
?ناول
?محبت سے خدا تک کا سفر
?تحریر
?مہوش صدیق
اذلان کو اسوقت صوفیہ کے سفید جھوٹ پر شدید غصہ آ رہا تھا مگر اسے صوفیہ سے زیادہ زینب پر غصہ آ رہا تھا جس نے بنا سوچے سمجھے صوفیہ کی کہی بات پر یقین کر کے اس کے کردار کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا تھا۔
“آپ کی حرکتیں تو پہلے سے ہی بچگانہ تھیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بد دماغ بھی ہیں اس چیز کا اندازہ مجھے آج ہو رہا ہے۔۔” اذلان نے زینب کو طنزیہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا جو اس وقت سر جھکائے آنسؤوں سمیت رونے میں مشغول نظر آ رہی تھی۔
“بہت شدت سے محبت کرتی ہیں آپ مجھ سے۔۔۔۔ یہی کہا تھا نا آپ نے اس ویڈیو میں۔۔۔؟؟؟”اذلان کی طنزیہ آواز پر زینب کی بھیگی پلکیں چند پلوں کیلئے جھپکنا بھول گئیں۔
“تو یہ ہے آپ کی وہ سو کالڈ محبت۔۔؟؟ آں۔۔۔۔۔ایکچوئلی نہیں۔۔۔ شدت والی محبت۔۔۔” اذلان نے استہزائیہ انداز میں نفی میں سر جھٹکتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا تھا۔
اذلان کا کہا ایک ایک لفظ زینب کی روح تک کو چھلنی کر رہا تھا۔اس کا تیر برساتا لہجہ سن کر زینب تڑپتے ہوئے اسے یک ٹک نگاہوں سے دیکھنے لگی جو اس کی پرخلوص، بے غرض محبت ،اور بے پناہ چاہتوں کو ایک بھونڈے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں سمجھ رہا تھا۔
“مس زینب۔۔!! آپ کو “محبت” لفظ کے معنی تک کا صحیح سے علم نہیں ۔۔اور اس ویڈیو میں دعوے آپ ایسے کر رہیں تھیں جیسے اس پوری دنیا کی محبت صرف اور صرف آپ کی ذات میں ہی سما گئی ہے۔۔”اذلان زینب کی تیزی سے بکھرتی حالت سے بے نیاز مسلسل غصیلے لہجے میں ہی بولے جا رہا تھا جبکہ دوسری طرف زینب کے لب تو ایسے محسوس ہو رہے تھے جیسے آپس میں سل کر رہ گئے ہوں۔اور آنکھیں لبالب پانیوں سے بھر کر ڈبڈبا گئیں تھیں۔
” میں نے تو پہلے ہی ماما اور بابا دونوں سے ہی کہا تھا۔۔ یہ سب ان کی صرف بچگانہ سوچ اور وقتی پسندیدگی ہو سکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔ مگر پتا نہیں انہیں آپ کی آنکھوں میں ایسی کیا سچائی نظر آئی جو انہوں نے سرے سے ہی میری بات نہیں مانی۔۔”زینب کی ان چند سیکنڈز کی مشکوک نگاہوں نے اذلان کے اندر اک ایسی آگ سلگا دی تھی جس کے شعلوں میں وہ خود تو جل ہی رہا تھا مگر اپنے ساتھ ساتھ وہ زینب کے بے آواز روتے ہلکان وجود کو بھی جلا کر بھسم کر رہا تھا۔۔۔۔
اذلان کی اتنی کڑوی،کسیلی، طنزیہ باتوں کے جواب میں وہ زبان سے کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی۔ ہر وقت اذلان۔۔اذلان کی محبت کا راگ الاپنے والی لڑکی آج اپنی محبت کی دلیل بھی صحیح سے نہیں دے پا رہی تھی۔۔۔۔
“محبت کی پہلی سیڑھی اس شخص پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔۔”زینب کو سر جھکائے دبی دبی سسکیوں سمیت بے آواز روتے ہوئے دیکھ کر اذلان کا لہجہ تو پہلے کی نسبت تھوڑا نرم پڑ گیا تھا مگر اس کی سختی سے بھینچی مٹھیاں اور اوپر کو ابھری نسیں اس کے اندر کا اضطراب واضح شو کر رہیں تھیں۔
” آپ تو محبت کی پہلی آزمائش میں ہی منہ کے بل گر چکی ہیں۔۔باقی سب تو۔۔”اذلان ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ زینب بے پھر سے بولتے ہوئے اس کی بات کو پورا ہونے سے پہلے ہی کاٹ دیا۔۔۔
“آآپ۔پ۔۔۔ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں مجھے تو صوفیہ نے کہا تھا کہ آپ۔۔۔”زینی نے پرنم لہجے سمیت اپنی بات کی وضاحت دینا چاہی تھی مگر اذلان نے سخت لہجے میں فورا اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔
“ڈیم اٹ۔۔!! صوفیہ آپ سے کنویں میں گرنے کا کہے گی تو آپ بنا سوچے سمجھے اس کی بات مان لیں گی۔۔؟؟ کیا آپ کے پاس استعمال کرنے کیلئے اپنا کوئی دماغ نہیں ہے۔۔؟؟؟؟؟” اذلان زینی کے منہ سے صوفیہ کی رٹ سن سن کر تھک چکا تھا اس لئے پھر سے اس کے قریب آ کر اسے بازؤوں سے تھامتے ہوئے سخت لہجے میں گویا ہونے لگ گیا۔ اس کی قربت اور سانسوں کی تپش سے زینی کو اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا تو وہ شرمندگی کے مارے فورا اپنی نظریں جھکا گئی تھی۔
اذلان کی آنکھوں میں بڑھتی سرخ لکیریں اور اضطراب کی ڈوریں دیکھ کر اب تو اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ صوفیہ نے یہ سب اس کے اور اذلان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے ہی کہا تھا۔
“ایم سوری۔۔!!” زینی نے اب ازحد شرمندگی کے مارے بنا سر اٹھائے اس سے نادم لہجے میں معذرت کی تھی کیونکہ اب اسے خود کے اس بچگانہ رویے پر بہت زیادہ افسوس ہو رہا تھا۔
“don’t say like that۔۔
اور رہی بات شادی کی اس کے لیے مجھے جو کرنا ہو گا وہ میں کر لوں گا۔۔ اس سب کے لیے مجھے آپ کے کسی مشورے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔۔”بات کرتے ہوئے اذلان کی آنکھیں اسوقت شعلے اگل رہیں تھیں۔
“لاسٹ ٹائم وارن کر رہا ہوں آپ کو۔۔ آئندہ میرے پرسنل میٹرز سے ہمیشہ دور ہی رہیے گا۔۔۔۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔ ” اذلان نے اسے انگشت شہادت اٹھا کر وارن کرنے کے انداز سے اپنے معاملات سے دور رہنے کا کہا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا فورا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینی بے جان قدموں سے کتنی دیر وہیں کھڑی اسے خود سے دور جاتا ہوا دیکھ رہی تھی یہاں تک کہ وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ اس میں اب ہلنے تک کی بھی سکت نہ رہی تھی۔اس کو اپنا پورا وجود کسی مٹھی بھر خاک کی طرح لگ رہا تھا جو کسی بھی وقت زمین میں مل کر اس کو بھی خاکستر کر دینے والا تھا۔
“کیا سچ میں اذلان کو میری محبت صرف ایک وقتی پسندیدگی لگتی ہے۔۔؟؟”زینی کے دل سے اک آواز سوال بن کر ابھری۔
اس کے ذہن کے پردے پر ماضی عکس بن کر لہرانے لگا تھا جس کو سوچتی ہوئی وہ پاس ہی موجود بینچ پر جا کر شکستہ انداز میں بیٹھ گئی تھی۔
“اٹھ بھی جاؤ زینی۔۔!!یونیورسٹی نہیں جانا کیا۔۔؟؟” سارہ بیگم نے زینی کو ابھی تک گہری نیند میں سوتے ہوئے پایا تو اس کے کمرے کے پردے کھڑکیوں سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ اسے باقاعدہ آواز دے کر مخاطب کرنے لگیں۔۔۔
“ااہمم۔۔۔۔ماما آج نہیں جانا۔۔ آج تو Friday ہے۔۔آج کے دن تو ہاف ڈے ہوتا ہے۔۔”زینی نے نیند میں ڈوبی خمارآلود آواز میں سارہ بیگم کو جواب دیا جو اب باقاعدہ اس کے چہرے سے کمفرٹر اتارنے کی کوشش کر رہیں تھیں۔۔۔۔
“نہیں بیٹے۔۔ آج تو Saturday ہے Friday نہیں۔۔۔جلدی اٹھو۔۔ پرسوں تم کہہ رہی تھی ہفتے کے دن تمہارا ٹیسٹ ہے۔۔اس دن لازمی جانا ہے۔۔” سارہ بیگم نے Saturday کا لفظ ابھی کہا ہی تھا کہ زینی فورا تکیے سے سر اٹھ کر اسٹڈی ٹیبل پر موجود کیلینڈر کو اپنی مندی مندی آنکھیں کھولے غور سے دیکھنے لگی تھی۔آج کی تاریخ پر ہفتے کا دن لکھا دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت کے مارے کچھ پلوں کیلئے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں۔
“ماما۔۔!!یہ ولی کہاں ہیں اس وقت۔۔؟؟” زینی نے ہاتھ میں تھامے کیلینڈر کو واپس ٹیبل پر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے پر لہجے میں پوچھا۔
“وہ تو بھی ابھی تک سو رہا ہے۔۔ تم لوگ رات کو کافی لیٹ آئے تھے نا۔۔۔ اسی لئے نا تمہاری آنکھ کھل رہی ہے اور نہ ہی ابھی تک وہ اٹھا ہے۔۔”
” تم ریڈی ہو جاؤ۔۔ میں تب تک اسے بھی اٹھاتی ہوں۔۔پھر وہ اپنے آفس جاتے ہوئے تمہیں بھی یونیورسٹی ڈراپ کر دے گا۔۔”زینی کے چہرے کے یکلخت بدلتے تاثرات سارہ بیگم محسوس نہیں کر پائیں کیونکہ وہ اسوقت زینی کا کمفرٹر طے کر کے واپس الماری میں رکھ رہیں تھیں۔
سارہ بیگم کے سرسری انداز میں جواب دینے پر زینی بنا اپنا منہ ہاتھ دھوئے فورا ولید کے کمرے میں چلی گئی تھی۔
“ولی۔ی۔ی ۔۔!زینی کی اواز دھیمی چیخ سے مشابہہ لگ رہی تھی۔
” تم۔۔تم نے جان بوجھ کر مجھے کل ڈنر کی آفر کی تھی نا۔۔؟؟ اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ آج Thursday ہے تم بور ہو رہے ہو کہیں باہر گھومنے چلتے ہیں۔۔ یہ سب تم نے جان بوجھ کر کہا تھا نا۔۔۔؟؟” زینی نے کمرے کے اندر آتے ہی صوفے سے کشن اٹھا کر سیدھا ولی کے منہ پر دے مارا تھا جو ابھی ابھی الارم کی آواز پر اٹھ کراسے آف کرنے کے بعد سیدھا بیٹھ ہی رہا تھا۔
کہ اپنے کمرے میں اچانک زینی کی غصیلی آواز گونجنے پر وہ بمشکل خود کو اس اچانک حملے سے بچا کر کشن کیچ کرتے ہوئے بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگ گیا تھا جس پر زینی کو مزید تپ چڑھ چکی تھی۔
“اس کا مطلب تم نے سچ میں جان بوجھ کر یہ سب کیا۔۔”اس کا جاندار قہقہہ سن کر زینی کو آگ لگ گئی تھی جس پر اس نے آگے بڑھتے ہوئے کمرے میں موجود صوفوں کے سارے کے سارے کشنز ایک ایک اٹھا کر اس پر پھینکنا شروع کر دیے تھے جن کو وہ ہنستے ہوئے باقاعدہ کیچ کر رہا تھا۔
“تمہیں میں نے بتایا بھی تھا کہ آج کے دن اذلان کا ایوارڈ شو ہے اور تم ارادتا اس ٹائم ہی مجھے غلط دن کا بتا کر باہر لے گئے۔۔ اور میرا پورا ایوارڈ شو مس کروا دیا۔۔”زینی کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔
” تم اچھی طرح جانتے تھے۔۔میں اتنے دنوں سے اس دن کا ویٹ کر رہی تھی اور تم نے میرا سارا پلان خراب کر دیا۔۔” زینی اب اسے باقاعدہ گھوری سے نوازتی مسلسل غصیلے لہجے میں بولتی اپنی ساری بھڑاس نکال رہی تھی۔
“تو اور کیا کرتا۔۔۔ جب دیکھو اذلان۔۔۔اذلان۔۔اذلان۔۔میرے کان پک چکے ہیں تمہارے منہ سے اس اذلان شاہ کا نام سن سن کر۔۔”ولی نے زینی کا پھینکا ہوا آخری کشن واپس بیڈ پر پھینکتے ہوئے بیزار لہجے سے کہا۔
“اس کے سوا تمہیں کوئی اور نام نہیں آتا کیا۔۔؟؟”ولید کو زینی کے منہ سے بات بے بات اذلان کا نام سننے پر شدید کوفت ہونے لگی تھی اس لیے اس نے جان بوجھ کر اسے چڑانے کیلئے یہ سب ڈرامہ رچایا تھا۔
“اتنی بڑی شوبز انڈسٹری ہے۔۔اس اذلان میں پتا نہیں ایسی کیا بات ہے جو تم ہر وقت میرے سامنے اس کا نام لے لے کر ہمیشہ میرا دماغ خراب کرتی رہتی ہو۔۔” ولی نے بگڑے ہوئے تاثرات سمیت اذلان کا نام منہ بسورنے کے انداز سے لیا تھا جس پر زینی نے عدم برداشت کی ہر حد پار کرتے ہوئے اس کے پاس آکر اس کے بازو پر باقاعدہ دھموکا جڑ دیا تھا۔۔
زینی کے اس اچانک وار پر وہ قہقہہ لگا کر اپنا بازو سہلاتے ہوئے اس کے باقی حملوں سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ اس وقت زینی کافی غصے میں دکھائی دے رہی تھی۔
“تم دیکھنا اب میں۔۔” زینی ابھی اسے گھورتے ہوئے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اتنے میں اچانک ان دونوں کو سارہ بیگم کی آواز کمرے کے باہر سے سنائی دی۔
“تم دونوں ابھی تک یہیں کھڑے باتیں کر رہے ہو۔۔ریڈی نہیں ہونا کیا۔۔۔؟؟ سارہ بیگم نے ان دونوں کو کمرے کے وسط میں یونہی کھڑے دیکھا تو جلد بازی میں کہتے ہوئے فورا ناشتہ بنانے چلی گئی وگرنہ اگر وہ کچھ دیر وہاں رک کر کمرے کی ابتر ہوتی حالت پر ایک نگاہ دوڑا لیتیں تو انکی آنکھیں یقینا اس منظر پر کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔
سارہ بیگم کے جانے کے بعد زینی نے اپنا رخ موڑ کر واپس دیکھا تو ولی زیرلب مسکراتے ہوئے فورا موقع پا کر چپکے سے واش روم میں گھس گیا۔زینی اس کو وہاں سے غائب پا کر غصے سے پیر پٹخنے کے انداز میں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔
“میرا سارا ایوارڈ شو مس کروا دیا۔۔ ابھی تو انٹرنیٹ پر بھی چھوٹے چھوٹے کلپس ہی دیکھنے کو ملیں گے۔۔ پتا نہیں اب اس ایوارڈ شو کا رپیٹ ٹیلی کاسٹ کب چلے گا۔۔۔” زینی یونیورسٹی کیلئے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ منہ ہی منہ میں مسلسل بڑبڑائے جا رہی تھی۔۔
“یار زینی۔۔!!پچھلے دو دنوں سے وہ تمہاری دوست پریشے کیوں نہیں آ رہی۔۔۔؟؟؟” ولید نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے اچانک زینی کو مخاطب کیا تھا جو اس وقت اپنا منہ پھلائے اسے یکسر اگنور کرتے ہوئے ونڈ اسکرین کے پار دیکھنے میں محو نظر رہی تھی۔
“سب خیریت تو ہے نا۔۔۔ تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔؟؟”زینی اس کے لبوں سے پریشے کا نام سن کر ایک ابرو اوپر اچکائے باقاعدہ گھومتے ہوئے اپنا رخ فورا اس کی طرف موڑ چکی تھی۔
“ن۔نن۔ نہیں۔۔ میں تو بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔” ولی اس کی سوالیہ نگاہوں سے سٹپٹاتے ہوئے گڑبڑا کر رہ گیا تھا۔ اس کی ہڑبڑاہٹ پر زینی بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس دی تھی۔
کیونکہ وہ اپنے جذبات چھپانے کے لئے کنفیوز انداز میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔۔۔
“ولی۔۔!! تم نا اسے زیادہ ٹیز نہ کیا کرو۔۔ وہ بیچاری تو پہلے ہی اتنا ڈری ،سہمی سی رہتی اور اوپر سے تمہاری نظروں سے اور زیادہ کنفیوز ہو جاتی ہے۔۔”زینی نے اب تھوڑا ہنستے ہوئے پریشے کے بارے میں بات شروع کر دی تھی کیونکہ پریشے کے نام پر اس کا بگڑا موڈ فورا فریش ہو چکا تھا۔
“میری نظروں سے۔۔؟؟” ولید نے اب روڈ پر یوٹرن لیتے ہوئے اسے دلچسپ نگاہوں سے پوچھا۔اسے پریشے کے بارے میں بات کرنا اچھا لگ رہا تھا اس لئے جان بوجھ کر بات کو طول دے دی۔
“تو اور کیا۔۔کل مجھے فون پر کہہ رہی تھی یار وہ تمہارا کزن جب میری طرف دیکھتا ہے نا میری تو ڈر کے مارے سیٹی ہی گم ہو جاتی ہے۔۔”زینی نے ہنستے ہوئے پریشے کی بابت ولی کو بتائی تھی جس پر ولید بھی بےساختہ خود کو فلک شگاف قہقہہ لگانے سے روک نہیں پایا تھا۔
ولید کا دل بےاختیار ہی پریشے کے نام پر خوشگوار انداز میں دھڑکنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
“کیوں میں اتنا ڈراؤنا لگتا ہوں اسے۔۔؟؟ جو اس کی ڈر کے مارے سیٹی ہی گم ہو جاتی ہے۔۔۔” پریشے کی بات پر ولید کے ذہن کے پردے پر اس کا معصوم سراپا عکس بن کر لہرانے لگا جس کو سوچتے ہوئے اس کے لبوں پر معنی خیز، دھیمی مسکراہٹ رینگ کر رہ گئی جس پر اب کی بار اس نے قابو پانے کی ادنی سی بھی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔
“اس بیچاری نے ڈرنا ہی ہے تم سے۔۔کیا تمہیں اپنی اور اس کی پہلی ملاقات یاد نہیں ۔۔؟؟” زینی نے فورا ولید کو اس کی اور پریشے کی پہلی ملاقات کی نشاندہی کروا دی جسے یاد کر کے وہ دونوں تالی کے انداز میں ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے فلک شگاف قہقہہ لگا کر ہنس دیے تھے۔
ان دونوں کے ذہن کے پردے پر ایک ساتھ ہی وہ لمحہ عکس بن کر لہرانے لگا اور وہ دونوں ہی اسی منظر میں کہیں نہ کہیں کھو کر رہ گئے۔
“ولی۔۔!!اب تمہیں اچھے سے پتا چل گیا تھا کہ میں جیتنے والی ہوں اور تم نے اسے الٹا کر ساری گیم خراب کر دی۔۔”زینی ابھی تک غیریقین انداز سے ٹیبل پر موجود بکھری چیس کی ٹوکنز کو ہی ساکت نگاہوں سے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
“کوئی بھی نہیں جیت رہا تھا میڈم۔۔یہ گیم کھیلتے کھیلتے میں بور ہو گیا تھا بس اسی لئے خراب کر دی۔۔” ولید نے صاف مکرتے ہوئے بوریت کا بہانہ گھڑ دیا حالانکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کچھ ہی دیر میں وہ زینی سے بری طرح ہارنے والا ہے اس لیے اس نے جان بوجھ کر گیم کو پلٹتے ہوئے اسے خراب کر دیا۔
“اتنی دیر سے ہم کھیل رہے تھے۔۔!! جب میں جیت کے قریب ہی تھی اور تم نے فوراً ہی گیم خراب کر دی۔۔”
زینی نے اپنی عادت کے عین مطابق غصے میں آتے ہوئے ٹی وی لاؤنج کے صوفے سے اٹھتے ہوئے کشن اٹھا کر ولید کی طرف پھینک دیا مگر نشانہ چوک جانے کی وجہ سے ٹیبل پر موجود ساری چیزیں اپنے ڈبے سمیت نیچے گر کر پورے لاؤنج میں بکھر گئیں تھی۔
“آآہ۔ہ۔ہ۔۔۔”ولید نے ساری چیزیں نیچے گرتے دیکھ کر لاؤنج کے دروازے سے باہر جاتی زینب کو زور سے کشن دے مارا تھا لیکن وہ سیدھا زینی کو لگنے کی بجائے اندر آتی پریشے کے سر پر جا لگا تھا۔
اس اچانک افتاد پر وہ کچھ نظر نہ آنے کے باعث خود کو سنبھال نہ سکی اور نیچے زمین پر گرتی چلی گئی۔ کیونکہ زینی ولی کا ارادہ بھانپتے ہوئے فورا ایک سائیڈ پر جھک گئی تھی لیکن اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ پریشے عین اسی وقت لاؤنج کے دروازے میں سے اندر داخل ہو رہی ہے۔
“ایم سوری۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔مجھے نہیں پتا تھا آپ۔۔۔۔” ولید نے اچانک غیر مانوس نسوانی چیخ نما آواز سنی تو فورا تیز قدموں سے چلتے ہوئے پریشے کے پاس آ کر تفکرآمیز لہجے سے پوچھا جو اسوقت اپنا دوپٹہ گھبراہٹ نما انداز میں پھر سے سیٹ کر کے زمین سے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
“ولی۔۔!! تم نے پریشے کو اتنی زور سے مارا کہ وہ بیچاری نیچے ہی گر گئی۔۔” زینی نے ولید کو مصنوعی غصے سے گھورتے ہوئے زور سے چپت لگائی اور ساتھ ہی ساتھ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے پریشے کو بھی زمین سے اٹھنے میں مدد دی۔
“میں تو تمہیں مار رہا تھا۔۔ مجھے نہیں پتا تھا یہ محترمہ سامنے آجائیں گی۔۔ یہ تو ایک کشن لگنے سے ہی زمین بوس ہو گئیں۔۔” ولی نے اب باقاعدہ پریشے کو ایک نظر سرتاپا دیکھتے ہوئے دھیمی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا تھا جو اس وقت نروسنیس کا شکار ہوتی بار بار اپنا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔
ولید کی بات سن کر پریشے کی آنکھوں میں فورا نمی در آئی اسے لگا وہ جان بوجھ کر اس کے گرنے کا مذاق اڑا رہا ہے۔ وہ اسے پرنم شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بنا کچھ کہے الٹے قدموں فوراً ہی وہاں سے چلی گئی تھی۔
“پریشے۔۔؟؟پریشے۔۔یار بات تو سنو۔۔۔۔!!”زینی بھی ولید کو ایک سخت گھوری سے نواز کر اسے اپنے ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے پریشے کو آوازیں دیتی فورا اس کے پیچھے چلی گئی کیونکہ وہ زینی کے بار بار اصرار کرنے پر ہی آج اپنے ضامن بھائی سے اسپیشلی اجازت لے کر کمبائن اسٹڈی کے لئے اس کے گھر آئی تھی وگرنہ وہ بچپن سے لیکر آج تک اپنی کسی دوست کے گھر نہیں گئی تھی اور یہاں پہلی بار آنے پر ہی اس کا مذاق بن گیا تھا۔
ولید اس کی بیگھی،پرنم نگاہوں کے حصار میں خود کو جکڑتا ہوا محسوس کر کے نجانے کتنی ہی دیر وہیں کا وہیں بت بنا کھڑا رہ گیا۔
“چلو آؤ۔۔ میں تمہیں اندر تک چھوڑ دوں۔۔؟؟” ولی کار کو لاک کرنے کے بعد سرسری انداز میں کہتا کیز اپنے ہاتھ میں گھماتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جس پر زینی کے بڑھتے قدموں کو فورا بریک لگ گئی تھی۔
“ہرگز نہیں۔۔ میں خود چلی جاؤں گی۔۔”زینی نے فورا اپنا بیگ دوسرے کندھے پر لٹکاتے ہوئےسنجیدگی سے بھرپور لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیوں۔۔؟؟”اس کے صاف انکار پر ولید اپنی حیرت پر قابو نہ رکب پایا۔
” آج ولید صاحب تمہیں اس بات کی سزا ملے گی جو تم نے میرے ساتھ کیا ہے نا میں ہرگز نہیں بولنے والی۔۔اس لئے تم یہاں سے سیدھا آفس ہی جاؤ۔۔”
” آج تمہیں پریشے کسی صورت میں یہاں نہیں دکھے گی۔۔ میں نے اسے صبح ہی میسج کر دیا تھا کہ آج میں اسے سیدھا لائبریری میں ہی ملوں گی۔۔۔۔” زینی نے مزہ لیتے ہوئے فورا اپنا بدلہ اتار لیا جس پر ولید ہونق پن کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بنا پلکیں جھپکائے اسے ہی حق دق نگاہوں سے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔
زینی کو ولید کے آثار دیکھ کر اچھے سے اندازہ ہو چکا تھا کہ ہر روز ڈرائیور کی گھر پر موجودگی کے باوجود ولید نے اسے ڈراپ کرنے کی ذمہ داری اپنے سر کیوں لے رکھی ہے۔۔ہر روز وہ یہاں آ کر پریشے کو ایک نظر دیکھتا اور پھر تھوڑی دیر ان کے پاس رک کر وہاں سے چلا جاتا تھا مگر آج زینی نے جان بوجھ کر ایوارڈ شو مس کروانے کا اپنا بدلہ اتارتے ہوئے اسے خوب مزہ چکھایا تھا۔
زینی کافی دیر پہلے ہی ان دونوں کے دلی جذبات سے اچھی طرح واقف ہو چکی تھی مگر اس نے ولید یا پریشے ان دونوں کے سامنے پہلے کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔
پریشے بھلے ہی ولید کے سامنے ہمیشہ چپ ہی سادھے رکھتی تھی لیکن پھر بھی زینی اس کی نگاہوں میں ولی کے لیے پسندیدگی اچھے سے دیکھ چکی تھی۔
اور ویسے بھی عموما دیکھا گیا ہے زمانے کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والی لڑکیاں نا تو محبت کرنے میں جلدی کرتی ہیں اور نا ہی اس کا اظہار کرنے میں۔
اور ولی اس کے تو ہر ایک انداز سے پریشے کے لئے واضح محبت جھلکتی تھی۔
“یار زینی۔۔۔!! تم نا حد سے زیادہ بدتمیز اور بدتہذیب لڑکی ہو۔۔اور ” ولی نے اب منہ بسورتے ہوئے اس کو کوسنا شروع ہی کیا تھا جس پر زینی اسے منہ چڑانے کے بعد قہقہہ لگا کر ہنستی ہوئی فورا وہاں سے چلی گئی۔
زینی کو یونیورسٹی کا گیٹ کراس کرتے دیکھ ولی آہستگی سے مسکرا کر نفی میں سر جھٹکتا ہوا اپنے آفس چلا گیا تھا۔
اور پھر زینی ہنستے ہوئے لائبریری میں آ گئی جہاں پریشے پہلے سے ہی کھڑی اس کا ویٹ کر رہی تھی کیونکہ آج ان کا ایک امپورٹینٹ ٹیسٹ تھا۔
“یہ آج کے دن میڈم ٹیسٹ رکھ کر سارے weekend کا مزہ ہی خراب کر دیتی ہیں۔۔ اتوار کا سارا دن تو بس سوتے ہوئے ہی گزر جاتا ہے۔۔۔۔” زینی نے یونیورسٹی کے لان میں موجود لکڑی کے سنگل بنچ پر بیٹھتے ہوئے اپنا بیگ تقریبا پٹخنے کے انداز سے رکھا۔ وہ دونوں اس وقت ایک گھنے درخت کے سایے تلے بنچ پر آرام دہ انداز سے بیٹھ گئیں کیونکہ آج کے تمام پریڈز مکمل ہو چکے تھے۔ ضامن بھائی پریشے کو اپنے آفس کے لنچ بریک میں ہی یونیورسٹی سے گھر ڈراپ کیا کرتے تھے۔ان کے آنے میں ابھی تھوڑا ٹائم تھا اس لئے زینی اپنے ڈرائیور کو وہیں ویٹ کرنے کا کہہ کر پریشے کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تاکہ وہ اکیلی یہاں بہٹھ کر بور نہ ہو جائے۔
زینی نے پریشے کو کئی بار خود گھر ڈراپ کرنے کی آفر کی تھی مگر ضامن بھائی کی خوددار طبیعت کی وجہ سے پریشے ہمیشہ ٹال مٹول سے ہی کام لیا کرتی تھی۔۔
“صحیح کہہ رہی ہو۔۔ میں نے بھی ہر Friday کو کپڑے دھونے ہوتے ہیں اور پھر سردی کی رات دیر تک ٹیسٹ یاد کرنا پڑتا ہے۔۔۔” پریشے نے بھی گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔
“کل تم نے دیکھا پھر اپنا ایوارڈ شو۔۔؟؟” پریشے نے اچانک یاد آنے پر زینی سے سرسری انداز میں پوچھا کیونکہ زینی نے پریشے کو کافی دن پہلے سے ہی بتا رکھا تھا کہ اسے اذلان کے ایوارڈز شو کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے۔
” نہیں دیکھ سکی نا۔۔۔ میرا موڈ صبح اسی وجہ سے ہی تو خراب تھا۔۔”زینی کے چہرے کے تاثرات اذلان کے ایوارڈ شو مس ہونے کا یاد کر کے پھر سے بگڑ کر رہ گئے تھے۔
“لیکن تم تو کافی دنوں سے اس شو کا ویٹ کر رہی تھی۔۔پھر کیوں نہیں دیکھا تم نے۔۔”پریشے کو شدید حیرت ہو رہی تھی کیونکہ وہ زینی کو اچھے سے جانتی تھی کہ وہ دنیا کی کوئی بھی چیز مس کر سکتی ہے مگر اذلان کا شو کسی صورت مس نہیں کر سکتی چاہے اس کیلئے اسے کچھ بھی کرنا پڑے کسی بھی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے۔۔۔۔
“یار۔۔!! یہ ولی بدتمیز جان بوجھ کر مجھے گھمانے کے لیے کل رات ڈنر کیلئے باہر لے گیا کہہ رہا تھا میں بور ہو رہا ہوں۔۔ مجھے آج ہی پتا چلا کہ آج Saturday ہے۔۔ اس نے کل رات مجھے کہا کہ آج Thursday ہے انس بھی آفس کے کام کی وجہ سے بزی ہے۔۔ تم ہی مجھے کہیں باہر گھمانے لے جاؤ ۔۔میں بہت زیادہ بور ہو رہا ہوں۔۔”زینی نے باقاعدہ منہ پھلاتے ہوئے ولید کی کہی ہوئی ساری باتیں پریشے کے گوش گزار کر دیں تھی۔
“اچھا۔۔ اس کا مطلب انہیں پہلے سے ہی پتا ہو گا اذلان کے ایوارڈز شو میں آنے کا۔۔؟؟”زینی کی پوری بات سننے کے بعد پریشے کو ولید کی اس حرکت پر شدید غصہ آ رہا تھا۔۔
اپنی ہی باتوں میں مصروف ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی محسوس نہ کیا تھا کہ کوئی لڑکا اچانک آگے بڑھتے بڑھتے اپنے قدموں کو بریک لگا کر درخت کی اوٹ میں چھپ کر ان کی ساری باتیں انہماک سے سننے لگ گیا تھا۔
“میں نے ہی اسے بتایا تھا۔۔تمہیں پتا تو ہے میں اپنی ہر بات اس سے شئیر کرتی ہوں۔۔۔”پریشے ان دونوں کی ایک دوسرے سے اٹیچمینٹ سے بخوبی آگاہ تھی کیونکہ زینی کی ہر بات ولید سے شروع ہو کر ولید پر ہی ختم ہوتی تھی بھلے ہی وہ کسی بھی موڈ میں ہو۔
“پر مجھے نہیں پتہ تھا اس کو بتانے کی وجہ سے میں میرے اذلان کے ایوارڈ شو مس کر دوں گی۔۔”زینی یاسیت سے بھرپور لہجے میں گویا ہوئی۔ درحقیقت اسے اذلان کے ایوارڈ شو مس ہو جانے پر شدید دکھ ہو رہا تھا۔
“اچھا تم زیادہ پریشان نہ ہو۔۔۔آج گھر جا کر انٹرنیٹ پر دیکھ لینا۔۔” پریشے نے اس کی فکر کم کرنا چاہی تھی۔
“یار۔۔ انٹرنیٹ پر تھوڑے تھوڑے کلیپس دیے ہوتے ہیں۔۔ اور تمھیں نہیں پتہ یہ شو اذلان ہوسٹ کرنے والا تھا۔۔ اور ان ایوارڈز شو میں اس کی ایک Solo پرفارمنس بھی تھی جو میں نے ساری کی ساری مس کر دی۔۔”زینی نے اسے چند ایک جملوں میں ساری ڈیٹیل بتائی کیونکہ پریشے کو ٹی وی دیکھنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا اس لئے اسے اس بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں تھیں۔
“کیا پتا تھوڑے دن بعد چینل والے خود ہی پورا شو ریپیٹ ٹیلی کاسٹ میں لگا دیں۔۔”پریشے نے اک اور آس دلائی۔
“یہ تو پکا نہیں پتا کب لگائیں گے۔۔۔۔ابھی میں صبح ہی راستے میں آتے ہوئے ایک آرٹیکل پڑھ رہی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ اذلان کو چار سے پانچ ایوارڈز ملے ہیں اور ہر ایک ایوارڈ ملنے پر انہوں نے آکر کچھ نہ کچھ بات کی ہو گی۔۔یہ سب دیکھتے ہوئے کتنا مزا آنا تھا مجھے۔۔اس ولی کے بچے نے سارا کا سارا مزہ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔۔” پریشے زینی کی اذلان کے لیے اتنی دارفتگی دیکھ کر بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس دی تھی۔
“یار زینی۔۔!! وہ ایکٹر اذلان شاہ تمہیں اتنا زیادہ پسند ہے کیا۔۔؟؟”پریشے اسے دلچسپ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنا رخ باقاعدہ اس کی طرف موڑ چکی تھی۔
“افف یار پریشے۔۔اذلان شاہ مجھے کتنے پسند ہیں۔۔ اگر میں تمہیں بتاؤں گی تو تم ہنسنے لگ جاؤ گی۔۔”اذلان شاہ کا نام سنتے ہی زینی کا چہرہ گلاب کے خوبصورت پھول کی مانند کھل اٹھا تھا۔
“صبح اٹھتے ہی مجھے یہ فکر ستا رہی ہوتی ہے۔۔اذلان نے آج کوئی نئی پوسٹ شئیر کی ہے یا نہیں۔۔۔ اور جب کبھی میں اسٹڈی کے بعد فری ہوتی ہوں میں اذلان کے بارے میں گوگل پر مختلف آرٹیکلز پڑھتی رہتی ہوں۔۔ ان کے انٹرویوز دیکھتی رہتی ہوں۔۔ وہ آج کل کیا کر رہے ہیں۔۔؟اسوقت انکی کون سی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔۔؟؟ کس کس کے ساتھ فلم سائن کر رہے ہیں۔۔؟؟ ہر چیز میرے علم میں ہوتی ہے۔۔۔”زینی بنا بریک کے مسلسل بولتے چلے جا رہی تھی۔ایسے محسوس ہو رہا تھا اذلان کی بات کے دوران وہ حد سے زیادہ پرجوش ہوتے ہوئے سانس تک لینا بھول چکی ہے۔۔۔۔۔۔
“ارے ارے زینی رکو تو۔۔۔!!سانس تو لے لو۔۔”زینی کو فر فر بولتے دیکھ کر پریشے کو ہنستے ہوئے خود ہی اسے ٹوکنا پڑا جس پر زینی گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے کچھ ہی سیکنڈز کے توقف کے بعد پھر سے شروع ہو چکی تھی۔
” سب سے اہم بات تو میں نے تمہیں ابھی تک بتائی ہی نہیں پریشے۔۔۔ تقریبا ہر روز رات کو اذلان میرے خواب میں آ کر مجھ سے ڈھیروں باتیں کرتا ہے اور میں اس کی ساری باتیں بنا کچھ کہے خاموشی سے سنتی رہتی ہوں۔۔” زینی کی خوبصورت، دلکشی سے بھرپور چمکدار آنکھیں اس وقت روشنیوں سے منور لگ رہیں تھیں کیونکہ اذلان کے بارے میں بات کرنا اس کا فیورٹ ہابی تھا اس کے لیے چاہے وہ کتنے ہی گھنٹوں ایک ہی بات کرتی رہے وہ کبھی بھی بوریت کا شکار نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔۔
“ہاہاہا۔۔۔یار زینی تم بھی نا پوری کی پوری پاگل ہو۔۔!!اب اتنا بھی کیا سوچنا ایک ایکٹر کے بارے میں کہ اب وہ تمہیں ہر روز خواب میں مل کر باتیں کرتا ہے۔۔” پریشے زینی کی اذلان کے بارے میں اتنی دیوانگی دیکھ کر ہنستے ہوئے اس کے بازو پر چپت لگانے کے ساتھ ساتھ نفی میں بھی سر جھٹکنے لگ گئی تھی۔۔۔۔۔
“یار میں کیا کروں۔۔ مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔ کبھی کبھی تو میں سوچتی ہوں اذلان کے تو سوشل میڈیا پر لاکھوں کروڑوں فینز ہیں۔۔ انہیں تو میرے بارے میں پتہ بھی نہیں ہوگا کہ ایک لڑکی ان کے لیے کتنی پاگل ہو چکی ہے۔۔”
” ہر وقت بس انہیں کے بارے میں سوچتی رہتی ہے۔۔ مگر یار میں کروں بھی تو کیا۔۔۔؟؟”
“کبھی کبھی میں اپنی فیلنگز کے سامنے خود کو بڑا بے بس سا محسوس کرتی ہوں۔۔”
” اگر میں ان کے بارے میں کچھ بھی سوچوں نا تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ فورا میری آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔۔انہیں دیکھ کر میرا دل عجیب لے میں دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے اور میرے ہونٹوں پر بنا کسی بات کے ہی گہری مسکان آجاتی ہے۔۔”
زین اپنے پاگل پن پر آخر میں خود بھی ہنسے بنا رہ نا سکی تھی۔
“اتنا زیادہ چاہتی ہو تم اسے۔۔؟؟” پریشے نے زینی کی آنکھوں میں اذلان کیلئے واضح محبت جھلکتی دیکھتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے پوچھا تھا۔
“پتا نہیں یار۔۔۔ ایک عجیب سی ڈور ہے جو مجھے ان سے ہمیشہ باندھے رکھتی ہے۔۔کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے میں انہیں کئی برسوں سے جانتی ہوں۔۔”زینی کا لہجہ اب کچھ کھویا کھویا سا لگ رہا تھا۔
” ایک عجیب سا رشتہ جڑ گیا ہے میرا اذلان کے ساتھ جس کا کوئی نام بھی نہیں ہے۔۔” ان کے آج کے سارے پریڈز ختم ہو چکے تھے۔ اس لئے زینی بے اختیار ہی آج اپنے دل کی ساری باتیں پریشے کے ساتھ شیئر کرنے میں لگی ہوئی تھی یہ جانے بنا کہ کوئی لڑکا اپنے چہرے پر خباثت سے بھری مسکراہٹ سجائے کب سے انکی یہ ساری باتیں پوری توجہ سے سن رہا ہے۔
“کہیں تمہیں اس اذلان سے محبت وحبت تو نہیں ہوگئی نا۔۔؟؟” پریشے نے ہنستے ہوئے غیر سنجیدہ انداز میں اک نیا چٹکلا چھوڑا تھا۔
“ہاہا یار۔۔ کبھی کبھی مجھے بھی لگتا ہے میں بہت شدت سے اذلان کو چاہتی ہوں۔۔اس سے محبت کرتی ہوں۔۔”
“تم دیکھنا پریشے۔۔ میں اتنی شدت سے محبت کروں گی کہ ایک نا ایک دن ضرور انہیں میری محبت کی کشش محسوس ہوگی۔۔ اور وہ میری طرف کسی کچی ڈور کی مانند کھینچے چلے آئیں گے۔۔” زینی اردگرد سے بےنیاز اپنی ہی دھن میں لگی اپنی محبت کی شدت کا اعتراف پریشے کے سامنے کر رہی تھی جسے پریشے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھے بغور سن رہی تھی۔
کچھ دیر بعد زینی پرحسرت نگاہوں سے اپنے سامنے کھڑے اذلان کو دیکھ رہی تھی جسے صرف اس کی نگاہیں ہی محسوس کر رہیں تھیں۔۔
پتا نہیں زینی اذلان کے بارے میں اور بھی نجانے کتنی باتیں کر رہی تھی جس کو سننے کے بعد پریشے کو ہنستے ہوئے اسے خود ہی روکنا پڑا تھا۔۔۔
“ہاہاہا۔۔زینی تم بھی نا۔۔۔ چلو اب یہاں سے ضامن بھائی بھی آ چکے ہیں۔۔” پریشے نے اسے ٹوکتے ہوئے اپنی کتابیں اٹھا کر اسے بھی اپنے ساتھ اٹھایا تھا۔
“مستقبل میں ایسا کبھی ہو سکتا ہے بھلا۔۔ہر وقت خوابوں کی دنیا میں ہی رہتی ہو۔۔”پریشے نے یہ کہہ کر اسے حقیقت کی دنیا میں لانا چاہا تھا۔کیونکہ وہ زینی کے توسط سے ہی جانتی تھی کہ اذلان اس شوبز انڈسٹری کا تو کیا پوری دنیا کی شوبز انڈسٹریز میں سے سب سے فیمس اور پاپولر سٹار ہے جس کی ایک جھلک پانے کیلئے اک دنیا دیوانگی کی حدوں کو چھو جاتی ہے۔۔
وہ ایک سچی اور مخلص دوست ہونے کے ناطے ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایک ایسے خواب کے پیچھے بھاگے جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔
پریشے نہیں چاہتی تھی کہ زینی ایک ایسے انسان کو چاہے جو مستقبل قریب میں تو کیا بعید میں بھی اس کا جیون ساتھی کبھی نا بن سکتا ہو۔
وہ اس کو کسی غیر شفاف آئینے میں نظر آتے کسی دھندلے عکس کے پیچھے نہیں بھاگنے دے سکتی تھی۔
پریشے کی بات سن کر زینی بھی ایک پل کیلئے سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی مگر وہ کیا کرتی۔
وہ بار بار خود کو اذلان کی محبت کے پیچھے مزید خوار ہونے سے روکا کرتی تھی مگر جوابا اس کا دل عجیب بغاوت پر اتر کر اس کے دل سے نکلتی کسی آواز کی ایک بھی نہیں سنتا تھا۔۔
پریشے نے زینی کو ہنوذ سوچوں میں گم پا کر آگے بڑھتے ہوئے اس سے کل کے لیکچر کے اہم نکات پوچھ لئے جس پر زینی اپنا سر نفی میں جھٹک کر خود کو اذلان کی سوچوں سے آذاد کرتے ہوئے اس کو اہم اہم پوائنٹس رسان سے سمجھانے لگی۔اور پھر وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئیں تھیں۔۔
وہ ہرگز نہیں جانتیں تھیں۔ آج کی یہ گیر سنجیدہ انداز میں کہی گئی باتیں ان دونوں کی زندگیوں کو کس موڑ پر لے آئیں گی۔عنقریب ان کی زندگی میں کیا طوفان آنے والا ہے فی الحال وہ دونوں ہی اس بات سے یکسر انجان تھیں۔
ان دونوں کے وہاں سے جانے کے بعد اچانک درخت کی اوٹ میں سے ایک سائے نے اپنے موبائل کا کیمرا کلک کرکے آف کر دیا اور پھر ہاتھوں میں موجود آف موبائل کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر خباثت سے بھری زہریلی مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنا لی اور پھر وہ فاتحانہ چال چلتے ہوئے مسرورکن انداز میں آگے بڑھ گیا۔
“زینی بیٹا۔۔!! چلیں گھر چلتے ہیں۔۔ فنکشن تقریبا ختم ہو چکا ہے۔۔”عاصمہ بیگم نے زینی کو لان میں موجود بینچ پر سوچوں میں گم پایا تو اچانک آ کر اسے نرم لہجے میں آواز دے کر مخاطب کرتے ہوئے ماضی سے نکال کر حال میں لے آئیں۔جس پر زینی “ج۔جی آنٹی” کہہ کر میکانکی انداز میں چلتے ہوئے ان کے ساتھ ہال کے پورچ ایریا میں آ گئی جہاں باقی سب کھڑے زینی کے آنے کا ویٹ کر رہے تھے ماسوائے اذلان کے۔۔
?????
” انکل۔۔۔۔آپ۔۔۔!! واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز۔۔!!” انسپیکٹر ماریہ نے اپنے بابا کے دوست اختر صاحب کو اپنے گھر کے لان میں بابا کے ساتھ اتنے دنوں بعد بیٹھے دیکھا تو آ کر فل گرمجوشی سے ملنے لگی تھی۔
“ماریہ بیٹے۔۔ کیسے ہو آپ۔۔؟؟ کیا ہو رہا ہے آج کل۔۔؟؟؟” اختر صاحب نے فورا چئیر سے اٹھ کر ماریہ کے سر پر پیار دیا اور پھر آہستگی سے مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں اس کی خیریت دریافت کرنے لگے تھے۔
“جی انکل۔۔!! میں بالکل ٹھیک ہوں بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں بہت زیادہ خوش بھی ہوں۔۔” ماریہ نے مسکراتے ہوئے لان کی ایک کرسی پر آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
“ارے واہ۔۔ ماشاء اللہ۔۔”اختر صاحب ماریہ کے اس انداز پر پھر سے مسکرانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ انہیں اپنے بزنس پارٹنر کم دوست زیادہ امجد صاحب کی یہ بیٹی بالکل اپنی بیٹی شمسہ کی طرح ہی لگتی تھی۔
اختر صاحب ہمیشہ سے ماریہ کو زاویار کی بیوی کی حیثیت سے اپنی بہو کے روپ میں دیکھنے کی من ہی من میں شدید خواہش رکھتے تھے مگر آجکل زاویار کی مشتبہ حرکتوں نے انہیں ان کی ہر سوچ سے بدلنے پر مجبور کر دیا تھا اس لیے وہ امجد صاحب سے بات کیے بنا ہی اپنا فیصلہ ترک کر گئے تھے۔
اختر صاحب بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں کہ پرانے مگر بہت ہی کارآمد مقولے پر عمل پیرا ہوتے اس سادہ مگر ذہین و فطین لڑکی کی زندگی اپنے لاپرواہ اور بگڑے ہوئے بیٹے کی وجہ سے ہرگز خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔
“خوش تو ہونا ہی ہے اختر۔۔۔اس نے اپنی مرضی کی جاب جو حاصل کر لی ہے۔۔”
“میں نے تو کئی بار اسے اس فیلڈ میں آنے سے منع کیا مگر اس نے تو جیسے کہو۔۔ ٹھان ہی لی تھی کہ پولیس فورس ہی جوائن کرنی ہے۔۔”اختر صاحب اب خوشدلی سے مسکراتے ہوئے امجد صاحب کے ساتھ ساتھ ماریہ کے چہرے کے تاثرات بھی دلچسپ نگاہوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔
” اب وہ جاب اسے مل گئی ہے تو اسے اپنی زندگی کا ہر مقصد پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔۔” امجد صاحب نے چائے کا سپ لیتے ہوئے اپنی بیٹی کی خوشی کا راز بتایا تھا کیونکہ آجکل وہ اس جاب کو پا کر بہت زیادہ کھل سی گئی تھی۔
پہلے پہل تو امجد صاحب اور انکی بیگم شازیہ اس فیصلے سے بالکل بھی خوش نہیں تھے کیونکہ وہ اس فیلڈ میں زندگی کو درپیش آنے والے لمحہ بہ لمحہ خطرات سے بخوبی آگاہ تھے۔
اور ماریہ ان کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ عزیز تھی مگر پھر بالآخر انہوں نے اس کے حب الوطنی سے بھرپور مخلصانہ،مدبرانہ سوچ اور اسکی دلی خوشی کے آگے مجبور ہو کر گھٹنے ٹیک دیے تھے۔لیکن اب گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ماریہ کے چہرے کی بڑھتی رونق نے ان کے خیالات اب یکسر تبدیل کر دیے تھے۔
“یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹے۔۔”اختر صاحب نے اسے سراہتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“امجد۔۔!!ہر عقلمند انسان کی زندگی کا ایک نہ ایک مقصد ضرور ہوتا ہے جس کو پانے کیلئے وہ جی توڑ محنت کرتا ہے۔۔ اپنی پوری جان لگا دیتا ہے۔”
“ایک انسان اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں تب ہی کامیاب ہوتا ہے جب اس کو پا لینے کا جنون اس کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہو۔۔”
“اور آج ماریہ بیٹی نے اپنی بھرپور لگن اور محنت کی وجہ سے بالآخر اپنے مقصد کو پا لیا۔۔ہمیں تو ان کی قابلیت پر فخر ہونا چاہیئے۔۔
“ویری ویل ڈن بیٹے۔۔ ایم سو پراؤڈ آف یو۔۔۔۔۔۔۔”اختر صاحب کے تائیدی انداز پر ماریہ کسی گلاب کے پھول کی طرح کھل اٹھی تھی۔
“تھینک یو سو مچ انکل۔۔۔”ماریہ نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے اختر صاحب کا شکریہ ادا کیا جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دیے۔
“اوکے انکل۔۔ آپ لوگ باتیں کریں میں اندر جا رہی ہوں۔۔ایکچوئلی صبح تک ایک نئے کیس کی رپورٹ تیار کرنی ہے۔۔” ماریہ نے اٹھتے ہوئے کہہ کر اپنے بابا سے پیار لیا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔
“ماشاءاللہ۔۔ماریہ بہت محنتی بچی ہے امجد۔ انشاءاللہ وہ اپنے مقاصد میں ضرور کامیاب ہوں گی۔۔۔۔”
“انشاءاللہ۔۔” اختر صاحب کی بات پر امجد صاحب نے بآواز کہنے کے ساتھ ساتھ زیر لب “آمین” بھی کہا۔۔ اور پھر وہ دونوں اپنے بزنس کی نئی ڈیل کے بارے میں باتیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔
?????
“زمان۔۔!!! ان لڑکوں کا پراسیس کہاں تک پہنچا جن کو اریسٹ کروایا تھا۔۔”اذلان اپنے آفس میں ریوالونگ چئیر پر بیٹھا زمان سے ان جیپ میں موجود سارے لڑکوں کے بارے میں ازحد گھمبیر لہجے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اذلان کے اس قدر سنجیدہ انداز پر زمان کو ایک دم کٹھکا ہوا تھا۔
“اذلان سر۔۔!انسپیکٹر سفیر نے ان لوگوں سے کافی دیر تک انکوائری کی مگر وہ سب جوابا یہی کہتے رہے کہ انہوں نے بس اس لڑکی کو ڈراپ کرنے کی آفر کی تھی مگر وہ ڈر کر کہیں جنگل میں بھاگ گئی تھی اور پھر وہ لوگ وہاں سے چل دئیے۔۔اس سے زیادہ وہ لوگ کچھ نہیں جانتے۔۔”اذلان چپ سادھے اپنے آپس میں پیوست لبوں کے ساتھ زمان کی ساری باتیں پوری توجہ سے سن رہا تھا۔
“بس اسی لیے انسپیکٹر سفیر نے ان لڑکوں کو ضمانت پر رہا کردیا۔۔” زمان نے ساری رپورٹ اذلان کے گوش گزار کر دی جس پر اس کی آنکھوں کے پپوٹے ایک پل کیلئے مزید پھیل گئے اور پھر وہ بےساختہ مضطرب انداز میں فورا اپنی ریوالونگ چئیر سے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔
“رہا کر دیا انہیں۔۔۔ اور تم مجھے اب بتا رہے ہو۔۔”اذلان نے اسے سخت لہجے میں کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشانی بھی دھیرے سے مسلی۔
“مجھے لگ رہا ہے کوئی نہ کوئی بڑی گڑ بڑ ہو چکی ہے جو اذلان سر اس قدر پریشان نظر آ رہے ہیں۔۔”اذلان کی حالت پر زمان کو معاملے کی سنگینی کا شدت سے اندازہ ہو رہا تھا۔
“ایم سوری سر۔۔ایکچوئلی آپ شادی کے فنکشن میں بزی تھے اس لیے میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔” زمان نے ازحد شرمندہ ہوتے ہوئے اپنے جھکے سر کے ساتھ اذلان سے معذرت کی تھی۔
کچھ دیر بعد اذلان نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے خود کو تھوڑا کنٹرول کرتے ہوئے اپنے اعصاب پر قابو پانے کی پوری کوشش کی تھی۔
پہلے وہ بڑی سے بڑی بات پر بھی اپنا ضبط کبھی نہیں کھونے دیتا تھا مگر زینی کی کل کی تلخ باتوں اور شکوک آمیز نگاہوں نے اس کی ساری حسیات کا توازن چند ہی منٹوں میں بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔
“زمان۔۔!! مجھے ان سب لڑکوں کا مکمل بائیو ڈیٹا چاہیے وہ بھی جلد از جلد۔۔” اذلان نے کچھ دیر آفس میں چکر لگا کر معاملے کی سنگینی کے بارے میں سوچا اور پھر سنجیدہ لہجے میں نیا حکم صادر کر دیا کیونکہ وہ زینی کے لبوں سے جاری ہوتا کسی “زاویار” نامی لڑکے کا نام اس دن جنگل میں بخوبی سن چکا تھا۔اس لئے وہ زینی سےکوئی بات کئے بنا ہی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتا تھا۔
“اوکے سر۔۔!! زمان اثبات میں سر ہلاتا فورا اذلان کے اس حکم کی تعمیل کیلئے آفس سے باہر نکل گیا تھا۔
زمان کے جانے کے بعد اذلان نے تھکے ماندے انداز میں دوبارہ چئیر پر بیٹھتے ہوئے اپنا سر سیٹ کی پشت پر ٹکا کر اپنی آنکھیں موند لیں۔
کل سے وہ بری طرح ڈسٹرب ہو چکا تھا۔ اس نے زینی سے بحث کے تھوڑی دیر بعد وہاں سے فورا نکلنے کا پلان بنایا اور پھر عاصمہ بیگم کو کسی ضروری کام کا کہہ کر زینی کو اپنے ساتھ لیے بنا ہی گھر واپس آ گیا۔
آتے ساتھ ہی وہ اسٹڈی روم میں اپنا ضروری کام کرنے چلا گیا جو انجانے میں ہی سہی لیکن آج زینی کی خوشی کے لئے اس کے ساتھ فنکشن میں جانے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا تھا۔۔
اذلان ساری رات اسٹڈی روم میں بیٹھا کام کرتا رہا تھا اور پھر صبح ہونے پر ہی وہ سیدھا کمرے میں آیا تھا جہاں زینی بیڈ کی پشت پر سر ٹکائے بیٹھی بیٹھی بےآرام انداز میں سو رہی تھی۔ اس کے گالوں پر ابھی بھی کچھ کچھ آنسوؤں کے مٹے مٹے سے نشانات باقی تھے۔ایسے لگ رہا تھا جیسے ابھی سونے سے تھوڑی دیر پہلے تک وہ صرف رونے کا کام ہی سرانجام دے رہی تھی۔
اذلان کی نگاہ ایک پل کیلئے اس کے سرخی مائل رخساروں پر ٹھہر سی گئی تھی مگر پھر کچھ ہی سیکنڈز کے بعد وہ اسے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بنا کسی چاپ کے تیار ہو کر کمرے سے باہر آ گیا۔اور پھر بنا ناشتہ کئے ہی گھر سے نکلا اور سیدھا شوٹنگ سیٹ پر آ گیا۔
“وہ ص۔صوفیہ نے مجھے کہا تھا ۔۔آپ مجھے چھوڑ کر اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔کیونکہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں۔۔۔” زینی کی آوازیں پھر سے بازگشت بن کر اسے اپنی سماعتوں میں کسی ہتھوڑے کی مانند کاری ضربیں لگاتی محسوس ہو رہیں تھیں۔اس منظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے عکس بن کر لہراتے دیکھ کر اس نے ایک جھٹکے سے سیٹ سے اپنی ٹیک چھوڑ دی۔اسوقت اس کے ہاتھ کی مٹھیاں سختی سے آپس میں بھینچی ہوئی لگ رہی تھیں۔۔۔۔
اس کی انگارے برساتی، شعلہ بار نگاہیں اس کے ضبط کی واضح نشاندہی کر رہیں تھیں۔
?????
“افف یار۔۔!! آج کتنے دنوں بعد اتنی پرسکون نیند آئی ہے مجھے۔۔” صوفیہ نے اچانک آنکھ کھلنے پر بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی اک ادا سے انگڑائی لی اور پھر خود ہی کل رات کا منظر سوچ کر دھیمے سے مسکراتے ہوئے بےاختیار ہی اس لمحے میں کھو کر رہ گئی جب اذلان غیرمتوقع طور پر عبیرہ کی مہندی کی رات اس کے کمرے میں آیا تھا اور وہ نجانے کتنے ہی پل اس کو ساکت نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی تھی۔
“صوفیہ۔۔!! کیا ہم تھوڑی دیر باہر لان میں جا کر بات کر سکتے ہیں۔۔؟؟” اذلان نے صوفیہ کے کمرے کا دروازہ ناک کیا اور پھر اس کے کھولنے پر اس سے سنجیدہ اور گھمبیر لہجے میں گویا ہوا تھا کیونکہ صوفیہ تو اذلان کو اپنے کمرے کے باہر کھڑا پا کر اپنی حیرانگی اور خوشی سے ملے جلے تاثرات سمیت بنا کچھ کہے وہیں دروازے کے بیچ و بیچ ششدر ہی کھڑی رہ گئی تھی۔
“اذلان۔۔!! تمہیں پتا تو ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی میرے پاؤں میں کوئی نوکیلی چیز چبھ گئی ہے۔۔ اس لئے تو میں صحیح سے چل بھی نہیں پا رہی ہوں۔۔۔ یہی بات کر لیتے ہیں نا پلیز۔۔۔!!” صوفیہ نے اچانک کچھ یاد آنے پر اپنی چال کو واپس لڑکھڑا لیا اور پھر ملتجیانہ انداز میں گویا ہونے کے ساتھ ساتھ کمرے کے اندر آ گئی۔
صوفیہ کی اس حرکت پر اذلان غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچے خود پر مسلسل ضبط کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے اپنے قدم بڑھاتا کمرے کے وسط میں آ کر کھڑا ہوگیا تھا۔وہ جانتے بوجھتے کمرے کا دروازہ پوری طرح کھلا چھوڑنا نہیں بھولا تھا۔ اس کی سلگتی نگاہیں اس کے اندر پنپتے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی تھیں۔
“صوفیہ۔۔!! تم نے اپنے اور میرے ریلیشن شپ کے بارے میں زینب کو غلط انفارمیشن کیوں دی۔۔؟؟”اذلان کمرے کے اندر قدم رکھتے ہی سخت لہجے میں گویا ہوا تھا۔
“ک۔کیسی انفارمیشن۔۔؟؟”صوفیہ جیسی پراعتماد لڑکی بھی اذلان کے طرزتخاطب پر ایک پل کیلئے گھبرا کر رہ گئی تھی۔۔
“یہی کہ میں زینب کو چھوڑ کر بہت جلد تم سے شادی کرنے والا ہوں ۔۔؟؟ جبکہ تم اچھے سے جانتی ہو میرا تمہارے بارے میں دور دور تک نہ ماضی میں ایسا کبھی کوئی خیال رہا اور نہ ہی آگے مستقبل میں کبھی ہوگا۔۔۔”اذلان نے صاف گوئی کی ہر حد پار کرتے ہوئے سیدھا مدعے کی بات کر کے صوفیہ کی آنکھیں چند پل کیلئے حیرانگی سے کھلوا دیں۔
صوفیہ کو زینب سے اس قدر جلدی ری ایکٹ کرنے کی توقع ہرگز نہیں تھی۔اس کا گلاب رنگ چہرہ اپنی حد درجہ تذلیل و اہانت کے احساس کے تحت مزید سرخی مائل لگنے لگا تھا۔
کیونکہ اذلان نے بنا کسی لگی لپٹی کے اس کے منہ پر ریجیکشن کا زورآور طمانچہ دے مارا تھا جو سیدھا اس کے دل کے مقام پر جا لگا تھا۔
“اذلان۔۔! میں ایسا کیوں کہوں گی۔۔؟؟ تم نے میرے ساتھ کوئی کمنٹمنٹ تھوڑی کی ہوئی تھی جو میں زینب سے اس قسم کے الفاظ بولوں گی۔۔” صوفیہ کو سنبھلنے کے لئے کچھ ہی پل لگے تھے۔ اور پھر وہ آہستگی سے مسکراتے ہوئے اپنی کہی ہوئی بات سے صاف مکر گئی۔
“زینب جھوٹ بول رہی ہے اذلان۔۔میں نے اس سے۔۔” اذلان کو صوفیہ کے کہنے کے باوجود اس پر ذرہ برابر بھی یقین نہیں آیا تھا کیونکہ اتنے دنوں میں اسے زینب پر اتنا یقین تو ہو ہی چکا تھا کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن اتنا بڑا جھوٹ کبھی نہیں بول سکتی۔اور ویسے بھی کچھ دیر پہلے زینب کی آنکھوں میں اک کرب اذیت ناک درد کی صورت میں لہراتا واضح نظر آ رہا تھا جس پر وہ اپنی آنکھ بند کر کے بھی یقین کر سکتا تھا۔
“مائینڈ یور لینگویج صوفیہ۔۔آئیندہ میں اپنی وائف کے بارے میں اس قسم کے ہتک آمیز الفاظ ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔۔”صوفیہ اذلان کو زینب سے بدظن کرنا چاہتی تھی مگر اذلان کی تیز مگر بارعب،سنجیدہ آواز نے اس کی بات کو پورا ہونے سے پہلے ہی بیچ میں کاٹ دیا۔اس کے چہرے پر واضح ناگواری کے تاثرات پھیل گئے تھے۔
اذلان کا یوں زینب کی حمایت میں بولنا سن کر صوفیہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے اسے ننگے پاؤں صحرا کی تپتی ریت پر چلنے پر مجبور کر دیا ہو۔کچھ دیر کیلئے صوفیہ کے لب آپس میں پیوست ہو کر رہ گئے تھے۔اس کی شعلہ برساتی نگاہیں اب انگاروں کا روپ دھار رہیں تھیں جن پر وہ قابو پانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔
” اگر تم نے ایسا نہیں کہا تو آئندہ کبھی کہنے کا سوچنا بھی نہیں۔۔”اذلان نے اسے سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں وارن کرتے ہوئے واضح الفاظ میں باور کرا دیا تھا۔
” اور ہاں صوفیہ۔۔۔! آئندہ میرے پرسنل میٹرز سے تھوڑا دور ہی رہنا۔۔۔کوئی تیسرا میری اور زینب کی پرسنل لائف میں انٹرفئیر کرے مجھے بالکل پسند نہیں۔۔۔” اذلان آگے بڑھتے بڑھتے کمرے کے دروازے کے پاس جا کر ایک پل کیلئے رکا اور پھر اپنا رخ واپس موڑ کر صوفیہ سے اپنی بات کہتا کمرے کا دروازہ پٹاخ کے انداز سے بند کر کے واپس چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“ہاہاہا۔۔۔ہاہا۔۔”اذلان کے جانے کے کچھ دیر بعد ہنستے ہوئے صوفیہ کا انداز کچھ جنونی سا لگ رہا تھا۔
“جو کام وہ بیوقوف حاشر نہ کر سکا۔۔وہ کام میرے ایک جھوٹ نے بآسانی کر دکھایا۔۔ہاہا” صوفیہ اذلان کے جانے کے بعد واپس آ کر بیڈ پر گرنے کے انداز سے لیٹ گئی تھی۔
کیونکہ اذلان کے ولیمے کی تقریب کے دوران صوفیہ نے ہی حاشر کو انڈسٹری میں لانچ کرنے کا وعدہ لے کر اس سے زینب کو ہراس کرانے کا کہا تھا تاکہ وہ اس کی کچھ تصویریں لے کر اپنا کام پورا کر سکے مگر اس دن وہ پلان پورا نہ ہو سکا تھا۔الٹا فیمس ہونے کے چکر میں حاشر بیچارہ آج قومے کی حالت میں ہاسپٹل میں نیم مردہ حالت میں بستر پر پڑا ہوا تھا۔
اس کے قومے میں جانے کی خبر سن کر سب سے زیادہ خوشی تو صوفیہ کو ہی ہوئی تھی کیونکہ اس کے زخمی ہونے کی خبر ٹی وی پر چلتے سن کر اس کے دل میں بھی ایک عجیب سا ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کہیں ہوش میں آنے کے بعد حاشر خود کو بچانے کی خاطر میڈیا کے سامنے آ کر سارا سچ ہی نہ اگل دے کہ اس نے تو یہ سب صرف اور صرف صوفیہ کے کہنے پر کیا تھا۔
“مائی ڈئیر Love ..اذلان ۔۔! آج میرا ایک جھوٹ تمہیں میرے کمرے تک لے آیا ہے۔۔۔ اور اب تم دیکھنا میری اگلی چال تمہیں میری زندگی میں پکا پکا شامل کر دے گی اور وہ تمہاری اسٹوپڈ وائف “زینب ابراہیم” کچھ بھی نہیں کر پائے گی۔۔ہاہاہا۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔”اسوقت صوفیہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔اس نے بھری محفل میں تو کیا تنہائی میں بھی آج تک زینب کو اذلان کے نام کے ساتھ کبھی نہیں جوڑا تھا۔اسے ہمیشہ سے لگتا تھا اذلان سکندر شاہ صرف اور صرف اس کی ملکیت ہے۔۔
سوشل میڈیا پر بھی ان کے فلمی کپل کی اک الگ ہی دھوم مچی تھی۔لاکھوں کروڑوں لوگ ان دونوں کو ایک ساتھ بڑے پردے پر دیکھنا بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔اسی لئے تقریبا ہر ڈائریکٹر کی یہی کوشش ہوتی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اذلان کے مقابل صرف صوفیہ کو ہی لیڈ رول پر رکھیں چاہے اس کیلئے انہیں پیسوں کی ندیاں کیوں نہ بہانی پڑتیں وہ اس سے بالکل بھی کنی نہیں کتراتے تھے۔کیونکہ ان کو اپنی ہر فلم کے بدلے میں اپنا لگایا گیا تمام پیسہ ڈبل ٹرپل کی صورت میں واپس مل جاتا تھا۔۔۔۔
انہی باتوں نے صوفیہ کو عجیب خوش فہمیوں میں مبتلا کر دیا تھا۔۔بس اسی وجہ سے وہ اذلان کو آج تک اپنے مستقبل کے لائف پارٹنر کے طور پر ہی دیکھتی آئی تھی۔
” ایک دن تم خود اس زینب سے تنگ آتے ہوئے اسے چھوڑ کر مجھ سے شادی کرنے پر اپنی آمادگی ظاہر کرو گے۔۔۔”
“اور میں تمہیں ابھی سے بتا دوں اذلان۔۔ وہ دن ہماری زندگیوں میں بہت جلد آنے والا ہے۔۔”اس بات کو سوچتے ہوئے صوفیہ کے لبوں پر دلکشی سے بھرپور مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنا لی۔اور پھر وہ اپنے موبائل میں موجود اذلان کی تصویر کو مبہوت نگاہوں سے دیکھنے میں محو ہو کر رہ گئی تھی۔
?????
“بابا۔۔!وہ میں ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں کل کراچی جا رہا ہوں۔۔اس لئے۔۔” اذلان نے سکندر شاہ کو ٹی وی لاؤنج میں اخبار پڑھتے دیکھ کر اندر آتے ساتھ سنجیدگی سے پر لہجے میں آگاہ کیا۔
اس کی اس بات پر لاؤنج میں بیٹھے سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم چونکتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
زینی جو اس وقت تقریبا عاصمہ بیگم کے شانے کے ساتھ لگی چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی اچانک اپنا سر اٹھا کر اذلان کو بغور دیکھنے لگی جس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دو دنوں سے ان دونوں کے درمیان ہلکی پھلکی بات چیت بھی سرے سے ہی بند تھی۔مہندی سے اگلے دن کے فنکشن میں زینی اور اذلان دونوں نے ہی شرکت نہیں کی تھی۔ کیونکہ زینی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیے اس نے وہاں جانے سے معذرت کر لی جبکہ اذلان نے کسی ضروری کام کا کہہ کر ٹال دیا تھا۔
وہ اس کو مسلسل نظراندازی کی مار مار رہا تھا۔جہاں کہیں بھی زینی کی موجودگی کا شائبہ گزرتا وہ اپنے بڑھائے ہوئے قدم بھی واپس کھینچ لیتا تھا۔یہ نظراندازی زینب کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی۔
ابھی بھی اسے اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے زینی کی موجودگی میں یہاں ٹی وی لاؤنج میں آنا پڑا تھا کیونکہ آج رات کو سکندر شاہ نے اپنی کسی بزنس میٹنگ کے سلسلے میں عالیان کے ساتھ ایک دو دن کیلئے آؤٹ آف ٹاؤن جانا تھا۔
اس گھر کے ہر فرد میں یہ ایک بہت بڑی خاصیت تھی کہ وہ سب لوگ کہیں بھی آنے جانے سے پہلے یا پھر اپنی زندگی کا کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے سے پہلے سکندر شاہ کو ضرور انفارم کیا کرتے تھے۔اور یہ رول عاصمہ بیگم نے ہی بنایا تھا جسے سکندر پیلیس کے سبھی افراد بچپن سے لیکر آج تک فالو کرتے آ رہے تھے۔
“بچو۔۔!!زندگی میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اپنے بڑوں کو لازمی آگاہ کر کے ان سے مشورہ ضرور لینا چاہیے کیونکہ انہوں نے اس زندگی کو آپ سے زیادہ جیا ہے اس لحاظ سے ان کا تجربہ بھی آپ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔۔کسی بڑے کے تجربے سے مستفید ہونے سے آپ کے کامیاب ہونے کے بھی زیادہ چانسز ہوتے ہیں اور اگر بالفرض ایسا کرنے سے آپ کو کسی قسم کی ناکامی کا سامنا کرنا بھی پڑے تو پھر بھی آپ کو اس سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھنے کو ملے گا جو آپ کی آنے والی زندگی میں آپ کو کسی نہ کسی صورت میں معاونت ضرور فراہم کرے گا چاہے پھر وہ ایک ناکام تجربے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔۔”عاصمہ بیگم بچپن سے ہی اپنے سارے بچوں کو وقتا فوقتا یہی سبق سکھاتی رہتیں تھیں۔
سب والدین اپنے اپنے بچوں کیلئے جتنا کچھ کر سکتے ہیں اس سے بھی کئی گنا زیادہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں کو ہر پرابلم سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا اولین فریضہ یہ بھی ہونا چاہیئے کہ وہ ان کی تربیت کرتے ہوئے انہیں زندگی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے آشکار کروائیں تاکہ اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی مثبت پہلو دیکھیں تو اس پر اترانے،فخر کرنے اور اپنے سے کمتر لوگوں کو حقیر جاننے کی بجائے شکر اور عاجزی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور اگر خدانخواستہ انہیں کبھی زندگی میں کوئی منفی پہلو دیکھنے کو مل جائے تو وہ اس پر بلک بلک کر رونے،پیٹنے،گریہ و زاری میں پڑ کر سسک سسک کر اپنی جان دینے کی بجائے صبر وتحمل کا سہارا لیتے ہوئے کسی سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر ان حالات کا سامنا کریں تاکہ وہ اپنی ذہنی قابلیت اور صلاحیت سے ان مشکل حالات سے نبردآزما ہو کر ان سے خود کو باہر نکال سکیں۔
زندگی کو پرسکون طریقے سے گزارنے کا یہی ایک واحد اصول ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہر ایک انسان ہر قسم کے حالات کا بڑے دل کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے۔
“کراچی۔ی۔۔۔؟؟لیکن اتنی اچانک یہ سب۔۔۔” سکندر شاہ نے اخبار صوفوں کے وسط میں موجود ٹیبل پر رکھ کر سوالیہ لہجے میں استفسار کیا۔
“جی بابا۔۔۔۔۔وہ بس اچانک ہی شوٹنگ سیٹ کی لوکیشن چینج کرنا پڑی ہے اس لیے مجھے بھی ٹائم ٹو ٹائم ہی پتہ چلا ہے۔۔”اذلان نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد تقریبا اپنی نظریں جھکائے سنجیدگی سے پر لہجے میں سکندر شاہ کو جواب دیا تھا۔
“زینی بیٹے۔۔!!”سکندر شاہ کے کچھ بھی کہنے سے پہلے عاصمہ بیگم نے اپنے ساتھ بیٹھی زینی کو فورا مخاطب کیا تھا۔
“ج۔جی آنٹی۔۔” اذلان سے نگاہیں چرائے زینی نے تھوڑا نروس انداز میں جواب دیا۔
“بیٹے۔۔! آپ بھی جلدی سے جا کر اپنی پیکنگ کر لو۔۔۔۔ اس سب میں کافی ٹائم لگ جاتا ہے۔” عاصمہ بیگم کو لگا زینی بھی ساتھ ہی جائے گی اس لیئے انہوں نے زینی کو بھی پیکنگ کرنے کا کہا تھا جس پر زینی کی نگاہیں بےساختہ ہی اذلان کی طرف اٹھ گئیں۔
“ماما۔۔! کراچی صرف میں جا رہا ہوں۔۔یہ نہیں۔۔۔” اذلان نے زینب کو ساتھ نہ لے جانے کا فیصلہ بتا کر سکندر شاہ کو ایک پل کیلئے خود کو دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔
“کیوں۔۔؟؟ زینب کیوں نہیں جا رہیں تمہارے ساتھ۔۔؟؟” سکندر شاہ نے اب سوالیہ نگاہوں سے زینب اور اذلان دونوں کے تاثرات کو ایک ساتھ بغور دیکھا جس پر زینب اپنے تاثرات چھپانے کیلئے فورا اپنا سر اور آنکھیں نیچے جھکا گئی تھی۔
سکندر شاہ کو انکی حد درجہ خاموشی دیکھ کر چند ہی پل لگے تھے اس ساری صورت حال کو سمجھنے میں اس لیئے اسوقت ان کے تاثرات یکلخت تبدیل ہو کر تھوڑے تنے ہوئے دکھائی دیے۔کیونکہ انہیں فورا اندازہ ہو گیا تھا کہ اذلان کسی نہ کسی وجہ سے جان بوجھ کر زینب کو اپنے ساتھ کراچی لے کر نہیں جا رہا ہے۔
“ایکچوئلی بابا۔۔۔!! وہ میری نئی فلم کی شوٹنگ وہاں کافی دیر تک چلنی ہے۔۔”
“تب تک یہ اکیلی وہاں کیا کریں گی بس اس لیے میں نے فیصلہ کیا یہ ادھر آپ کے پاس ہی رہیں گی۔۔” اذلان نے اپنی پیشانی دھیرے سے مسلتے ہوئے تھوڑے نرم لہجے میں سکندر شاہ کو وضاحت دی کیونکہ وہ ان کے چہرے کا اتار چڑھاؤ واضح دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
“فلم کی شوٹنگ 24 گھنٹے تو نہیں چلنی نا۔۔۔؟؟”سکندر شاہ کی سنجیدگی سے بھرپور آواز لاؤنج کی ساکت فضا میں گونج کر رہ گئی جس پر زینی ایک پل کیلئے ڈر کے مارے سہم کر خود میں سمٹ سی گئی۔
جب کبھی سکندر شاہ کسی مسئلے کو خود ہی اپنے طریقے سے ہینڈل کر رہے ہوتے تب عاصمہ بیگم ان کی کسی بات میں بےجا مداخلت کر کے اپنے بچوں کے سامنے ان کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف شو نہیں کرتیں تھیں تاکہ ان کہ بچوں کے ذہن میں کبھی بھی ان کی عزت واحترام میں رتی برابر بھی کمی نہ آئے۔
اولاد کی اچھی تربیت ہی انکے اچھے مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے۔اگر ایک باپ جو اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتا ہے وہ کسی غلط کام کرنے پر اپنے بچے کو راہ راست پر لانے کیلئے اس کو تھوڑا ڈانٹ ڈپٹ رہا ہو یا پھر اس کے ساتھ تھوڑی سختی برت رہا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس سے اتنا پیار نہیں کرتا جتنا ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے۔
ایک باپ اپنے بچوں سے کتنا پیار کرتا ہے اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا حتی کہ ایک ماں بھی نہیں۔
لیکن بعض کم عقل اور جاہلانہ سوچ رکھنے والی عورتیں ایسی صورتحال میں اپنے شوہر کا ساتھ دینے یا پھر خاموش رہنے کی بجائے اپنے بچے کے سامنے اس طرح تن کر کھڑی ہو کر ان کا دفاع کرتے ہوئے باقاعدہ اپنے شوہر سے بدتمیزی پر اتر آتیں ہیں انہیں یہ بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا ان کے اس رویے سے بچے آٹومیٹکلی اپنے باپ سے بدگمان ہونا شروع ہو جاتے ہیں بھلے ہی انکا باپ یہ سب صرف اور صرف ان کی بھلائی کی خاطر ہی کر رہا ہو۔
یہ سب کر کے وہ اپنے بچے کو یہ شو کروا رہی ہوتی ہیں کہ وہ انہیں ان کے باپ سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں۔اس لیئے اسے ان کی فکر زیادہ ہے ان کے باپ کو نہیں۔وہ انجانے میں ہی سہی اپنی اس غلط سوچ کے زیراثر اپنے آس پاس موجود رشتوں میں تناؤ یا بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں۔
اگر بچے کو اس کی کسی بدتمیزی یا اس کے کسی غلط کام پر اس سے صحیح وقت پر پوچھ گچھ نہ کی جائے یا پھر انہیں صحیح، غلط میں فرق کی نشاندہی نہ کروائی جائے تو ایسی صورتحال میں تو بچے لازمی بگڑ ہی جاتے ہیں۔
اور پھر جب یہی بچے بڑے ہو کر کوئی غلط کام کرتے ہیں یا پھر اپنے والدین سے ہی بدتمیزی سے بات کر رہے ہوں تو لوگ بچے کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی تربیت پر بھی کئی سوالات اٹھاتے ہیں۔اس وقت وہ لوگ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور تب ان کے پاس سوائے ندامت اور شرمندگی کے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ گزرا ہوا وقت پھر کبھی نہیں لوٹتا۔
کسی غلط کام میں اپنے بچے کی بےجا حمایت میں شوہر کے ساتھ بدتمیز اور اکھڑ انداز میں بولنے والی عورتیں دو قسم کے سنگین گناہوں کا مرتکب ہو رہیں ہوتی ہیں۔ایک تو وہ اپنے شوہر جسے مجازی خدا کہتے ہیں اس کے ساتھ بدتمیزی کر رہیں ہوتی ہیں۔ اور دوسرا بچوں کی نظر میں ان کے باپ کی عزت اور مرتبہ کم کرنے میں معاونت فراہم کر رہی ہوتی ہیں ۔۔اور اللہ تعالی کی نظر میں یہ دونوں کام ہی حد سے زیادہ ناپسندیدہ تصور کئے جاتے ہیں۔
ایک شوہر اور بیوی دونوں کو ہی اس بات کا لازمی خیال رکھنا چاہیئے کہ بچے کی تربیت کرنے کی خاطر اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی تھوڑی سختی برت رہا ہو تو دوسرا اس میں بےجا مداخلت نہ کرے تاکہ اس بچے کو احساس ہو سکے کہ اس نے کوئی غلط کام کیا ہے جو پھر دوبارہ کبھی نہیں کرنا اس سے اس بچے میں سدھرنے کے امکانات بہت زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔اور وہ بہت جلد اس غلط عادت سے اپنی جان چھڑوانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔اس سے ان میں سے کسی ایک کی اپنی عزت میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک اسے کسی بات پر ڈانٹ رہا ہو اور عین اسی وقت دوسرا اس سے لاڈ اور پیار جتا رہا ہو تو پھر اس صورتحال میں ان بچوں کو بگڑنے سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا۔۔۔۔کوئی بھی نہیں۔
اللہ تعالی نے والدین پر بچوں کی تربیت کی بہت بھاری ذمہ داری عائد کی ہے جس کو اچھے طریقے سے پورا کر کے وہ اپنے بچوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔اور جو والدین اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں انہی والدین کے نصیب میں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی بھلائی لکھ دی جاتی ہے جس سے ان کی پوری کی پوری زندگی سنور جاتی ہے۔
“اذلان۔۔!! زینی تمہارے ساتھ ہی کراچی جائیں گی اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے اور اس بارے میں مزید کوئی ڈسکشن نہیں ہوگی۔۔۔”
“زینی بیٹے۔۔! آپ جا کر اپنی پیکنگ کریں اور اذلان تم۔۔۔ اپنی ٹکٹ کے ساتھ ساتھ زینی کی ٹکٹ بھی بک کرواؤ گے۔۔از دیٹ کلئیر۔۔؟؟” سکندر صاحب سنجیدہ لہجے میں حکم صادر کرتے اذلان کے “جی بابا”کہہ کر اثبات میں سر ہلانے پر فورا وہاں سے چلے گئے تھے۔
“جائیے زینی بیٹے۔۔!آپ بھی جا کر اپنی پیکنگ کر لیں۔۔”زینی کو ہنوذ وہیں شاک کے عالم میں بیٹھے دیکھ کر عاصمہ بیگم نے اسے وہاں سے جانے کا کہا۔۔۔۔۔۔۔
اذلان اس کو بے جان قدموں سے وہاں سے جاتے دیکھ کر اسے ایک سرد نگاہ سے گھورنے کے بعد اس کی سائیڈ سے گزر کر تیز قدموں سے آگے بڑھتا ہوا ٹی وی لاؤنج سے باہر چلا گیا تھا جبکہ زینی اس کی سرد نگاہ کو دیکھتی اپنی پرنم آنکھوں سمیت شکستہ قدموں سے زینے چڑھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
?????
“ہیلو۔۔!! کیسی ہو پریشے۔۔؟؟” ولید نے آج کافی دنوں بعد دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پریشے کو فون کرکے اس کی خیریت دریافت کی تھی۔
تبھی پریشے کا بھیگا اور پرنم لہجہ ولی کو اپنی سماعتوں میں صاف سنائی دیا تھا۔
“پریشے۔۔! آپ رو رہیں تھیں نا۔۔؟؟کیا ہوا آپ کو۔۔ سب خیریت تو ہے نا۔۔؟؟” ولید نے فورا ہی اس کے لہجے کی نمی کو محسوس کرتے ہوئے ازحد فکرمند لہجے میں اس سے تابڑتوڑ کئی سوالات ایک ساتب کرتے ہوئے اسکے رونے کی وجہ جاننی چاہی۔
“ن۔ن۔ نہیں تو۔۔۔میں کیوں روؤں گی۔۔؟؟” پریشے نے ابھی بھی اپنے گالوں پر موجود آنسو صاف کرتے ہوئے ولی سے حقیقت چھپانے کی بھرپور سعی کی تھی۔
“پریشے۔۔!!آپ کی آواز سے صاف لگ رہا ہے جیسے آپ ابھی بھی بےآواز رونے میں ہی مشغول ہیں۔۔”ولید اس سے کوسوں دور بیٹھا بھی اس کی آواز واضح پہچان سکتا تھا۔
“نہیں۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔بس آپ کو ایسے ہی کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے۔۔”پریشے کی اپنا ہر درد چھپانے والی اس بری عادت پر ولید گہرا سانس بھرتے ہوئے نفی میں سر جھٹک گیا تھا۔دونوں کے درمیان کچھ لمحے خاموشی سے سرک کر بیت گئے۔
“اچھا پریشے۔۔! مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔۔” ولی پریشے سے انس کی بتائی ہوئی بات پوچھنے لگا تھا۔ پہلے تو وہ سیدھا سیدھا زینی سے ہی پوچھنا چاہ رہا تھا مگر پھر کچھ سوچ کر اس نے زینی سے پہلے پریشے سے پوچھنا مناسب سمجھا تھا۔۔۔۔
“ج۔جی جی پوچھیں۔۔! میں سن رہی ہوں۔۔” پریشے نے اب بیڈ کی پشت سے ٹیک چھوڑ کر اپنے لہجے کو بمشکل کپکپانے سے روکا تھا کیونکہ ولید کا اس قدر سنجیدہ انداز دیکھ کر وہ اندر ہی اندر کسی انجانے خوف کا شکار ہو گئی تھی۔
“ایکچوئلی۔۔! پریشے وہ میں۔۔میرا مطلب۔۔”ولید پہلی بار پریشے سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔
” کیا یونیورسٹی میں زینی کی کسی سے کوئی لڑائی وغیرہ ہوئی تھی جس نے اپنا بدلہ لینے کے لئے زینی کی یہ ویڈیو لیک کر دی۔۔؟؟؟”ولید نے ایک ہی سانس میں اپنی پوری بات کہہ ڈالی۔۔۔آخر کو وہی ہوا تھا جس کا ڈر تھا۔۔۔۔۔
پریشے تو کل سے زینی سے بات کرنے کے بعد سے ہی بات بے بات روئے جا رہی تھی کیونکہ زینی نے اسے زاویار کی حقیقت کے بارے میں صاف بتا دیا تھا۔اور آج ولید کے لبوں سے بھی یہی بات سن کر وہ خود کے اعصاب پر قابو نہ رکھتے ہوئے بری طرح رو دی۔
” پریشے۔۔۔کیا”پریشے کو یوں شدت سے روتے دیکھ کر ولید تو بھونچکا کر ہی رہ گیا تھا۔
“ایم سو سوری ولید۔۔۔!! یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے۔۔”پریشے رونے کے ساتھ ساتھ ہکلاتے لہجے میں بات کر رہی تھی۔
“ک۔ کاش میں کبھی بھی زینی کی دوست نہ رہی ہوتی۔۔کم از کم آج اسے میری وجہ سے یہ سب فیس تو نہ کرنا پڑتا۔۔”
“میں بہت بری ہوں۔۔ بہت بری۔۔آج میری بدقسمتی کی وجہ سے۔۔” پریشے کے منہ سے اس قسم کے الفاظ سن کر ولید شدید حیرت کے مارے گنگ رہ گیا تھا۔اور پھر وہ ایک جھٹکے سے اپنے آفس کی ریوالونگ چئیر سے اٹھ بیٹھا۔
” پریشے یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔؟؟ آپ کی وجہ سے کیوں۔۔۔؟؟” ولید نے یہ الفاظ بڑی مشکل سے اپنے لبوں سے ادا کیے تھے جس پر پریشے نے انسؤوں سمیت روتے ہوئے ساری حقیقت ولی کے گوش گزار کر دی جسے ولید چپ سادھے اپنے سختی سے پیوست لبوں کے ساتھ سن رہا تھا۔
“ایکچوئلی۔۔ولید ایک لڑکا کئی مہینوں سے مجھے یونیورسٹی میں تنگ کر رہا تھا۔ ایک دن اس نے مجھے پورے ہال کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پرپوز کر دیا تو میں نے اسے صاف الفاظ میں منع کر دیا تھا۔”یہ بات سن کر ولید کے تاثرات ازحد سنجیدگی کا رخ اختیار کر گئے تھے۔
“اس لیے اس لڑکے نے اپنے دوست کو کہہ کر میری تصویر جس میں میں ایک لڑکے کو پڑھاتے ہوئے کچھ سمجھا رہی تھی اس کے پوسٹر بنوا کر کالج کی ساری دیواروں پر لگا دیں۔۔اور۔۔ اور ساتھ میں ان تصویروں کے نیچے ڈفرنٹ فنی کمنٹس لکھ کر پوری یونیورسٹی میں میرا مذاق بنا دیا تھا۔” پریشے آنسوؤں سمیت روتے ہوئے ولید کو ساری حقیقت بتا رہی تھی جس پر ولید نے اپنی مٹھی سختی سے بھینچ کر اپنے غصے پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔
“پھر زینی نے مجھے یوں کلاس روم میں بیٹھ کر روتے ہوئے دیکھا تو وہ اس لڑکے کو تھپڑ مار آئی جس نے یہ حرکت کی تھی۔
” ساری یونیورسٹی کے سامنے اس لڑکے کا مذاق بن گیا تھا۔ اس دن سے ہی اس نے بدلہ لینے کی ٹھان لی ہو گی اور پھر اس دن جب ہم لوگ باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔
” اس نے یا پھر شاید اس کے کسی دوست نے وہ ویڈیو ریکارڈ کرنے کے بعد اس میں سارے الفاظ کو گڈمڈ کر کے زینی کا یوں سب کے سامنے تماشا بنا دیا۔
” میں اس سب کے لئے خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گی۔۔ آج صرف اور صرف میری وجہ سے میری دوستی اس قدر مشکل میں ہے۔۔ یہ سوچ کر ہی میری جان نکل رہی ہے۔۔”
“پلیز۔۔ مجھے معاف کردیں ولید۔۔ میں بہت بری لڑکی ہوں میں کسی طور آپ کے لائق نہیں ہوں۔۔۔”
” آپ مجھ سے بھی زیادہ اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہیں۔۔ ولید میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔” پریشے نے روتے ہوئے اپنی بات کہہ کر فورا فون ڈسکنیکٹ کر دیا۔
ولی جو ابھی اسے کچھ کہنے کے لئے اپنے لب وا کرنے ہی لگا تھا کہ اسپیکر سے فون ڈسکنیکٹ ہونے کی آواز نے اس کی شعلہ بار نگاہوں میں مزید سرخی بھر دی۔
ولید نے کئی بار نمبر ری ڈائل کیا تھا مگر وہ ہنوذ پاور آف شو ہو رہا تھا۔بالآخر تنگ آ کر اس نے غصے سے فون ٹیبل پر پٹخا اور خود صوفے پر بیٹھتے ہوئے مضطرب انداز میں اپنا سر ہاتھوں میں تھامے اس تلخ حقیقت کے بارے میں پھر سے سوچنے لگا تھا۔
?????
“ویل ڈن۔۔!!ضرار۔۔ حیا۔۔ آپ دونوں نے ایک ساتھ مل کر بہت اچھا کام کیا ہے بیٹے۔۔” پروفیسر امین نے سارے چارٹس کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ان دونوں کے کام کو سراہا تھا جس پر حیا خوشدلی سے کھل کر مسکرا دی تھی۔۔۔۔
“سر۔۔!! ضرار نے تو صرف یہ پرابلم سولو کر کے چارٹس بنائے تھے۔۔ یہ تو میرا آئیڈیا تھا کہ ان کو سائیڈ سے جتنا اچھا ڈیکوریٹ کریں گے اتنا ہی سٹوڈنٹس ان کی طرف متوجہ ہوں گے اور اب دیکھیں ان کی خوبصورتی دیکھ کر جس نے نہیں بھی دیکھنا وہ بھی ایک نظر دیکھنے پر مجبور ضرور ہوجائے گا۔۔”حیا نے کھل کر اپنے کام کی تعریف کی تھی کیونکہ اس نے اتنی محنت سے جو یہ سب ڈیکوریٹ کیا تھا۔ضرار اس کے یوں اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے بچگانہ انداز پر زیر لب مسکراتے ہوئے آہستگی سے نفی میں سر جھٹک گیا تھا۔
“رئیلی۔۔اٹس امیزنگ حیا آپ نے بہت اچھا کام کیا بیٹے۔۔ گریٹ جاب۔۔” پروفیسر امین نے بھی اب کی بار دھیرے سے مسکراتے ہوئے حیا کو داد دی تھی۔
ضرار نے بےاختیار ہی حیا کو ایک نظر سرتاپا دیکھا تھا جو اس وقت اتنا چھوٹے سا کام کرنے پر خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
“اوکے سر۔۔۔!! ہم پھر چلتے ہیں ایکچوئلی میری کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے۔۔”ضرار کو اس کا یوں اپنے منہ میاں مٹھو بننا بالکل پسند نہیں آ رہا تھا اس لیے اپنی کلائی میں بندھی رسٹ واچ پر ایک نگاہ دوڑاتے ہوئے بیزار لہجے میں خود ہی بات کو سمیٹنے کا سوچا کیونکہ حیا میڈم کو تو اپنی تعریفوں کے پل باندھنے سے فرصت ہی نہیں مل رہی تھی۔
“اوکے۔۔!اب آپ لوگ جا کر اپنی کلاس اٹینڈ کریں۔۔” پروفیسر امین نے ان کو وہاں سے جانے کی اجازت دے دی اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ چلتے اسٹاف روم سے باہر آ گئے تھے۔۔
“اگر سر میرے کام کی تعریف کر رہے تھے تو تمہیں کیوں اتنی جلن ہو رہی تھی۔۔ہاں۔۔؟؟؟” حیا نے اسٹاف روم سے باہر آ کر ضرار کو تھوڑے سخت لہجے میں کہا کیونکہ حیا اس کے چہرے کے تاثرات سے واضح جان گئی تھی کے ضرار نے جان بوجھ کر جلدی جلدی بات کو ختم کرنے کی کوشش کی کیونکہ اس سے اپنے علاوہ کسی اور کی تعریف ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
“محترمہ۔۔!! سر آپکی تعریف بالکل نہیں کر رہے تھے۔۔بلکہ آپ خود ان سے زبردستی کروا رہیں تھیں۔۔” ضرار نے بھی سارے لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی لہجے میں دو بدو جواب دیا تھا۔ اتنے دنوں تک ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود وہ دونوں پھر سے جھگڑ رہے تھے۔
“تت۔۔تم تو ہو ہی جل ککڑے،بور اور سڑیل مزاج قسم کے انسان۔۔ تم سے کسی کی خوشی کہاں دیکھی جاتی ہے۔۔اور اسپیشلی میری تو۔۔” حیا نے شدید غصے میں آ کر تنک انداز سے کہتے ہوئے اسے مختلف القابات سے نوازا اور پھر تن فن کرتی اس سے دو قدم آگے آگے چلنے لگی تھی۔
ضرار حیا کی زبان سے اپنے لئے اس قسم کے عجیب و غریب القابات سن کر ضرار شاید زندگی میں پہلی بار بےساختہ دھیرے سے مسکرا دیا۔اور پھر بہت جلد خود کے تاثرات پر قابو پاتے ہوئے اپنی اس خوبصورت، دھیمی مسکراہٹ کو بھی چھپا گیا تھا۔
“تھوڑے سے چارٹس کیا ڈیکوریٹ کر لیئے۔۔آپ تو ایسے خوش ہو رہیں ہیں جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر انجام دے دیا ہے آپ نے۔۔” ضرار کو اس کی بحث بلاوجہ لگی تھی اس لئے پھر سے اسے مخاطب کیئے بنا نہ رہ سکا تھا۔
“تو تم کر لیتے خود ہی۔۔ تم تو اپنی طرح کے سڑے ہوئے اور بور قسم کے چارٹس بنا کر اپنا کام ختم کر چکے تھے۔۔”ضرار کی اس بات پر حیا اسے تیکھی نگاہوں سے گھورتے ہوئے پھر سے لڑنے میں مصروف ہو گئی تھی۔
” اچھے سے یاد کرو۔۔ یہ میں ہی تھی جس نے اپنے ساتھ ساتھ تمہارے چارٹس کو بھی ڈیکوریٹ کیا تھا۔۔سب کچھ بھول گئے ہو تم احسان فراموش۔۔”حیا ان اپنے قدموں کو بریک لگا کر باقاعدہ اس سے تیز لہجے میں بات کرتے ہوئے اسے پھر سے یاددہانی کروا رہی تھی۔
جب وہ دونوں اپنا اپنا کام مکمل کر چکے تو ضرار نے تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے ایک ایک کر کے سب چارٹس کو فولڈ کرنا شروع کر دیا تھا۔
“رکو۔۔ رکو ضرار۔۔!!”
” کیوں نہ ہم ان سب کو اچھے سے ڈیکوریٹ کریں تاکہ یہ اچھے بھی دکھیں ورنہ ایسے بوریت سے بھرے چارٹس دیکھ کر کسی اور نے تو کیا ریحان نے بھی نظر نہیں ڈالنی۔۔” ضرار جو اسوقت حیا کے سامنے والا چارٹ اٹھا کر فولڈ کرنے لگا تو حیا نے تیز لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے فورا روک دیا جس پر ضرار ایک پل کیلئے اپنے ہاتھ پر رکھے اس کے ہاتھ کو ایک نظر دیکھنے لگا تھا۔
“میتھس کے سوالوں سے ڈیکوریشن کا کیا تعلق۔۔؟؟”ضرار کے یوں دیکھنے پر حیا نے سٹپٹاتے ہوا فورا اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور پھر تھوڑا خجل ہوتے ہوئے اپنی نگاہیں نیچے جھکا کر چارٹ کو سرسری انداز سے دیکھنے میں محو ہو گئی۔۔۔۔۔
حیا کی جھکی پلکوں کی رقص کرتی خوبصورت، گھنیری جھالر نے ضرار کی ہارٹ بیٹ ایک لمحے کیلئے مس کر دی تھی۔
” یہ کوئی آرٹ گیلری نہیں ہے حیا جس کو ہم اتنا ڈیکوریٹ کرتے پھریں۔۔ میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ان ڈیکوریشنز پر ضائع کرنے کے لیے۔۔” ضرار نے توقع کے عین مطابق جھٹ سے منع کردیا تھا کیونکہ اسے یہ ڈیکوریشن صرف وقت کا ضیاع لگی تھی۔
“تمہارے پاس تو ہمیشہ ہی وقت کی کمی ہوتی ہے ضرار یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔۔”حیا تھوڑا ناک اوپر چڑھاتی پھر سے طنزیہ لہجے میں گویا ہوئی جس پر ضرار کے نتھنے بےاختیار ہی غصے سے پھول گئے۔
“تم چلو جلدی سے سارے چارٹس کے اطراف کلرفل لائنز لگاؤ۔۔تب تک میں ان کو ساتھ ساتھ ڈیکوریٹ کرتی ہوں۔۔۔ جلدی سے یہ ختم ہو جائے تو پھر سر کو سبمٹ کروا دیں گے۔۔”حیا کو ہمیشہ ہی ضرار کے وقت کے ماپ تول پر غصہ آتا تھا اس لیے اس کی بات کو یکسر نظرانداز کرتی اپنے جھکے سر کے ساتھ پھر سے کام میں مصروف ہو گئی تھی۔۔۔
اس کے بال اس وقت کیچر سے باہر آکر اس کے شانوں پر گرے ہوئے تھے جن کو سمیٹنے کا فی الحال اس کے پاس وقت نہیں تھا اس لیے چپ چاپ اپنے کام میں لگی رہی۔۔ضرار ایک پل کے لیے اس منظر کو مبہوت نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا تھا۔
“یار۔۔!! ایک تو یہ لڑکی کبھی میری بات نہیں مانتی۔۔”
“اب تو مجھے بھی حسرت ہو رہی ہے کہ کسی دن یہ لڑکی چپ چاپ بنا کسی بحث کے میری کوئی ایک بات تو مان لے۔۔”ضرار اس کے خوبصورت سراپے سے نگاہیں چرا کر دل ہی دل میں سوچتے ہوئے اپنے بگڑے تاثرات کے ساتھ کام میں مصروف ہو گیا تھا کیونکہ حیا میڈم آرڈر دے چکی تھی وہ تو پورا کرنا ہی تھا چاہے پھر وہ اسے کسی بھی موڈ کے ساتھ کرنا پڑے بالآخر کرنا تو تھا۔
“اس میں کیا بڑی بات ہے جہاں پر میں نے یہ ساری لائنز ڈرا کر لیں تھیں وہیں آپ سے زیادہ ڈیسنٹ طریقے سے ڈیکوریٹ بھی کر لیتا۔۔
” میں نے تو کہا اس طرح آپ کو برا لگے گا اس لئے وہ کام آپ پر ہی چھوڑ دیا تھا۔Otherwise میں خود ہی کر لیتا یہ ڈیکوریشن کرنا کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں ہے۔۔”ضرار نے جان بوجھ کر اسے چڑانے کیلئے اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا تھا۔
ضرار کی اس بات پر حیا کا غصے کے مارے چہرہ لال بھبھوکا ہو کر رہ گیا تھا۔
“تم نا مجھ سے بات ہی مت کیا کرو۔۔ اس طرح تو میرا سارا خون تمہاری ان سڑیل باتوں سے ایک دن ختم ہو جائے گا۔۔”
” میں کیوں تمہاری وجہ سے اپنا خون جلاتی پھروں۔۔؟؟”حیا نے پہلے تو ضبط کے چکر میں اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے گہرا سانس خارج کیا۔
اور پھر اس سے کٹیلے لہجے میں کہنے کے بعد اسے باقاعدہ اپنے ایک ہاتھ سے پیچھے کرتی فورا وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ ضرار اس کے اس بچگانہ انداز پر زیرلب مسکراتا ہوا واپس اپنے کلاس روم میں چلا گیا۔
?????