۔۔” ولید نے آحل کی زینی کے ساتھ اٹیچمینٹ دیکھی تو نرم لہجے سے گویا ہوا تھا۔ تب تک عالیان اور عائشہ بھابی نے بھی ولید سے آ کر مصافحہ کیا اور وہی سامنے والے صوفے پر آ کر بیٹھ گئے تھے۔
ولید کو اس گھر کی یہی ایک بات بہت خاص لگی تھی کہ گھر کے کسی ایک فرد نے بھی اسے اجنبیت و بیگانگی کا احساس نہیں کروایا تھا۔ سب لوگ اس سے ایسے گھل مل کر بات کر رہے تھے جیسے وہ برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
“جی ولید بھائی! آحل تو اب زیادہ تر زینی کے پاس ہی ہوتا ہے اور جب عینی یہاں ہوتی ہے وہ بھی زینی کے ساتھ ہی زیادہ تر رہنے کی کوشش کرتی ہے۔۔ ابھی زمل اور زیان بھائی عینی کو لے کر شاپنگ کے لیے گئے ہیں ورنہ وہ بھی ابھی زینی کی ہی گود میں کھیل رہی ہوتی۔۔” عائشہ بھابھی نے مسکراتے ہوئے ولید کی ہاں میں ہاں ملائی۔
ان کے جواب پر سبھی آہستگی سے مسکرانے لگے تھے۔ کیونکہ فردا فردا سب نے ہی اس بات کو نوٹ کیا تھا۔ زینی باقی سب کے ساتھ تو گھل مل کر رہنے کی کوشش کرتی ہی تھی مگر بچوں کے ساتھ اس کا بے حد لگاؤ سب کو بآسانی نظر آ جاتا تھا۔
“اچھا بیٹا آپ لوگ بیٹھیں۔۔ اور آپ نے کھانا کھائے بغیر بالکل بھی نہیں جانا ۔۔”عاصمہ بیگم نے ولی کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور ان کے ساتھ ساتھ باقی سب لوگ بھی وہاں سے اٹھ گئے مگر ولی خود بھی نہ نہ کرتا فورا صوفے سے اٹھ بیٹھا۔
“نہیں آنٹی۔۔ بہت شکریہ آپ کا۔۔ لیکن میری ایک ضروری میٹنگ ہے اس کے لیے مجھے ابھی فورا ہی یہاں سے نکلنا ہے۔۔”ولی نے کھانے سے معذرت کی اور پھر الوداعی کلمات سب سے کہتے ہوئے مین گیٹ کی جانب قدم بڑھانے لگا تو زینی بھی دھیمی چال چلتے ہوئے اس کے ساتھ ہی آ گئی۔
“تھینک یو سو مچ ولی یہاں آنے کے لیے۔۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ تم اسپیشلی یہاں مجھ سے ملنے آئے۔۔” زینی نے ولی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پرنم لہجے سے کہا تھا جس پر ولی دھیمے سے مسکرا دیا کیونکہ اب زینی اس کے فورا جانے پر تھوڑا مغموم لگ رہی تھی۔
“کیا۔۔؟ تھینک یو۔۔!! تم کب سے یہ فارمل جملے بولنے لگی۔۔ہمم۔م؟؟” ولی نے اس کا موڈ درست کرنے کیلئے ہنستے ہوئے اس کے سر پر چپت لگا دی۔
اچانک داخلی دروازے سے باہر آتے اذلان نے انہیں ساتھ ساتھ چلتے دیکھا تو غصے سے آگ بگولہ ہو کر رہ گیا تھا۔ پتا نہیں کیوں لیکن اذلان کو زینی کا ولید کے ساتھ اتنا گھلنا ملنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ حالانکہ وہ خود اس سے نفرت کرتا تھا مگر جانے کیوں زینی کی ولید کے ساتھ اتنی اٹیچمینٹ اذلان کے دل کی دھڑکنوں کو عجیب انداز میں دھڑکنے پر مجبور کر رہی تھی۔
“ولی! تمہیں نا عزت بالکل بھی راس نہیں ہے۔۔” زینی نے بھی جوابا اس کے بازو پر مکا جڑا تھا جس پر ولید ہنستے ہوئے اپنے بازو کو سہلانے لگا تھا۔
“زینی! ویسے ایک بات بتاؤں۔۔ یہ جو تمہارا اذلان ہے نا جتنا ٹی وی میں کھڑوس دکھتا ہے نا۔۔رئیل میں اس سے بھی زیادہ کھڑوس دکھتا ہے۔۔” ولید نے زینی کو چڑانے کے لیے اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی نما انداز میں اذلان کی برائی کی تھی کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا اسی بات پر زینی کو شروع سے ہی چڑ ہوتی تھی۔ تھوڑی ہی دور فاصلے پر کھڑے اذلان نے یہ منظر اپنی شعلہ بار نگاہوں سے سلگتے ہوئے دیکھا تھا۔
ولید کی توقع کے عین مطابق زینی اس کو ہلکے ہلکے ہاتھوں سے تھپڑ لگانا شروع ہوگئی تھی اور ولید ہنستے ہوئے اپنے بچاؤ کے لئے فورا آگے بھاگ گیا۔
“زینی سچی بات پہ تم ہمیشہ ایسے ہی چڑتی ہو۔۔” ولید نے اونچی آواز میں ہانک لگا کر کہا تو زینی نے وہیں سے اسے غصے میں تیز لہجے میں جواب دینا شروع کر دیا۔
“ٹھہرو ذرا تم۔۔ ابھی بتاتی ہوں میں تمہیں کہ آخر سچ ہے کیا۔۔” زینی تیز لہجے میں کہتی اس کے پیچھے بھاگنے ہی لگی تھی کہ ولید تیزی سے اپنی کار میں بیٹھ کر ہنستے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔
“بدتمیز۔۔” زینی ہنستے ہوئے اونچی آواز میں کہہ کر پیچھے مڑی تو اچانک اذلان کو اپنے سامنے پا کر اس کی ہنسی ایک پل کے لئے تھم سی گئی۔
کیونکہ وہ اسے سرد نگاہوں سے گھورتا ہوا داخلی دروازہ عبور کرتا ہوا اندر کی جانب چلا گیا تھا۔ زینی اس کے سرد تاثرات دیکھتی کتنی دیر ناسمجھی سے سوچتی رہی اور پھر کچھ سمجھ نہ آنے پر مین ہال کی جانب آ گئی کیونکہ اس کا یہ انداز اس کو اپنی سمجھ سے بھی بالاتر لگ رہا تھا۔
?????
“ڈاکٹر شفاء!یہ آمنہ بیگم کی ساری میڈیکل رپورٹس آ گئی ہیں۔۔” نرس نے ایک فائل ڈاکٹر کے ہاتھ میں تھمائی جسے اس نے “تھینک یو” کہہ کر آہستگی سے تھام لیا۔
آمنہ بیگم اس وقت بیڈ پر لیٹی ہوئیں تھیں۔ کیونکہ ان سے زیادہ دیر بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ اسی لیے ڈاکٹر کے روم میں ہی جو ایمرجنسی بیڈ موجود تھا ڈاکٹر شفاء نے ان کی حالت کے پیش نظر انہیں وہاں لٹا دیا۔ فاطمہ اب ڈاکٹر شفاء کے چہرے کے اتار چڑھاؤ بغور دیکھ رہی تھی اس لیے نرمی سے گویا ہوئی۔
“ڈاکٹر شفاء! میری ماما ٹھیک تو ہو جائیں گی نا۔۔؟” فاطمہ نے امید طلب نگاہوں سے یہ سوال پوچھا تھا کیونکہ اس کے اندر مزید ہمت ہی نہیں بچی تھی کہ اپنے کانوں سے کوئی بری خبر سن سکے۔
فاطمہ کی اس بات پر ڈاکٹر شفاء نے فائل سے اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے بغور دیکھا مگر کتنی ہی دیر کچھ نہ بول سکیں۔اور پھر اپنا سر واپس جھکا کر میڈیکل رپورٹ کو پوری توجہ سے پڑھنے لگی تھی۔
فاطمہ نے آمنہ بیگم کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھی وہ اب شاید گہری نیند سو گئیں تھیں۔ کیونکہ کچھ دیر پہلے ان کا بی پی بہت زیادہ ہائی تھا اسی لیے ڈاکٹر شفا نے بی پی نارمل کرنے کے لیے انہیں ایمرجنسی ڈوز دے دی تھی اسی لیے اب وہ میڈیسن کے زیراثر بیڈ پر لیٹی آرام کر رہیں تھیں۔
“دیکھیں! رپورٹس تو تسلی بخش نہیں ہیں۔۔ انکا بی پی اور شوگر لیول بہت ہائی ہے اور کولیسٹرول لیول بھی کافی زیادہ ہے جو ان کے دل کے لئے بہت زیادہ خطرناک ہے۔” ڈاکٹر شفاء نے نرم لہجے سے فاطمہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس کی تیزی سے نم ہوتی آنکھیں دیکھیں تو فورا اس کے دل کو کچھ ہوا۔
کیونکہ چند دنوں پہلے وہ خود بھی ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے اپنی ماں کے لئے سارے سینئیرز ڈاکٹرز کی طرف امید طلب نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ مگر بلآخر ہوتا وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔
ڈاکٹرز چاہے لاکھ کوشش کرلیں اگر اللہ تعالی کی مرضی ہو گی تو ہی کسی کی زندگی کی سانسیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا سوائے اللہ تعالی کی ذات کے۔ ہر چیز پر اللہ تعالی کا ہی اختیار ہے۔
ان کی ماں انہیں اکیلا چھوڑ کر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں تھیں۔ اور ان کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا۔
آج کافی دنوں بعد وہ ڈیوٹی پر آئی تھی کیونکہ اسے اپنے ہر غم سے نجات کا ذریعہ اپنا یہ پروفیشن لگتا تھا اسی لیے وہ کچھ ہی دنوں بعد دوبارہ ہاسپٹل جوائن کر چکی تھی۔
“دیکھیں! کیا نام ہے آپ کا۔؟” ڈاکٹر شفا نے بات کرتے ہوئے فارمل لہجے میں فاطمہ سے اس کا نام پوچھا۔
” فاطمہ۔۔ایمان فاطمہ!!” فاطمہ نے پرنم لہجے سے جواب دیتے ہوئے اپنا پورا نام بتایا۔
“ایمان! ہم اپنی پوری کوشش کریں گے ان کو تمام میڈیسن دیں گے اور اپنی طرف سے بہترین علاج کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔۔”
” مگر جتنا ہوسکے ان کو ٹینشن فری رکھنے کی کوشش کریں اور انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں۔۔”
فاطمہ کو یہ کوئی سرسری الفاظ نہیں لگ رہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کسی نے اس کی ڈوبتی کشتی کو ایک زورآور دھکا دے کر مزید گہرائی میں پھینک دیا ہے۔ یہ سب سن کر اس کے آنسو اس کے رخساروں کو مسلسل بھگونے لگے تھے۔
“ایم سوری ایمان! بٹ یہی سچ ہے اسی لیے میں نے آپ کو انفارم کرنا ضروری سمجھا۔” ڈاکٹر شفاء بہت ہی نرم دل کی مالک تھیں۔ اسی لئے اس کو روتا دیکھ کر ان کا دل پسیج گیا اور وہ فورا اپنی چئیر سے اٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے لگی تو ایمان بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دی۔ کیونکہ اس کے پاس اور کوئی نہیں تھا جس سے وہ اپنے دل کا غم ہلکا کر سکتی اس لیے تھوڑا سہارا پا کر اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکی۔
ڈاکٹر شفاء نے بھی اس کو اپنے ساتھ لگائے رونے دیا تھا تاکہ وہ اپنے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کر لے۔ ڈاکٹر شفاء کو اس لڑکی کی کنڈیشن بالکل اپنے جیسی لگ رہی تھی اس لیے ڈاکٹر شفاء کی آنکھوں میں بھی فورا آنسو آ گئے تھے۔
“ڈاکٹر شفاء! کیا ایسی کوئی میڈیسن نہیں ہے جس سے میری ماما ٹھیک ہوجائیں۔ میرا اس دنیا میں ان کے سوا کوئی بھی نہیں ہے۔۔ میں ان کے بغیر اکیلی کیسے رہوں گی۔۔؟” فاطمہ نے روتے ہوئے ڈاکٹر شفا کو امید طلب نگاہوں سے پوچھا جس پر ڈاکٹر شفا اسے کھوکھلی تسلی دینے لگیں جب کہ وہ اچھے سے جانتیں تھیں کہ آمنہ بیگم کی رپورٹ کے مطابق ان کی زندگی بہت خطرے میں تھی۔
“ایمان! آپ گھبرائیں نہیں ہم پوری کوشش کر رہے ہیں۔۔ ہم انہیں آج ہی ایڈمٹ کر رہے ہیں۔۔ پھر ان کا پورا علاج کرنے کی کوشش کریں گے۔۔ آپ بس دعا کریں انشاء اللہ سب کچھ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔۔” ڈاکٹر شفاء نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ایمان فاطمہ کو کھوکھلی تسلی دی جس پر فاطمہ آمنہ بیگم کو ساکت نگاہوں سے دیکھنے لگی جو اس وقت فاطمہ کی حالت سے بے نیاز گہری نیند میں سو رہیں تھی۔
“تھینک یو سو مچ ڈاکٹر شفاء۔۔ اینڈ ایم سوری وہ میں ذرا ڈیپریس تھی اسی لئے آپ کو بھی پریشان کر دیا۔ ایم رئیلی سوری۔۔” فاطمہ نے اب سیدھی ہو کر ڈاکٹر شفا سے کہا جو اب اسے چھوڑ کر واپس اپنی چئیر پر چلی گئی تھی۔
فاطمہ کو وہ ڈاکٹر بہت اچھی لگی تھی۔ اسے اس ڈاکٹر سے ایک اپنائیت بھرا احساس ہوا تھا۔ شاید ان کے شعبے کی سب سے بڑی خاصیت ہی یہی ہوتی ہے کہ مریض ان کو اپنا ہمدرد سمجھے اور اپنا ہر دکھ درد بلا جھجھک ان سے بانٹ سکے۔۔ اسی لئے تو یہ ڈاکٹر بھی ایسی ہی تھی۔
“اٹس اوکے ایمان! یو پلیز ڈونٹ نیڈ ٹو وری۔۔” ڈاکٹر شفا نے اسے پیار بھرے انداز سے سمجھایا۔
“آنٹی کو تھوڑی دیر کے لئے ریسٹ کرنے دیتے ہیں۔۔ پھر ہم انہیں دوسرے روم میں شفٹ کر دیں گے۔۔ آپ اتنی دیر باہر ویٹ کر لیں میں تب تک ذرا اپنے باقی پیشنٹس کو چیک کر لوں۔۔” ڈاکٹر شفاء نے فاطمہ کو روم کے باہر ویٹ کرنے کا کہا۔
فاطمہ دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی میڈیکل رپورٹس کی فائل ہاتھ میں لیتے ہوئے پرنم آنکھوں سمیت باہر کوریڈور میں آ گئی۔
آنکھوں کی نمی کی وجہ سے اس کی آنکھیں سامنے کا منظر دھندلا گئیں تھیں کہ اچانک سامنے سے آتے وجود سے فاطمہ بری طرح ٹکرا گئی اور نیچے زمین پر دوزانو گر گئی۔ مقابل نے اسے تھام کر فورا سنبھالنا چاہا تھا مگر وہ نیچے ہی بیٹھتی چلی گئی۔ اور پھر اپنا سر ہاتھوں میں دیے بری طرح رو دی۔
عفان نے اس لڑکی کو شدت سے روتے ہوئے دیکھا تو از حد فکرمندی سے گویا ہوا۔
“ایم سوری!وہ میں ذرا جلدی میں تھا اس لئے آپ کو دیکھ ہی نہیں پایا۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔؟؟”
” کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو۔۔؟ آئیے میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں۔۔”عفان نے اس حجاب والی لڑکی کو نیچے بیٹھے ہوئے شدت سے روتے دیکھا تو اسے لگا اس کے ٹکرانے کی وجہ سے شاید اس کو کہیں کوئی گہری چوٹ لگ گئی ہے اسی لئے پریشان لہجے سے گویا ہوا مگر حجاب والی لڑکی کے سخت لہجے پر وہ ایک پل کے لیے اسے حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہی رہ گیا۔
“جسٹ لیو می آلون پلیز۔۔!!” فاطمہ نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسے کہا اور پھر سے رونے میں مشغول ہو گئی۔
عفان اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہی فورا پہچان گیا تھا کہ یہ تو وہی لڑکی ہے جو پہلے بھی اس سے ایک دو بار مل چکی ہے۔
عفان اس کے سرد لہجے پر اسے ایک نظر دیکھ کر وہاں سے جانے ہی لگا تھا مگر پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس آیا اور پھر اس سے اپنے مخصوص نرم لہجے میں بات کرنے لگا۔
“دیکھیے!میں جانتا ہوں آپ ہاسپٹل میں ہیں تو ظاہر سی بات ہے آپ پریشان ہی ہوں گی۔۔ یہاں خوشی سے کون آتا ہے ۔۔ مگر یہ کوریڈور ہے ہر آتا جاتا آپ کو دیکھ رہا ہے۔۔”
“اس لئے پلیز آپ اس کارنر والی بینچ پر چلی جائیں اور وہاں بیٹھ کر آرام سے رو لیجئے۔۔” عفان نے اسے رسان سے سمجھایا تو وہ جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کرتی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ واقعی ہر گزرتا شخص اسی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے سخت شرمندگی لاحق ہوئی اسی لیے اپنی فائل جلدی سے پکڑ کر کھڑی ہوئی اور عفان کے بتائے ہوئے بینچ پر جا بیٹھی۔ یہ بینچ باقی سب کی نظروں سے ایک سائیڈ پر تھا۔
عفان بھی دھیمی چال چلتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے آ گیا۔اب اسے یہاں آرام سے بیٹھے دیکھ کر تسلی ہوئی تو وہاں سے جانے لگا مگر اچانک فاطمہ کی پرنم آواز پر واپس پلٹا اور اسے بغور دیکھنے لگا۔
“رکیں پلیز! یہ آپ کے کچھ پیسے مجھ پر ادھار تھے۔۔ آپ وہ اپنے پیسے واپس لیتے جائیں۔۔” فاطمہ نے یہ کہتے ہوئے اپنے پرس میں سے پیسے نکالے اور اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی اور اسے اپنی جھکی نگاہوں کے ساتھ پیسے واپس تھمانے لگی۔
“کوئی بات نہیں یہ آپ رکھ لیں۔۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔۔” عفان نے پیسے واپس نہ لیے اور وہاں سے جانے کے لیے اپنے قدم آگے بڑھانے لگا مگر فاطمہ کی بھیگی آواز نے اس کے قدم پھر سے جکڑ لئے اور وہ نادانستہ طور پر اب اسکے جھکے ہوئے سر کو بغور دیکھنے لگ گیا۔
“میں نے یہ پیسے ادھار کرکے اپنے پاس رکھے تھے۔۔ اگر آپ اس دن مجھ سے پوچھ کر بل پے کرتے تو میں آپ کو تبھی بتا دیتی کہ مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔ مجھے تو صرف میری ماما۔۔” ایمان فاطمہ پیسے زبردستی اس کے ہاتھ میں پکڑا کر آخر میں پھر سے رونے والی ہو گئی۔اس کے حلق میں آنسؤوں کا پھندہ اٹک جانے کی وجہ سے وہ اپنی بات بھی پوری نہ کر پائی اور پھر سے روتے ہوئے واپس اسی بینچ پر جا کر بیٹھ گئی۔ عفان کچھ پل کیلئے گہرا سانس بھر کر اسے دیکھتا رہا اور پھر پیسے واپس اپنی پاکٹ میں رکھ کر اس کی طرف آیا کیونکہ اتنا تو وہ جان ہی گیا تھا کہ یہ لڑکی بہت خود دار ہے۔ اس کے منع کرنے کے باوجود اسے پیسے دے کر ہی چھوڑے گی۔ اس لئے اس نے اب کی بار بنا کچھ کہے پیسے واپس رکھ لئے۔
“عفان بھائی۔۔! آپ یہاں۔۔؟؟ ڈاکٹر شفا جو اپنے روم سے کسی اور وارڈ میں جا رہی تھی کہ عفان کو اپنے سامنے دیکھ کر حیرت بھری نگاہوں سے پوچھنے لگی۔
“ہاں جی۔۔ وہ میں یہاں اپنے دوست کے بابا کی خیریت معلوم کرنے آیا تھا۔۔ اس کے بابا یہاں ایڈمٹ ہیں تو اسی لئے ان سے مل کر ابھی ہوٹل ہی واپس جا رہا تھا۔۔ آپ بتاؤ آپ کیسے ہو۔۔؟” عفان نے اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے نرم لہجے میں کہا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں بھائی۔۔” ڈاکٹر شفا نے آہستگی سے جواب دیا۔
“بیٹے! آپ کی ماما کا سن کر بہت افسوس ہوا۔۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔۔ آمین!!” عفان نے ڈاکٹر شفا کی ماما کی تعزیت کی جسے سن کر ایمان کی آنکھیں ازحد گھبراہٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ ایک دم کسی خدشے کے پیش نظر اپنے لرزتے وجود کے ساتھ تیز قدموں سے بھاگتے ہوئے اپنی ماما کے روم میں داخل ہو گئی۔
عفان کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ ڈاکٹر شفاء بھی اس کا ڈر سمجھ گئی تھی اس لیے ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔
“ماما کی کمی کو تو کوئی بھی نہیں پورا کر سکتا بھائی۔۔ دیکھیں اب اس لڑکی کو ہی۔۔ اس کی ماما کے علاوہ اس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔۔”
” مگر ان کی رپورٹس کے مطابق ان کی ماما کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا۔ یہی سوچ سوچ کر ایمان اتنا ڈیپریس ہو گئی ہے۔۔ مگر کیا کریں ہم تو صرف ڈاکٹرز ہیں۔”
” زندگی اور موت دینے والی ذات تو صرف اللہ پاک ہی کی ہے۔ یہ لاہور سے کراچی صرف میرے پاس علاج کروانے کے لیے آئیں ہیں۔”
” اب میں اتنی پریشان ہو رہی ہوں اس کا درد مجھے اپنا درد لگ رہا ہے میں بھی تو ماما کے آخری دنوں میں ایسے ہی پریشان پریشان سی پھرتی رہتی تھی۔” ڈاکٹر شفا نے عفان کو فاطمہ کی ساری صورتحال بتائی جس پر عفان کو اسی لڑکی کی درد بھری اور دلسوز آنکھوں کا راز پتہ چل گیا تھا۔ مگر وہ سوائے ہمدردی کے اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
” اوکے عفان بھائی۔۔ میں چلتی ہوں میرے پیشنٹس ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔” ڈاکٹر شفا نے عفان سے اجازت طلب کی اور وہاں سے چل دی۔
“اوکے بیٹے! آپ اپنا خیال رکھیے گا۔” عفان نے اس کے سر پر پیار دیا اور خود پر سوچ نگاہوں سے اپنے قدم آگے بڑھانے لگا۔ فی الحال اس کی سوچوں کا مرتکز وہی حجاب والی لڑکی ہی تھی۔
?????
شمسہ ابھی ابھی پارٹی ختم ہونے کے بعد فریش ہو کر بیڈ پر بیٹھی ہی ہوئی تھی کہ اچانک اسے ماسک مین یاد آگیا اور وہ الماری سے اس کا دیا ہوا گفٹ نکالنے لگی جو اوپر آتے وقت وہ اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے آئی تھی۔
نجانے کیوں وہ گفٹ اسے بہت اپنا اپنا سا لگا تھا۔ اس نے باقی کسی بھی گفٹ کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا۔ مگر وہ اپنے کمرے میں آتے وقت اس گفٹ کو اپنے ساتھ لانا نہیں بھولی تھی جیسے وہ اس کی کوئی بہت قیمتی شے ہے۔
اس کو سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ سارے گفٹس میں سے بس اسے ہی کیوں اپنے کمرے میں لا رہی ہے۔
“کیا ہو سکتا ہے اس گفٹ میں۔؟” شمسہ آہستگی سے بڑبڑاتے ہوئے ریپ کیے ہوئے گفٹ کی پیکنگ کھولنے لگی۔
پیکنگ کھلتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کیونکہ اس باکس میں مختلف رنگوں کے نفیس اور خوبصورت حجاب تھے۔ اس گفٹ کو دیکھ کر اسے اپنے آپ سے اس وقت اچھی خاصی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔
اب شمسہ ایک ایک کر کے سارے حجاب نکال رہی تھی سب سے آخر میں ایک چٹ نکلی جس میں خوبصورت ہینڈ رائٹنگ سے ایک جملہ لکھا گیا تھا جسے وہ زیر لب دہرانے لگی تھی۔
“خوبصورت لڑکی کا بہترین زیور۔۔”
جانے کیوں یہ الفاظ پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں تیزی سے نم ہوگئیں۔شمسہ ایک پنک کلر کے حجاب کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگائے اس کی خوشبو کو محسوس کرنے لگی۔
تبھی چپکے سے اس کی بند آنکھوں میں سے ایک موتی ٹوٹ کر گرا جسے اس نے صاف کرنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے بالکل بھی خبر نہ ہوئی تھی۔
سارے حجاب اس کے آس پاس بکھرے پڑے تھے اور پنک کلر کا حجاب ہنوذ اس کے سینے پر تھا جسے اس نے ایک قیمتی متاع کی طرح اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔
?????
“آنٹی! زینی کے سسرال والے بہت اچھے ہیں ماشاء اللہ۔۔اور گھر کے سب لوگ زینی کا بہت خیال بھی رکھتے ہیں۔” ابراہیم صاحب ابھی ابھی اسٹڈی روم سے باہر نکلے تو ولید کے منہ سے زینی کا ذکر سن کر کچھ دیر کیلئے وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکے۔
“اچھا۔۔ اور زینی۔۔ میری بچی تو ٹھیک ہے نا۔؟ اس کی شادی کے بعد سے ہی میں نے اس کی آواز تک نہیں سنی ہے۔”کچھ دیر بعد سارہ بیگم کی پریشان زدہ آواز آئی جس پر ابراہیم صاحب بھی فکر مند ہو کر رہ گئے کہ سارہ بیگم زینی کے بنا کیسے رہتی ہوں گی۔ رہ تو میں بھی نہیں پاتا مگر کیا کروں۔؟ ابراہیم صاحب ابھی تک اپنی سوچوں میں ہی گم کھڑے تھے جب ولید کی چہکتی آواز نے انہیں پھر سے اپنی سوچوں کے بھنور سے باہر نکالا۔
“آنٹی! وہ بھی ٹھیک ہے بس آپ لوگوں کی وجہ سے تھوڑی پریشان ہے۔ اگر آپ لوگ بھی اس سے بات کرنا شروع کر دیں گے نا تو ہماری زینی بالکل پہلے کی طرح نارمل ہو جائے گی۔ اسے آپ کی سپورٹ اور آپکے پیار کی اشد ضرورت ہے آنٹی۔”
ولید نے آخر میں پھر سارہ بیگم کو سمجھانا چاہا تھا کہ وہ کسی طرح زینی سے بات کر لیں کیونکہ ولید نے زینی کا مرجھایا ہوا چہرہ اس کے ہنستے ہوئے چہرے میں بھی فورا پہچان لیا تھا۔
“ولید بیٹے! چاہتی تو میں بھی یہی ہوں۔۔ مگر میں ابراہیم صاحب کی مخالفت کرکے یہ کام نہیں کر سکتی۔” سارہ بیگم کے لہجے میں اداسی واضح ڈیرے ڈالے ہوئے لگ رہی تھی۔
سارہ بیگم جیسی فرمانبردار اور نیک عصمت بیوی پا کر ابراہیم صاحب مطمئن ہو کر وہاں سے پھر اسٹڈی روم میں چلے گئے تھے۔
آج کل وہی ان کی تنہائی کی ساتھی تھی۔ جہاں وہ مختلف کتابیں پڑھ کر اپنے اس غم کو بھولنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
?????
“ریحان! مجھ سے یہ سوال حل ہی نہیں ہو رہا۔۔پلیز ایک بار تم ٹرائے کر کے دیکھو نا۔” حیا کی کوفت ذدہ آواز پر ریحان ایک دم اپنی عادت کے مطابق قہقہہ لگا کر ہنس دیا جس پر حیا اسے باقاعدہ گھوری سے نوازنے لگی تھی۔
“یار! میں کیا کروں مجھے خود ریاضی کی الف ب بھی نہیں پتہ۔۔اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو۔۔” ریحان نے اپنے ہاتھ اونچے کر کے وضاحت دی اور پھر خود ہی اپنی کہی ہوئی بات پر زور سے ہنسنے لگ گیا۔
“بس ایسے ہی دانت نکالتے رہنا۔۔ انجینئرنگ میں ایڈمیشن کیوں لیا تم نے۔۔؟ اگر تمہارا میتھس میں انٹرسٹ ہی نہیں ہے تو۔۔” حیا نے اب مصنوعی غصے سے کہتے ہوئے اس کے بازو پر تھپڑ جڑ دیا۔
اس وقت وہ دونوں سٹاف روم کے سامنے والے لان میں نیچے گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ریحان تو کب سے اپنی ببل گم چبانے میں مصروف تھا۔ اور حیا اپنا سوال حل کرنے میں جو اس سے حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا۔
“یار! وہ دیکھو میتھس کے پروفیسر ادھر ہی آ رہے ہیں ان سے پوچھ لو۔۔” ریحان نے ہاتھ کے اشارے سے اسٹاف روم کی طرف حیا کی توجہ مبذول کروائی جہاں پروفیسر امین آ رہے تھے۔
“موٹو۔۔۔پہلی بار کوئی عقل کی بات کی ہے تم نے ۔۔” حیا نے جلدی سے اٹھتے ہوئے ریحان کو کاپی ماری جس پر وہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
“سر۔۔ سر!! بات سنیں۔۔” ریحان نے اونچی اونچی آواز دینا شروع کی تو حیا اسے گھورنے لگی۔
“تمیز سے موٹو۔۔ ابھی سر سے ڈانٹ کھلوانے کا ارادہ ہے کیا۔۔؟” حیا نے ساتھ چلتے ہوئے ریحان کو بڑبڑا کر کہا۔
“اور ہاں اس تمیز کے چکر میں پروفیسر چلے جاتے اور تم پھر میرا دماغ کھاتی رہتی۔” ریحان نے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بڑبڑا کر جواب دیا۔ اس کے زور سے ہانکنے پر پروفیسر امین رک کر انہیں دیکھنے لگ گئے تھے۔
“کیا بات ہے ریحان۔۔ اتنا زور زور سے چلانے کی وجہ۔؟” پروفیسر امین نے سخت لہجے میں کہا جس پر حیا ایک دم پریشان ہو کر رہ گئی تھی جبکہ ریحان پر تو اتنی سی بےعزتی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ آرام سے مسکراتے ہوئے اپنی ببل گم چبا رہا تھا۔
“سر! وہ حیا کو ایک سوال میں کنفیوژن ہو رہی ہے۔ اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو اسے سمجھا دیں۔”ریحان نے اب کی بار ذرا سنبھل کر کہا کہ کہیں پھر سے ڈانٹ نا پڑ جائے۔ مگر شاید آج پروفیسر امین کافی غصے میں تھے۔ اس لیے بات بے بات غصہ کر رہے تھے اب بھی اس کو طنزیہ انداز میں جواب دینے لگے۔
“وہی تو میں بھی سوچوں۔۔ ریحان صاحب جو میتھس کا ایک کوئسچن ٹھیک سے سولو نہیں کر پاتے انہیں مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے بھلا۔۔؟” ریحان اپنی اس قدر بےعزتی پر ایک دم منہ پھلا گیا تھا۔ حیا کی تو ہنسی نا رک رہی تھی۔ایکدم ریحان کے گھورنے پر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بمشکل اپنی ہنسی کو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
“حیا بیٹے! ابھی تو مجھے کسی ایمرجنسی کام سے باہر جانا ہے۔۔ میں کل فرسٹ ٹائم آ کر آپ کو سمجھا دوں گا۔۔آپ صبح 9 بجے سٹاف روم میں آ جایئے گا۔” پروفیسر امین نے حیا کو بڑے آرام سے جواب دیا جس پر ریحان بڑبڑا کر رہ گیا۔
“بس دوسروں کی بےعزتی کرنے کا ٹائم ہے ان کے پاس۔” ریحان کی بڑبڑاہٹ حیا نے اپنے تیز کانوں کی بدولت بخوبی سنی تھی لیکن وہاں سے جاتے ہوئے پروفیسر امین صحیح سے سن نہیں پائے تھے۔
“ریحان! آپ نے کچھ کہا۔؟” پروفیسر امین نے مڑ کر پوچھا جس پر ریحان ایک دم ڈر کر اچھلا اور ساتھ میں “ن۔ن نہیں سر” کی گردان پڑھنے لگا۔
“ایک منٹ رکیں آپ لوگ۔۔ضرار۔۔ضرار بیٹے۔۔!” ریحان اور حیا وہاں سے جانے ہی لگے تھے کہ پروفیسر امین کی نظر دور سے آتے ضرار پر گئی تو انہوں نے اسے آواز دی تو وہ بھی ادھر ہی آ گیا۔ حیا نے بھی فورا پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو ان دونوں کی جانب اپنے کانفیڈینٹ انداز میں بڑھتا ہوا ادھر ہی آ رہا تھا۔
“جی سر۔۔!” ضرار نے پروفیسر امین کو آ کر سلام کرنے کے ساتھ ساتھ سوالیہ نگاہوں سے انکا کام پوچھا۔
“ضرار بیٹے!یہ میری سٹوڈنٹ ہیں مس حیا۔۔ انہیں میتھس کے ایک کوئسچن میں کنفیوژن ہو رہی ہے۔۔ مجھے کسی کام سے جلدی جانا ہے آپ انہیں سمجھا دیں۔۔”حیا کو اب سمجھ آیا تھا کہ پروفیسر امین نے انہیں دوبارہ کیوں آواز دی ہے۔
“نہیں سر! میں خود سولو کر لوں گی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔” حیا اس سے مر کر بھی نہ کہتی کہ اسے کوئی سوال سمجھائے کیونکہ ان کا تو شروع سے ہی اسٹڈی کو لے کر جھگڑا چل رہا تھا۔
“اوکے سر! یہ خود کر لیں گی۔۔ مجھے بھی کچھ ضروری کام ہے میں چلتا ہوں۔” ضرار نے حیا کی بات پر شان بےنیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا جس پر ریحان فورا بول اٹھا تھا۔
“یار حیا! سمجھ لو اس سے کب سے تو تم لگی ہوئی ہو اگر خود حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔” اب ریحان نے حیا کو سنا ڈالی جس پر حیا نے اسے گھورا تو وہ ایک دم چپ ہو کر رہ گیا۔ ضرار ان دونوں کی بحث کو چپ سادھے سن رہا تھا۔
“آپ دونوں چپ کریں۔۔ ضرار یہ میری سٹوڈنٹ ہیں آپ اسے یہ سوال حل کر کے دیں گے اور حیا کل پہلے پریڈ میں وائٹ بورڈ پر سب سے پہلے یہی سوال آپ حل کریں گی اور باقی سب کو بھی سمجھائیں گی۔۔از دیٹ کلئیر۔۔؟؟” پروفیسر امین اب ان دونوں کی تکرار سے تنگ آچکے تھے۔ انہیں کسی ضروری کام سے نکلنا تھا اس لیے حیا کو ضرار سے ہی اس سوال کو سمجھنے کا آرڈر جاری کرتے وہاں سے چلے گئے۔
حیا اب شدت سے اس وقت کو کوس رہی تھی جب وہ سوال حل کروانے کے لئے پروفیسر امین کے پاس آئی۔
“یہاں بہت رش ہے۔۔ بقول آپ دونوں کے اس بھوت بنگلے میں ہی جانا پڑے گا۔۔ وہیں جا کر میں آپ کو آرام سے سمجھا سکتا ہوں۔۔” ضرار نے بھی آج اپنا ہر بدلہ پورا کرنے کی ٹھان لی اور اس پر طنز کے تیر برسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
اس کے ہونٹوں پر آج ہلکی طنزیہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔یہی طنزیہ مسکراہٹ حیا کو آگ لگا رہی تھی وہ چلتے چلتے بھی ساتھ ساتھ غصے سے بڑبڑائے جا رہی تھی۔
“جلدی چلو یار۔۔ مجھے ابھی کینٹین بھی جانا ہے۔۔” ریحان نے آہستہ آہستہ چلتی حیا سے کہا جس پر حیا کو مزید تپ چڑھ گئی۔
“چپ رہو موٹو! سارا دن کھا کھا کر تھکتے ہی نہیں ہو۔۔”حیا نے اپنا سارا غصہ بیچارے ریحان پر انڈیل دیا۔
“یار میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔۔ میں کیا کروں۔؟” ریحان نے بیچارگی کے عالم میں کہا تو حیا ایک دم آگ بگولہ ہو گئی۔ ضرار ریحان کی درگت بنتے دیکھ کر اندر ہی اندر مسکرا رہا تھا۔
جانے کیوں حیا کا اس طرح چڑنا اس کو عجیب سا مزہ دے رہا تھا۔
“دفع ہو تم۔۔ کینٹین میں جاؤ گے تب ہی چپ ہوگے تم۔۔”حیا کی بات پر ریحان بے ساختہ ہنس دیا۔ وہ دونوں ان چند دنوں میں ہی بہت اچھے دوست بن گئے تھے۔ اس لیے اس نے حیا کی بات کا بالکل برا نہ مانا اور ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے کینٹین میں جانے لگا۔
“یار حیا! تمہیں میری کتنی فکر ہے نا۔؟ اسی لئے تو اس پورے کالج میں میری سب سے اچھی دوست تم ہو۔۔”
ریحان نے ہنستے ہوئے ڈھٹائی سے کہا جس پر حیا اسے گھورنے لگی اور پھر وہ چند ہی سیکنڈز میں اپنے کانوں کو سوری کے انداز میں ہاتھ لگاتا وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد وہ اور ضرار اپنے مخصوص بینچ پر آ کر بیٹھے تو حیا نے غصے سے ٹیبل پر بکس اور بیگ پٹخنے کے انداز میں رکھا۔ جس پر ضرار نے اپنی ہونٹوں پر امڈتی مسکراہٹ کو بمشکل کنٹرول کیا اور اس کے سامنے اپنے چہرے کو ازحد سنجیدہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔
“یہاں بیٹھ کر آپ مجھ پر کوئی احسان نہیں کر رہیں تو پلیز میرے سامنے یہ سب حرکتیں کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔” حیا کے غصے سے بیگ پٹخنے پر ضرار نے اسے فورا سخت لہجے میں ٹوک دیا۔
“بس۔۔بس یہی ایک وجہ ہے کہ تم مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہو۔۔”حیا نے اس کے سخت لہجے کی وجہ سے اسے سنا ڈالیں جس پر وہ غصے سے حیا کو ایک نظر دیکھنے لگا۔
“مجھے آپ کی پسند و ناپسند سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ اس لیے میرا ٹائم ویسٹ کرنے کی بجائے اپنی نوٹ بک نکالیں اور کوئسچن کا بتائیں۔۔ مجھے اور بھی بہت سارے کام ہیں۔۔”
ضرار کو اس کا بدتمیزی والا لہجہ ناگوار گزرا تھا اس لیے فوراً اسے ٹوکتے ہوئے خود ہی اس کے آگے سے نوٹ بک اٹھا کر ایک سوال کو دیکھنے لگا جسے ہر طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر کسی طور صحیح سے حل نہیں ہو رہا تھا۔
“ہمم۔!پھر ٹائم ویسٹ کی بات۔۔” حیا کو اس کا بات بے بات ٹائم ویسٹ کہنا بہت برا لگتا تھا۔ اس بار ضرار نے اسے کوئی جواب نہ دیا حالانکہ وہ اس کی بڑابڑاہٹ بخوبی سن چکا تھا۔
حیا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ یہاں سے ابھی کے ابھی اٹھ جائے مگر وہ کیا کرے پروفیسر امین حکم دے کر چلے گئے تھے۔ اس لئے وہ بے بسی کے عالم میں اسے سخت نگاہوں سے گھورے جا رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ضرار نے اسے سمجھانا شروع کر دیا۔ اس نے سوال کو اتنے آسان طریقے سے سولو کر دیا تھا۔ ایک پل کے لیے تو حیا بھی اس کی ذہانت پر اسے تکتی رہ گئی تھی مگر پھر کاپی اٹھا کر اس حل شدہ سوال کو ایک سرسری نگاہ سے دیکھنے لگ گئی۔
“اب سمجھ آ گئی ہے آپ کو۔۔؟” ضرار نے اسے سوالیہ انداز اسے پوچھا۔
“میں بھی ایسے ہی کرنے والی تھی۔۔ یہ تو ریحان مجھے زبردستی پروفیسر امین کے پاس لے گیا ورنہ میں تو خود سے ہی سولو کر لیتی۔۔اس سب کیلئے مجھے تمہاری مدد کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی۔۔” حیا نے بالکل بھی ظاہر نہ کیا کہ وہ یہ سوال اس کے سمجھانے پر ہی سمجھی ہے۔
ضرار اس کی بات نہ ماننے والی بات پر نفی میں سر جھٹکتے ہوئے آہستگی سے مسکرا دیا۔
“ضدی لڑکی۔۔” ضرار اسے دیکھتے ہی بڑبڑانے لگا جو اس کے سمجھانے پر بھی اس کا احسان نہیں مان رہی تھی بلکہ الٹا اسے ہی سنا رہی تھی۔
“ارے یہ ٹوم اینڈ جیری ایک ساتھ۔۔؟؟ خیریت تو ہے نا۔؟؟” مریم اور روشان کلاس اٹینڈ کر کے ضرار کا پتا کرنے اس کے پاس آئے تھے کیونکہ وہ کلاس میں موجود نہیں تھا۔
ضرار نے کبھی کوئی کلاس بنک نہ کی تھی۔ اس لئے وہ اسے دیکھنے کے لیے آ گئے مگر یہاں ان دونوں کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر روشان بری طرح حیران رہ گیا تھا۔
“یہ ایک میتھس کا کوئسچن تھا۔۔ میں تو خود سے ہی سولو کر لیتی مگر پروفیسر امین نے زبردستی اسے میرے ساتھ بھیج دیا اس لئے مجبورا مجھے بھی اس کے ساتھ یہاں آنا پڑا۔۔” حیا احسان جتانے والے انداز میں بولی تو ضرار اس کو گھورنے لگا تھا۔
کیونکہ اس لڑکی کی وجہ سے اس کی ایک کلاس مس ہو چکی تھی۔ مگر یہ لڑکی پھر بھی اس کا احسان نہ مان رہی تھی۔ اس کا انداز ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ یہاں بیٹھ کر ضرار پر کوئی احسان عظیم کر چکی ہے۔
“ہوگیا سولو تمہارا کوئسچن۔؟” ریحان ادھر آ کر حیا سے پوچھنے لگا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے جو اتنے سارے برگر ایک ساتھ اٹھائے بمشکل اسی ٹیبل پر رکھ رہا تھا۔
“ہاں ہوگیا ہے موٹو۔۔”حیا نے ہنستے ہوئے کہا تو ریحان دعا کے انداز میں اوپر ہاتھ اٹھائے مزید بولنے لگ گیا جس پر حیا نے اسے گھوری سے نوازا۔
“شکر ہے میری جان چھوٹی۔۔ ورنہ صبح سے میرا سر کھایا ہوا تھا تم نے۔” ریحان کے سب کے سامنے بھانڈا پھوڑنے پر حیا نے اسے گھورا جبکہ مریم اور روشان بےساختہ قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔
حیا کے غصے سے منہ پھلانے پر ضرار کو بھی ہنسی تو آئی مگر وہ کنٹرول کر گیا۔ وہ اپنے جذبات چھپانے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔
“حیا تم بھی نا۔۔” مریم نے بنچ پر بیٹھی ہوئی حیا کو پیچھے سے گلے لگایا تو وہ اپنا چہرہ اوپر اٹھاتی اسے دیکھنے لگی مگر مریم کے چہرے پر مزاح سے بھرپور مسکراہٹ دیکھ کر اسے غصہ آ گیا تو وہ فورا وہاں سے اٹھ بیٹھی۔
“چلو یہاں سے ریحان۔۔ مجھے نہیں بیٹھنا یہاں۔۔” ریحان برگر کا شاپر ابھی کھول ہی رہا تھا کہ سب کو دیتا ہے مگر حیا کے گھسیٹنے کے انداز پر وہ اس کے ساتھ ہی چل پڑا۔
“یار مجھے انہیں برگر تو دینے دو۔۔ انہوں نے ہماری اتنی بڑی پرابلم سولو کی ہے۔۔ایٹ لیسٹ ایک تھینکس تو کہنے دو۔۔”ریحان حیا کے ساتھ ساتھ چلتا گویا ہوا۔مریم اس کے پیچھے پیچھے آتی اس کو آوازیں دے رہی تھی” رکو حیا۔۔ رکو حیا” مگر وہ سنی ان سنی کرتی آگے بڑھ گئی۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے تھینکس کی۔۔ چلو یہاں سے۔۔”حیا نے ریحان کی بات پر اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس بار ضرار کو بھی دھیمے سے مسکراتے دیکھ کر اس کو پھر نئے سرے سے غصہ آگیا۔
“بدتمیز کہیں کا۔۔”وہ سارے راستے ضرار کو مختلف القابات سے نوازتی زیرلب بڑبڑاتے ہوئے کوستی رہی۔ مریم نے اب تیز قدموں سے آگے بڑھ کر باقاعدہ حیا کا ہاتھ تھام لیا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
“ریلیکس حیا۔۔یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔اس کیلئے تمہیں اتنا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔اوکے۔۔” مریم نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے لاڈ سے دیکھا تو وہ فورا مان گئی کیونکہ مریم کی محبت سے بھرپور آواز نے اسے کسی حد تک نارمل کر دیا تھا۔ ورنہ وہ تو غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ ریحان بھی ان کے ساتھ ہی نیچے لان میں بیٹھ کر برگر کھانے لگا اس نے باری باری کرکے ان دونوں کے ایک ایک برگر دیا مگر حیا اور مریم نے فورا نفی میں سر ہلا دیا۔ البتہ اس کے اتنا کھانے پر ان دونوں کو بہت ہنسی آ رہی تھی۔
?????
“پھوپھو! آپ نے کل پھر چلے جانا ہے۔۔ میرے ساتھ کھیلیئے نا پلیز۔ز۔” آحل نے زمل سے لاؤنج میں آ کر کہا تو باتیں کرتے ہوئے اچانک سبھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
“کیا کھیلنا ہے میری جان نے۔۔؟” زمل نے اس کے پھولے ہوئے گال پر پیار کیا اور اسے اپنی گود میں بٹھا کر لاڈ بھرے انداز سے پوچھا۔ اس پر آحل بھی خوش ہوگیا اور زینی بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی جو کھیلنے کے نام پر اسوقت کافی پرجوش دکھائی دے رہا تھا۔
“کرکٹ۔ٹ۔۔!!” آحل نے اونچی آواز میں ھد درجہ خوشی کے مارے چہکنے کے انداز سے کہا تو عالیان بھائی بھی مسکراتے ہوئے اسے بغور دیکھنے لگے تھے۔
“آحل بیٹے! آپ تو ہر روز کرکٹ کھیلتے ہو۔۔ کیوں نا آج سارے بڑے مل کر کرکٹ کھیلیں۔۔؟” عالیان نے ہاتھ سے سب کی طرف اشارہ کیا تو آحل کو بھی یہ نیا آئیڈیا بہت پسند آیا۔
“ٹھیک ہے بابا۔۔ آپ سب کھیلیں میں اور دادو بیٹھ کر دیکھیں گے ہے نا دادو۔۔؟” آحل نے سکندر شاہ کی گود میں آ کر گرمجوشی سے کہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ سب لان میں ٹراوزر شرٹ میں ملبوس آ کر وکٹ سیٹ کرنے لگے تھے۔لان میں موجود ایک سائیڈ بینچ پر سکندر شاہ،عاصمہ بیگم آحل اور عینی کو اپنی گود میں لیے بیٹھ گئے۔
“ہم آپ کی Audience ہیں۔۔ جو آپ کو بھرپور انداز میں سپورٹ کریں گے۔۔” عاصمہ بیگم بھی اپنے سارے بچوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوش لگ رہیں تھی۔ ضرار تو اس وقت کالج میں تھا البتہ اذلان شوٹنگ پر گیا ہوا تھا۔
سب اپنی اپنی ٹیم سیٹ کرنے لگے تھے لیکن سمجھ کسی کو بھی نہیں آ رہی تھی۔
کیونکہ عفان بھائی نے امپائرنگ کرنے پر رضا مندی دی تھی ورنہ وہ سرے سے کھیلنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ایک ٹیم ممبر پھر بھی کم تھا۔
اتنے میں اذلان کی گاڑی بھی پورچ میں آ کر رکی تو عالیان خوشی سے جھوم اٹھا۔
“لو جی ساری پرابلم سولو۔۔اب اذلان بھائی بھی آگئے ہیں۔۔آیئے اذلان بھائی۔۔!! اس وقت ادھر آپ کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔۔” اذلان جو ابھی ابھی شوٹنگ سے فری ہو کر گھر آیا ہی تھا کہ ان سب کو لان میں ایک ساتھ جمع دیکھا تو ناسمجھی سے بھرپور تاثرات چہرے پر سجائے ادھر ہی آنے لگا۔ لان میں آتے ہی اسے ساری سچوایشن فورا سمجھ آ گئی تھی۔
اذلان کے آتے ہی عالیان نے ٹیمز سیٹ کرنا شروع کی تو عائشہ بھابی اور زمل نے یک بستہ ہو کر “اذلان” کا نام لیا تو عالیان نے ان کی اس بات پر ہامی بھر دی۔
“چلو ٹھیک ہے پھر اذلان بھائی ،عائشہ اور زمل ایک ٹیم میں ہیں اور زینی بھابھی ،زیان بھائی اور میں ایک ٹیم میں۔۔” عالیان نے ٹیمز سیٹ کر دیں تھی۔
زینی کا نام سنتے ہی اذلان نے ایک بھرپور نگاہ زینی کے سراپے پر ڈالی جو اس وقت بلیک ٹراؤزر شرٹ کے اوپر بلیک کیپ پہنے کوئی چھوٹی بچی لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ اس کرکٹ گیم کو لے کر کافی پرجوش دکھائی دے رہی تھی۔
عائشہ بھابی نے ٹاس جیتی تھی۔ انہوں نے اذلان سے مشورہ کرکے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ اب سب سے پہلے زمل اور اذلان کریز پر آئے تھے۔ عفان بھائی بھی امپائر بنے وکٹ کے بالکل سامنے کھڑے ہوگئے۔
زیان نے بولنگ کروانی شروع کی تو زمل پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہو گئی۔ زمل اب مصنوعی غصے سے زیان کو منہ بسور کر دیکھنے لگی۔
“زیان۔۔! آپ ایک بال تو کھیلنے دیتے مجھے۔؟”زمل نے زیان کو مصنوعی غصے سے کہا جس پر زیان بے ساختہ ہنس دیا مگر عالیان نے فورا اسے چڑانا ضروری سمجھا۔
“زمل بی بی! یہاں پر کوئی رشتہ داری نہیں چلنی۔۔ اوکے۔۔!!”عالیان کے چڑانے پر زمل منہ بسورتی وہاں سے ہٹی تو عائشہ بھابی کریز پر آ گئیں۔
عائشہ بھابھی نے ایک رن بنایا تو اذلان سامنے آگیا۔ اب زیان کی چار بالز تھیں تو اذلان کی چار باؤنڈریز تھی۔
“ہاتھ ہولا رکھو بھئی۔۔!!” زیان نے اوور کی آخری گیند پر کہا تھا جس پر اذلان دھیمے سے مسکرا دیا۔ زینی بھی مسکراتے ہوئے اسے زبردست جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اب عالیان بھائی نے اوور کروانا شروع کیا تو عائشہ بھابی سامنے تھی۔ ان سے دو گیندوں پر تو کھیلا ہی نہ گیا۔ تیسری گیند پر وہ ایک رن بنا کر ادھر آ گئی۔ اب پھر اذلان کی باری تھی۔ تینوں بالز پر اذلان نے دو چھکے اور ایک چوکا لگا کر سکور کیا تھا۔
“اب مزہ آیا عالیان بھائی۔۔”زمل اب عالیان کو چڑا رہی تھی کیونکہ دو اوورز میں ہی اذلان ان کو 34 رنز کا ٹارگٹ دے چکا تھا۔
“زینی بھابھی! اب سب آپ کے ہاتھ میں ہے۔” عالیان نے زینی کے ہاتھ میں بال تھمائی تو وہ کنفیوز ہوتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ حالانکہ وہ اور ولید ہمیشہ کرکٹ کھیلتے تھے مگر آج اذلان کے سامنے وہ بری طرح کنفیوز ہو رہی تھی۔
عائشہ بھابی سامنے کریز پر تھیں۔ زینی نے انہیں بال کروائی تو عائشہ بھابی نے بیٹ کر دی ان کو بال کا پتہ ہی نہ چلا تھا۔ لگاتار چار بالز وہ ان کو بیٹ کروا چکی تھی۔
“واہ۔۔ زینی بھابی آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔۔”زیان نے باقاعدہ تالی بجاتے ہوئے اسے سراہا۔
“ابھی اذلان بھائی سامنے نہیں آئے نا۔۔ پھر دیکھیں گے۔۔” زمل پاس بیٹھی مسلسل بولے جا رہی تھی جبکہ سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم ان کی ہلکی نوک جھونک پر ہنس رہے تھے۔
اوور کی پانچویں بال پر عائشہ بھابھی نے گیند کو گھما کر اونچا کھیلا مگر زیان کے ہاتھ سے کیچ چھوٹ گیا۔ تبھی ایک رن بنا کر عائشہ بھابھی ادھر آ گئیں۔ اس دوران اذلان بیٹنگ سائیڈ پر آ گیا۔ زینی اب سامنے کھڑی اذلان کو دیکھ رہی تھی۔
“زینی بھابی! اڑا دیں وکٹ اذلان بھائی کی۔۔ مزہ آجائے گا۔۔”عالیان نے مزہ لیتے ہوئے کہا تو اذلان نے فورا اسے سخت گھوری سے نوازا۔
زینی نے ہاتھ گھماتے اسپن بال کروائی تو گیند گھومتی ہوئی سیدھا وکٹ پر جا لگی تھی اور اذلان آؤٹ ہوگیا۔
زینی حد درجہ خوشی کے مارے ایکدم اچھل پڑی تھی۔ “آؤٹ آؤٹ” کہتے عالیان اور زیان بھی بھنگڑا ڈالتے عفان بھائی کو دیکھنے لگے تو انہوں نے آؤٹ کا اشارہ کر دیا جس پر وہ سب اونچی آواز میں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے تھے۔
زمل اور عائشہ بھابی بھی عالیان اور زیان کے بھنگڑے ڈالنے پر ہنسنے لگ گئیں تھیں۔ زینی کا چہرہ بھی خوشی کے مارے کھل اٹھا تھا جب کہ اذلان اسکی چہرے کی خوشی دیکھ کر اندر ہی اندر یہی الفاظ بار بار سوچے جا رہا تھا ” مجھے آؤٹ کر کے کتنا خوش ہو رہی ہیں۔۔!!”
“میں ولی کو بھی ایسے ہی ایک منٹ میں آؤٹ کر دیتی تھی۔۔” زینی نے خوشی سے چہک کر بتایا تو سبھی بےساختہ قہقہہ لگا ہنسنے لگے جبکہ اذلان پھر سے زینی کے منہ سے ولید کا ذکر سن کر آگ بگولہ ہو کر رہ گیا۔
“پھر بھی ہم نے تین اوورز میں 36 رنز کا ٹارگٹ دیا ہے یہ کوئی کم ٹارگٹ نہیں ہے۔۔” زمل نے اپنا ٹارگٹ بتا کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔
اب زیان اور عالیان بیٹنگ کے لیے آگئے تھے۔ عائشہ بھابی بال کروانے کے لیے آگئیں۔
عائشہ بھابی کی پہلی بال پر عالیان نے چوکا لگا کر خوشی سے بھنگڑا ڈالا تھا۔ جبکہ اگلی بال پر وہ سنگل ہی لے سکے۔ ان کی تیسری بال پر زیان نے ایک رن بنایا۔عالیان پھر بیٹنگ سائیڈ پر آگیا تو عائشہ بھابھی کی بال پر وہ ایک رن بنانے کے لئے بھاگ ہی رہے تھے مگر اذلان کی ڈائریکٹ ہٹ نے انہیں آؤٹ کر دیا۔
عالیان آؤٹ ہو کر وہاں سے چلا گیا تو زینی بیٹ تھامے ادھر کریز پر آ گئی۔ ابھی تک تین بالز پر ان سے صرف پانچ رنز بنائے گئے۔ عائشہ بھابھی کی چوتھی بال پر زینی نے آتے ساتھ چھکا لگا دیا تھا۔
“چک دے پھٹے زینی بھابی۔۔” عالیان خوشی کے مارے اپنی سیٹ سے اٹھ بیٹھا۔
آخری دونوں بالز پر بھی زینی نے دو چوکے لگائے تھے۔ اسی طرح پہلے اوور میں ان کا مجموعی سکور 19 ہو چکا تھا۔
“دادو! زینی آنٹی کتنا اچھا کھیلتی ہیں نا۔؟” آحل نے سکندر شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو عاصمہ بیگم اور وہ ہلکے سے مسکرا دیے۔ اور “ہاں بیٹا” کہہ کر پھر سے گیم کی طرف دیکھنے لگے۔
اب زمل بال کروا رہی تھی۔ سامنے کریز پر زیان موجود تھے انہوں نے ایک رن بنایا اور زینی ادھر آ گئی۔ زینی نے زمل کی دوسری بال پر پھر چوکا لگا دیا۔عالیان اس کو ہنستے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
“بھئی! مجھے تو لگتا ہے زینی بھابی کو کرکٹ میں ضرور آگے جانا چاہیے۔۔” عالیان نے زینی کی جارحانہ بیٹنگ دیکھتے ہوئے کہا تو زینی مسکراتے ہوئے پھر سے بول اٹھی تھی۔
“عالیان بھائی!ولی کو بھی میں جب آؤٹ کرتی ہوں نا یا پھر اس کی بال پر چھکا لگا دوں تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ تم پاکستان کرکٹ ٹیم جوائن کر لو میرے ساتھ کھیل کر اپنا ٹائم کیوں ویسٹ کرتی ہو۔۔” زینی تیسری بال پر ایک رن بناکر بھاگتی ہوئی عالیان سے باقاعدہ ہنستے ہوئے بول رہی تھی۔
“ہمم۔م۔۔۔! ہر بات میں اس ولید کا ذکر کرنا تو بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے نا ان محترمہ کیلئے ۔۔”اذلان زیرلب غصے سے بڑبڑانے لگا تھا۔
زمل کی آخری تین بالز پر زیان سے ایک بھی رن نہ بنا تو زمل خوشی سے چیخ اٹھی تھی۔
“اسے کہتے ہیں آؤٹ کلاس بالنگ۔۔ زیان۔” زمل نے زیان کو چڑاتے ہوئے کہا تو وہ اس کی خوشی دیکھ کر خود بھی ہنس دیا۔
اب بالنگ کی باری اذلان کی تھی۔
زینی اب بیٹنگ سائیڈ پر موجود تھی۔ وہ اذلان کی نگاہوں سے بار بار نروس ہو رہی تھی مگر پھر وہ خود پر قابو پاتے ہوئے سامنے کھڑی ہو گئی۔
اذلان کی پہلی گیند بہت تیز تھی۔زینی کھیل ہی نہ سکی۔عالیان گھبراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا جبکہ زمل اور عائشہ بھابی فورا ہنسنے لگ گئیں۔
“عالیان بھائی! اب آپ لوگ ہارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔” زمل مزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی۔
زینی چپ چاپ اذلان کا گھومتا ہوا ہاتھ دیکھ رہی تھی جس میں وہ بال کو گھما رہا تھا۔
زینی نے اگلی بال پر ایک رن بنایا تو سامنے زیان آگیا۔
اذلان کی تیسری بال زیان بھی نہ کھیل سکا۔ چوتھی بال پر زیان نے بمشکل بھاگتے ہوئے ایک رن بنایا۔ اب زینی پھر سے کریز پر آ گئی تھی ۔میچ دلچسپ موڑ پر آ چکا تھا۔ ان کا مجموعی سکور 27 ہو چکا تھا۔
ان کو آخری دو گیندوں میں 9 رنز چاہیے تھے جو عالیان کو بہت مشکل لگ رہے تھے۔
اذلان کی پانچویں بال پر زینی نے بلا گھما کر چھکا لگا دیا اور پھر خود ہی خوشی سے چیخ اٹھی تھی۔
اذلان اس کے اس بچگانہ انداز پر اسے یک ٹک نگاہوں سے دیکھنے لگ گیا۔
“یار! یہ تو بڑا ٹف ہو گیا ہے میرے تو پیٹ میں بھی درد ہونے لگ گیا ہے۔۔” عالیان ٹینشن کے مارے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگا۔
“اب آپ لوگ ہار کر رونے نہ لگ جانا۔” عائشہ بھابی نے عالیان کی بات پر ہنستے ہوئے کہا تو زینی فوراً بول اٹھی۔
“میں نہیں رؤوں گی بھابھی۔۔ میں کوئی ولی تھوڑی ہوں جو ہارنے پر رونے لگ جاؤں گی۔” زینی نے ہنستے ہوئے کہا تو اذلان کے چہرے کے تاثرات پھر سے ولی کا نام سن کر مزید بگڑ کر رہ گئے تھے۔
اذلان نے بنا سوچے سمجھے غصے میں آخری بال بہت زیادہ سپیڈ سے کروا دی۔ زینی نے گھومتے ہوئے بلے کو زور سے گھمایا تو بال باؤنڈری وال پار کرنے کی وجہ سے عفان بھائی نے چھکے کا سائن شو کر دیا جس پر عالیان اور زیان خوشی سے چیخنے لگے مگر زینی واپس گھوم کر وکٹوں پر گر چکی تھی۔
بال کو گھما کر مارنے کے چکر میں وکٹ اس کی بازو پر زور سے چبھ گئی تھی جس پر درد کے مارے اس کی کراہ نکل گئی تھی۔
میچ تو عالیان کی ٹیم نے جیت لیا تھا مگر اب زینی کی چیخ سن کر سبھی بھاگتے ہوئے ادھر آ گئے جہاں زینی اپنے بازو کو پکڑے درد سے کراہ رہی تھی۔ درد اور تکلیف کے باعث اس کے آنسو اس کے رخساروں پر بہنے لگے تھے۔
شرٹ کی سلیوز پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی چوٹ سب کو نظر آ گئی تھی۔ اس کا سفید دودھیا بازو ایک دم سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ نیلا پڑنے لگا تھا۔ اس کی گہری چوٹ دیکھ کر اذلان کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تھا کیونکہ اس نے غصے میں کچھ زیادہ ہی تیز بال کروا دی تھی۔
“زینی آنٹی کو کتنی زیادہ چوٹ لگ گئی ہے۔۔” آحل نے زینی کا بازو دیکھتے ہوئے کہا تو زینی درد ہونے کے باوجود آہستگی سے مسکرا دی۔
” نہیں آحل۔۔ اتنی زیادہ بھی نہیں لگی۔۔آپ دیکھنا ابھی تھوڑی دیر تک ٹھیک ہو جائے گی۔۔” زینی نے تکلیف کے آثار چہرے پر ظاہر نہ ہونے دیے۔
“اذلان !زینی کو کمرے میں لے جاؤ اس کو میڈیسن لگاؤ میں ابھی گرم دودھ بھجواتی ہوں۔۔”
“میں ٹھیک ہوں آنٹی۔۔ انکل آپ پریشان نہ ہوں۔۔” زینی نے اٹھتے ہوئے سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم کا پریشان چہرہ دیکھا تو آہستگی سے گویا ہوئی۔
“زینی بھابی! آپ آرام کریں ابھی میڈیسن لگائیں گی تو انشاءاللہ جلدی ٹھیک ہو جائیں گی۔”عالیان نے زینی کو آرام کا مشورہ دیا تو اذلان اس کے چوٹ لگے بازو کو ایک ہاتھ سے تھامے اپنے ساتھ کمرے میں لے جانے لگا۔
“انکل! زینی آنٹی ٹھیک تو ہوجائیں گی نا۔؟” آحل عفان کی گود میں بیٹھا اس سے پریشان لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
“ابھی تھوڑی دیر تک ٹھیک ہو جائیں گی۔۔میڈیسن لیں گی نہ تو ان کا درد بھی ختم ہو جائے گا۔۔” عفان نے اسے پیار کرتے ہوئے تسلی دی۔
عاصمہ بیگم نے ملازمہ کو جلدی سے گرم دودھ اذلان کے کمرے میں لے جانے کا کہا اور خود بھی لاؤنج میں آ گئی۔
انہوں نے زمل سے عینی کو پکڑ لیا جو اس کی گود میں ہی سو چکی تھی۔ پھر وہ سب لوگ چینج کرنے کے لئے اپنے اپنے رومز میں چلے گئے۔
?????
“ہاوو۔ؤ۔۔” شفا ٹیرس پر کھڑی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ ایان نے پیچھے سے آ کر اچانک اسے تھامتے ہوئے ڈرا دیا۔
شفا کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھلکتے چھلکتے بچا تو فورا اپنا رخ موڑتی اسے الفت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں اس کے لئے محبت کا اک حسین جہاں پنہاں تھا۔
“کیا ہوا۔۔ کہاں گم ہو جو میرے یہاں آنے کا بھی پتہ نہیں چلا۔۔؟”ایان نے اس کا بایاں ہاتھ تھام کر نرمی سے پوچھا۔ کیونکہ اس کے دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ ویسے کا ویسے ہی بھرا ہوا تھا۔
“آپ دبے قدموں سے آئے ہوں گے اسی لئے پتا نہیں چلا ہو گا۔۔” شفا نے ایان کو آہستہ آواز میں کہا تو وہ اس کے چہرے کو بغور دیکھنے لگا جو آج کل بہت اداس اداس سی رہتی تھی ۔
وجہ تو وہ اچھی طرح جانتا تھا مگر پھر بھی وہ اسے سنبھالنے کے لئے پوری تگ ودو کرتا رہتا تھا تاکہ وہ زیادہ دیر اداس نہ رہے۔ ابھی بھی وہ سر جھکائے کھڑی اپنے پاؤں کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھے جا رہی تھی۔
“آج پھر سارا دن کیا کیا میری اس دنیا کی سب سے خوبصورت ڈاکٹر بیوی نے۔؟” ایان اسے پیار بھری نگاہوں سے دیکھ کر پوچھتے ہوئے اسے لئے ٹیرس پر موجود کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ شفا نے کپ سامنے موجود ٹیبل پر رکھ کر اس کو کور کر دیا تھا کیونکہ اس کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔
“بس وہی سیم روٹین۔۔ اپنے پیشنٹس کو چیک کرتی رہی اور پھر گھر آ گئی۔” شفا نے اپنی سارے دن کی روٹین چند لفظوں میں بیان کر دی مگر پھر کچھ یاد آنے پر آہستگی سے گویا ہوئی۔
“ہاں۔۔وہ آج میں نے ہاسپٹل میں عفان بھائی کو دیکھا تھا۔” عفان کے ذکر پر ایان ایک دم چونک گیا۔
“ہاسپٹل میں؟عفان بھائی۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔؟؟” ایان جلدی سے موبائل نکال کر اذلان کا نمبر ڈائل کرنے لگا تو شفا نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔
“ہاں جی وہ سب ٹھیک ہیں۔۔ عفان بھائی کے کسی دوست کے بابا ہمارے ہسپتال میں ایڈمٹ تھے وہ ان کی عیادت کے لیے وہاں آئے تھے۔۔” شفا کی بات پر ایان نے سکون کا سانس لیا ورنہ اچانک ہسپتال کا ذکر سن کر وہ فورا پریشان ہو گیا تھا۔
“اچھا۔۔ پھر تو صحیح ہے وہ یہاں رکے ہیں یا چلے گئے واپس لاہور۔۔ آپ نے پوچھا تھا ان سے ۔۔؟؟”
ایان نے عفان بھائی کے کراچی میں موجود ہونے یا نہ ہونے کا پوچھا تو شفا کو فورا شرمندگی لاحق ہوئی۔
“ایم سوری ایان! میں نے انہیں گھر آنے کا کہا ہی نہیں۔۔ وہ کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے میں۔۔؟ ایکچوئلی میں اس وقت بہت زیادہ ڈیپریس تھی اس لئے میرے ذہن میں ہی نہیں رہا۔۔” شفا نے شرمندگی کے مارے اپنا سر نیچے جھکا لیا تو ایان اس کی معصومیت پر کچھ پل کے لیے اسے دیکھتا رہ گیا اور پھر اسے نرم لہجے میں تسلی دینے لگا۔
” انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ یہاں کراچی میں کوئی فیکٹری لگانا چاہ رہے ہیں۔۔ اس لیے میں نے آپ سے پوچھا آپ پریشان نہ ہوں میں خود ان سے بات کر لوں گا۔۔” ایان نے فرط محبت سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا گال نرمی سے تپھتپھایا تو وہ آہستگی سے مسکرا دی۔
“آپ نے کہا آپ بہت زیادہ ڈیپریس تھیں۔۔ کیا ہوا تھا آپکو۔۔؟” شفا جو روانی میں اچانک بول گئی تھی مگر وہ بخوبی جانتی تھی اب ایان ضرور اس سے وجہ پوچھے گا۔ وہ ابھی بھی اسے سوالیہ نگاہوں سے ہی دیکھ رہا تھا۔
“ایکچوئلی! وہ میں ایک پیشنٹ کی وجہ سے بہت پریشان تھی۔۔وہ اسپیشلی لاہور سے کراچی میرے پاس آئیں ہیں اپنی ماما کو لے کر مگر اس کی ماما کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔”
” وہ لڑکی اس انجان شہر میں اکیلی کیسے رہے گی۔۔ میں خود کو بہت ہیلپلیس فیل کر رہی ہوں اس کے لئے۔۔ایان۔۔!! کاش میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہوتی اور میں اس لڑکی کی ساری پریشانیاں فورا دور کر دیتی۔۔” شفا نے اپنی پریشانی ایان سے شیئر کر دی۔
“تو آپ اس کی ہیلپ کر دیں۔۔ آپ میرے اکاؤنٹ سے جتنی اماؤنٹ لینا چاہتی ہیں اسے دے دیں تاکہ اس کی تھوڑی پریشانی کم ہو جائے۔۔” ایان نے اسے رسان سے آسان حل بتایا۔
“نہیں ایان۔۔ ایمان بہت خوددار لڑکی لگی مجھے۔۔ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے وہ بس اپنی ماما کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔
وہ ابھی بھی ہاسپٹل میں ہی ایڈمٹ ہیں۔۔ کل جا کے دیکھوں گی کہ اب کیا سچوایشن ہے ان کی۔۔” ایان شفا کو انجان لڑکی کے لئے اتنا پریشان ہوتے دیکھ کر اس کی سادگی کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ محبت تو پہلے بھی وہ اس سے بہت کرتا تھا مگر دن با دن اس کی شفا کے لئے دیوانگی مزید بڑھتی جا رہی تھی۔
“اگر اللہ نے چاہا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا انشاءاللہ۔۔ پھر بھی آپ اس کی جو ہیلپ کر سکیں اپنی طرف سے ضرور کیجئے گا تاکہ آپ خود کو مزید بہتر محسوس کر سکیں۔۔” ایان نے شفا کی آنکھوں میں اداسی کے ڈیرے دیکھتے ہوئے فرط محبت سے پر لہجے میں کہا۔
“آپ فریش ہو جائیں۔۔تب تک میں کھانا لگواتی ہوں۔۔۔”ایان اب وہاں سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ شفاء اسے فریش ہونے کا کہہ کر کھانا لگانے خود کچن میں آگئی۔
حالانکہ ایان اسے کام کرنے سے منع بھی کیا کرتا تھا۔لیکن اسے بہت اچھا محسوس ہوتا تھا جب وہ ایان کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتی۔ اسی لئے وہ ہسپتال سے آ کر خود اس کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتی تھی۔
?????
“آپ یہاں بیٹھیں۔۔ میں ابھی آئنٹمنٹ لے کر آتا ہوں۔۔” زینی خود فرسٹ ایڈ باکس نکالنے کے لئے دراز کی جانب بڑھی تو اذلان نے اسے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا اور خود فرسٹ ایڈ باکس سے میڈیسن نکالنے لگا تھا۔
اسے اب خود پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ کیسے اپنا آپا اس طرح کھو سکتا ہے۔
” اگر وہ تیز بال سیدھا ان کے سر پر لگ جاتی تو۔۔؟” اس نے یہ سوچتے ہوئے غصے سے اپنی ایک مٹھی سختی سے بھینچ لی اور دوسرے ہاتھ سے میڈیسن پکڑ کر خود زینی کے پاس آ گیا تھا۔
“لائیں ادھر دکھائیں اپنا بازو۔۔” زینی جو اس کے ہاتھ سے آئنٹمنٹ پکڑنے لگی تھی اچانک ہلنے کے باعث اس کی درد سے کراہ نکلی تو اذلان نے اسے آئنٹمنٹ تھمانے کی بجائے خود اس کا بازو تھام لیا جس پر سوجن کے باعث گہرا سرخ نیلا نشان پڑ چکا تھا۔
زینی اس کا سپاٹ اور ساکت چہرہ کتنی دیر دیکھتی رہی تھی۔
کس قدر دیوانی تھی وہ اس شخص کی۔۔ اپنا ہر کام ادھورا چھوڑ کر صرف اذلان کے انٹرویوز اور شوز کے لیے وقت نکالتی تھی۔
کبھی کبھی اسے خود بھی سمجھ نہیں آتا تھا کیوں وہ اس شخص کے لیے اتنی پاگل ہے۔۔
ہزاروں لاکھوں فینز ہوں گے اس کے مگر ایسی کیا کشش ہے اس میں جس کے باعث وہ اس کی جانب بس کھینچتی ہی چلی گئی۔اور آج وہ اپنی اسی محبت کا یہ روپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
“کتنی اجنبیت ہے ان کی آنکھوں میں میرے لیے۔۔؟”
” کیا کبھی بھی ان کو ایک پل کیلئے بھی میری محبت کا احساس نہیں ہوا کہ ایک لڑکی پاگلوں کی طرح انہیں چاہتی ہے۔۔؟”
زینی جو کب سے اپنی سوچوں میں گم مسلسل اسے دیکھے جا رہی تھی۔اچانک اذلان کی توجہ بھی ایک دم اسی کی طرف مبذول ہوئی جو اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھی۔
“زیادہ درد ہو رہا ہے کیا۔۔؟ ڈاکٹر کو بلوا لوں۔۔؟” اذلان نے اس کی آنکھوں کے کناروں سے آنسوؤں کے قطرے موتی بن کر لڑیوں کی صورت میں نکلتے دیکھے تو اسے فورا شرمندگی نے آن گھیرا۔
بے اختیار اس کی نگاہ پھر چوٹ کی جانب اٹھ گئی تھی جو اب سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ نیلی پڑ گئی تھی۔ اذلان کی نرم آواز نے اسے گہری سوچ سے نکالا تو وہ آہستگی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
وہ اسے کیا بتاتی یہ درد تو اس درد کے آگے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنا درد وہ اس کی اجنبیت بھرے احساس سے ہر روز سہتی تھی۔
“ایم سوری! وہ میں کچھ زیادہ ہی تیز بال کروا گیا تھا۔۔” اذلان نے اسے پیوست لبوں کے ساتھ درد برداشت کرتے دیکھا تو آہستہ آواز میں اس سے معذرت کرنے لگا۔ زینی کو اس کی معذرت کرنے کا یہ انداز دل کو موہ لینے والا لگا تھا۔
“نہیں۔۔اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔۔ایکچوئلی مجھ میں ہی اچانک شاہد آفریدی کی روح آ گئی تھی۔۔” زینی نے اسے آہستگی سے ہنستے ہوئے کہہ کر شرمندگی سے نکالنا چاہا کیونکہ وہ کب سے اسے شرمندگی کے مارے دیکھ ہی نہیں پا رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا ساری غلطی اسی کی ہے۔
“دو چھکے کیا لگا لیے خود کو شاہد آفریدی ہی سمجھنے لگی ہیں آپ۔۔؟؟” اذلان نے اپنے کپڑے الماری سے نکالتے ہوئے کہا تو زینی بے ساختہ ہنس دی۔
اذلان اس کی شفاف ہنسی کا مدھر جلترنگ سن کر دھیمے سے مسکرا دیا مگر الماری میں دیکھتے ہوئے جانے کیوں وہ زینی کے سامنے کبھی بھی مسکرا نہیں پاتا تھا۔
“خیر صرف چھکے ہی نہیں لگائے میں نے تو آپ کی وکٹ بھی اڑائی ہے جس کی مجھے سب سے زیادہ خوشی ہے۔۔ جب میں ولی کو بتاؤں گی نا تو بہت زیادہ ہنسے گا وہ۔۔”زینی نے اس کی وکٹ لینے کا بھی یاد کروایا تو اذلان اسے بغور دیکھنے لگ گیا مگر اس کی آخری بات میں پھر ولی کا ذکر سن کر اس کو جانے کیوں پھر سے غصہ آ گیا تھا۔
اس لیے بنا اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے وہ واش روم کا دروازہ پٹخنے کے انداز سے بند کرتا اندر چلا گیا۔
زینی نے زور دار آواز پر ڈر کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھا تو اس کا بازو دکھنے لگا کیونکہ وہ جلدی جلدی میں بھول ہی گئی تھی کہ اس کی بازو پر چوٹ لگی ہے۔ اس لئے بازو سے درد کی ٹیسیں اٹھنے پر وہ پھونک مار کر اپنے بازو کی جلن کم کرتے ہوئے واشروم کے بند دروازے کو ناسمجھی سے دیکھنے لگ گئی۔
?????
“حیا! آپ مجھے کلاس کے بعد سٹاف روم میں ملیے گا۔۔۔مجھے آپ کو کچھ ضروری کام دینا ہے۔۔” پروفیسر امین نے کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد حیا کو مخاطب کیا کیونکہ حیا نے ضرار کے سمجھائے ہوئے طریقے سے پوری کلاس کو بڑے کانفیڈینٹ انداز سے سمجھایا تو پروفیسر امین اسکی ذہانت پر اسے سراہے بنا نہ رہ سکے۔
پروفیسر امین کی گڈ بکس میں آنا اس یونیورسٹی کے ہر سٹوڈنٹ کی اولین خواہش ہوتی تھی۔
ہر سٹوڈنٹ ان کے سخت مزاج سے ڈرتا تھا۔ وہ سخت مزاج ضرور تھے مگر صرف ان کے لئے جو توجہ سے اپنا کام نہیں کرتے تھے۔
حیا کی ذہانت نے بھی انہیں کافی حد تک امپریس کیا تھا اس لئے انہوں نے اسے اپنا ضروری کام دینے کا ارادہ کیا۔
حیا جلدی سے بیگ لے کر اٹھی اور سٹاف روم میں ان کے پیچھے پیچھے ہی آ گئی۔ “حیا! میتھس کے کچھ امپورٹنٹ رول اور کچھ اشکال آپ نے چارٹس پر ڈرا کرنی ہیں۔۔”
“میں کل آپ کے ساتھ کسی سینئیر سٹوڈنٹ کو بھی لگا دوں گا پھر آپ نے اور آپ کے ساتھی نے مل کر وہ چارٹس بنا کر مجھے دینے ہیں پھر وہ چارٹس ہم سارے اسٹوڈنٹس میں بانٹ دیں گے۔۔ تاکہ سب کو میتھس کی بیسیکس کی اچھے سے سمجھ آ سکے۔۔”
” آپ نے ہر فارمولے کے آگے اس کی ایک ایک مثال لکھنی ہے تاکہ سب کے کونسیپٹ اچھی طرح کلیئر ہوجائیں۔۔آپ یہ سب کر لیں گی نا۔۔؟” پروفیسر امین نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“آف کورس سر! میں آپ کی امید پر پورا اترنے کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔۔”حیا نے عزم سے پر لہجے میں کہا تو پروفیسر امین نے اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھا۔
“ویل ڈن بیٹے! مجھے آپ سے ایسی ہی امید تھی۔۔” پروفیسر امین نے اس کے انداز پر اسے سراہا تو حیا خوش دلی سے مسکرا دی۔
“چلیں ٹھیک ہے۔۔اب آپ جائیں کل میں آپ کے ساتھ ایک اور سٹوڈنٹ کو آپ کی ہیلپ کے لیے لگا دوں گا۔۔” پروفیسر امین نے اپنی فائل کھولتے ہوئے کہا۔
“اوکے سر!” حیا خوشی سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے سٹاف روم سے باہر آگئی۔
?????
“روشان! مجھے آپ سے ایک فیور چاہیے تھی۔۔”ضرار اور روشان اکٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے کہ اچانک حیا کی آواز پر دونوں نے چونک کر سر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا جو اس وقت پنک کلر کی شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر زیب تن کیے ہوئے تھی۔ اور دوپٹہ گلے میں ڈالے اپنے بیگ کی سٹرپ کو بار بار پکڑتی تھوڑی کنفیوز دکھائی دے رہی تھی۔
ضرار نے اسے ایک نظر دیکھ کر اپنا سر نیچے جھکا لیا اور آہستہ آواز میں بڑبڑانے لگا جو بمشکل اس کے خود کے کانوں نے ہی سنی تھی۔
“ہر ایک سے آپ کہہ کر بات کرتی ہیں۔۔ بس مجھ سے ہی تم کہہ کر میڈم کو مخاطب ہونا ہوتا ہے۔۔”
“جی بتائیں حیا۔۔ میں سن رہا ہوں۔۔” روشان اپنی کتاب بند کر کے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
“ایکچوئلی! آج نا مریم کا برتھ ڈے ہے تو ہم میں سے کسی نے جان بوجھ کر اسے وش نہیں کیا کیونکہ مجھے اس کے لئے سرپرائز پلان کرنا تھا۔۔ وہ ابھی بھی کلاس روم میں سیڈ سی ہی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسے لگ رہا ہے شاید کسی کو اس کا برتھ ڈے یاد ہی نہیں ہے۔۔”
“وہ میں چاہ رہی تھی کہ آپ اسے اپنے پاس باتوں میں لگا کر رکھیں یا کسی کلاس کا بہانہ کر لیں یا پھر ٹیسٹ کی تیاری کا کہہ کر اسے دو گھنٹے کے لئے یہاں روک لیں۔۔ میں نے باقی کی ساری تیاری کر لی ہے بس خود جا کر جو تھوڑی بہت تیاری باقی ہے وہ نمٹانی ہے۔۔”
حیا نے ایک ہی سانس میں سارا پلان روشان کو بتا دیا جس پر روشان کو آج کا مریم کا بجھا بجھا سا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتا ہوا محسوس ہوا تو آہستگی سے مسکرا دیا۔
“اوکےحیا! میں سب ہینڈل کر لوں گا۔۔ آپ جایئے۔۔” حیا روشان کی ہامی پر خوشی سے چہک اٹھی تو اٹھ کر وہاں سے جانے لگی مگر پھر کچھ یاد آنے پر اچانک واپس مڑی۔
“ایکچوئلی! آپ سے ایک اور کام بھی ہے۔۔ وہ بھی بہت ضروری۔۔”حیا نے اس بار ضرار کو بھی دیکھا جو چپ چاپ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اسکی ساری سماعتیں ادھر ہی متوجہ تھیں۔
“ہاں جی! پلیز بتائیے۔۔ مجھے بہت خوشی ہوگی۔” روشان کے ایک دم جوش سے کہنے پر ضرار نے اپنی جھکی آنکھیں اوپر اٹھا کر اسے دیکھا تو حیا بے ساختہ ہنس دی۔
“بس آپ کو آج کی پارٹی میں آنا ہے۔۔ کیونکہ آپ دونوں ہی مریم کے بیسٹ فرینڈز ہیں اور زیادہ تو اس کی کسی سے دوستی نہیں ہے تو آپ دونوں ضرور آیئے گا مریم کو بہت خوشی ہوگی۔۔”
حیا نے ضرار اور روشان کو انوائٹ کیا حالانکہ وہ ضرار کو بالکل بھی اپنی پارٹی میں بلانا نہیں چاہتی تھی مگر مریم کی خوشی کے لیے اس نے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا۔
“یا پھر ایسے کرتے ہیں آپ دونوں مریم کو اپنے ساتھ ہی لایئے گا میں ڈرائیور کو لے کر گھر چلی جاتی ہوں۔۔ اور مریم سے کہہ دوں گی کہ آپ لوگ اس سے ڈراپ کر دیں گے اس طرح مریم کو پلان کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔۔ ایسے ٹھیک ہے نا۔۔؟؟”
حیا نے پر جوش ہوتے ہوئے سارا پلان بتا کر روشان سے حمایت طلب کی جس پر روشان ضرار کو دیکھنے لگا کیونکہ ابھی اس نے ضرار کو منانے کا بھی معرکہ سر انجام دینا تھا۔
“اوکے! ہم لے آئیں گے۔۔” روشان نے بنا سوچے سمجھے ہامی بھر دی تو ضرار اسے یک ٹک نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
“تھینک یو سو مچ روشان۔۔ بائے۔۔” حیا تیز لہجے میں شکریہ کہتی فورا وہاں سے نکل گئی۔
“تم نے میری ہامی کیوں بھری۔؟میں ہرگز نہیں جا رہا اس کے گھر۔”ضرار نے اپنا اٹل فیصلہ روشان کو بتایا جس پر وہ اسے بےبسی سے دیکھنے لگ گیا۔
“یار ضرار! مریم ہماری دوست ہے۔۔ تم اس کے لئے اتنا نہیں کرسکتے۔۔” روشان نے اسے باتوں میں گھیرنا چاہا جس پر ضرار نے اسے گھوری سے نوازا۔
“تم اچھی طرح جانتے ہو روشان! میں اپنے گھر کی پارٹیز میں شامل نہیں ہوتا تو کسی اور کے گھر کیسے چلا جاؤں؟ میں نہیں جا رہا تم نے جانا ہے تو تم چلے جانا۔۔” ضرار نے نہ ماننے کی ٹھان لی۔
“یار! میرے پاس آج کار نہیں ہے تم ہی لے کے جاؤ گے مجھے۔۔” روشان نے اسے منانے کی بھرپور کوشش کی۔
“یار! میں نہیں جا رہا تم میری کار لے کے چلے جانا میں ٹیکسی لے کر گھر چلا جاؤں گا پرابلم سولو۔۔اوکے؟” ضرار نے اس کی آخری کوشش پر بھی پانی پھیر دیا۔
“میں نہیں جا رہا تمہارے بغیر میری بےعزتی ہوتی رہے تو ہو جائے تمہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔؟”روشان نے مصنوعی غصے سے کہتے ہوئے اپنی بک واپس کھول لی۔
“شٹ اپ روشان!عجیب زبردستی ہے یار چل رہا ہوں تمہارے ساتھ اب منہ تو سیدھا کرو اپنا۔” ضرار نے غصے سے کہتے ہوئے اس کی بات مان لی تو روشان خوش ہو کر اٹھتے ہوئے اسے گلے ملنے لگا۔
“مجھے پورا یقین تھا تم پر۔۔۔ تم مجھے کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑو گے۔” روشان کی بات پر ضرار نے مصنوعی غصے سے گھورتے ہوئے اس کے بازو خود سے جھٹک دیے۔
“اب بند کرو اپنی ڈرامے بازی۔۔ چلو مریم کو لے کر آتے ہیں۔” روشان کو ضرار کے کہنے پر یاد آیا کہ انہوں نے تو مریم کو ادھر ہی دو گھنٹے کیلئے روکنا ہے۔اسی لئے اب وہ اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے ضرار کے ساتھ کلاس روم کی طرف چل پڑا۔
?????
“یہیں سوئے ہوئے ہیں۔۔ ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا تھا اور اب لنچ بھی نہیں کر رہے۔۔” سارہ بیگم ابراہیم صاحب کے بارے میں سوچتے ہوئے اسٹڈی روم میں آئیں تو انہیں یہیں کرسی پر سوتے دیکھ کر آہستہ آواز میں بڑبڑا کر رہ گئیں۔
اس وقت ابراہیم صاحب کے سینے پر ایک فوٹو البم تھا۔ سارہ بیگم نے جھکتے ہوئے وہ البم ان کے ہاتھ سے نکالا اور سامنے فریم میں لگی تصویر دیکھ کر وہ ایک پل کے لئے گہری نیند میں سوئے ہوئے ابراہیم صاحب کو دیکھنے لگیں۔
کیونکہ اس فریم میں زینی کی مسکراتی ہوئی تصویر تھی جسے ابراہیم صاحب اپنے سینے سے لگا کر سو رہے تھے۔
“خود بھی اسے اتنا یاد کرتے ہیں مگر مان نہیں رہے۔۔” سارہ بیگم نے تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے بسی کے عالم میں سوچا۔
اب وہ فریم اپنے ہاتھوں میں لئے اسٹڈی روم سے باہر آگئیں۔
“چاہے یہ کتنی بھی نفرت شو کر لیں زینی۔۔ مگر سب سے زیادہ پیار تم سے تمہارے بابا ہی کرتے ہیں۔۔” سارہ بیگم تصویر کو دیکھتے ہوئے پر نم لہجے سے کہنے لگیں۔
ان کی آنکھوں میں بھی زینی کی تصویر کو دیکھتے ہوئے آنسو آ گئے تھے کیونکہ وہ بھی تو زینی کو اتنا ہی یاد کرتی تھیں
۔ جب سے ولی زینی سے ملاقات کا ذکر کرکے گیا تھا تب سے ہی سارہ بیگم زینی سے بات کرنے کے لیے پر تول رہیں تھیں مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں تھیں۔ کیونکہ ابراہیم صاحب کی اجازت نہ تھی۔
زینی کے بارے میں سوچتے ہوئے جانے کتنی دیر تک وہ یونہی بے آواز آنسوؤں سے روتیں رہیں۔
?????
“ایمان! کل سے کیسی طبیعت ہے اب آنٹی کی۔۔؟” ڈاکٹر شفا پرائیویٹ روم میں آمنہ بیگم کو چیک کرنے آئی تو ایمان فاطمہ سے آمنہ بیگم کی رات کی کنڈیشن کا پوچھنے لگی۔
” پہلے سے کافی بہتر ہیں۔۔ اللہ کا شکر ہے۔۔” فاطمہ نے ڈاکٹر شفا کو تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھا تو شفا آہستگی سے مسکرا دی۔
“سسٹر! ان کی کل سے بی پی اور شوگر لیول کی رپورٹس کہاں ہیں۔؟ وہ فائل دکھائیں ذرا۔” ڈاکٹر شفا نے اب ساتھ کھڑی نرس کو مخاطب کیا تو وہ سر اثبات میں ہلاتی فائل کھول کر دکھانے لگی۔
“ہمم۔!ویری گڈ آنٹی۔ انشاءاللہ آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ آپ یہ میڈیسن ریگولر لیتے رہیے گا۔” ڈاکٹر شفا نے آمنہ بیگم کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے ان کو تسلی دی۔
“میں بھلے ہی میڈیسن لینا بھول جاؤں یہ فاطمہ کبھی نہیں بھولتی۔” آمنہ بیگم نے مسکراتے ہوئے فاطمہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ان کی کل سے طبیعت قدرے بہتر تھی جس پر ڈاکٹر شفا سمیت پاس کھری نرس بھی ہنس دی۔
“یہ تو بہت اچھی بات ہے نا آنٹی۔۔ ایمان آپ کا اتنا خیال رکھتی ہیں۔۔” ڈاکٹر شفا نے شگفتہ لہجے میں کہتے ہوئے ایمان کو بھی ایک نظر دیکھا۔
“ہاں میری سب باتیں مانتی ہے بس میری ایک ہی بات نہیں مان رہی۔۔”آمنہ بیگم نے پھر سے وہی بات دہرا دی جو وہ کب سے فاطمہ کو کہہ رہی تھی۔ فاطمہ انکی یہ بات سن کر اچانک گڑبڑا کر رہ گئی۔
“ڈاکٹر شفا! مجھے آپ سے کچھ ضروری بات بھی کرنی ہے۔” فاطمہ نے ڈاکٹر شفا کو جلدی سے مخاطب کیا تو وہ اس کی ہڑبڑاہٹ کو محسوس کرتی اسے اپنے ساتھ لئے اپنے پرسنل کیبن میں آ گئی۔
“ایمان! آج ہم آنٹی کو ڈسچارج کر رہے ہیں۔۔ اب آپ انہیں گھر لے جا سکتی ہیں مگر اب آپ کو کچھ دنوں کیلئے یہیں کراچی میں ہی رہنا پڑے گا کیونکہ ان کا ہر دوسرے دن ریگولر چیک اپ ہونا ہے۔”
ڈاکٹر شفا نے آمنہ بیگم کی طبیعت کو دیکھ کر ہی انہیں ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کیا۔
“جی۔۔ میں یہیں ہوٹل میں ہی موجود ہوں جب تک آپ کہیں گے ہم ریگولر چیک اپ کے لیے آتے رہیں گے۔” ایمان نے ڈاکٹر شفا کو وضاحت دی۔
“ایمان! ایک بات کہوں۔۔ ہوٹل کا کھانا اور اس روم کا انوائرنمنٹ ان کے لئے کچھ اچھا نہیں ہے۔۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ کسی فلیٹ میں شفٹ ہو جائیں یا پھر یہاں قریب ہی کوئی گھر رینٹ پر لے لیں۔۔” ڈاکٹر شفا نے آمنہ بیگم کو ہوٹل کے بند ماحول اور کھانے سے پرہیز کا کہا تو ایمان ازحد پریشانی سے گویا ہوئی۔
“لیکن ڈاکٹر! میں تو یہاں کسی کو جانتی بھی نہیں ہوں۔۔ اتنی جلدی گھر کیسے ملے گا۔”
“اگر ایسی بات ہے تو آپ میرے گھر آجائیں مجھے کوئی پرابلم نہیں ہوگی۔۔ آنٹی بھی بالکل میری ماما ہی کی طرح ہیں۔” ڈاکٹر شفا نے ایان کے کہے مطابق اس کی مدد کرنا چاہی۔
“تھینک یو ڈاکٹر! لیکن میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی میں بہت جلد ہی کوئی دوسرا بندوبست کر لوں گی۔” ایمان نے فورا نفی میں سر ہلا دیا۔ اسے کسی کے گھر جا کر رہنے کا فیصلہ بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔
“ایمان میں اور میرے ہزبینڈ اکیلے ہوتے ہیں اور وہ رات دیر سے آتے ہیں اس لئے آپ کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔۔” ڈاکٹر شفا کو لگا کہ وہ حجاب لیتی ہے شاید پردے کی وجہ سے وہ وہاں نہیں آنا چاہتی اسلیے شفا نے اسے وضاحت دینا صروری سمجھی۔
“جی وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔ پھر میری ایک شرط ہے۔۔” ایمان نے ڈاکٹر شفا کو مشروط آمادگی ظاہر کی۔
“شرط؟” ڈاکٹر شفا ناسمجھی سے فاطمہ کو دیکھنے لگی۔
“میں اپنے رہنے اور کھانے پینے کا کرایہ دوں گی۔” ڈاکٹر شفا اس کے مان جانے پر اسے ایک پل کے لئے دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
“اوکے! آپ ہماری انیکسی میں رہ لیجئے گا اس طرح میں آنٹی کا ہر روز گھر پر چیک اپ بھی کر لوں گی۔” ڈاکٹر شفا کی بات پر ایمان نے” جی ٹھیک ہے” کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
فاطمہ کو بھی روز کے چیک اپ والی بات دل کو لگی تھی اس لئے فورا ہی مان گئی۔
“چلیں پھر ٹھیک ہے۔۔ آج آپ اور آنٹی میرے ساتھ ہی شام کو گھر جائیے گا۔” ڈاکٹر شفا نے یمان کو اپنے ساتھ گھر جانے کا کہا جس پر ایمان مطمئن ہو کر کیبن سے باہر آ گئی۔
اس نے دل سے ڈاکٹر شفا کے لیے دعا کی جو فرشتہ صفت کے روپ میں آ کر اس کی مدد کر رہی تھی۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر شفا سوچتے ہوئے کچھ پریشان سی نظر آئی کیونکہ اس نے اصلی بات تو ایمان کو بتائی ہی نہیں تھی۔
اس نے صرف اور صرف آمنہ بیگم کو ایمرجنسی کی وجہ سے اپنے گھر پر رکھا تھا کہ اگر کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو اگر شفا گھر پر نہ بھی ہو تو ڈرائیور یا پھر ایان انہیں ہسپتال لے آئے۔
کیونکہ ڈاکٹر شفا کو پتہ چل گیا تھا کہ ایمان اکیلی رہتی ہے۔ اگر کوئی ایمرجنسی ہوئی تو یہ اکیلی لڑکی کیسے سنبھالے گی۔ بس یہی سوچ کر ڈاکٹر شفا نے ایمان کو اپنے گھر رہنے پر خود رضامند کر لیا تھا۔
ڈاکٹر شفا کو یہ لڑکی بہت سادہ اور معصوم سی لگی تھی۔ اس لئے اس نے خود آگے بڑھ کر اس کی مدد کی تاکہ اس کو کسی قسم کی کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
“ڈاکٹر آپ کے نیکسٹ پیشنٹ کو روم میں بھیج دوں۔۔؟” نرس کی آواز پر ڈاکٹر شفا سوچوں سے باہر نکل آئی اور اثبات میں سر ہلا کر اپنے نئے آنے والے پیشنٹ کا چیک اپ کرنے لگی۔
?????
زینی ابھی ابھی شاور لے کر باہر نکلی تھی اسی لئے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بالوں کو ہیئر برش سے سیٹ کرنے لگی۔
پاؤں میں سلیپرز پہنے وہ ہیئر برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتی اچانک واپس مڑی تو سلیپرز گیلے ہونے کی وجہ سے اس کا پاؤں اچانک مڑ گیا اور وہ منہ کے بل نیچے زمین پر گرنے ہی لگی تھی کہ کمرے کے اندر آتے اذلان نے بے اختیار بھاگ کر اسے تھامتے ہوئے نیچے گرنے سے بچا لیا تھا۔
زینی گھبراتی ہوئی اپنا سانس بحال کرنے لگی کیونکہ اچانک پاؤں مڑنے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ گھبرا گئی تھی۔اذلان نے ابھی تک اسے دونوں بازوؤں سے تھام رکھا تھا۔ زینی کے لمبے سلکی بال ایک خوبصورت آبشار کی طرح اس کی پشت پر بکھر چکے تھے۔
“آپ کوئی کام دیکھ کر نہیں کر سکتیں کیا۔۔؟”اذلان نے اسے سخت لہجے میں ٹوکا تو زینی جلدی سے تھوڑا فاصلہ بڑھا کر پیچھے ہونے لگی مگر اس کے کچھ بال کھلے ہونے کی وجہ سے اذلان کی شرٹ کے بٹن میں پھنس چکے تھے۔
وہ درد سے کراہتی فورا دوبارہ اس کے بالکل پاس آ گئی تھی۔ اس کے منہ سے ہلکی سی “سس”نما آواز نکلی تو اذلان نے اپنی شرٹ کے بٹن میں اس کے پھنسے بال ایک سرسری نگاہ سے دیکھے۔
زینی اپنے کانپتے ہاتھوں سے جلدی جلدی اس کے غصے کے ڈر سے بال نکالنے لگی مگر وہ نکل کے ہی نہیں دے رہے تھے۔ اذلان کافی دیر تک خاموش تماشائی بنا اس کی ساری کاروائی دیکھتا رہا تھا۔
اذلان کی نرم گرم سانسوں کی تپش زینی کے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔ اس کی دھڑکنوں میں اک عجب شور برپا ہو رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا اس کے دل کی تیز دھڑکنوں کی آواز اذلان کے کانوں تک بھی پہنچ رہی ہو گی اس لیے جلدازجلد نکالنے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ ہر بار ناکام ہو رہی تھی۔
“نہیں نکل رہے۔۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔۔میں قینچی سے یہ بال کاٹ دیتی ہوں۔۔” زینی نے گہرا سانس بھر کر ہار مانتے ہوئے منمنانے کے انداز سے کہا تو اذلان اس کے بیوقوفی سے بھرے مشورے پر اسے سخت نگاہوں سے گھورنے لگا تھا۔
“رکیں ایک منٹ! میں ٹرائے کرتا ہوں۔” اذلان نے اب ایک ایک کر کے اس کا بال نکالنا شروع کیا تو زینی ایک سائیڈ کی طرف اپنا رخ موڑے اپنی منتشر دھڑکنوں کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اذلان کے ایک بال کھینچنے پر زینی درد کی وجہ سے بے اختیار ہی اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھ گئی جس پر اذلان نے ایک نظر اٹھا کر اس کا کسی بھی قسم کے میک اپ سے عاری شفاف، اجلا اور نکھرا نکھرا سا روپ دیکھا جو اس سادگی میں بھی اس کو بہت پرکشش لک دے رہا تھا۔
زینی نے اس وقت اورنج کلر کے ڈریس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اورنج ٹاپس پہنے ہوئے تھے جو اس پر کافی جچ رہے تھے۔ ابھی بھی وہ ٹاپس اس کے ہلنے کے باعث آہستہ آہستہ اس کے کانوں پر جھول رہے تھے۔
اس کی الجھی ہوئی لٹیں بار بار اس کے چہرے کا طواف کر رہیں تھی جنہیں وہ بار بار کان کے پیچھے اڑس رہی تھی۔
زینی کو اذلان کی نگاہیں اپنے اوپر محسوس ہوئیں تو وہ بے اختیار ہی اپنا جھکا چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھنے لگی۔
دونوں کی نگاہیں ایک پل کے لئے آپس میں ٹکرا کر رہ گئیں تھی۔ زینی اس کی نرم گرم نگاہوں کی زیادہ دیر تاب نہ لا سکی تو جلدی سے اپنے بالوں کو خود ہی زور سے کھینچ لیا۔ جس کی وجہ سے اذلان کی شرٹ کا بٹن اس کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔
یہ سب دیکھ کر اذلان نے اسے پھر گھوری سے نوازا تو زینی نے ڈرتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا۔ اس کی اس ادا پر اذلان نے اپنی ہونٹوں پر امڈتی مسکراہٹ کو بمشکل کنٹرول کیا اور پھر سے تیز لہجے میں بولنے لگا تھا۔
“آپ کوئی کام ٹھیک سے نہیں کر سکتیں۔۔ اب مجھے پھر سے شرٹ چینج کرنی پڑے گی بٹن تو آپ کو سرے سے لگانا نہیں آتا ہوگا۔۔” اذلان نے اسے طنزیہ لہجے سے کہا جس پر زینی بھی دوبدو اسے دیکھتے ہوئے تیز لہجے میں بولنے لگی تھی۔
“اتنا تو آتا ہے۔۔ اب اتنی بھی پھوہڑ نہ سمجھیں مجھے۔۔” زینی کی تیز آواز پر ہینگر سے اپنی نئی شرٹ نکالتا اذلان آہستگی سے مسکرانے لگا کیونکہ اب اسے زینی کو چڑانے میں مزہ آنے لگا تھا مگر وہ ابھی تک اسے شو نہیں کروا رہا تھا۔
“ہمم۔۔۔صحیح ہے پھر رات کو مجھے شرٹ پر بٹن لگا کر دکھایئے گا میں مان لوں گا۔۔” اذلان نے اسے چیلنجنگ انداز میں کہا تو زینی فورا بول اٹھی تھی۔
“ہاں جی لگا دوں گی۔۔ آپ تو مجھے کچھ زیادہ ہی ہلکے میں لے رہے ہیں۔۔” زینی کے مقابلے والے انداز پر اذلان نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔”
“okay..I’ll see..” اذلان نئی شرٹ پہن کر کمرے سے باہر آتے ہوئے کہہ کر نکلا جس پر زینی نے جلدی سے سیونگ باکس نکالا اور سوئی دھاگا نکال کر شرٹ پر بٹن لگانے لگی۔
“حد کرتے ہیں۔۔ مجھے تو ایسے سمجھ رہے ہیں جیسے میں کوئی گنوار یا جاہل ہوں جس کو کچھ اتا پتا ہی نہیں ہے۔” زینی خود سے بڑبڑاتے ہوئے بٹن لگانے لگی جبکہ اذلان اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے گھر سے باہر چلا گیا تھا۔
?????
ٹائیگر کا کیمرہ آف ہونے کی وجہ سے میٹنگ روم میں موجود سب لوگ اس کی آواز کو پوری توجہو انہماک سے سن رہے تھے۔ کیونکہ ٹائیگر ہمیشہ آف کیمرے کے ساتھ ہی ان سے ویڈیو کال پر رابطہ رکھتا تھا۔
“مجھے اپنے پورٹل پر کی گئی ہر ایک کمپلین کا پراپر سولیوشن چاہیے۔۔ ہر ایک ضرورتمند شخص کی فوری مدد ہی ہمارے اس ٹائیگر پورٹل کا اولین نصب العین ہے۔” ٹائیگر کی میٹنگ کے دوران سنجیدہ آواز گونج رہی تھی۔
“سر! ہم تو ہر کمپلین کو سیریس انداز میں ہی لیتے ہیں۔۔ مگر آج کل کچھ لڑکے لڑکیاں عجیب وغریب میسجز کرکے تنگ کر رہے ہیں ہمیں۔۔ اس لیے کچھ زیادہ ٹائم لگ رہا ہے صحیح اور غلط کمپلین کو جاننے میں۔” آفیسر نے سنجیدگی سے اس پورٹل کی رپورٹ ٹائیگر کے گوش گزار کر دی۔
“مطلب۔؟ کیسے میسجز۔؟؟” ٹائیگر کا انداز سوالیہ تھا۔
“ٹائیگر سر! جب ہم کسی کمپلین کے پیچھے ساری انکوائری کرتے ہیں تو آگے سے کچھ لڑکے لڑکیوں کے عجیب کمنٹس سامنے آتے ہیں۔۔ ان میں سے کچھ تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف ٹائیگر سے دوستی کرنا چاہتے تھے اسی لیے اس پورٹل پر میسج کیا تھا۔۔” آفیسر نے بے بسی سے ٹائیگر کے بند کمرے کو دیکھا تھا۔
“جسٹ لسن ٹو می آفیسر! اگر ہم ان کمپلینز سے ڈر کر جو جائز کمپلینز ہیں ان کو سولو نہیں کریں گے تو پھر یہ ہمارا پورٹل کس کام کا۔۔۔ اور رہی بات فیک میسجز کی تو 100 میں سے 99 لوگ اپنی شکایت کو مدنظر رکھ کر ہی ہمیں میسج کرتے ہیں اور جو ایک پرسنٹ ہیں اگر وہ ایسے میسج کرتے ہیں تو ہم ان کے کئے کی سزا ان باقی کے ننانوے فیصد معصوم لوگوں کو نہیں دے سکتے۔۔ اوکے۔؟؟” ٹائیگر نے رسان سے سنجیدہ لہجے میں سمجھایا۔
“اوکے سر! وی ول ٹرائی آور بیسٹ ٹو سولو پیپلز پرابلمز!” آفیسر نے نئے سرے سے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔
“ڈیٹس گڈ سپرٹ۔۔ کیپ اٹ اپ گائز!!” ٹائیگر نے سراہنے کے انداز میں کہہ کر اپنی میٹنگ پھر سے کنٹینیو کی۔
?????
“تم جاؤ اور پتا کرو اس حویلی میں وہ لوگ ابھی موجود ہیں یا نہیں۔؟”کبیر پاشا نے اپنے ایک ملازم کو حویلی میں بھیجا خود وہ گلی کے کارنر میں بلیک پراڈو کار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے چہرے پر اس وقت بلیک سن گلاسز لگے ہوئے تھے۔
“ابھی زبردستی ان سے سائن کروا کر باس کے سامنے رکھوں گا اور پھر دیکھنا وہ جاوید دیکھتا ہی رہ جائے گا۔” کبیر پاشا نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے اپنے ایک ساتھی سے کہا جس پر وہ بھی بےساختہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
“جی پاشا بھائی! بالکل ایسا ہی ہوگا۔” کبیر پاشا اس کے کہنے پر مسکرا اٹھا۔اور پھر اسے سامنے گلی آتا ہوا ملازم دکھائی دیا۔
“کیا خبر ہے۔؟” ملازم اندر کار میں آ کر بیٹھ چکا تو کبیر پاشا کے پوچھنے پر اسے پریشان نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ اس کی اگلی بات پر کبیر پاشا کے چہرے کا رنگ متغیر ہو کر رہ گیا تھا۔
“پاشا بھائی! ان کے گھر پر تالا لگا ہوا ہے۔۔ کسی جان پہچان والے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میڈم اپنی ماں کو کراچی کے کسی ہسپتال میں لے کر گئیں ہیں۔۔” ملازم نے ڈرتے ڈرتے سارا کچھ بتا دیا جو وہ پتا کر کے آیا تھا۔
“میں کہتا رہا باس سے مگر وہ اس جاوید کی بات پر یقین کر کے آرام سے بیٹھے رہے۔۔ اور اب دیکھو وہ نکل گئے یہاں سے اور ہم میں سے کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔” کبیر پاشا اس وقت سخت غصے میں تھا کیونکہ اس خبر نے اس کے سارے بنے بنائے پلان پر پانی پھیر دیا تھا۔
“ابھی کراچی فون کرو اور وہاں کے بندوں سے اس ہسپتال کا پتہ کرواؤ۔۔مجھے جلد از جلد ان سے اس حویلی کے کاغذات سائن کروانے ہیں..اب مجھ سے مزید صبر نہیں ہوتا۔” کبیر پاشا نے ملازم کو اپنے کراچی کے بندوں کو فون ملانے کا کہا۔
ملازم نے فون ڈائل کرکے پاشا کو تھما دیا تو فون ریسیو ہونے پر پاشا کی سخت آواز کار کی ساکت فضا میں گونجنے لگی۔
“مجھے جلدازجلد اس اسپتال کا ڈیٹا نکلوا کر دو۔۔ وہ مریضہ اس وقت کہاں ہیں اور کس ہوٹل میں رکی ہیں۔۔ اور یہ کام جلدی سے جلدی ہو جانا چاہیے اگر زیادہ دیر کی تو سب کو گولی سے اڑا دوں گا۔” کبیر پاشا نے دبنگ لہجے میں اپنا حکم صادر کیا۔ اسے تپ چڑھ چکی تھی کہ اس نے باس کی بات مان کر غلطی کی اور اتنی دیر چپ کیوں رہا۔
“پکڑو اسے اور ان سے کہنا جلدی رپورٹ کریں مجھے۔” کبیر پاشا نے ساتھ بیٹھے ملازم کو فون تھما دیا۔
“جی پاشا بھائی!” ملازم نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا۔
“اب چلا بھی دو۔۔ تمہیں بھی ہر ایک بات سمجھانی پڑے گی کیا۔۔؟” کبیر پاشا کہنے پر ڈرائیور نے بھی جلدی سے کار سٹارٹ کر دی۔
کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ تھا اسوقت پاشا کا دماغ گھوما ہوا ہے کسی کی بھی شامت آ سکتی ہے۔۔ اس لیے چپ چاپ گاڑی اس تنگ گلی سے نکال کر مین روڈ پر دوڑانے لگا تھا۔
“اب وہ دن زیادہ دور نہیں۔۔ جاوید! جب اس حویلی کے کاغذات اور وہ لڑکی دونوں ہی باس کے قدموں میں ہوں گے۔” کبیر پاشا نخوت سے سوچتے ہوئے نئی سگریٹ سلگانے لگا۔
?????
“مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی۔۔اچانک حیا کو ایسا کیا کام پڑ گیا جو اتنی جلدی ڈرائیور کو لے کر گھر چلی گئی۔” مریم کو اس وقت حیا پر شدید غصہ آ رہا تھا جو اسے اکیلا چھوڑ کر خود گھر چلی گئی تھی۔
ضرار اور روشان ریڈ کلر کی نیو مرسڈیز کار میں بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے مگر دونوں بول کچھ نہیں رہے تھے۔ وہ حیا کے پلان کے مطابق مریم کو کچھ نہیں بتا پا رہے تھے۔
انہوں نے مریم کو صرف اتنا ہی کہا تھا کہ حیا ہمارے پاس آئی اور کہا تھا کہ آپ کو گھر ڈراپ کر دیں۔۔ اسی لیے وہ دونوں حیا کے پلان کے مطابق مریم کو دو گھنٹے بعد اسے اس کے گھر واپس لا رہے تھے۔
مریم تو تب ہی گھر جانا چاہتی تھی مگر ضرار نے سر سے کسی ضروری کام کا کہہ کر ٹائم نکال دیا۔ مریم کا انتظار کے مارے غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔
“ایک تو آج میرا برڈے کسی کو یاد نہیں اوپر سے آج ہی اتنی بوریت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مجھے۔”مریم نے کوفت سے بھرے تاثرات سمیت اداس لہجے میں سوچا تھا۔
“ایم سوری! آپ دونوں کو میری وجہ سے پریشانی ہو رہی ہو گی مگر یہ حیا بھی نا۔” مریم نے ضرار اور روشان کے سنجیدہ چہرے دیکھے تو اسے غصہ آیا کہ شاید اسی کی وجہ سے وہ لوگ پریشان ہیں کیونکہ انہیں اسے گھر جو ڈراپ کرنا پڑ رہا ہے ۔بات کرتے کرتے اسے پھر سے حیا پر غصہ آ گیا تھا۔
“اٹس آل اوکے مریم۔! ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ پلیز ریلیکس رہیں۔۔ ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔” روشان نے یہ کہتے ہوئے مریم کو تسلی دی جس پر ضرار نے اسے آنکھیں بڑی کرکے دکھائیں تھی کیونکہ وہ زبردستی اس کو بھی اپنے ساتھ ہی گھسیٹ لایا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے مین گیٹ پر پہنچے تو مریم نے ضرار اور روشان کو ساتھ چلنے کا کہا۔
“ضرار۔ روشان! آپ لوگ مجھے گھر ڈراپ کرنے آئے ہیں۔۔ آئیے میں آپ کو ماما اور بابا سے ملواتی ہوں۔” مریم نے انہیں ساتھ چلنے کا کہا جس پر روشان تو فورا ساتھ چل پڑا
“جی ضرور!” روشان نے مریم کے کہنے پر قدم آگے بڑھائے تو ضرار کو ادھر ہی کھڑا دیکھ کر اب وہ زبردستی اس کا بازو بھی پکڑ کر اسے اندر لے آیا۔
“افف۔! یہ اتنا اندھیرا کیوں ہے۔۔ کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔” مریم نے اندازے سے ہاتھ بڑھا کر لائٹس آن کی تو سارا ہال رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔ وہ حیرت بھری نگاہوں سے ساری سجاوٹ کو دیکھ رہی تھی۔
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔ ہیپی برتھ ڈے ڈئیر مریم۔!”حیا اپنی خوبصورت آواز سے مائیک میں گانا گا کر کوریڈور سے باہر آتی اس کو وش کر رہی تھی۔ مریم ابھی بھی شاک کے عالم ہیں مسکراتے ہوئے سب کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
پورا ہال غباروں سے بھرا پڑا تھا۔ وائٹ اور ریڈ کلر کے کمبینیشن سے ساری ڈیکوریشن کی گئی تھی۔ پوری چھت کی سیلنگ کے ساتھ بھی غبارے لٹک رہے تھے۔ ایک سائیڈ پر بڑی اسکرین لگی ہوئی تھی جس پر مریم کی بچپن سے لے کر اب تک کی ساری تصویریں آٹو پلے ہو رہیں تھیں۔
ضرار اور روشان بھی اس قدر خوبصورت سجاوٹ پر از حد حیران رہ گئے تھے۔مریم اب آگے بڑھ کر رفعت بیگم اور حسن صاحب سے ملی اور پھر حیا کو گلے لگا کر خود میں بھینچتے ہوئے زور سے ملنے لگی۔
“آپ سب کو میرا برڈے یاد تھا۔؟ مجھے لگا آپ سب لوگ بھول گئے ہیں۔” مریم نے باری باری سب آنے والے مہمانوں سے مصافحہ کرتے ہوئے پوچھا تو سبھی آہستگی سے مسکرا دیئے۔
“ویل! ان کا تو پتا نہیں یاد تھا کہ نہیں۔۔ لیکن مریم میں پورے ایک ہفتے سے اس کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔”حیا نے لاڈ سے کہتے ہوئے مریم کے گلے میں بانہیں ڈالی تو مریم نے ہنستے ہوئے اس کے بال بکھیر دیے جس پر اس کی توقع کے عین مطابق حیا چڑنے لگ گئی۔
“اوفف! میرے بال تو نہ خراب کرو۔۔ تمہارا ڈریس تمہارے کمرے میں رکھا ہے جلدی سے چینج کرکے آؤ پھر کیک کٹ کرتے ہیں۔” حیا نے مریم کے بال بگاڑنے پر منہ بسور کر کہا تو اسی پل ضرار کی نظر حیا کی طرف اٹھی۔۔ حیا اسوقت وائٹ اور ریڈ کلر کی خوبصورت فراک پہنے ایک موم کی گڑیا لگ رہی تھی۔ اس نے چھوٹا سا کیچر لگا کر باقی بال کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ پاؤں میں اس وقت ہائی ہیل پہن رکھی تھی۔
“آپ لوگ بھی آیئے نا!حیا نے مجھے بتایا تھا آپ دونوں مریم کے دوست ہیں۔۔ موسٹ ویلکم بیٹے۔”حسن صاحب دور کھڑے ضرار اور روشن کو اپنے ساتھ لاؤنج میں لے آئے اور ویٹر سے کہہ کر ان کو ڈرنکس سرو کروا کر ان کو پارٹی انجوائے کرنے کا کہہ کر واپس چلے گئے۔
“تھینکس یار۔” روشان نے سافٹ ڈرنک کا گلاس تھامے ضرار سے کہا۔
ہال میں بجتا لائٹ میوزک دھیمے سروں کی دھنیں پیش کر رہا تھا۔ روشان تو سکرین میں چلتی مریم کی تصویروں کو مبہوت نگاہوں سے دیکھے جا رہا تھا جو اپنے اس سادہ سے انداز میں بھی غضب ڈھا رہی تھی۔ اس کی ہر تصویر سے اس کی معصومیت کی نئی جھلک نمایاں ہو رہی تھی۔ روشان ان تصویروں سے ایک پل کے لئے بھی اپنی نگاہ سے نہیں ہٹا پا رہا تھا۔
جبکہ دوسری طرف ضرار حیا کو اس وقت ریحان کی کسی بات پر پیٹ پکڑے ہنستے ہوئے سلگتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اتنی دیر میں راہداری سے آتی ہوئی مریم کو دیکھ رہے حیا بھاگ کر اس کے پاس آ گئی۔
“مریم کتنی پیاری لگ رہی ہو ماشاء اللہ۔” حیا کی آواز پر سب نے مریم کو دیکھا تو مریم اپنے آپ کو سب کی نگاہوں کا مرکز بنے دیکھ کر کنفیوز ہوتی خود میں سمٹ سی گئی۔حسن صاحب اور رفعت بیگم نے بھی اسے گلے لگا کر اس کا ماتھا چوما جس پر وہ آہستگی سے مسکرا دی۔
“چلو آؤ کیک کٹ کرتے ہیں۔۔ نہیں تو ریحان کے پیٹ میں بھوک کے مارے چوہے مرنا شروع ہو جائیں گے۔۔۔” حیا مریم کا ہاتھ پکڑ کر کیک کی ٹیبل کی طرف لائی اور پھر ہنستے ہوئے ریحان کی طرف دیکھا تو سب اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔ جب کہ ریحان اتنے سارے لوگوں میں اس کا مذاق بنانے پر حیا کو مصنوعی غصے سے گھورنے لگا تھا۔
“ضرار۔۔ روشان۔۔! آپ سب بھی آ جائیں۔” مریم نے ان دونوں کو یک بستہ آواز دی تو اتنے عرصے میں پہلی دفعہ حیا نے ضرار کو دیکھا جو اپنی نیلی آنکھوں کی وجہ سے اس پارٹی میں سب سے منفرد لگ رہا تھا۔ اس کے سنجیدہ چہرے پر اس کی اوشن بلیو آنکھیں چمک رہی تھیں۔
وہ اس وقت آف وائٹ شرٹ کے ساتھ آف وائٹ جینز کی پینٹ پہنے ہوئے اپنی شاندار پرسنالٹی کی وجہ سے سب کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔
“ہیپی برتھ ڈے مریم۔”حیا سمیت ہال میں موجود تقریبا سارے لوگ تالیاں بجا رہے تھے ماسوائے ضرار کے جو ایک ہاتھ اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے دوسرے ہاتھ میں ڈرنک کا گلاس تھامے سب کو بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
مریم نے حسن صاحب اور رفعت بیگم کو کیک کھلا کر اب حیا کو کیک کھلایا تو جوابا حیا نے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر اسے کھلانا چاہا۔ مریم نے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ تاکہ وہ کیک کھا سکے مگر حیا کیک کھلانے کی بجائے اس کے گال پر لگا کر ہنستے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی۔ حیا کے اس شرارتی انداز پر سب بے ساختہ ہنس دیے۔
تھوڑی ہی دیر بعد حسن صاحب نے ویٹر کو اشارہ کیا سب کو کھانا سرو کریں تو سارے ویٹر جلدی سے بھاگ کر کھانا سرو کرنے لگے۔
“ضرار! چلو نا مریم کو گفٹ پکڑا کے آتے ہیں۔” روشان نے ساتھ کھڑے ضرار کو کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔
“یہ میرا گفٹ بھی تم لےجاؤ۔۔اور ہاں جلدی آنا مجھے گھر بھی جانا ہے۔۔ میں کبھی بھی اتنی دیر گھر سے باہر نہیں رہا سب لوگ پوچھیں گے مجھ سے۔۔” ضرار نے سنجیدگی سے بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اپنی پاکٹ سے گفٹ نکال کر روشان کو دینے لگا۔
“حد ہوگئی ہے یار! اب یہاں تک آ ہی گئے ہو تو گفٹ بھی خود دے دو۔۔ اور رہی بات گھر بتانے کی تو انفارم کر دو کہ تم دوست کی برتھ ڈے پارٹی میں ہو انہوں نے تمہیں کیا کہنا ہے۔”روشان نے اسے رسان سے سمجھایا۔
“چلو یار نخرے نہ کرو۔” روشان نے ضرار کو کہا تو اس نے ہاتھ میں تھاما ہوا گلاس پاس موجود ٹیبل پر رکھا اور اس کے ساتھ چل دیا۔
“ہیپی برتھ ڈے مریم۔!”روشان نے اسے گفٹ پکڑاتے ہوئے مسکرا کر کہا تو ضرار نے بنا کچھ کہے اپنا گفٹ مریم کو پکڑا دیا۔
“آپ لوگوں کو میری برتھ ڈے کا حیا نے بتایا ہوگا۔۔ وہی میں کہوں۔۔ آپ لوگ مجھے ڈراپ کرنے کی بجائے ایک دفعہ بیچ میں غائب کیوں ہوئے تھے۔” مریم اب ان کا سارا پلان سمجھ چکی تھی اس لیے ہنستے ہوئے گویا ہوئی۔
“ہاں جی۔۔حیا نے سرپرائز برتھ ڈے پارٹی کا بتایا تھا۔۔ویسے بہت اچھا سرپرائز دیا حیا نے آپ کو۔” روشان نے مریم کو خوش ہوتے ہوئے دیکھا تو حیا کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔
“بیٹے! آپ نے کھانا کھائے بغیر نہیں جانا۔۔ اوکے؟” رفعت بیگم نے ضرار اور روشان کے سر پر پیار دیتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ضرار جو ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ روشان نے اس کا ہاتھ زور سے دبا کر اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔
“جی آنٹی۔۔!”روشان نے ہنستے ہوئے کہا تو رفعت بیگم مطمئن ہو کر وہاں سے چلی گئی۔ مریم اب انہیں اپنے ساتھ لیے کھانے کی ٹیبل پر آگئی۔
“آپ یہاں بیٹھیں! میں ابھی آتی ہوں۔” مریم نے ان کو ٹیبل پر بٹھایا اور خود ویٹر کو کھانا لگانے کا کہنے چلی گئی۔
ضرار مریم کے جاتے ہی اٹھا اور روشان کو اندر جاتی راہداری کے پردے کے پیچھے لے آیا۔
“یار روشان!کر کیا رہے ہو تم۔۔۔؟تمہیں پتا ہے اسوقت مجھے شدید غصہ آ رہا ہے تم پر۔۔” ضرار نے روشان کو سخت نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ اسے بے بسی سے دیکھنے لگا۔ کیونکہ وہ بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ سب کر رہا تھا ورنہ اس نے تو خود کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔
وہ ابھی وضاحت دینے کے لیے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ بھاگ کر آتی حیا کے ہاتھ میں جو کیچپ کا باؤل تھا وہ غلطی سے گر کر ضرار کی پوری شرٹ کی بیک خراب کر چکا تھا۔
“اوہ شٹ۔۔”حیا نے ضرار کی شرٹ خراب ہوتے ہوئے دیکھ کر سرگوشی نما آواز میں بربڑاتے ہوئے کہا۔
“میں ابھی آیا حیا۔۔” ریحان جو سموسے کی پلیٹ پکڑے حیا کے پیچھے بھاگ رہا تھا اب حیا کو ضرار کی شرٹ پر کیچپ گراتے دیکھ کر اس کی سیٹی گم ہو گئی تھی۔ اس لئے اس نے فورا وہاں سے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
ضرار اس وقت پردے کے پیچھے روشان کی طرف اپنا رخ موڑ کر کھڑا تھا کہ اچانک اپنے ساتھ ٹکراتے وجود کو دیکھ کر ایک دم پیچھے کو ہوا تو حیا کے ہاتھ سے کیچپ کا باؤل چھلکا اور پھر چند ہی سیکنڈز میں ضرار کی ساری بیک پر کیچپ کے بڑے بڑے دھبے نمایاں ہو کر رہ گئے۔
اب وہ سخت نگاہوں سے حیا کو گھور رہا تھا۔ جبکہ حیا اسوقت خود کو بری طرح کوس رہی تھی۔
” ہر بار میں نے اسی سے ہی کیوں ٹکرانا ہوتا ہے جو پہلے ہی اتنے غصے میں رہتا ہے۔”
“ایم سوری ضرار۔۔۔وہ۔ہ میں۔۔” حیا سے ڈر کے مارے بات مکمل نہ ہو پا رہی تھی اتنے میں مریم بھی انکے پاس آ گئی۔
“کیا ہوا؟ آپ لوگ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔۔ میں آپ سب کو ادھر دیکھ رہی تھی۔۔” مریم نے ان سب کو ایک جگہ پر کھڑے دیکھا تو انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
مگر پھر ضرار کی شرٹ اور حیا کے ہاتھ میں کیچپ کا باؤل دیکھ کر ساری سیچوایشن خود ہی سمجھ گئی۔ ضرار اسے ابھی بھی مسلسل سخت نگاہوں سے ہی گھورے جا رہا تھا۔
“حیا! یہ سب کیا ہے۔؟” مریم نے سرگوشی نما آواز نکالتے ہوئے پوچھا تو حیا فورا اونچی آواز میں بولنے لگی تو مریم نے فورا اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
“شش۔۔اب ماما سے ڈانٹ پڑے گی تمہیں۔۔ ضرار کو واش روم میں لے کے جاؤ اور ان کی شرٹ صاف کرواؤ۔” مریم نے آہستہ آواز میں کہا تو حیا پھر بولنے لگی مگر اب کی بار اس کی آواز تھوڑی دھیمی تھی۔
“میں نے جان بوجھ کر تھوڑی کیا ہے۔۔ مجھے کیا پتا تھا کہ پردے کے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہے۔”حیا نے اپنی غلطی ماننے کے بجائے پردے کا بہانہ کر دیا جس پر ضرار منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگ گیا۔
“جو بھی ہے میں اور روشان باہر جا رہے ہیں تم ضرار کی شرٹ صاف کروا کر ہی انہیں باہر لاؤ گی۔۔ سمجھی۔۔؟” مریم نے اب کی بار تھوڑی سختی سے کہا تو حیا پاؤں پٹخنے کے انداز میں آگے آگے چلنے لگی۔
“آیئے ضرار صاحب۔۔!”حیا نے اپنے پیچھے کھڑے ضرار کو طنزیہ طرزتخاطب سے پکارا جو بار بار پیچھے سے اپنی شرٹ پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے خود سے عجیب الجھن ہو رہی تھی کیچپ اب شرٹ کے نیچے تک جا رہا تھا۔
وہ جتنی جلدی یہاں سے جانا چاہتا تھا اسے اتنی ہی دیر ہوگئی تھی۔اب اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ اسے روشان کی بات ماننی ہی نہیں چاہیے تھی۔
“پتا نہیں آپ کا بچپنا کب جائے گا۔۔؟”ضرار نے آگے بڑھتے ہوئے تنک کر کہا تو حیا کو فورا غصہ آگیا اور پھر وہیں کھڑی ہو کر دوبدو جواب دینے لگی۔
“ساری بڈھی روح تو تم میں گھسی ہوئی ہے تو باقی سب کا بچپنا تھوڑا لیٹ ہی جائے گا نا۔۔”حیا کے تنک لہجے پر ضرار اسے پھر سے گھورنے لگا تھا۔
“اس کمرے کے واش روم میں فریش ہو لیں۔۔ میں یہیں باہر کھڑی ہوں۔۔”حیا نے ضرار کو کمرے کا راستہ دکھایا تو وہ آگے چل کر کمرے میں آ گیا۔
کمرے کی رائٹ سائیڈ پر واش روم تھا وہ وہاں جا کر اپنی شرٹ دھونے لگا۔
اب وہ شرٹ دھونے کے بعد اپنے وجود کو بھی ٹشو سے صاف کر رہا تھا۔ اب وہ غصیلی نگاہوں سے گیلی شرٹ کو گھور رہا تھا۔ کیچپ کے گیلے ہونے کی وجہ سے داغ تو چلے گئے لیکن اس کی شرٹ بیک سے تقریبا پوری بھیگ چکی تھی۔
“آپ کی اس بیوقوفی کی وجہ سے میری ساری شرٹ بھیگ چکی ہے۔”حیا جو واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز پر کمرے میں آئی تو ضرار غصے سے کہتے ہوئے اسے اپنی شرٹ کی بیک دکھا رہا تھا جس پر وہ اپنی پیشانی دھیرے سے مسلتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔
“ابھی ڈرائی ہو جائے گی۔۔اتنی ٹینشن کیوں لے رہے ہو۔۔؟”حیا نے جلدی سے ہئیرڈرائر نکال کر سوئچ بورڈ پر لگا دیا۔ اب اسے آن کرکے ضرار کو سوئچ کے پاس آنے کا کہا۔
ضرار اپنے ہاتھ سے شرٹ کی بیک ڈرائی کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ کسی طریقے سے ڈرائے نہیں ہو پا رہی تھی۔
“رکو! میں کرتی ہوں۔”حیا نے ضرار کے ہاتھ سے ہئیر ڈرائر لی اور خود اس کی شرٹ کی بیک خشک کرنے لگی۔
ضرار ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا آئینے میں نظر آتا حیا کا عکس دیکھ رہا تھا جو اس ٹائم کافی جلد بازی میں لگ رہی تھی۔ بار بار آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے اس کا دوپٹہ ایک سائیڈ سے ڈھلک چکا تھا اور اس کے بال کھلے ہونے کی وجہ سے اس کے چہرے پر بار بار آ رہے تھے جنہیں وہ بار بار “اوفف” کر کے پیچھے کرتی ہوئی اپنے کام پر توجہ دے رہی تھی۔
ضرار کو حیا کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ بار بار اپنی بیک پر محسوس ہو رہے تھے کیونکہ گیلی شرٹ ہونے کے باعث وہ بار بار اس کے وجود سے چپک جاتی تھی۔
ضرار نے فورا اپنا چہرہ نیچے جھکا لیا کیونکہ اس کی دھڑکنوں میں بار بار عجب ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔
“ایک بات پوچھوں۔؟”حیا نے مصروف انداز میں ضرار کو مخاطب کیا۔
“ہم۔مم۔”ضرار جانتا تھا اب پھر کوئی لڑائی والی بات کرے گی اور اس کا پارہ ہائی ہو جائے گا۔ اس لئے ذرا سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
“وہ جو اس ویڈیو میں تم ایک لڑکے کو بڑی بے رحمی سے مار رہے تھے۔۔ اس لڑکے نے ضرور کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کی ہوگی اسی لئے تم اسے اتنا مار رہے تھے۔۔ ہے نا۔۔؟؟”حیا نے نارمل انداز میں بات کی تھی مگر ضرار کی آنکھیں اس قدر درست اندازے پر ایک پل کے لئے پھیل کر رہ گئیں تھیں۔ کیونکہ اس کے دل کا حال اس کے اور اذلان کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا تھا پھر حیا کیسے۔؟؟”
“کیا ایسے ہی ہے نا۔؟ اسی لئے تم اسے بری طرح مار رہے تھے نا۔”ضرار کو سوچوں میں گم پا کر حیا نے پھر سے وہی سوال دہرا دیا۔ مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموشی سے اپنے پاؤں دیکھنے لگا۔
“آپ کو کیسے پتہ چلا۔؟” ضرار نے کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
“تمہاری ان آنکھوں کے جنون سے۔۔ کیونکہ اس دن بائیک والے لڑکوں کو بھی تم نے ایسی ہی سرد نگاہوں سے دیکھا تھا۔”حیا نے مصروف سے انداز میں وضاحت دی۔
“واؤ! اس کا مطلب میں بالکل ٹھیک تھی۔ تمہاری ویڈیو دیکھ کر میں نے مریم سے یہ سب کہا تو وہ مان ہی نہیں رہی تھی بار بار کہہ رہی تھی کہ تمہیں کیا پتا کیا معاملہ ہوا ہو۔۔”
” اگر ایسی ہی بات ہے تو بہت اچھا کام کیا تم نے۔۔۔ویل ڈن”حیا نے کہتے ہوئے اس کی کمر پر باقاعدہ تھپکی دی جس پر ضرار اسے مصنوعی غصے سے گھورنے لگا۔
حیا نے جوش میں آتے ہوئے اپنی اور مریم کی ساری گفتگو بتائی جس پر ضرار اس لڑکی کو آئینے میں دیکھنے لگا جو سر جھکائے اس کی شرٹ ڈرائی کر رہی تھی۔
پتا نہیں کب وہ لڑکی اس کے دل کی بات تک پہنچ گئی تھی۔
” میرے دل کی بات اس نے کیسے پڑھ لی؟ میں نے تو کبھی اپنا آپ کسی کو شو نہیں کروایا۔۔ اپنے دل کو ہمیشہ سات تہوں میں چھپا کر رکھا تھا۔ اس دل پر بھی اس نے اپنے سنجیدگی کے قفل لگا دیے تھے تاکہ کوئی کھول نا پائے مگر یہ لڑکی اس کی زندگی میں آتے ہی آہستہ آہستہ اس کے اندر تک کو پڑھ چکی تھی۔ اس کا بنایا گیا عارضی خول اس نے چند دنوں میں ہی اتار پھینکا تھا مگر کیسے۔؟؟” وہ انہی سوچوں میں گم تھا جب حیا نے اس کے آگے آ کر اپنے ہاتھ کی چٹکی بجائی تھی۔
“کہاں گم ہو۔؟”حیا نے ضرار کو سوچوں کی دنیا سے باہر نکالا تو وہ ایکدم نادم سا ہو کر رہ گیا کیونکہ کب اس نے ہئیر ڈرائر بند کی اس کو بالکل بھی پتہ نہ چلا۔
“اپنی شرٹ اتارو۔!!”حیا نے ہئیر ڈرائر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تو ضرار کا حیرت کے مارے منہ کھل کر رہ گیا۔
“واٹ۔۔؟آپکا دماغ ٹھیک ہے۔؟؟”حیا کی اس بے تکی بات پر ضرار کا دماغ گھوم کر رہ گیا تھا اس لئے تیز تیز لہجے میں بولنے لگا۔
“ایسے نہیں ڈرائی ہو رہی۔۔ کیا میں سارا ٹائم یہیں کھڑی رہوں گی۔؟ اب تو ایک پوزیشن میں کھڑے ہو ہو کے میری کمر درد کرنے لگی ہے۔۔ شرٹ اتار کر دو میں آئرن کر کے لاتی ہوں۔”
حیا نے اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے آئینے میں اپنے کھلے بالوں کی اونچی پونی باندھ کر کمرے کے باہر جاتے ہوئے ڈور بند کر دیا اور اسے جلدی کرنے کا کہہ کر باہر کھڑی ہو گئی۔
ضرار نے نفی میں سر جھٹکتے ہوئے اپنی شرٹ تھوڑا دروازہ کھول کر اسے پکڑا دی۔
“اوفف! یار کہاں پھنس گئی ہوں میں۔” شرٹ پکڑاتے ہوئے ضرار اس کی بڑبڑاہٹ بخوبی سن چکا تھا۔ وہ جو ابھی اسے کوئی سخت سست جواب دینے ہی لگا تھا کہ وہ جلدی سے بھاگ کر وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ اور پھر ضرار دروازہ لاک کرتے ہوئے بیڈ کے سامنے موجود صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔
?????
“زمان! اس لڑکے کا کیا بنا۔۔ اسے ابھی تک ہوش آیا کہ نہیں۔؟” اذلان نے زمان سے پوچھا جو ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے اس کے آفس آیا تھا۔
“نہیں سر! ابھی تک تو نہیں۔۔ میں وہاں کے میڈیکل سٹاف سے مسلسل رابطے میں ہوں۔” زمان نے اس لڑکے کی میڈیکل کنڈیشن بتائی تو اذلان کے چہرے پر سوچوں کے گہرے بادل چھا کر رہ گئے۔
“اگر ہوش آ بھی جائے گا تو میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گا۔۔خبیث۔۔گھٹیا انسان۔” اذلان نے نخوت سے بھرے انداز میں سوچا پھر اچانک زمان کے سوال پر اسے دیکھنے لگا۔
“سر! وہ میں نے فرنٹ کیمرے سے ساری ڈیٹیلز نکال لیں تھی ۔۔ ان کی پکچرز بھی بنوا لی تھی وہ فائل لے کے آؤں آپ کے پاس۔۔” زمان کے سوال پر اذلان کو اپنا دیا ہوا اس دن کا کام یاد آگیا۔
“نہیں۔۔ اب نہیں چاہیے بس آئندہ خیال رکھنا یہ کیمرے 24 گھنٹے کام کرنے چاہیے۔” اذلان نے زمان کو آئندہ کے لئے محتاط رہنے کا کہا جس پر زمان “جی سر” کہہ کر آفس سے چلا گیا کیونکہ اسے اذلان کے کسی ضروری کام سے باہر جانا تھا۔
“آخر اس لڑکے کو اچانک کیا سوجھی ہوگی یہ سب کرنے کی؟؟۔۔ یہ معاملہ تو میری سمجھ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔۔ آخر اس لڑکے نے زینب پر ہی کیوں اٹیک کیا۔۔؟” اذلان ابھی تک انہی سوچوں میں گم تھا تبھی موبائل فون کی آواز پر اپنی سوچوں سے باہر نکلا۔
سامنے ہی اسکرین پر”ایان کالنگ”جگمگاتے دیکھا تو اس کے عنابی ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنا لی۔
“کیسے ہو یار۔؟”ایان کی خوشی سے بھرپور چہکتی آواز سن کر اذلان کے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل کر رہ گئی۔
“میں تو ٹھیک ہوں یار۔۔ تم بتاؤ ریسیپشن پر کیوں نہیں آئے۔؟” اذلان نے جھوٹی ناراضگی دکھائی جس پر ایان کی معنی خیز آواز فون کے اسپیکر سے ابھرنے لگی۔
“اوہو۔و۔و! تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے۔؟” اذلان نے ناسمجھی سے فون کو ایک نظر دیکھ کر دوبارہ کان کے ساتھ لگا لیا۔
“مطلب۔۔؟ کیسا معاملہ۔؟؟” اذلان نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو ایان کا زندگی سے بھرپور قہقہہ فون کے اسپیکر میں گونجا جس پر اذلان کو تپ چڑھ چکی تھی۔
“کیا فضول میں ہی ہنسی جا رہے ہو۔۔ مجھے بھی تو بتاؤ آخر کس بات پر تمہارے دانت ایویں ہی نکلے جا رہے ہیں۔”اذلان نے اب کی بار تھوڑا غصے سے کہا تو ایان نے ہنستے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
“مطلب یہ کہ میرے بھائی پہلے تو تم اس شادی کو ہی سرے سے نہیں مان رہے تھے۔۔ اوپر سے ولیمہ بھی کر لیا اور اب میرے نا آنے پر مجھ سے ناراض بھی ہو رہے ہو۔۔ اس کا مطلب میں نے تمہارا کوئی بہت اسپیشل ایونٹ مس کر دیا ہے۔۔ایم سو سوری یار۔۔” ایان نے ہنستے ہوئے وضاحت کر دی۔
“بس۔۔ جب بھی بکنا فضول ہی بکنا۔۔ تم یہ بتاؤ شفا بھابی کیسی ہیں اب۔؟” اذلان نے اسے مصنوعی غصے سے کہتے ہوئے بات بدلنے کی خاطر شفا کی خیریت دریافت کی کیونکہ ایان کی بات سن کر بےاختیار ہی اسے زینی کا صبح والا روپ یاد آ گیا جس میں وہ اس کی شرٹ کا بٹن ٹوٹ جانے پر اس سے ڈرتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا گئی تھی۔
“یار! ابھی تک تو ڈیپریس ہی ہے آنٹی کی ڈیتھ کو لے کر۔۔ اسی لئے تو تمہارا ولیمہ بھی اٹینڈ نہیں کر سکا ورنہ ضرور آتا۔۔ اس دن بھی شفا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے میں نے اسے اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا۔” ایان نے ولیمے پر نہ آنے کی وجہ بتائی۔
“کوئی بات نہیں یار۔! تم انہیں کہیں گھمانے لے جاؤ۔۔ شاید وہ کچھ بیٹر فیل کریں۔” اذلان نے اسے اپنے تئیں مفید مشورے سے نوازا۔
“نہیں یار! اس کو گھومنے پھرنے کا اتنا شوق نہیں ہے۔۔ وہ اپنے پیشنٹ کا علاج کر کے خوش ہوجاتی ہے مگر آج کل ایک پیشنٹ کی وجہ سے خود بھی اچھا خاصا پریشان ہوکر رہ گئی ہے۔” ایان نے شفا کی عادت کا بتا کر پھر ایمان فاطمہ کا سارا قصہ لفظوں میں سنا ڈالا جس پر اذلان بھی ایک دم ایمان فاطمہ کے نام پر چونکتے ہوئے کچھ سوچنے لگا۔
“کیا کر سکتے ہیں یار تمہاری بھابھی ہے ہی بہت معصوم۔۔ دوسروں کے دکھ میں خود بھی دکھی ہو جاتی ہے۔۔” ایان نے بات کہ آخر میں شفا کی خلوص دل سے تعریف کی تھی۔
“ہمم۔م!یہ تو صحیح کہا تم نے۔”اذلان نے بھی ایان کی ہاں میں ہاں ملائی۔کیونکہ اسی نے تو ان دونوں کی شادی کروائی تھی۔ پھر تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اذلان فون ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
?????
“آنٹی! آپ نے یہاں ریلیکس ہو کر رہنا ہے۔۔ اسے بالکل اپنا ہی گھر سمجھنا ہے آپ نے۔۔” شفا گھر واپسی پر ایمان اور آمنہ بیگم کو اپنے ساتھ لے آئی تھی اب کمرے میں آنٹی کو ریسٹ کرنے کا کہنے لگی۔
“ایمان! آپ کو کچھ بھی چاہیے ہو تو مجھے کال کر لیجئے گا یا پھر بلاجھجھک گھر کے اندر آجایئے گا۔۔ آپ نے شرمانا بالکل نہیں ہے۔” ایمان فاطمہ شفا کو تشکرآمیز نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
“تھینک یو سو مچ ڈاکٹر شفا! آپ بہت اچھی ہیں ماشاءاللہ۔۔” ایمان نے شفا کا شکریہ ادا کرکے خلوص دل سے اسکی تعریف کی جس پر شفا آہستگی سے مسکرا دی۔
“میں اپنے آپ کو تب ہی اچھا سمجھوں گی۔۔ جب آپ مجھے بالکل اپنی بہن کی طرح ٹریٹ کریں گی۔۔اس گھر میں خود کو اجنبی نہیں سمجھیں گی تب جا کر مجھے کچھ کچھ احساس ہو گا۔” شفا نے ایمان سے دوستانہ لہجے میں بات کی اور آخر میں ہاتھ سے چٹکی بنا کر اشارہ کیا جس پر ایمان بے ساختہ ہنس دی۔
ایمان کے پرسکون چہرے کو دیکھ کر شفا کے دل کو سکون ملا تھا جو وہ کتنے دنوں سے نجانے کہاں کہاں تلاش کرتے ہوئے بھٹکتی پھر رہی تھی۔
اگر سچے دل سے کسی مصیبت ذدہ شخص کی مدد کی جائے تو اللہ تعالی ہمارے بیقرار دلوں کو اک ایسا انوکھا اطمینان بخشتے ہیں جس کا متبادل ہم پوری دنیا کی دولت بھی اکٹھی کر کے خریدنا چاہیں تو کبھی نہیں خرید سکتے۔
“اچھا! آپ لوگ آرام کریں آج کھانا میں بھجوا دوں گی۔۔ آپ لوگ تھک گئی ہوں گی۔” ایمان جو پہلے نہ کرنے والی تھی اس کی آنکھوں میں اسقدر اپنائیت کا احساس دیکھ کر خاموش ہو کر رہ گئی۔
ڈاکٹر شفا نے ایمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی اور دروازہ بند کر کے گھر کے اندر چلی گئی۔
“فاطمہ بیٹے! پانی تو پلانا ذرا۔” آمنہ بیگم کی آواز پر ایمان نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر موجود جگ میں سے پانی ڈالا اور پھر آمنہ بیگم کو تکیے کے سہارے بٹھا کر پانی پلانے لگی۔
?????
زینی موبائل ہاتھ میں لیے کتنی دیر سے مسلسل ماما اور بابا کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔ مگر فون کی بیل بج بج کر بند ہو جاتی مگر ابراہیم اور سارہ بیگم کی آواز اسے کسی طور سنائی نہ دی۔ اس نے تھک ہار کر موبائل بیڈ پر واپس پھینک دیا۔
“چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔!عاصمہ بیگم آپ کو بلا رہی ہیں۔”زینی جو اپنا سر ہاتھوں میں تھامے پریشان انداز سے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اچانک ملازمہ کی آواز پر چونک اٹھی۔
“ج۔ججی! میں آ رہی ہوں۔۔” زینی نے اپنی آنکھیں جلدی سے صاف کیں اور لاؤنج میں چلی آئی کیونکہ اس وقت سبھی وہاں موجود ہوتے تھے۔
“السلام علیکم آنٹی۔۔!” عاصمہ بیگم نے زینی کی اداس اور مغموم سی آواز سنی تو ایک دم اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ زینی کی سرخ آنکھیں اس کے رونے کی چغلی کھا رہیں تھیں۔
“عائشہ بھابی اپنے کمرے میں ہی ہیں۔؟”عائشہ بھابی کو یہاں موجود نہ پا کر اس نے سرسری انداز میں عاصمہ بیگم سے پوچھا۔
“ہاں۔۔ آحل کو سلانے گئی ہے۔۔وہ کب سے سونے کی ضد کر رہا تھا۔”عاصمہ بیگم اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نرم لہجے سے گویا ہوئیں۔
“آپ ٹھیک تو ہو نا بیٹے۔؟” عاصمہ بیگم نے زینی سے اس کی طبیعت کا پوچھا۔
“ج۔ جی آنٹی میں بالکل ٹھیک ہوں۔”زینی نے جلدی سے جواب دیا تو عاصمہ بیگم اسے کچھ دیر تک بغور دیکھتی رہیں تھیں۔
“بیٹے!زمل کی نند کی شادی ہے اور ہمیں ان کے ہر فنکشن میں جانا ہے۔۔ اس لیے میں چاہتی تھی کہ آپ شاپنگ کر لیں کیونکہ اذلان کے پاس اتنا بزی شیڈول ہوتا ہے اس کو تو آپ کو شاپنگ کروانے کا ٹائم نہیں ملنا۔۔”
“اور ویسے بھی وہ بہت کم مالز اور ریسٹورینٹس وغیرہ میں جاتا ہے کیونکہ اس کے سارے فینز وہاں اکٹھے ہو جاتے اور پھر اس کے لئے وہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔
اس لیے بیٹے اگر آپ خود شاپنگ کے لیے جانا چاہتی ہیں تو عائشہ کے ساتھ چکر لگا لینا اور شادی کی ساری شاپنگ کرلینا وہاں سے۔۔” ” یا پھر کسی پسندیدہ ڈیزائنر کا بتا دیں سارے کپڑے ڈیزائنر خود یہاں آ کر دے جائے گا۔۔” عاصمہ بیگم نے زینب کو ہمیشہ گھر میں ہی رہتے ہوئے دیکھا تو انہیں لگا اس طرح تو وہ بوریت کا شکار ہوجائے گی۔ اس لئے انہوں نے زینی کو شاپنگ کا کہا مگر زینی نے سہولت سے صاف انکار کر دیا۔
“نہیں آنٹی۔۔!ایکچوئلی مجھے شاپنگ کا کوئی خاص آئیڈیا نہیں ہے میری ماما ہی میری ساری شاپنگ کیا کرتی تھیں۔۔ جو وہ لاتی تھی میں بس پہن لیتی تھی آپ کو جو بھی مناسب لگے آپ وہ لے آیئے گا میں پہن لوں گی۔۔” زینب کو شاپنگ کا کوئی خاص کریز نہیں تھا اس لیے اس نے آنٹی کو صاف صاف منع کردیا۔
“خیر !چلو کوئی بات نہیں اگر کوئی کلر سلیکشن ہو تو مجھے بلا جھجھک بتا دینا بیٹے۔۔زمل تو شور ڈال دیتی تھی ذرا بھی کلر آگے پیچھے ہو جاتا تھا تو۔۔” عاصمہ بیگم نے اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے ہنس کر کہا تو وہ بھی زمل کی بات پر ہنسے بنا نہ رہ سکی۔
“جی ٹھیک ہے آنٹی۔۔” زینی نے کلر بتانے کی ہامی بھر لی۔
“اچھا ٹھیک ہے بیٹے۔۔ میں ذرا آپکے انکل کو دیکھ لوں انہیں کچھ چاہیے تو نہیں۔۔”عاصمہ بیگم سکندر شاہ کو دیکھنے کے لیے وہاں سے چل دیں کیونکہ اس ٹائم انہیں چائے کی طلب محسوس ہوتی تھی۔ اس لئے وہ اس وقت ہمیشہ ان کے آس پاس ہی موجود رہتی تھیں۔
زینی ان کے جانے کے بعد صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر وہیں بیٹھی بیٹھی کب سو گئی اسے پتا ہی نہ چلا۔
?????
“پریشے بیٹے! تم بھی خود سے کچھ پسند کرو۔۔ تمہاری شادی کی شاپنگ ہو رہی ہے اور پسند ہر چیز شیزا کر رہی ہے۔۔” ضامن بھائی آج شیزا بھابی اور پریشے کو شادی کی شاپنگ کروانے کے لئے لائے تھے۔
مگر پریشے ہر چیز پر “جو آپ کو پسند ہو” کی رٹ لگائے ہوئے تھی۔ اسی وجہ سے بھابی اپنی پسند کے جوڑے لے رہیں تھیں۔اس میں سے کتنی چیزیں تو وہ خود اپنے لیے بھی پسند کر چکی تھیں۔
شاپنگ کرنا انہیں بے حد پسند تھا اسی لئے آگے بڑھ چڑھ کر شاپنگ کر رہی تھی بالآخر تنگ آکر ضامن بھائی نے پریشے کی بھی پسند پوچھی۔
“بھائی! آپ کو پتا تو ہے مجھے ان سب چیزوں کا کوئی آئیڈیا نہیں ہے جو بھابی لے رہی ہیں وہ ٹھیک ہی ہوگا۔” شیزا بھابی پریشے کی اس بات پر کافی خوش ہو چکی تھیں۔ ضامن بھائی نے پریشے کی اس بات پر “اوکے”کہہ کر کندھے اچکا دیے۔
احد انکل اور عظمت پھوپھو نے کل ضامن بھائی کو فون کرکے انگیجمنٹ کا پوچھا تو ضامن بھائی نے نیکسٹ سنڈے کا کہہ دیا تھا۔
اس کے بعد سے وہ لوگ شاپنگ کر رہے تھے۔ حالانکہ احد صاحب اور عظمت بیگم نے سختی سے جہیز لینے سے منع کر دیا تھا۔ کیونکہ ان کے گھر میں ہر چیز موجود تھی۔
احد صاحب نے جس انداز سے منع کیا تھا ضامن بھائی کو ان کا وہ انداز ابھی تک نہیں بھولا تھا۔ وہ پریشے کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا:
“بیٹے! ہمارے گھر میں ہر چیز موجود ہے سوائے بیٹی کے۔۔ پریشے بیٹی یہاں آ کر اس کمی کو بھی پورا کرکے ہمارے گھر کو رونق سے بھر دے گی انشاءاللہ۔۔”
احد انکل کی اس بات پر ضامن بھائی نے جلد ہی شادی کا بھی سوچ لیا۔ اس لیے وہ ضروری شاپنگ کر رہے تھے کیونکہ منگنی کا ڈریس عظمت بیگم نے لانا تھا اس لیے وہ منگنی کی شاپنگ کی بجائے باقی فنکشنز اور شادی بیاہ کے بعد کی ضروری اشیاء کی شاپنگ کر رہے تھے۔
“بھابی اور کتنی دیر لگے گی۔۔؟”ضامن اور پریشے تھک چکے تھے مگر شیزا بھابی ابھی تک فریش نظر آ رہی تھیں۔
“تم ابھی سے تھک گئی ہو۔۔ ؟ابھی تو ہمیں لہنگا بھی پسند کرنا ہے۔” شیزا بھابی کے کہنے پر پریشے نے ضامن بھائی کی طرف دیکھا تو ضامن بھائی فورا سمجھ گئے کہ پریشے کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا شاپنگ کا اس لیے انہوں نے شیزا بھابی کو فورا روک دیا۔
“شیزا! وہ پھر کسی دن آ کر لے جائیں گے اب میں بھی تھک چکا ہوں۔” ضامن بھائی نے اپنا نام لے کر کہا کیونکہ اگر پریشے کا کہتے تو شیزا بھابی نے بالکل نہیں ماننا تھا۔
“ضامن! آج کھانا باہر نہ کھا لیں شاپنگ کر کر کے تھک چکے ہیں اب گھر جاکر کھانا نہیں بنایا جائے گا۔۔” شیزا بھابی جو شاپنگ کرتے وقت بالکل فریش لگ رہی تھیں۔اب اچانک کار میں آکر اپنی گردن دبانے لگی۔ ضامن بھائی نے”اوکے”کہہ کر کار ریسٹورینٹ کی طرف موڑ لی۔
پریشے اردگرد سے بے نیاز ونڈاسکرین کے پار باہر کے نظاروں میں کھو گئی۔ ریسٹورنٹ آیا تو بھابھی کے پکارنے پر وہ بھی ان کے ساتھ باہر چلی آئی اور پھر وہ تینوں ڈنر کیلئے ریسٹورنٹ میں آ گئے۔
?????
ضرار اس وقت صوفے پر بیٹھا اچانک کمرے کے اطراف میں سرسری انداز میں نگاہ دوڑانے لگا تو ایک پل کیلئے حیران رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہاں سامان کم نظر آ رہا تھا حیا کی تصویریں زیادہ نظر آ رہی تھیں۔
سب سے پہلے اس کی نگاہ بیڈ کی دیوار پر گئی جو چاکلیٹ کلر کی تھی مگر اس کے اوپر ہی حیا کی جائنٹ سائز فریم میں تصویر لگی ہوئی تھی جس میں وہ دونوں ہاتھوں کو کان سے لگائے اپنی زبان ہونٹ کی ایک سائیڈ سے نکالے پوز کر رہی تھی۔ یہ تصویر دیکھ کر ضرار کے ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ رینگ کر رہ گئی۔
“پاگل لڑکی۔۔” ضرار اس کی یہ تصویر دیکھ کر آہستگی سے بڑبڑایا۔
پھر سائیڈ ٹیبل پر دیکھا تو وہاں ایک سائیڈ ٹیبل پر حیا مریم کے گال کھینچ رہی تھی۔ اور دوسری سائیڈ ٹیبل پر موجود تصویر میں دیکھا تو حیا اپنے ماما بابا کے ساتھ بیٹھی کھل کر مسکرا رہی تھی۔
ڈریسنگ روم کی دیوار پر اس کی نظر گئی تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کیونکہ اس کی کوئی بھی تصویر اس کی سنجیدہ شکل کے ساتھ نہیں تھی۔ کہیں وہ اپنی ایک آنکھ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔ کہیں وہ لیٹی ہوئی پڑھ رہی تھی۔ کہیں وہ ابھی ابھی سو کر اٹھی تھی اس کے بال بری طرح الجھے اور بکھرے ہوئے لگ رہے تھے۔
” یہ تصویر بھلا کمرے میں لگانے والی ہے۔۔؟؟اسٹوپڈ لڑکی۔۔۔” ضرار اس کے الجھے بالوں والی تصویر پر پھر آہستہ آواز میں بڑابڑا کر رہ گیا۔
فرنٹ وال پر اس نے دیکھا تو کہیں حیا ریکٹ پکڑے ٹینس کھیل رہی تھی۔ کہیں حیا بیٹ بال پکڑے کرکٹر بنی ہوئی تھی۔ کسی ایک تصویر میں ٹرافی لے رہی تھی اس تصویر کے نیچے “مائی فرسٹ اسپیچ ٹرافی” لکھا ہوا تھا۔
اور نجانے کتنی ہی تصویریں تھیں جن میں وہ مریم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ہر جگہ اس نے کوئی نہ کوئی الٹا سیدھا پوز مار کر تصویر کو دلچسپ بنا دیا تھا۔
اچانک ضرار کی نگاہ ڈریسنگ ٹیبل والی دیوار پر گئی جہاں اس کی میڈیم سائز میں سفید سوٹ میں ایک تصویر تھی جہاں وہ کھڑی کچھ سوچ رہی تھی۔
اس تصویر میں اس نے اپنی انگشت شہادت ہونٹ کے ایک کونے پر رکھی ہوئی تھی۔ اس تصویر کو شاید اچانک کسی نے کیپچر کر کے اس مومنٹ کو کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا۔ اس تصویر میں بھلے ہی کوئی خاص پوز نظر نہیں آرہا تھا لیکن یہ تصویر سیدھا ضرار کے دل پر جا لگی تھی۔
اس نے بے اختیار ہی اپنا موبائل نکال کر اس تصویر کو اپنے فون میں کیپچر کرلیا۔ کیپچر کرنے کے بعد اسے کچھ اچھا نہ لگا تو فورا اسے ڈیلیٹ کرنے لگا۔ مگر کال بیل کی آواز پر وہ اسکرین کو بغور دیکھنے لگا جس پر “اذلان چاچو” کالنگ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔
“ااسلام علیکم چاچو۔!” ضرار نے کال ریسیو کرتے ہی اذلان کو سلام کیا۔
“وعلیکم السلام! ضرار آج تمہاری کار پارکنگ میں نہیں ہے۔۔ کہاں ہو تم ۔۔خیریت تو ہے نا۔؟ تم تو اس ٹائم ہمیشہ گھر پر ہی ہوتے ہو۔۔”
وہی ہوا تھا جس کا ڈر تھا دل اذلان کو شک ہو گیا تھا اس لیے آفس سے واپسی پر اپنی گاڑی پارک کرتے ہی اذلان نے ضرار کو کال ملا دی۔
“جی چاچو! ایک دوست کی برتھ ڈے پارٹی تھی اس لیے ابھی تک وہیں ہوں تھوڑی دیر میں نکلتا ہوں۔۔” ضرار نے پارٹی کا بتا دیا کیونکہ اذلان سے تو کیا وہ کسی سے بھی جھوٹ نہیں بول پاتا تھا۔
“پارٹی اور تم۔؟ ضرار کیا تم نے وہی کہا نا جو میں سن رہا ہوں۔” اذلان چلتے چلتے رک گیا کیونکہ پارٹی کا سن کر اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا تھا۔کیونکہ ضرار ہمیشہ ہر قسم کی پارٹی سے کوسوں دور ہی رہتا تھا۔
“جی چاچو! میں بس تھوڑی دیر میں نکلتا ہوں۔۔ یہ روشان مجھے زبردستی ساتھ لے آیا ہے۔” ضرار نے ہچکچاتے ہوئے کہا جس پر اذلان کی مسکراہٹ سے بھرپور آواز فون کے اسپیکر میں گونج اٹھی۔
“کوئی بات نہیں۔۔ تم انجوائے کرو بس اپنا خیال رکھنا۔۔ اللہ حافظ۔۔” اذلان نے اسے شرمندہ ہوتے دیکھا تو فورا شرمندگی سے باہر نکالا اور انجوائے کرنے کا کہہ کر فون ڈسکنیکٹ کر دیا اور پھر اپنے قدم اندر کی جانب بڑھا دیے۔
ٹی وی لاؤنج کے فرنٹ صوفے خالی دیکھ کر وہ اوپری فلور پر جانے لگا۔ اسے لگا شاید اسوقت سب آرام کر رہے ہیں تبھی اس کی نگاہ بےاختیار ایک کارنر سائیڈ صوفے پر سکڑی ،سمٹی سی لیٹی ہوئی زینی پر گئی جس کو دیکھ کر اس کے بڑھتے قدم اچانک وہیں رک گئے تھے۔
?????
ضرار اذلان کا فون بند ہوتے دیکھ کر ابھی حیا کی تصویر ڈیلیٹ کرنے ہی لگا تھا کہ تبھی دروازہ زور سے ناک ہونے کی آواز پر وہ ایک پل کے لئے گڑبڑا کر رہ گیا جیسے کسی نے اس کو رنگے ہاتھوں چوری کرتے پکڑ لیا ہو۔۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد اس نے خود کو پرسکون کرکے دروازہ کھولا اور ہاتھ بڑھا کر حیا سے شرٹ لے لی۔
“آپکو تو ایک شرٹ تک پریس کرنا نہیں آتی۔۔ پتا نہیں کیسے پیلے پیلے داغ ڈال دیے ہیں ۔۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ شرٹ آئرن اسٹینڈ پر نہیں بلکہ زمین پر رکھ کر آئرن کی گئی ہو ۔۔”ضرار نے شرٹ پہن کر کمرے سے باہر آتے ہی حیا سے سخت لہجے میں بات کی۔
حیا کو اس کے اکھڑ لہجے پر شدید غصہ آ گیا اور پھر وہ شروع ہو چکی تھی۔
“کیا کہا تم نے۔؟ایک تو میں نے اپنی بہن کی سرپرائز برتھ ڈے پارٹی تمہاری وجہ سے ساری مس کر دی۔۔ اس دن کے لیے میں کتنے دن سے تیاری کر رہی تھی اور تم نے سارے دن کا ستیاناس مار کر رکھ دیا۔۔”حیا نے بھی سخت لہجے میں اسے باتیں سنائیں تو ضرار کو بھی اس کے اسقدر بدتمیز انداز پر فورا غصہ آ گیا۔
“تو کیا میں نے آپ سے کہا تھا اس ڈفر کے پیچھے بھاگنے کے لئے۔” ضرار نے اپنی بات میں ریحان کو بھی گھسیٹا تھا۔
“بھاگ رہی تھی تو کیا۔؟میں تمہاری طرح سڑی ہوئی شکل لے کر ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتی۔۔ جب دیکھو تمہارے چہرے پر ایک ہی ایکسپریشن ہوتا ہے وہ بھی صرف سڑا ہوا۔۔” حیا نے منہ بگاڑتے ہوئے اس کے سنجیدہ چہرے کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا جس پر ضرار کو اندر تک آگ لگ گئی تھی۔
“آپ کو کبھی کسی نے بتایا نہیں۔؟آپ کس قدر بدتمیز ہیں اور کسی سے بات تک کرنے کی سینس نہیں ہے آپ میں۔۔” ضرار بھی اب غصے میں آکر کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا۔ جس پر حیا کا تذلیل اور اہانت کے مارے چہرہ ازحد سرخ پڑ گیا تھا۔
تبھی حیا کی اگلی بات پر ضرار کا رنگ ایکدم لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔
“تمہیں تمہاری ماما نے کبھی نہیں بتایا کہ تم کس قدر بدتمیز، اکھڑ مزاج،بد دماغ، کھڑوس اور سڑی ہوئی شکل کے مالک ہو۔۔۔؟”حیا نے ایک ساتھ اسے کئی خطاب دے ڈالے تھے مگر وہ اپنے غصے میں ضرار کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتے دیکھ نہ پائی ورنہ اپنی پہلی بات پر ہی اس کے چہرے کے تیزی سے بگڑتے تاثرات دیکھ کر فورا چپ ہو جاتی۔
“شٹ اپ حیا۔۔ جسٹ شٹ اپ۔۔
never cross your limits again Haya.. this is my last warning to you..mind it.”
ضرار کے اس قدر سخت اور کٹیلے لہجے پر حیا ایکدم ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹ کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
ضرار نے وارننگ کے انداز میں اسے ہاتھ سے اشارہ کیا تو حیا اس کے اس قدر سخت لہجے پر ایک پل کے لئے ساکت رہ گئی تھی۔
لفظ”ماما”ضرار کے ذہن پر بار بار ہتھوڑے کی مانند کاری ضربیں لگا رہا تھا۔
اس کی نیلی آنکھوں میں بڑھتی سرخی اس وقت کسی کو بھی تہس نہس کرنے کیلئے کافی تھی۔ وہ اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچے ضبط کی آخری حد پر کھڑا اسے ہی غصے سے گھور رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ حیا کی آنکھوں سے موتیوں کی مانند گرتے آنسوؤں پر گئی جس کو وہ دیوار کے ساتھ لگی سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے تیزی سے اپنی بائیں ہاتھ کی پشت سے صاف کر چکی تھی۔