
?ناول
?محبت سے خدا تک کا سفر
?تحریر
?مہوش صدیق
رفعت بیگم اور حسن صاحب اپنی بھتیجی عبیرہ کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے کی تقریب میں آج ان کے گھر آئے ہوئے تھے۔
مصطفی صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو اتنے دنوں بعد اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ اب وہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران لنچ کر رہے تھے۔ کہ اچانک زیان کی آواز پر وہ دونوں ادھر متوجہ ہوئے۔
“ڈیٹس ناٹ فئیر چاچو! آپ آج بھی حیا اور مریم کو اپنے ساتھ نہیں لائے۔۔۔”زیان نے حسن صاحب سے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس پر پاس بیٹھی رفعت بیگم نے فورا زیان کو وضاحت دی۔
“زیان بیٹے!حیا اور مریم کالج گئی ہوئیں تھیں۔۔۔ انہوں نے تو کہا تھا ہمارا ویٹ کریے گا ہم اکٹھے نکلیں گے۔۔۔”
” مگر انہوں نے کہا بھائی صاحب ہمارا ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔۔ اس لئے ہم انہیں لیے بنا ہی ادھر آ گئے۔۔”
رفعتت بیگم نے شائستگی سے انہیں حیا اور مریم کے نہ آنے کی وجہ بتائی جس پر بیگم مصطفی نے انہیں خوشدلی سے مسکراتے ہوئے ایک نیا آرڈر جاری کیا تو جوابا وہ بھی مسکرا دیں تھیں۔
“رفعت۔۔۔!عبیرہ کی شادی پہ آپ لوگوں نے کم از کم ایک ہفتہ پہلے انہیں لانا ہے۔۔۔”
” زمل بیچاری تو عینی کو سنبھالتے سنبھالتے ہی پورا دن گزار دیتی ہے۔۔بالکل بھی پتا نہیں چل رہا کہ یہ شادی والا گھر ہے۔۔۔”
“بچیاں آئیں گی تو ہی رونق ہو گی نا ہمارے گھر میں بھی۔۔” رفعت بیگم نے ان کے حکم پر سر کو ہلکا سا خم دیا اور “جی ضرور” کہتیں عبیرہ کے کمرے میں چلی گئیں جہاں وہ تقریب کیلئے ریڈی ہو رہی تھی۔
سب مہمانوں کے ساتھ ساتھ ہال میں عبیرہ کے سسرال والے بھی پہنچ چکے تھے۔
زیان اور حسن صاحب آنے والے مہمانوں کو ویلکم کر رہے تھے۔ عینی بھی زیان کے ساتھ بلیک میچنگ ڈریس پہنے خوبصورت باربی ڈول لگ رہی تھی۔
ہر آتا جاتا عینی کو پیار کر رہا تھا۔ مگر وہ بار بار اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مسل رہی تھی اسے ان سب چیزوں سے جلدی کوفت ہونا شروع ہو جاتی تھی۔
اس کی اس حرکت پر حسن صاحب اور زیان بھی بے ساختہ ہنس دیے۔تبھی زیان کی نگاہ سامنے مین گیٹ سے اندر آتے سکندرشاہ اور عاصمہ بیگم پر گئی جو اسوقت آحل، عائشہ بھابی اور عالیان کے ساتھ ہال میں داخل ہو رہے تھے تو وہ انہیں فورا لینے چلا آیا۔
زمل بھی تب تک تیار ہو کر ہال میں آ چکی تھی۔اب زیان سے عینی کو زمل نے پکڑ لیا تھا۔ زمل سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم سے باقی سب کے آنے کا پوچھ رہی تھی۔
” باقی سب کیوں نہیں آئے۔۔؟” جس پر عاصمہ بیگم نے ان کے ضروری کام کا بتا کر پھر زمل سے عینی کو پکڑ لیا تھا۔
عینی اب اپنی نانو سے مل کر خوش ہوگئی تھی۔۔ پہلے اس کے چہرے پر اتنے سارے مہمانوں کو دیکھ کر عجیب سا چڑچڑاپن ظاہر ہو رہا تھا۔
زمل اور زیان اب ان کو ہال کی جانب لے کر جا رہے تھے جہاں پر تقریب شروع ہونے والی تھی۔
رفعت بیگم اور بیگم مصطفی کے ساتھ آتی عبیرہ نے اس وقت لائٹ گرے کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا ۔آج اس کی منگنی کا فنکشن بھی تھا اس لیے اسے باقاعدہ اسٹیج پر لایا جا رہا تھا۔ عبیرہ کے اسٹیج پر بیٹھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد تقریب اسٹارٹ ہو چکی تھی اور سب لوگ اس تقریب کو دیکھتے ہوئے انجوائے کر رہے تھے۔
?????
“ارے زینی بھابی! آپ اتنا گم صم کیوں بیٹھی ہوئی ہیں۔۔۔ ؟؟”عالیان اور عائشہ ابھی آحل کے سکول سے تھوڑی دیر پہلے پیرینٹس میٹنگ اٹینڈ کر کے واپس آئے تھے۔
لنچ انہوں نے آحل کے ساتھ ہی کسی ریسٹورنٹ میں کر لیا تھا۔ اس لیے اب وہ دونوں سیدھا لاؤنج میں آگئے جہاں پر زینی کو معمول سے زیادہ خاموش پا کر عالیان بھائی نے انہیں آہستگی سے مسکرا کر مخاطب کیا۔
عالیان کی بات پر زینی بھی آہستگی سے مسکرا دی تھی۔
“نہیں عالیان بھائی!بس ویسے ہی میں بور ہو رہی تھی اس لیے ادھر ہی بیٹھ گئی۔۔” زینی نے اب کی بار بھی تھوڑے دھیمے لہجے میں ہی جواب دیا۔
آج صبح سے ہی اسے ابراہیم اور سارہ بیگم کی بہت یاد آرہی تھی ۔اس لئے وہ کچھ زیادہ بول بھی نہیں پا رہی تھی۔
“اچھا۔۔ تو چلو پھر ایسا کرتے ہیں۔۔ اذلان کی کوئی مووی دیکھتے ہیں ۔۔۔اور ابھی کے ابھی اس بوریت کو دور بھگا دیتے ہیں۔۔۔” عائشہ بھابی جو ابھی ابھی آحل کو سلا کر عالیان بھائی کے ساتھ آ کر بیٹھی تھی انہیں نیا آئیڈیا دیا۔
“دیٹس گریٹ آئیڈیا عائشہ۔۔۔”عالیان بھائی نے مسکراتے ہوئے باقاعدہ عائشہ بھابھی کے ہاتھ سے ہاتھ ملایا۔
زینی ان کے اس انداز پر بے ساختہ ہنس دی۔زینی کو وہ دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگتے تھے۔۔ اس لئے دل ہی دل میں ان کے خوبصورت رشتے کے لئے “ماشاءاللہ” کہنے لگی۔
کچھ ہی دیر بعد عائشہ بھابی نے ایک یو ایس بی کو ٹی وی کے ساتھ کنیکٹ کیا اور پھر کچھ ہی پلوں کے بعد اذلان کی مووی چلنے لگی تھی۔
اس مووی میں اذلان کی ہیروئن صوفیہ تھی جس کو دیکھ کر زینی کو اس دن صوفیہ سے ہوئی ملاقات ذہن میں گردش کرتی محسوس ہوئی تھی۔
زینی کو اسے پھر سے اپنی انکھوں کے سامنے دیکھ کر غصہ تو بہت آیا پر وہ یہاں سے اٹھ کر جا بھی نہیں سکتی تھی۔۔ کیونکہ ان دونوں نے اسی کی تو دلجوئی کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے وہ یہاں سے اٹھ کر ان کا دل نہیں توڑ سکتی تھی۔
اب وہ صرف ان کا دل رکھنے کے لیے آہستگی سے مسکرا کر اسی مووی کو غائب دماغی سے دیکھنے لگی۔
عائشہ بھابی نے لاؤنج کی ساری لائٹس آف کرکے گھر پر ہی سینیما کا ماحول بنا دیا تھا۔
زینی کے ذہن کے پردے پر اپنا اور ولی کا ایک ساتھ مووی دیکھنا لہرایا تو ایسا محسوس ہوا تھا جیسے وہ چند پلوں کے لیے یہاں تھی ہی نہیں ماضی کے دریچوں میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔
“یار زینی! تم اس کھڑوس اذلان کی موویز دیکھ دیکھ کر پک نہیں جاتی۔۔ مجھے تو اب یہ برا لگنے لگ گیا ہے۔۔۔” ولید کے یہ کہنے کی ہی دیر تھی کہ اس پر ڈھیر سارے کشنز کی بارش ہو چکی تھی۔ جن میں سے وہ کسی کو کیچ کرتا اور کسی کو واپس زینی کی طرف پھینک دیتا ۔کچھ ہی منٹوں میں نفاست سے سجے سنورے کمرے کی حالت ابتر ہو کر رہ گئی تھی۔
“ارے! یہ کیا کیا تم دونوں نے۔۔؟ سارہ بیگم جو ان دونوں کے لیے مختلف اسنیکس کھانے کو لائی تھیں۔ کمرے کی اس قدر بری حالت دیکھ کر ازحد حیران رہ گئیں۔
“ماما! یہ سارے کام ولی کے ہی ہیں۔۔۔ یہ بات ہی ایسی کرتا ہے کہ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔۔۔” زینی نے باقاعدہ منہ بگاڑ کر کہا جس پر ولی نے اسے مصنوعی غصے سے گھور کر دیکھا۔
“آنٹی دیکھیں! اس کمبخت مووی کی وجہ سے مجھ سے لڑ رہی ہے۔۔۔” ولی نے زینی کی شکایت لگائی اور ساتھ ہی لیپ ٹاپ کا رخ باقاعدہ سارہ بیگم کی طرف کر دیا۔
“بس اسی لیے میں تم دونوں کو ایک ساتھ مووی دیکھنے سے منع کرتی ہوں۔۔۔”
” تم لوگ ہر چھوٹی سی چھوٹی بات پر لڑنے لگ جاتے ہو۔۔ اب مووی کی وجہ سے کون لڑتا ہے بھلا۔۔؟؟” زینی سدھر جاؤ تم ورنہ تمھارے بابا کو تمہاری شکایت لگا دوں گی۔۔۔”
سارہ بیگم اب کشنز اٹھاتے ہوئے زینی کو اچھی خاصی ڈانٹ پلا رہیں تھیں۔ زینی بھی اب جھک کر ان کے ساتھ کشنز اٹھانے لگی تھی۔
“کوئی بات نہیں ماما۔۔۔ ہمارا تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے۔۔۔ ہے نا ولی۔۔۔؟؟” زینی نے ماما کو پیار سے منانا چاہا تھا۔
اور پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں ولید سے بھی تائید چاہی۔
“جی۔جی آنٹی!! آپ ہماری فکر نہ کریں۔۔” ولی نے بھی فورا زینی کی ہاں میں ہاں ملا دی۔وہ دونوں شروع سے ہی ایسے تھے۔ دونوں ایک ہی پل میں تولہ اور پھر دوسرے ہی پل میں ماشہ ہوجایا کرتے تھے۔
“چلو آؤ دیکھیں! تمہارے اس کھڑوس اذلان کی مووی۔۔” ولی نے باقاعدہ منہ بسور کر کہا کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا زینی تب تک اس کی جان نہیں چھوڑے گی جب تک وہ بھی اس کے ساتھ یہی مووی نہیں دیکھے گا۔
اب مووی چل چکی تھی۔ جب جب اذلان ہیروئن کے پاس آتا زینی فورا اس سین کو آگے فارورڈ کر دیتی۔۔۔ جس پر ولی نے ایک دو بار تو برداشت کیا مگر پھر بار بار اس کے ایسا کرنے پر وہ ایکدم چیخ اٹھا۔
“یار زینی! اسی لیے میں تمہارے ساتھ کوئی مووی نہیں دیکھتا۔۔۔”
” تم کچھ سمجھ تو آنے نہیں دیتی ہو کہ مووی کا ایکچوئل تھیم ہے کیا۔۔۔”
“بس جہاں ہیرو ہیروئن اکٹھے ہوئے تم وہ سین بنا دیکھے ہی فارورڈ کر دیتی ہو۔۔۔” ولی نے مصنوعی غصیلے لہجے سے زینی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں تمہیں دکھاؤں یہ والے سینز۔۔۔؟؟ ابھی بابا کو بتاؤں گی نا تو تمہاری سیٹی گم ہو جانی ہے۔۔۔” زینی نے اسے ڈراتے ہوئے کہا جس پر ولی نے اسے باقاعدہ گھوری سے نوازا۔
“یار زینی! یہ پاکستانی مووی ہے۔۔ اس میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔۔ بس ایک تم ہی ہو جو اذلان کے ساتھ کسی ہیروئن کو دیکھ ہی نہیں سکتی۔۔”
“ایسے ہی تم خود کو اس کی بہت بڑی فین کہتی ہو۔۔اس کی پوری موویز تک تو تم دیکھتی نہیں ہو۔۔۔” ولی نے اسے پھر سے وہی حرکت کرتے دیکھا تو فورا ٹوکا۔ مگر وہ اس بار بھی اپنی حرکت سے ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔اس نے اسی انداز سے ہی مووی کو کنٹینیو کیا تھا۔۔۔
“میں نہیں دیکھ رہا تمہارے ساتھ کوئی بھی مووی۔۔”
” ایک تو یہ اذلان مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔۔ اور دوسرا تم بیچ بیچ میں سے دیکھتی ہو اس طرح مجھے مووی دیکھنے کا بالکل بھی مزا نہیں آتا۔۔۔” ولی اب باقاعدہ اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر جانے لگا۔
“دفع ہو۔۔ نہ دیکھو میں تو ایسے ہی دیکھوں گی۔۔۔” زینی اسے کہتے ہوئے پھر سے مووی دیکھنے لگی۔
“پاگل، بے وقوف لڑکی۔۔۔” ولی اسے جاتے ہوئے بھی چھیڑنے سے باز نہ آیا جس پر وہ پھر سے دو تین کشنز اس کی طرف پھینک چکی تھی۔ ان میں سے ایک تو دروازے پر جا لگا تھا جس سے کمرے میں باقاعدہ شور کی گونج پیدا ہو کر رہ گئی تھی۔
شور کی آواز سن کر سارہ بیگم کی آواز نے ان دونوں کو بری طرح بوکھلا دیا۔ دونوں اب ساکت نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
“تم دونوں پھر سے لڑ رہے ہو۔۔؟؟”
“ن۔ن۔نہیں آنٹی! وہ میں باہر آ رہا تھا تو میرا سر دروازے سے لگا ہے۔۔” ولی سے جلدی میں جو بہانہ سوجھا وہی بنا دیا جس پر انہیں سارہ آنٹی کی فکرمند آواز سنائی دی۔
“ولی بیٹا!سنبھل کر زیادہ چوٹ تو نہیں لگی نا۔۔۔؟؟”
ولی کے جھوٹے بہانے پر اب وہ دونوں باقاعدہ زور زور سے ہنس دیئے ۔
ان کے بھرپور قہقہوں کی آواز سن کر سارہ بیگم نے کچن میں ہی اپنا سر پیٹ لیا تھا۔
“یہ دونوں بھی نا کبھی نہیں سدھر سکتے۔۔۔”
زینی اچانک ٹی وی کی تیز آواز سے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی تو سامنے ہی ٹی وی پر اذلان اور صوفیہ کا کوئی سین چل رہا تھا۔ حالانکہ اس وقت وہ دونوں دو فٹ کے فاصلے پر کھڑے ایک دوسرے سے کوئی بات کر رہے تھے۔مگر پھر بھی زینی سے یہ سب برداشت نہ ہوا تو وہ جلدی سے صوفے پر سے اٹھ بیٹھی۔
اس کو یوں سین کی جانب دیکھتے ہوئے تیزی سے اٹھتے دیکھ کر عائشہ بھابی باقاعدہ ہنس دی۔
“یار زینی! یہ مووی ہے رئیل سین نہیں ہے۔۔ تم تو ایسے ہی گھبرا گئی ہو۔۔”
“یار اذلان بھائی! آپ کی بیوی تو آپ کو کسی ہیروئین کے ساتھ دیکھ کر جیلس ہو رہی ہے۔۔”
“مجھے لگتا ہے اب آپ کو یہ کام بہت جلد چھوڑنا پڑے گا۔۔۔” عالیان بھائی نے زیر لب مسکراتے ہوئے اذلان سے کہا جو پتا نہیں کب سے وہاں ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنی ہی مووی دیکھ رہا تھا۔
زینی شاید اس وقت اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی اس لیے اسے پتہ ہی نہ چلا تھا۔لیکن عالیان اور عائشہ بھابی نے اذلان کو وہاں لاؤنج میں آتے دیکھ لیا تھا۔
اب عالیان اور عائشہ بھابی کی بات سن کر وہ جی بھر کر شرمندہ ہوئی۔ کیونکہ وہ اندھیرے میں بھی بار بار چمکتی ٹی وی کی لائٹس میں اذلان کے چہرے پر چھائی دھیمی مسکراہٹ دیکھ چکی تھی۔
اسے بالکل بھی پتا نہیں چلا تھا کہ کب وہ سب کے ساتھ آکر وہاں بیٹھ گیا تھا۔
اسے اپنا یوں اس طرح کھو جانا حد سے زیادہ برا لگا مگر اب وہ بنا کچھ کہے چپ چاپ اپنے کمرے کی جانب چل دی۔ کیونکہ آج اسے صبح سے ہی سب گھر والوں کی بہت یاد آرہی تھی۔
تبھی اسے اپنے پیچھے اذلان کی مصنوعی غصے سے بھرپور آواز سنائی دی تھی۔
“عالیان!تم نا سدھر جاؤ۔۔۔ ورنہ ایک دن مجھ سے بری طرح پٹو گے۔۔۔۔۔۔” اذلان کی مصنوعی غصیلی آواز پر عائشہ بھابی اور عالیان خود کو بے ساختہ ہنسنے سے روک نہ پائے تھے۔
?????
“”شٹ یار! یہ میں کہاں آ گئی ہوں۔۔۔؟؟” حیا جو کب سے بنا سوچے سمجھے روڈ کی ایک سائیڈ پر چل رہی تھی اچانک ہوش میں آنے پر ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی۔ وہ غصے کی وجہ سے بہت سپیڈ سے چل رہی تھی اس لیے کالج سے کافی دور آ چکی تھی۔
اب اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ابھی اس وقت ہے کہاں۔۔؟؟
وہ کبھی بھی اکیلی کہیں نہیں گئی تھی اس لیے اسے راستوں کا بھی کچھ اندازہ نہیں تھا۔
“ساری غلطی اس بدتمیز ضرار کی ہے۔۔۔ جو مجھے اتنا غصہ چڑھا دیتا ہے کہ میرا دماغ خراب ہونے لگ جاتا ہے۔۔۔” حیا اب باقاعدہ اونچی اونچی بڑبڑا رہی تھی کہ اچانک پاس سے گزرتے لڑکے اسے مڑ کر خباثت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگ گئے۔
“ارے لڑکی! خود سے کیوں بول رہی ہو۔۔؟ اگر بات کرنے کو کوئی نہیں ہے تو ہم تمہارے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ہم سے باتیں کر لو۔۔۔” ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے ذو معنی لہجے میں مسکراتے ہوئے حیا سے کہا جس پر حیا کے چہرے کے تاثرات ایک دم بگڑ کر رہ گئے۔
“تمہارا سر نہ پھوڑ دوں۔۔۔ باتیں کروں تم سے۔۔۔؟؟” حیا نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے غصیلے لہجے سے کہا جس پر وہ دونوں بے ہنگم طریقے سے ہنس دیے۔
اب وہ تیزی سے پیچھے کو جانے لگی کیونکہ اسے ان لڑکوں کی نظریں بہت عجیب لگ رہی تھی۔۔ اس لیے اس نے اب وہاں سے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
“ارے ارے! رکیے تو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔۔ کہاں جانا ہے آپ کو۔۔؟؟ وہ اپنی بائیک اس کے ساتھ ساتھ چلا رہے تھے کہ اچانک حیا نیچے جھکی اور ایک جگہ سے ٹوٹی ہوئی سڑک دیکھ کر وہاں سے دو پتھر اٹھا کر ان کے سر پر دے مارے جس سے اچانک ان کا توازن خراب ہوا اور ہیوی بائیک ان کے ہاتھ سے ڈول گئی۔۔
جسے بمشکل ہی ایک لڑکے نے اپنے دوسرے ہاتھ سے قابو کرتے ہوئے سنبھالا۔
جبکہ دوسرا اپنی آنکھ کو پکڑے نیچے دیکھ رہا تھا اس کو لگ رہا تھا کہ پتھر سیدھا آنکھ کے کونے پر لگنے کی وجہ سے وہاں سے خون نکل رہا ہے۔
پھر وہ وہاں رکی نہیں تھی۔حیا اب تقریبا تیز تیز قدموں سے بھاگنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کو پتہ چل گیا تھا کہ اب ان کو سنبھلنے میں تھوڑا ٹائم ضرور لگ جائے گا۔
وہ بار بار پیچھے دیکھتی اندھا دھند بھاگ رہی تھی کہ اچانک پھر سے پیچھے دیکھتے ہوئے تیزی سے بھاگنے پر وہ کسی کے ساتھ زورآور طریقے سے ٹکرا گئی۔
ابھی وہ نیچے گرنے ہی والی تھی کہ کسی نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں کی گرفت سے تھام لیا تھا۔وہ ازحد گھبراہٹ سے سامنے والے کا چہرہ دیکھنے لگی تو ایک دم چونک کر رہ گئی کیونکہ سامنے والا کوئی اور نہیں “ضرار”ہی تھا جو اس وقت اسے ہی غصیلی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔
اس کی سرد نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے حیا فورا اپنا چہرہ نیچے جھکا گئی۔
حیا کے ڈر کے مارے کانپتے ہاتھوں نے ابھی بھی اس کی شرٹ کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔
سانسیں معمول سے بھی زیادہ تیز چل رہیں تھیں۔ کیونکہ تیز تیز بھاگنے سے اس کا تنفس بری طرح پھول چکا تھا۔
ضرار نے ابھی تک اسے ویسے ہی تھاما ہوا تھا۔ کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ ابھی وہ اسے چھوڑے گا تو وہ گھبراہٹ کے مارے نیچے گر جائے گی۔۔
مگر ضرار کی سرد نگاہیں ابھی تک اس لڑکی کے چہرے پر رکی ہوئیں تھیں۔ جس نے ان چند منٹوں میں ہی اس کو اس قدر پریشان کر دیا تھا کہ وہ ہر چیز کیلئے خود کو قصوروار ماننے لگ گیا تھا۔
“اگر اس لڑکی کو کچھ بھی ہوا تو ضرار اس سب کیلئے ذمہ دار تم خود ہو گے۔۔۔” اس کا ضمیر یہ سب کہتے ہوئے بار بار اس کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ یہ سوچ اس کے حواسوں پر بری طرح سوار ہو کر رہ گئی تھی۔
اتنے میں دو زخمی لڑکے بائیک پر سوار ہوکر ادھر آ گئے تھے ۔حیا نے ان کو دیکھتے ہوئے ضرار کی شرٹ کو مزید مضبوطی سے تھام لیا تھا۔ اس وقت وہ حد سے زیادہ ڈری،سہمی ہونے کی وجہ سے بالکل بھی اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔
?????
مریم اور روشان کلاس روم سے نوٹس لے کر واپس لان میں آئے تو ان دونوں میں سے کسی کو بھی یہاں نہ پا کر ازحد حیران رہ گئے ۔اب وہ دونوں پریشان نگاہوں سے اطراف میں دیکھنے لگے تھے۔
“یہ حیا کہاں چلی گئی۔۔؟؟” مریم کی پریشانی سے بھرپور آواز ابھری جس پر روشان بھی نا سمجھی سے ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔
“ان دونوں کی اتنی دوستی تو ہے نہیں کہ وہ لوگ کہیں گھومنے پھرنے جاسکتے ہیں۔۔۔” روشان نے یہ کہتے ہوئے مریم کو نئی فکر سوجھا دی جس پر وہ مزید رونے والی ہو گئی۔
“ضرار تو شاید کسی کام سے گیا ہوگا۔۔ لیکن حیا شاید کیفیٹیریا میں گئی ہو گی۔۔۔ چلیں وہاں چل کر دیکھ لیتے ہیں۔۔۔” روشان نے مریم کو حد سے زیادہ پریشان ہوتے دیکھا تو خود ہی اندازہ لگایا کہ حیا کو شاید بھوک لگی ہو اس لیے وہ کیفٹیریا جا سکتی ہے۔۔
یہ بات سن کر مریم تھوڑا مطمئن ہو گئی۔۔ اور پھر وہ دونوں کیفیٹیریا سائیڈ پر حیا کو ڈھونڈھنے کے لئے چلے گئے۔
مریم کے چہرے پر اس قدر پریشانی دیکھ کر روشان بھی کافی پریشان ہو چکا تھا۔
?????
زینی اپنا سر ہاتھوں میں دیے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔آنکھوں سے بہتے متواتر آنسو اس کے چہرے کو مسلسل بھگو رہے تھے۔
اذلان کچھ دیر بعد ٹی وی لاؤنج سے اٹھ کر کمرے میں آیا تو زینی کو اس قدر شدت سے روتے دیکھ کر اس کا دل تھوڑی دیر کے لئے پیسیج کر رہ گیا تھا۔
بے اختیار ہی اسے اس لڑکی سے ہمدردی ہوئی جو اس چھوٹی سی عمر میں اتنا سب کچھ برداشت کر رہی تھی۔
پہلے تو وہ اسے نظر انداز کرتا ہوا وہاں سے جانے لگا مگر پھر جانے کیوں اس کا دل اس بات کیلئے نہیں مانا اسی لئے اس کے سامنے کھڑا ہو کر نرمی سے گویا ہوا۔
“اگر آپ کسی کو مس کر رہی ہیں تو اس سے فون پر بات کر لیں۔۔۔” اذلان کی نرم آواز پر زینی نے فورا اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھایا تو بیڈ کے بالکل سامنے ہی اذلان کھڑا تھا۔
شاید دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ وہ تو کب سے کمرے میں واپس آ چکا ہے۔
اسے اذلان کے ان الفاظ پر ہرگز یقین نہیں آرہا تھا اسی لیے وہ حد سے زیادہ کھلی نگاہوں سے بس اسے ہی تکے جا رہی تھی۔
“مجھے ماما اور بابا کی بہت یاد آ رہی ہے۔۔”۔زینی منمنانے کے انداز سے گویا ہونے لگی۔
” لیکن وہ مجھ سے بات ہی نہیں کر رہے۔۔۔ میرا فون ہی نہیں رسیو کر رہے۔۔مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں۔۔۔؟؟”
زینی یہ سب کہتے ساتھ پھر سے شدت سے رونے لگی اور اپنا سر واپس ہاتھوں پر گرا لیا۔۔۔
یہ سب دیکھتے ہوئے اذلان کے دل کو کچھ ہوا مگر وہ کیا کر سکتا تھا اس لئے کچھ پل کیلئے دھیرے سے اپنی پیشانی مسلتا اسے یونہی کھڑے دیکھتا رہا۔
پھر اچانک کچھ ذہن میں آنے پر اس نے زینی سے اس کے ماما اور بابا کا نمبر مانگا۔
“”آپ کے پاس آپ کے ماما اور بابا کا نمبر ہے تو آپ مجھے دیں۔۔۔!”
زینی اذلان کی اس بات پر ایک دم ہوش میں آئی تو جلدی سے اذلان کو ماما اور بابا کا نمبر نوٹ ڈان کروانے لگی۔
اب وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کی کال کا انتظار کرنے لگی۔ پل بھر میں ہی اس کا موڈ پھر سے فریش ہو چکا تھا۔
اذلان نے سب سے پہلے ابراہیم صاحب کا نمبر ڈائل کیا مگر اسے پاور آف پا کر وہ ایک دم زینی کو دیکھنے لگا جو ابھی تک اسے ہی امید طلب نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
اچانک اسپیکر سے پاور آف کی آواز ابھری تو اس کی جلتی آنکھوں کے دیے فورا سے بجھ گئے تھے۔ یہ سب اذلان کی عقاب نگاہوں سے مخفی نہ رہا تھا۔
پھر اذلان نے سارہ بیگم کا نمبر ڈائل کر دیا۔ اسے اس قدر بری طرح روتا دیکھ کر اذلان کا دل تھوڑی دیر کے لئے اس کے لئے نرم پڑ چکا تھا۔
کال بیل جا رہی تھی پھر اچانک فون کے اسپیکر سے سارہ بیگم کی نرم آواز ابھری تو زینی کا چہرہ حد درجہ خوشی کے مارے معصوم انداز میں چمک اٹھا تھا۔
“السلام علیکم آنٹی! کیسی ہیں آپ۔۔؟؟” اذلان نے انہیں سلام کیا اور پھر ہچکچاتے ہوئے انکی خیریت دریافت کی۔
” اذلان بیٹے آپ۔۔۔؟؟”زینی کو سارہ بیگم کی حیرت سے بھرپور آواز سنائی دے رہی تھی۔
“جی آنٹی۔۔! کیسی ہیں آپ۔۔؟؟” اذلان کی نرم آواز نے انہیں حیرت کے سمندر سے باہر نکالا۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ بیٹے آپ سناؤ آپ کیسے ہیں۔۔۔؟؟” سارہ بیگم فورا زینی کا حال پوچھنا چاہتیں تھیں مگر ابراہیم صاحب نے زینی سے بات کرنے سے منع کیا تھا۔
اس لیے وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھی ان کی کہی بات کی لاج رکھ گئیں اور اذلان سے صرف اسی کے بارے میں پوچھنے لگیں تھیں۔
“جی آنٹی ہم ٹھیک ہیں۔۔ آپ زینب سے بات کریں گی۔۔ دوں اسے فون۔۔۔؟؟” زینی بنا پلکیں جھپکائے ساکت نگاہوں سے اذلان کے چہرے کی طرف ہی دیکھے جا رہی تھی جو اس کی اتنی بڑی پریشانی کو ایک جھٹکے میں ہی دور کرنے والا تھا۔
اذلان نے سارہ بیگم سے زینب سے بات کرنے کا پوچھا۔
“نہیں بیٹے۔۔ آپ بس اپنا خیال رکھیے گا۔۔ اللہ حافظ۔۔” اذلان جو زینی کو فون تھمانے ہی والا تھا کہ فون کے اسپیکر سے سارہ بیگم کا نفی میں جواب سن کر ایک دم خاموش ہو کر زینی کی جانب دیکھنے لگا۔
جو پھر سے اپنی آنکھوں میں تیزی سے بہتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر وہ پھر بھی اس کے گلابی رخساروں کو بھگو چکے تھے۔ اس لیے وہ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت سے بار بار انہیں صاف کر رہی تھی۔
سارہ بیگم اذلان کے پاس زینی کی موجودگی کو محسوس تو کر چکیں تھیں مگر پھر بھی وہ بات نہ کر سکیں۔ یہ سب دیکھتے ہوئے خود ان کی بھی آنکھوں سے سیال مادہ پانی بن کر بہنے لگا تھا۔۔
سارہ بیگم ابراہیم صاحب کی عدم موجودگی کے باوجود ان کی کہی بات کی لاج رکھ گئیں تھیں۔۔
“وہ زینی سے بات کر کے اپنے اس شوہر کی نافرمانی ہرگز نہیں کر سکتیں تھیں جسے اس رب کائنات نے بھی اس کے مجازی خدا تک کا اعلی ترین درجہ دے رکھا تھا۔”
وہ اپنا فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتیں اپنے دوپٹے کے ایک کارنر سے آنسو صاف کرتے ہوئے ابراہیم صاحب کے کمرے کی طرف چل دیں۔
اذلان نے آج پہلی بار زینی کے درد کو دل سے محسوس تو کیا تھا مگر اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ اس لیے وہ اپنے کپڑے لیے واش روم میں فریش ہونے چلا گیا۔
جانے کیوں اسے اس طرح روتا دیکھ کر وہ یہاں اب زیادہ دیر تک رک نہیں پا رہا تھا۔
?????
“وہ رہی لڑکی۔۔! ادھر۔۔۔” بائیک سوار نے دور سے آتے ہوئے اونچی آواز میں حیا کی جانب اشارہ کیا تو ضرار کو پل بھر میں ہی حیا کا یہ ڈرا اور سہما ہوا انداز سمجھ میں آ چکا تھا۔
اس کے چہرے پر چھائی سختی نے اچانک پتھرائی نگاہوں کی جگہ لے لی جس سے کوئی بھی انسان یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کے چہرے کے تاثرات اس وقت کس احساس کے زیراثر ہیں۔
ضرار نے حیا کو ایک دم اپنے مضبوط ہاتھوں سے تھام کر اپنے پیچھے کیا۔ جس سے وہ اس کے چوڑے سینے کے پیچھے تقریبا چھپ کر رہ گئی تھی۔ اس نے ابھی تک ڈر کے مارے ضرار کی شرٹ کو مضبوطی سے اپنے ایک ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔
وہ دونوں لڑکے جو پہلے ہی تھوڑے زخمی ہو چکے تھے۔ اس لڑکی کو اس پتھریلے تاثرات والے لڑکے کے ساتھ کھڑے دیکھ کر ایک دم گھبرا کر اپنی بائیک کو تیزی سے چلاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
اب ضرار پیچھے مڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوا جو اب اس کی شرٹ کو چھوڑ کر اس سے دور تھوڑا دور فاصلے پر کھڑی ہو گئی تھی۔ حیا نروس سے انداز میں سر جھکائے اپنے ہاتھوں کو پر نم آنکھوں سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہی تھی۔
اس وقت بولتی،طنزیہ باتیں کرتی، سب کو تنگ کرنے والی حیا کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔۔ یہ حیا تو کوئی اور ہی حیا لگ رہی تھی جو اپنے اس ڈرے سہمے انداز سے اپنی آنکھوں کو رونے سے روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ اس وقت وہ خود کو بہت مضبوط ثابت کرنا چاہ رہی تھی مگر یہ سب کرنا اس کے لئے سوہان روح عمل ثابت ہو رہا تھا۔
روڈ کے وسط میں کھڑے
Have you gone mad..?? ضرار کی
غصے سے بھری آواز ابھری ۔ ۔
حیا اس کی تیز آواز پر ایک دم سہم سی گئی مگر پھر وہ خود کے اعصاب پر قابو پاتی تیز تیز قدموں سے آگے آگے چلنے لگی۔ وہ اس کی بات کے جواب میں اسے کچھ بھی کہہ نہیں پا رہی تھی۔
“تم پیدل اکیلے ہی وہاں سے نکل پڑی۔۔۔ کیا جواب دیتا میں تمہاری بہن کو۔۔۔؟؟” ضرار نے اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اسے سخت نگاہوں سے گھور۔ا جس پر عین فطرت کے مطابق حیا کو پھر سے غصہ آ چکا تھا۔
“تمہاری وجہ سے ہی یہ سب ہوا ہے۔۔۔ نہ تم مجھ سے لڑتے اور نہ ہی میں اکیلے وہاں نکلتی۔۔۔” حیا پھر سے اپنی جون میں واپس لوٹ آئی تھی ۔وہی سخت ٹون، وہی اکھڑ مزاج انداز۔
اس کے اس سخت انداز پر ضرار کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا۔۔
” یہ بالکل عقل سے پیدل لڑکی ہے۔۔۔بنا سوچے سمجھے یہاں روڈ پر ہی لڑنا شروع ہو جائے گی۔۔”
اس لیے اس نے اپنی مٹھیاں سختی سے آپس میں بھینچ کر بھرپور ضبط کا مظاہرہ کیا اور چپ چاپ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
اب وہ لوگ چلتےچلتے کالج کی بلڈنگ کے سامنے آگئے تھے۔ بلڈنگ کو سامنے دیکھ کر حیا نے سکھ کا سانس لیا۔ اب وہ پہلے کی نسبت کافی حد تک نارمل ہو چکی تھی۔
ابھی وہ لوگ سامنے لان کی طرف جا ہی رہے تھے کہ انہیں اس لان سے روشان کی آواز آئی جس پر دونوں نے ادھر سائیڈ مڑ کر دیکھا۔
“ضرار،حیا تم لوگ کہاں چلے گئے تھے۔۔؟؟” مریم نے ان کو دور سے آتے دیکھا تو فورا زمین سے اٹھ کر بھاگتی ہوئی ادھر آ گئی۔
وہ جو سارے کالج میں حیا کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکی تو بے اختیار وہیں لان میں سرسبز گھاس پر نیچے بیٹھ کر رونے لگ گئی تھی۔ اس کی اس حالت پر روشان تو بوکھلا ہی گیا تھا۔ وہ اسے بار بار تسلی دے رہا تھا کہ ادھر ہی کہیں ہوں گے وہ کوئی بچے تھوڑی ہیں جو گم ہو جائیں گے۔۔
اس کی اس بات پر مریم نے اسے سختی سے ڈانٹ کر رکھ دیا تھا۔
“روشان! حیا ابھی بچی ہی ہے۔۔ اگر اسے کچھ بھی ہوا تو میں کیسے رہوں گی اس کے بغیر۔۔۔؟؟” مریم روتے روتے ساتھ میں بات کر رہی تھی اسے اسوقت حیا کی بہت زیادہ فکر ہو رہی تھی۔
اب ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے پا کر وہ دوڑتی ہوئی آ کر اس سے ملنے لگی اور بے اختیار روتے ہوئے اس کی پیشانی چومنے لگی جس پر ایک پل کے لئے حیا اس کی محبت پر دھیرے سے مسکرا دی۔
ضرار کو اس کی یہ دھیمی مسکراہٹ زہر سے بھی زیادہ کڑوی لگ رہی تھی وہ غصے سے دل ہی دل میں عجب خیالات سوچنے لگا تھا۔
“کاش مریم! اس سٹوپڈ لڑکی کو پیار کرنے کے بجائے ایک تھپڑ لگا دیتی۔۔۔ تو اس کا دماغ تھوڑا ٹھکانے پر آ جاتا تاکہ آئندہ ایسی کوئی بھی حرکت کرنے سے پہلے ایک دفعہ تو ضرور سوچتی۔۔۔”
وہ اپنی سوچوں سمیت اسے ہی دیکھ رہا تھا جب روشان نے اس سے پوچھا تو اس نے حرف بہ حرف ساری روداد مریم کو سنا ڈالی۔
حالانکہ وہ سنانا نہیں چاہتا تھا مگر اس کو سبق سکھانے کے لئے اس نے مریم کو ساری بات بتا ڈالی جس پر حیا اسے باقاعدہ گھوری سے نواز رہی تھی۔ مگر وہ اس کی گھوری کو نظر انداز کئے ساری بات مریم کے گوش گزار کر چکا تھا۔
وہ کبھی بھی زیادہ نہیں بولتا تھا مگر آج اس کو اس طرح ساری بات تفصیل سے سناتے دیکھ کر روشان حیرت بھری نگاہوں سے اسے ہی دیکھے جا رہا تھا۔
اس کی توقع کے عین مطابق یا یوں کہیں اس کی خواہش کے عین مطابق مریم نے غصے سے حیا کو دیکھا تو وہ مریم کے کسی ری ایکشن سے پہلے ہی تیز تیز لہجے میں بولنے لگ گئی۔
“یہ تو ایسے ہی باتیں بنا رہا ہے مریم۔۔۔ا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔” حیا صاف مکر گئی تھی تاکہ مریم پریشان نہ ہو لیکن حیا کے اس سفید جھوٹ پر ضرار کی آنکھیں ایک دم حیرت سے پھیل گئیں۔
جبکہ مریم نے آگے بڑھتے ہوئے اس کو زور سے بیگ مارا تھا جس پر اور کسی کو تو نہیں مگر ضرار کے دل کو بہت زیادہ سکون ملا تھا۔
“وہ ایسے کیوں بنائے گا باتیں۔۔؟؟” مریم اب اس پر بار بار بیگ سے حملہ کر رہی تھی اور وہ ہنستے ہوئے اس کے آگے آگے بھاگ رہی تھی۔ وہ دونوں بہنیں آگے پیچھے بھاگتے اس وقت پورے لان میں چکر لگا چکیں تھیں۔
تمام سٹوڈنٹس اس وقت جا چکے تھے ورنہ پورے کالج کے سامنے مریم کو اس کی پٹائی کرتے دیکھ کر ضرار کو اور بھی زیادہ سکون ملتا۔
روشان بھی اب اپنے منہ پر ہاتھ رکھے باقاعدہ ہنس رہا تھا۔
ضرار نے اسے ایک ابرو اچکا کر دیکھا تو وہ خجل سا ہو کر وضاحت دینے لگا۔
“کچھ نہیں یار! ویسے ہی مریم بہت زیادہ پریشان تھی۔۔ شکر ہے حیا مل گئی ورنہ وہ تو رو رو کر اب اپنے بابا کو فون کرنے لگیں تھیں شکر ہے میں نے آپ لوگوں یہاں آتے ہوئے دیکھ لیا۔۔ ورنہ بات بڑوں تک پہنچ جانی تھی۔۔۔”اب وہ دونوں بھی تھک ہار کر ان کے پاس واپس آ چکیں تھیں۔
مریم نے تو ضرار کا باقاعدہ دل سے شکریہ ادا کیا مگر حیا کو اسے دیکھ کر پھر نئے سرے سے تپ چڑھ چکی تھی کیونکہ اس کے ذہن میں اس وقت یہی سوچ چل رہی تھی۔
“کیا ہو جاتا اگر یہ سڑیل مزاج لڑکا اپنے پیٹ میں یہ بات رکھ لیتا۔۔ مگر نہیں اس کو تو سکون مل رہا ہوگا نا مجھے مریم سے ڈانٹ کھلوا کر۔۔”
اب وہ اچھے سے جانتی تھی اب اس کو سارے راستے مریم کو منانا پڑنا تھا کہ گھر پر یہ بات کسی کو نہ بتائے ورنہ رفعت بیگم کے ہاتھوں اس کی شامت تو پکی تھی۔
حیا کو خود کو گھورتا پاکر ضرار نے روشان سے چلنے کے لیے کہا۔
“چلو یار چلتے ہیں! آج فضول میں ہی اتنا ٹائم ویسٹ ہو گیا۔۔ کل کا ٹیسٹ بھی ابھی پری پئیر کرنا ہے۔۔”
وہ ابھی یہ کہہ کر وہاں سے جانے ہی لگے تھے کہ حیا کی کٹیلی آواز نے ضرار کے بڑھتے قدموں کو پھر سے روک دیا۔
“جو لائق اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں نا۔۔ ان کو ٹیسٹ کی اتنی فکر نہیں ہوتی انہوں نے سارا سلیبس ساتھ ساتھ ہی کور کیا ہوتا ہے۔۔ ہے نا مریم۔۔۔؟؟” وہ سنا تو ضرار کو ہی رہی تھی مگر دیکھ مریم کو رہی تھی۔
اس بات کا اندازہ وہاں کھڑے تمام نفوس کو بخوبی ہو چکا تھا۔
“ناٹ اگین یار پلیزز۔۔ چلو یہاں سے۔۔” ضرار جو واپس مڑ کر اسے کوئی سخت سست جواب دینا چاہتا تھا مگر روشان زبردستی اسے لے کر وہاں سے چلا گیا۔
“حیا! سدھر جاؤ تم۔۔۔” مریم نے اسے ایک اور دھموکا جڑا جس پر وہ ہنستے ہوئے اپنا بازو سہلانے لگی۔
اور پھر اسے وہاں سے لئے اپنے ساتھ لے کر پارکنگ لاٹ میں آگئی کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی مریم ڈرائیور کو کالج آنے کا فون کر چکی تھی۔
?????
“شاہ زیب! تم نے اس ابراہیم کو کہیں بھی منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔۔” شاہ زیب کے آفس میں بیٹھا فرہاد کوک کے سپ لیتا ہوا مزے سے بولا تھا۔
“ہاہاہا یار! شاہ زیب سے پنگا لینا اس ابراہیم آفندی کو کافی مہنگا پڑ گیا ہے۔۔ “شاہ زیب نخوت سے ہنستے ہوئے گویا ہوا تھا۔
“میں نے تو سنا ہے یار۔۔۔ گھر میں ہی چھپ کر رہ گیا ہے کہیں آتا جاتا بھی نہیں ہے۔۔” فرہاد نے اس کی خبر میں اضافہ کیا۔
“اچھا!پھر تو میرا تیر صحیح نشانے پر لگا ہے۔۔” شاہ زیب طنزیہ ہنستے ہوئے بولنے لگا۔
“اب تو اس کی کمپنی بھی loss میں جا رہی ہے۔۔ کوئی نئے کانٹریکٹ بھی سائن نہیں کر رہا۔۔۔”
” ہاں البتہ سنا ہے اس کا کوئی بھانجا اس کی ڈوبتی کمپنی کو بچانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔۔”
فرہاد جانا مانا نیوز اینکر ہونے کی وجہ سے ساری خبریں اپنے علم میں رکھتا تھا۔ اسی لئے شاہ زیب کو یہ بہت زیادہ پسند تھا۔
“اگر وہ ابراہیم اس دن میری بات مان لیتا تو آج اسے اتنی ذلت نہ سہنی پڑتی۔۔۔۔ تب اس نے اکڑ سے کام لیا۔۔ اب دیکھو کیسے اس کی اکڑ ایک ہی پل میں ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔۔” شاہ زیب کی اس بات پر فرہاد بھی بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
“اچھا! پھر میں چلتا ہوں۔۔ میرے شو کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔” فرہاد اب اس سے مصافحہ کرتے ہوئے باہر نکل گیا تو شاہ زیب کے ذہن کے پردے پر فورا ابراہیم صاحب سے ہوئی ملاقات چھا کر رہ گئی۔
“السلام علیکم ابراہیم صاحب! کیسے ہیں آپ۔؟” شاہ زیب ابراہیم صاحب کے آفس میں داخل ہوا تو بڑے پیار سے مخاطب ہوا۔
“وعلیکم السلام! میں تو ٹھیک ہوں شاہ زیب صاحب۔۔ معذرت کے ساتھ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔”
شاہ زیب کو دیکھتے ہوئے ابراہیم صاحب نے کافی دیر تک پہچاننے کی سعی کی مگر پہچان نہ سکے تو بالآخر ان سے ہی پوچھ لیا۔
” ہم پہلے کبھی ملے ہی نہیں تو آپ پہچانیں گے کیسے۔۔۔” شاہ زیب یہ کہتے ساتھ ہی زور دار قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ ابراہیم صاحب کو یہ شخص کچھ عجیب سا لگا۔
“جی۔۔ تو کس سلسلے میں ملنا چاہتے تھے آپ مجھ سے۔۔؟؟” ابراہیم صاحب نے کام کی بات کی۔
“ایکچوئلی! مجھے اپنی ایک سوسائٹی بنانی ہے۔۔” شاہ زیب نے بات کا آغاز کیا جس پر ابراہیم صاحب اسے بغور دیکھنے لگے۔
“جی جی بتائیں میں سن رہا ہوں۔۔ آپ کو ڈیزائنز چاہیے تو ہماری کمپنی میں ایک سے بڑھ کر ایک انجینئرز ہیں۔۔۔ بہت اچھے سے ڈیزائن کر کے دے دیں گے آپ کو۔۔” ابراہیم صاحب نے انہیں ان کی بات پر گائیڈ کرنا چاہا۔
” نہیں وہ مجھے ایک کام کروانا تھا وہ بھی صرف آپ سے۔۔”شاہ زیب صاحب نے بھی بلا تمہید بات کا آغاز کیا۔
“اگر آپ اسپیشلی مجھ سے ہی ڈیزائن کروانا چاہتے ہیں تو کوئی بات نہیں میں آپ کو خود ڈیزائن کر دوں گا۔۔۔”
“ہر چیز میں اپنے انڈر کرواؤں گا آپ بالکل مطمئن رہیں۔۔” ابراہیم صاحب نے پیشہ ورانہ انداز میں بات کرتے ہوئے ان کو تسلی دینا چاہی۔
“شاہ زیب صاحب! ہماری کنسٹرکشن کمپنی چلتی ہی لوگوں کے ٹرسٹ پر ہے۔۔ جو گھر ہم بناتے ہیں یا پھر ڈیزائن کرتے ہیں۔۔الحمدللہ لوگوں کو بہت پسند آتے ہیں۔۔۔” ابراہیم صاحب نے تشکرآمیز لہجے میں بتایا۔
“جی جی بالکل یہی نام ہی تو چاہیے آپ کا۔۔” شاہ زیب صاحب نے کسی الجھی ہوئی پہیلی کے سے انداز میں بات کی۔
“مطلب۔۔؟؟” ابراہیم صاحب نے انہیں ناسمجھی سے دیکھا۔
“ٹھیک ہے ابراہیم صاحب! میں سیدھی بات کرتا ہوں۔۔” شاہ زیب صاحب کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اپنی فائل نکال کر میز پر رکھی۔
“جی میں کب سے آپ کو یہی تو کہہ رہا ہوں۔۔ سیدھی بات کریں۔۔”
ابراہیم صاحب کے لہجے میں اب تھوڑا سختی کا عنصر شامل تھا۔ انہیں یہ شخص ہرگز پسند نہیں آرہا تھا۔
“ایکچوئلی!میں اپنی سوسائٹی اپنے طور پر بنوانا چاہتا ہوں لیکن تھوڑے کم پیسے لگا کر۔۔۔ لیکن مجھے صرف ٹی وی پر یہ اشتہار دینا ہے کہ ہماری سوسائٹی آپ کی کمپنی نے ڈیزائن کی ہے اور بنائی بھی آپ لوگوں نے ہی ہے۔۔”
شاہ زیب صاحب نے اپنی شاطرانہ سوچ ابراہیم صاحب پر ظاہر کی۔
جس پر ابراہیم صاحب کا چہرہ فورا متغیر ہو گیا وہ غصے کی حالت میں فورا کرسی سے اٹھ بیٹھے۔
“معاف کیجیے گا شاہ زیب صاحب! میں ایسا انسان ہرگز نہیں ہوں جو چند پیسوں کے لیے اپنا نام خراب کرے گا۔۔۔”
” مجھے پیسوں کا کوئی لالچ نہیں میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔۔اور اگر بالفرض میرے پاس کچھ نہ بھی ہوتا تو بھی میری عزت ہی میرے جینے کے لئے کافی ہوتی۔۔اب آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔”
ابراہیم صاحب نے غصے سے سرخ نگاہوں سے گھورتے ہوئے انہیں آفس سے باہر جانے کا کہا جس پر وہ بری طرح شرمندہ ہو کر رہ گئے۔ کیونکہ کسی نے آج تک ان کی اتنی انسلٹ نہیں کی تھی جتنی ابراہیم صاحب نے ایک پل میں ہی کر کے رکھ دی تھی۔
“دیکھئے! ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں اگر آپ کی ڈیمانڈ زیادہ ہوئی تو ہم وہ بھی ارینج کر سکتے ہیں۔۔” شاہ زیب صاحب نے ابراہیم صاحب کو منانے کی آخری کوشش کی۔
“نہیں مجھے آپ کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں میرا مزید امتحان مت لیں کہ میں آپ کو یہاں سے دھکے دے کر نکلوانے پر مجبور ہو جاؤں۔۔۔”
ابراہیم صاحب نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا کیونکہ انہیں ان کی دھوکہ دہی والی بات پر شدید غصہ آ گیا تھا۔
“دیکھیں! ابراہیم صاحب آپ کو کرنا تو کچھ بھی نہیں ہے صرف آپ کا نام ہی تو چاہیے۔۔ اس کے لیے آپ جتنی مرضی رقم لے لیں میں دینے کے لئے تیار ہوں۔۔”
“آپ کو کہنا صرف یہ ہے کہ آپ نے یہ سوسائیٹی بنائی ہے اور مجھے بس آپ کا لیبل چاہیئے۔۔” شاہ زیب نے انہیں لالچ دے کر پھر سے ورغلانا چاہا مگر ان کی اگلی حرکت پر وہ خود بھی ساکت ہو کر رہ گئے۔
“گارڈز !نکالیں ان کو یہاں سے۔۔ یہاں کوئی حرام کا کام نہیں ہوتا۔۔جا کر کسی اور کا در کٹھکھٹائیں یا پھر ایسا کوئی کام ہی نہ کریں کہ جس سے بعد میں آپ کی کوئی پکڑ ہو۔۔ہم خراب مال لگا کر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔۔”
ابراہیم صاحب نے گارڈز کو بلا لیا تھا اور آخری بار پھر انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
گارڈز کے سامنے کی گئی اپنی بےعزتی وہ آج تک نہیں بھولے تھے اس لئے انہوں نے وہاں سے نکلتے ہی دل ہی دل میں ابراہیم صاحب سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اچانک ملازم کی آواز پر شاہ زیب سوچوں سے نکل کر اندر آنے والے مہمان سے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر ملنے لگے۔
?????
زینی لان کے پچھلے حصے میں بینچ پر بیٹھی مسلسل بارش میں بھیگ رہی تھی۔
اس کے آنسو بارش کے قطروں میں مدغم ہو کر جذب ہو رہے تھے۔
اس وقت وہ سفید شرٹ کے ساتھ سفید ہی ٹراؤزر پہنے کوئی اداس پری لگ رہی تھی۔ اس کے لمبے سلکی بال اس وقت سارے بھیگ چکے تھے اس میں سے کچھ تو بنچ کے ساتھ چپک کر رہ گئے تھے۔
اس کا شیفون ریڈ دوپٹہ ہوا کے زور سے بار بار ہل رہا تھا مگر اس وقت اسے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔
سردی کے باعث سب اپنے اپنے کمروں میں ہیٹر لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ورنہ اس کی خبر کسی نہ کسی کو تو ضرور ہو جاتی۔
اس کا سفید گلابی چہرہ بارش کے پانی کے باعث نیلا پڑ چکا تھا۔اس کے گلاب پنکھڑیوں جیسے ہونٹ سردی کے باعث ہلکے ہلکے کپکپاہٹ کا شکار ہو رہے تھے۔
کافی دیر سے بارش جاری رہنے کے باعث لان میں کافی پانی جمع ہو چکا تھا اس لئے اس کے دونوں پاؤں تقریبا لان میں جمع ہوئے پانی میں مسلسل بھیگ رہے تھے۔
وہ اپنی سوچوں میں گم صبح کا منظر یاد کر رہی تھی کہ کیسے پورے گھر والوں کے سامنے اسے اتنی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔
اس کے ذہن کے پردے پر صبح کا منظر چھا گیا اور وہ اس پل کو یاد کرنے لگی۔ اس بات سے انجان کے دو آنکھیں اس کو کب سے بغور دیکھے جا رہی ہیں۔
“آنٹی! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ آج آپ واک کرنے نہیں آئیں۔۔”عاصمہ بیگم،زینیاور سکندر شاہ روزانہ مل کر ہلکی پھلکی واک کیا کرتے تھے۔جب سے زینی یہاں آئی تھی یہ روٹین ان کے روز کا معمول بن گئی تھی۔
مگر آج وہ صبح لان میں گئ تو انکل آنٹی وہاں موجود نہیں تھے اس لئے وہ دروازہ ناک کر کے ان سے انکی خیریت معلوم کرنے چلی آئی۔
پہلے تو وہ ادھر آنے کیلئے ہچکچا رہی تھی مگر پھر پریشان ہونے کی وجہ سے تفکرآمیز تاثرات چہرے پر سجائے اندر کمرے میں آ گئی۔
“ہمم۔۔کہہ رہی ہیں آج بالکل بھی دل نہیں کر رہا ان کا۔۔ اٹھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔۔” سکندر شاہ سامنے بیٹھ کر اخبار پڑھ رہے تھے کہ آہستہ آواز میں گویا ہوئے جس پر زینی پریشان تاثرات کے ساتھ فورا عاصمہ بیگم کے پاس آ گئی۔
“کیا ہوا آنٹی! آپ کا بی پی تو نارمل ہے نا۔۔؟”زینی کو ان کے بلڈ پریشر کی بیماری کا پتہ تھا اس لئے ان کے پاس آ کر پریشانی سے پوچھنے لگی۔
عاصمہ بیگم اس وقت کمفرٹر کو خود پر اچھی طرح لپیٹے ہوئے تھیں۔
“کچھ نہیں زینی بیٹے! آپ پریشان نہ ہوں ابھی تھوڑی دیر تک ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔”عاصمہ بیگم نے زینب کے پریشان چہرے کو دیکھا تو اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر فورا تسلی دی مگر انکی آنکھیں بار بار نقاہت کے باعث بند ہو رہیں تھیں۔
“انکل! آپ نے ڈاکٹر کو فون نہیں کیا۔۔؟” زینی نے اب سکندر شاہ کو مخاطب کیا جو اب ان دونوں کو بات کرتے دیکھ کر اخبار سے سر اٹھا کر انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔
“میں تو کرنے لگا تھا انہوں نے ہی کرنے نہیں دیا۔۔۔بس یہی کہیں جا رہی ہیں تب سے۔۔ میں ٹھیک ہوں ابھی اٹھ جاؤں گی۔۔۔” سکندر شاہ نے وضاحت دی اور خود بھی اٹھ کر بیڈ کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔
“انکل! ادھر بی پی مونیٹر ہے تو مجھے بتا دیں۔۔ میں تب تک آنٹی کا بی پی چیک کر لیتی ہوں۔۔ اور شوگر لیول بھی چیک کر لیتی ہوں آخر کیا مسئلہ ہے کیوں طبیعت اتنی خراب ہو رہی ہے۔۔” زینی سکندر شاہ کو پوچھ کر اب عاصمہ بیگم کا چیک اپ کرنے لگی کیوں کہ زینی کو وہ بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔۔
اس نے تھرمامیٹر سے پہلے ان کا ٹمپریچر چیک کیا اس کے بعد بی پی اور شوگر لیول چیک کرنے کے بعد اس کی آنکھیں پریشانی کے مارے مزید کھل گئیں تھیں۔
“انکل! آپ ڈاکٹر کو جلدی فون کریں۔۔ میں تب تک آنٹی کو ایمرجنسی ڈوز دے دیتی ہوں۔۔۔” زینی نے گھبراتے ہوئے سکندر شاہ سے کہا کیونکہ اب عاصمہ بیگم اپنا ہوش کھو رہیں تھیں ان کی آنکھیں تیزی سے بار بار بند ہو رہیں تھیں۔
سکندر شاہ فورا ڈاکٹر کو فون کرنے لگے تھے۔ اتنے میں اذلان جو اس وقت جم خانے سے معمول کی ایکسرسائز کر کے ادھر ہی سے گزر رہا تھا تو اچانک شور کی آواز سن کر تیز قدموں سے بھاگ کر ادھر آ گیا۔
اتنے میں عفان بھائی،عالیان اور عائشہ بھابھی بھی ادھر آ چکے تھے کیونکہ سکندر شاہ نے ان سب کو بھی فون کر دیا تھا۔
زینی انہیں تیزی سے انسولین لگانے کے بعد کوئی انجیکشن لگا رہی تھی کہ اسے اذلان کی سخت آواز اپنی سماعتوں میں سنائی دی۔ جس سے وہ ڈر کر ایکدم پیچھے ہو گئی مگر پھر جلدی سے خود پر قابو پا کر اذلان کو جواب دیے بنا انہیں وہی انجیکشن لگانے لگی۔
“آپ کا دماغ خراب ہے۔۔ کیا کر رہی ہیں آپ۔۔؟ یہ کون سے انجکشنز دیئے جا رہیں ہیں ماما کو۔۔۔”
” اگر میری ماما کو کچھ بھی ہوا نا تو میں اپنے ہاتھوں سے آپ کی جان لے لوں گا۔۔۔سمجھی اپ۔۔۔؟؟”
اذلان عاصمہ بیگم کی حالت دیکھ کر غصے سے مسلسل بولے جا رہا تھا۔۔ اس نے آج سب کے سامنے موجود ہونے کا بھی لحاظ نہ کیا تھا۔۔
“وہ۔۔وہ مجھے پتا ہے اس بارے میں۔۔بس اسی لئے۔۔” زینی نے گھبراتے ہوئے اسے وضاحت دی تھی مگر اس نے پوری بات نہ سنی اور اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بیچ میں کاٹ دی۔
“چپ رہیں آپ۔۔ ابھی ڈاکٹر کو آنے دیں پھر میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔” اذلان نے اسے سخت نگاہوں سے گھورتے ہوئے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
“اذلان بھائی!! پلیز سنبھالیں خود کو۔۔” عائشہ بھابھی نے زینی کی آنکھوں میں تیزی سے بہتے آنسو دیکھ لئے تھے اس لیے بولے بنا نہ رہ سکیں۔۔
سکندر شاہ بھی کچھ کہنا چاہتے تھے مگر عاصمہ بیگم کی خراب طبیعت کی وجہ سے خاموش ہو گئے۔۔ ورنہ انہیں اسوقت اذلان پر شدید غصہ آ رہا تھا۔
عفان اور عالیان بھائی بھی پریشان انداز سے ادھر ادھر پھر رہے تھے تبھی ملازم ڈاکٹر کو لے کر کمرے میں آ گیا تھا۔
ڈاکٹر نے کسی کو مخاطب کیے بغیر جلدی سے عاصمہ بیگم کا چیک اپ کیا۔
تو اذلان نے جلدی سے ان Doses کا بھی بتا دیا جو زینی انہیں دے چکی تھی تاکہ ڈاکٹر انہیں اس حساب سے ٹریٹ کرے۔ اذلان کے چہرے پر اس قدر سخت تاثرات زینی نے آج تک نہ دیکھے تھے۔
زینب ڈاکٹر کے آنے کے بعد اب سر جھکا کر ایک سائیڈ پر مجرموں کی طرح دیوار کے ساتھ لگی کھڑی ہوئی تھی کہ اچانک ڈاکٹر کی آواز پر اس نے اپنا جھکا سر اوپر اٹھایا۔
“آپ نے بہت عقلمندی سے کام لیا اور انہیں یہ ایمرجنسی ڈوز جلدی سے دے دیں ورنہ آنٹی کا بی پی اور شوگر لیول بہت زیادہ ہائی تھا۔۔۔”
“یہ ان کی لائف کو بری طرح رسک میں ڈال سکتا تھا۔۔ انشاءاللہ ابھی آہستہ آہستہ نارمل ہو جائیں گی۔۔” ڈاکٹر نے کمپلیٹ چیک اپ کے بعد اذلان سے کہا جو اب شرمندگی کے مارے اپنا جھکا سر اوپر نہیں اٹھا پا رہا تھا۔
زینی کا دل یہ سن کر تھوڑا پرسکون ہوا ورنہ وہ کب سے بہت زیادہ پریشان کھڑی تھی۔
حالانکہ وہ نفسیات کی پڑھائی کر رہی تھی۔ ان کے شعبے میں یہ سب بھی ساتھ ساتھ سکھایا جاتا تھا مگر اس نے کسی پر اپلائی آج پہلی دفعہ کیا تھا۔۔ کیونکہ آج تک اسے کسی ایسی ایمرجنسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
عفان بھائی اور عالیان نے زینب کے سر پر پیار دے کر خلوص دل سے “تھینک یو” کہا تھا۔
ڈاکٹر نے میڈیسن لکھ دیں اور ساتھ میں ان کا بہت سارا خیال رکھنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلا گیا۔
سکندر شاہ اب غصے سے اذلان کو دیکھ رہے تھے۔
جبکہ زینی ڈاکٹر کے جانے کے بعد فورا کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔ اس کی اس قدر تذلیل وہ بھی سب کے سامنے یہ سوچ کر ہی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر نے عاصمہ بیگم کو مکمل بیڈ ریسٹ کرنے کا کہا تھا اس لیے سب ان کے آرام کی غرض سے کمرے سے باہر آ گئے۔
سب سے آخر میں اذلان بھی باہر جانے لگا تو سکندر شاہ کی تیز آواز نے اس کے بڑھتے قدم فورا روک دئیے۔
“آئندہ کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچ لینا اذلان شاہ۔۔۔وہ لڑکی صرف تمہاری بیوی ہی نہیں۔۔ میری بہو بھی ہے۔۔۔”
اذلان سکندر شاہ کے حد درجہ غصیلے لہجے پر انہیں یک ٹک نگاہوں سے دیکھنے لگا مگر پھر بنا کچھ کہے واپس اپنے کمرے میں آگیا۔
زینی اس وقت کمرے میں موجود نہیں تھی۔ اس لئے وہ اپنا ڈریس نکال کر اپنے شوز اتارنے لگا جو اس نے جوگنگ کرتے ہوئے پہن رکھے تھے۔
زینی نے عائشہ بھابھی کو ملازمہ کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا تھا کہ” اسے بھوک نہیں ہے تو وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہے۔۔ اسی لیے عائشہ بھابھی نے اسے ڈسٹرب کرنا ضروری نہ سمجھا۔
آج اتوار کا دن تھا سب لوگ گھر میں موجود تھے مگر صبح کی ٹینشن کی وجہ سے سب اپنے اپنے کمرے میں پریشان انداز سے لیٹے ہوئے تھے۔
اذلان آج کمرے میں ہی تھا اس لئے زینی ادھر ادھر پھر رہی تھی۔ وہ صبح سے واپس کمرے میں ہی نہیں گئی تھی۔
اذلان اپنے کمرے کی ونڈو سے ابھی تک زینی کو باہر لان میں ہی بیٹھے دیکھ کر باہر آنے ہی لگا تھا کہ اسے سامنے سے زمان آتا دکھائی دیا۔
وہ اسے سیدھا ڈرائنگ روم میں لے آیا اب وہ دونوں کسی اسکرپٹ پر کام کر رہے تھے کہ اچانک زمان کے بارش کے موسم کے تبصرے پر اس نے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھا تو زینی ابھی تک اتنے خراب موسم میں بھی اسی سیم پوزیشن میں باہر بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ماتھے پر فورا پریشانی کی لکیریں نمودار ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔
پھر اس نے گہرا سانس بھر کر اپنی ہلکی ہلکی بڑی ہوئی شیو پر اپنا بایاں ہاتھ پھیرا اور پھر زمان کو کام کرنے کا کہہ کر اپنے قدم باہر لان کی طرف بڑھا دیے۔
زینی صبح کے واقعے کو لیکر تب سے پریشان انداز میں ادھر ہی بیٹھی تھی کہ اچانک بارش کی بوندوں کو اپنے چہرے پر زور سے برستے دیکھ کر اسے اچانک اپنا اور ولید کا بارش میں بھیگنا یاد آیا تو اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکان در آئی۔
“ولی۔۔ ولی اٹھو نا پلیز۔۔!! باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے آجاؤ باہر لان میں چلتے ہیں۔۔” ولی بستر میں پڑا گہری نیند سو رہا تھا کہ زینی کی آواز سن کر تنگ آ کر اسے اپنے ہاتھ سے پیچھے کرنے لگا تھا۔
“اوں ہوں۔۔۔ جاؤ یار زینی تنگ مت کرو۔۔ مجھے بہت نیند آ رہی ہے۔۔۔” ولی نے اسے اپنے ہاتھ سے باقاعدہ پیچھے کیا اور خود مزید کمفرٹر اپنے اوپر اوڑھتے ہوئے اس بار اپنا سر بھی چھپا لیا۔
“ولی! اٹھو تمہیں پتہ ہے مجھے بارش بہت پسند ہے۔۔۔ چلو نا بارش میں انجوائے کرتے ہیں۔۔” زینی پر جوش ہوتے ہوئے پھر سے اس کا کمفرٹر اپنے ہاتھوں سے اتارنے لگی۔
“یار میں نہیں آرہا تم جاؤ خود انجوائے کرو۔۔ میرا بارش میں بھیگنے کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا۔۔۔”
تم جاؤ یہاں سے ورنہ میں انٹی کو تمہاری کمپلین کروں گا۔۔” ولی نے آخری وارننگ دی تاکہ وہ سدھر جائے مگر زینی کی اگلی حرکت نے اس کے ہوش بھک سے اڑا دیے تھے۔
کیونکہ زینی نے پانی سے بھرا جگ اس پر الٹ دیا تھا اور ساتھ ہی اپنا پیٹ پکڑ کر بری طرح ہنس بھی رہی تھی۔
“اب تو بھیگ چکے ہو اب آ جاؤ اب دل کر جائے گا تمہارے بھیگنے کو بھی۔۔”زینی نے اب کی بار زبان چڑاتے ہوئے کہہ کر باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔
ولی نے بھی اٹھتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی کیونکہ نیند تو وہ اس کی اڑا ہی چکی تھی۔اس لیے وہ اسے غصے سے پکڑنے کے لیے بھاگا مگر وہ بہت تیز سپیڈ سے بھاگتی تھی اس لیے اس سے تیز بھاگنے کے باوجود پکڑی نہ جا رہی تھی۔
اس وقت ولی کو اپنے آپ سے عجیب الجھن سی محسوس ہو رہی تھی۔وہ ساتھ ساتھ اپنے گیلے کپڑوں کو بار بار پکڑ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“زینی! دیکھ لینا آج تم میرے ہاتھوں سے نہیں بچو گی۔۔” زینی کو سیڑھیاں پار کرتے ہوئے دیکھ کر ولی نے اوپر سے ہانک لگائی۔ اتنے میں سارہ بیگم کچن سے باہر آئیں تو ولید کو پورا بھیگا ہوا دیکھ کر حیرت سے بھرے لہجے میں بولنے لگی۔
“ولی! تمہیں تو بارش میں بھیگنا بالکل پسند نہیں۔۔ کیا تم بھی بارش میں بھیگے ہو۔۔؟” سارہ بیگم حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو اب مین گیٹ کی طرف جا رہا تھا۔
کیونکہ زینی بھاگتی ہوئی باہر لان میں چلی گئی تھی۔
“ایکچوئلی! آنٹی میں نے کہا پاکستان کے ہر موسم کو انجوائے کر لوں دوبارہ پتا نہیں کبھی موقع ملے نہ ملے۔۔”
ولی نے یہ سفید جھوٹ زینی کو بچانے کے لیے کس قدر بڑے دل سے کہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا ورنہ یہ سب سن کر زینی کی شامت سارہ بیگم کے ہاتھوں پکی تھی۔
“اچھا۔۔یہ زینی کو بھی روکنا تم دونوں زیادہ دیر بارش میں نہ بھیگنا۔۔ اس طرح طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔”
سارہ بیگم نے انہیں احتیاط کرنے کا کہا تھا۔۔ کیونکہ وہ اچھے سے جانتیں تھیں کہ زینی بارش سے کبھی نہیں تھکتی خواہ وہ کسی بھی موسم میں ہو۔۔ بنا اپنی طبیعت کی پرواہ کیے وہ بارش میں بھیگنے کے لیے نکل جاتی ہے۔۔
زینی اور ولید اب دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے لگے ہوئے بارش میں کھیل رہے تھے۔ ولی اس کی کچھ دیر پہلے کی گئی حرکت کو بھول کر اب اس کے ساتھ باقاعدہ انجوائے کر رہا تھا۔
اچانک ہی وہ واقعہ سوچ کر زینی کے لبوں پر دھیمی مسکراہٹ نے جگہ لے لی۔ تبھی اسے اپنے بہت قریب سے اذلان کی آواز نے بری طرح چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ حیرت سے پیچھے مڑ کر اذلان کو دیکھنے لگی تھی جو اسوقت سر پر چھتری لئے کھڑا اسے ہی بغور دیکھ رہا تھا۔
“کیا آپ کی کوئی بھی حرکت نارمل لوگوں والی ہے۔۔؟؟ کیوں اپنے ہر ایک کام سے مجھے غصہ دلاتی رہتی ہیں آپ۔۔۔؟” اذلان اب اس کو تیکھی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
جوابا زینی نے کہا تو کچھ بھی نہیں تھا مگر فورا اپنا چہرہ جھکا کر نیچے بارش میں بھیگتے اپنے سفید دودھیا پاؤں کو ساکت نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔
اذلان کو اس وقت زینی پر شدید غصہ آ رہا تھا کیونکہ وہ صبح والے واقعے کے بعد غصے میں آ کر کمرے میں جانے کی بجائے تب سے مسلسل یہاں بارش میں بیٹھی اپنی طبیعت کی بھی فکر نہیں کر رہی تھی۔
حالانکہ اس کا وجود سردی کے باعث آہستہ آہستہ باقاعدہ کپکپا رہا تھا جسے وہ اذلان کے سامنے کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
اذلان جو چھتری لیے باہر لان میں آیا تھا ایک دم ہوا کے دباؤ سے اس کے ہاتھ سے وہ چھتری دور جا کر گر گئی۔ اس طرح اب وہ خود بھی بارش میں پوری طرح بھیگ رہا تھا۔
“اٹھیں۔۔ جلدی چلیں یہاں سے۔۔” اذلان کو اس کا اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا تھا۔ اس لئے اپنے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے تھام کر اس کا بازو پکڑے اسے اپنے سامنے کھڑا کر دیا جس کی آنکھوں میں اب باقاعدہ آنسو بہہ رہے تھے۔
اذلان ان بارش کے قطروں میں بھی اس کے آنسوؤں میں بآسانی فرق کر سکتا تھا۔ زینی کو اس حالت میں دیکھ کر اسے ایک دم شرمندگی نے آن گھیرا مگر پھر جلد ہی اس شرمندگی کی جگہ انا اور غصے نے لے لی۔
” جو انہوں نے میرے ساتھ کیا ہے۔۔اس کے برابر تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔” اس کے دل نے خود ہی اپنی سوچ کی وضاحت کر دی۔
اب اذلان اسے ایک نظر دیکھ کر اس کے خوبصورت سراپے سے نگاہیں چرائے اطراف میں کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔
زینی اذلان کی نگاہوں سے کنفیوز ہوتی اپنا گیلا دوپٹہ اپنے اوپر صحیح سے اوڑھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ پورا بھیگا ہونے کے باعث کھل نہیں رہا تھا۔
اذلان نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے گہرا سانس بھر کر اپنی نیوی بلیو جیکٹ اس کے شانے پر نرمی سے رکھ دی اور اب اس کا ہاتھ پکڑے باقاعدہ اسے اندر لے جانے لگا تھا۔
زینی کنکھیوں سے اسے دیکھتی ہوئی میکانکی انداز میں اس کے ساتھ ساتھ چل دی۔ اذلان کی اس مہربانی پر وہ اسے حیرت سے تکتی ہوئی اس کے ساتھ دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہی تھی۔
اب اس نے خود کو اس جیکٹ سے اچھے سے کور کر لیا تھا۔ جب وہ داخلی دروازے کی طرف بڑھنے لگا تو زینی نے اس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر دی۔
اس کے ایک دم گرفت مضبوط کرنے پر اذلان اس کی اس حرکت پر اسے مڑ کر بغور دیکھنا شروع ہو گیا تھا۔
“ادھر سے نہیں۔۔ بیک ڈور سے جانا ہے مجھے۔۔” زینی کے اس جملے پر پہلے تو اس نے سخت نگاہوں سے گھورا مگر پھر خود ہی کچھ سوچ کر بیک ڈور سے ہی لے جانے لگا۔
کیونکہ وہ پل بھر میں ہی سمجھ چکا تھا کہ زینی اپنی اس حالت کے پیش نظر اسوقت گھر میں سب کی موجودگی کے باعث داخلی دروازے سے جانے سے ہچکچا رہی ہے۔
کوریڈور کے اندر آ کر وہ اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت سے آذاد کرتے ہوئے اب خود اس کے دو قدم آگے آگے چل رہا تھا۔
وہ دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی تھی جہاں اس کے آنے سے پہلے ہی اذلان نے اس کے بنا کچھ کہے ہیٹر آن کر دیا تھا۔ زینی اپنی حالت کو دیکھتی ہوئی نادم سی ہو کر واش روم میں اپنے کپڑے چینج کرنے چلی گئی تھی۔
?????
“حیا! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔؟” رفعت بیگم نے حیا کو ڈنر کرتے ہوئے معمول سے زیادہ خاموش دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکیں۔
ان کے سولیہ انداز میں پوچھنے پر حیا ایک دم پریشان تو ہوئی مگر کہا کچھ نہیں۔جب وہ کوئی بھی شرارت کیے بنا کمرے میں آ کر لیٹ گئی تو رفعت بیگم کو فورا پریشانی لاحق ہوگئی۔
“ج۔ج۔جی ماما میں ٹھیک ہوں۔۔” حیا نے ایک دم گھبرا کر بیٹھتے ہوئے کہا اس نے خود کو ٹینشن فری دکھانا چاہا مگر رفعت بیگم کو وہ بالکل بھی ٹھیک نہ لگی تھی کیونکہ وہ بار بار نیچے دیکھ رہی تھی انہیں ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے نگاہیں چرا رہی ہو۔
اس نے راستے میں آتے ہوئے مریم سے سو وعدے لیے تھے کہ وہ گھر جا کر ماما اور بابا سے اس واقعے کا ذکر نہیں کرے گی۔
جب وہ کالج سے واپس آئیں تو ماما اور بابا ابھی فنکشن سے واپس نہیں آئے تھے یہ دیکھ کر حیا کو یک گونہ سکون کا احساس ہوا۔
“مریم بیٹے! کالج میں کچھ ہوا ہے کیا۔۔؟” مریم جو سامنے موجود اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھی اپنا ٹیسٹ یاد کر رہی تھی فورا گھبرا کر حیا کو دیکھنے لگی مگر حیا نے اپنی آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے نفی کا اشارہ کیا۔ اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے مریم خود اٹھ کر ماما کے پاس آ گئی۔
“ہونا کیا ہے ماما! اب یہ میڈم کالج گرل بن گئیں ہیں تو کچھ زیادہ ہی سمجھدار بننے کی کوشش کر رہی ہوں گی۔۔۔” مریم نے بات کو مزاح کا رنگ دیا جس پر حیا نے اسے باقاعدہ گھوری سے نوازا۔
کیونکہ مریم ماما کو نہ بتانے کے ساتھ ساتھ اسے بھی سنا رہی تھی جس پر رفعت بیگم ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگیں۔
“کیا مطلب؟؟”رفعت بیگم نے سوالیہ نگاہوں سے مریم سے پوچھا۔
“چھوڑیں ماما! اچھا ہے نا اس طرح گھر میں تھوڑا سکون ہے۔۔ ورنہ تو یہ ہر وقت اودھم مچائے رکھتی ہے۔۔” مریم بھی حیا کو ٹینشن فری کرنے کے لیے جان بوجھ کر اس کو تنگ کر رہی تھی تاکہ وہ کالج والا واقعہ بھول جائے۔۔ مگر حیا اپنی عادت کے مطابق فورا چڑتے ہوئے تیز تیز لہجے میں بولنے لگی تھی۔
“میں اودھم مچاتی ہوں۔۔؟؟ ابھی میں بابا کو بتاتی ہوں کہ ان کی لاڈلی بیٹی پر گھر میں اودھم مچائے جانے کا الزام لگایا جارہا ہے۔۔” حیا برا مناتے ہوئے اٹھ کر باقاعدہ بابا کے روم میں جا چکی تھی۔
مریم اور رفعت بیگم حیا کو اپنی پرانی حالت میں واپس آتے دیکھ کر تھوڑا پرسکون ہو گئیں تھیں۔
کیونکہ وہ دونوں اچھے سے جانتیں تھیں۔۔ اب وہ بابا کو لے کر اس کمرے میں آئے گی دونوں کو سامنے بٹھا کر بابا سے ڈانٹ کھلوائے جائے گی۔جب وہ سب کہ سامنے یہ جملے بولیں گے۔
“بھئ! کوئی میری لاڈلی بیٹی کو کچھ نہ کہا کرے” پھر یہ بات سن کر وہ ریلیکس ہو گی ورنہ تب تک ایسے ہی شور مچاتی رہے گی۔۔
?????
عفان میڈیکل سٹور سے عاصمہ بیگم کی میڈیسن لے رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے پاس سے جانی پہچانی سی آواز سنائی دی۔۔ کوئی لڑکی بہت ہی مدھم آواز میں سیلزمین سے کسی میڈیسن کا پوچھ رہی تھی۔
“لیکن۔۔ بھائی صاحب یہ وہ والی میڈیسن نہیں ہیں آپ کو پریسکرپشن پڑھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔۔”
عفان نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہی راستے میں ملنے والی حجاب والی لڑکی ایمان سٹور والے سے کسی بحث میں مصروف تھی۔
سٹور کا سیلزمین میڈیسن لا رہا تھا اس لیے عفان وہیں سامنے کھڑا ان کو بغور دیکھ رہا تھا۔
“یہی لکھی ہوئی ہے میڈم۔۔ آپ دھیان سے پڑھیں۔۔” سیلزمین پرچی دکھا کر اس میڈیسن پر ہاتھ رکھ کر تیز لہجے میں بولنے لگا تھا۔
“دیکھئے بھائی! میں ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی ہوں۔۔ انہوں نے کہا یہ والا سالٹ نہیں چاہئے۔۔ آپ مجھے وہ والے سالٹ کی میڈیسن دے دیں۔۔۔ یہ آپ واپس رکھ لیں۔۔” ایمان نے اسے پھر سے نرم لہجے میں وضاحت دی۔ وہ اس وقت مکمل حجاب میں تھی مگر اس وقت اس کی آنکھیں تھوڑی پریشان دکھائی دے رہیں تھیں۔
اس وقت اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس سیزمین کو کیسے سمجھائے۔۔
“ہم ایسے ہرگز نہیں کر سکتے۔۔ یہ ہماری فارمیسی کا رول نہیں ہے۔۔” سیلزمین نے اب کی بار غصیلے لہجے سے کہا تو ایمان اس کے سخت لہجے پر تھوڑا گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔
“آپ کو سینس نہیں ہے کسی لڑکی سے بات کرنے کی۔۔ اگر وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ والی میںڈیسن انہیں نہیں چاہیے تو آپ وہ دوسری میڈیسن انہیں دے کیوں نہیں رہے۔۔۔؟؟”
عفان کو سیلزمین کی بدتمیزی پر غصہ آیا تو بولے بنا نہ رہ سکا۔ اس کی مداخلت پر ایمان نے اسے چونک کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں فورا شناسائی کی لہر ابھر آئی۔ پھر اس کو یاد آیا کہ یہ تو وہی شخص ہے جس نے اس شام بھی اس کی جان بچائی تھی۔
“آپ انہیں یہ والی میڈیسن ابھی کے ابھی دیں۔۔”عفان نے غصے سے کہا تو سیلزمین نے جلدی سے وہ میڈیسن نکال کر ایمان کو دے دی۔ایمان پہلی میڈیسن اس کو فری میں ہی دے چکی تھی۔
عفان کی میڈیسن کا پیکٹ آچکا تو وہ بل پے کر کے وہاں سے چلا گیا۔ ایمان کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا اور پھر وہ بھی بل پے کرنے کے لیئے کاؤنٹر پر آگئی۔
مگر وہاں موجود کھڑے آدمی نے اس کے بل پوچھنے پر اسے بتایا کہ اس کا بل پے ہو چکا ہے تو وہ دھیمی چال چلتی ہوئی فارمیسی سے باہر آگئی۔
“مجھے لگتا ہے ان کو لگا ہو گا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لئے بحث کر رہی ہے۔۔ مگر میں تو اس سیلزمین کو دوسرے سالٹ والی میڈیسن دینے کا کہہ رہی تھی مگر وہ کہہ رہا تھا یہی لکھا ہے اس بات پر بحث ہو رہی تھی۔۔” اسے پیسے کی فکر نہیں تھی۔
“خیر چلو! دوبارہ کبھی ملا تو اس کے پیسے واپس کر دوں گی ورنہ میرے اوپر ایسے ہی قرض کا بوجھ لٹکا رہے گا۔۔” ایمان پریشان انداز میں سوچتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔
“بھلا وہ شخص بل پے کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ تو لیتا ایسے ہی پے کردیا۔۔ اب میرے سر پر تب تک قرض کی تلوار لٹکتی رہے گی۔۔” اب وہ خود سے بڑبڑا رہی تھی۔
اور پھر چند لمحوں بعد وہ ٹیکسی والے کو روک کر اس کو گھر کا راستہ بتا کر گھر کی جانب چل دی۔ اس کے ایک ہاتھ میں میڈیسن والا شاپر تھا جسے اس نے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
?????
ضرار ابھی ابھی عاصمہ بیگم کی طبیعت کا پوچھ کر واپس کمرے میں آیا ہی تھا کہ اپنی کتابیں بیڈ پر لے کر بیٹھ گیا۔ پہلے تو وہ اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر پڑھتا تھا مگر آج بارش کی وجہ سے ٹھنڈ قدرے بڑھ گئی تھی۔
اس لئے وہ اپنی ضرورت کی چیزیں بیڈ پر لے کر آگیا اور اپنے اوپر کمفرٹر اوڑھ کر ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف ہوگیا ۔اچانک اس کے ذہن کے پردے پر حیا کی طنز سے بھرپور آواز گونجی۔
“جو لائق سٹوڈنٹس ہوتے ہیں نا ان کو ٹیسٹس کی اتنی فکر نہیں ہوتی۔۔ انہوں نے اپنا سارا سلیبس ساتھ ساتھ ہی کور کیا ہوتا ہے۔۔”
ضرار کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ حیا نے جان بوجھ کر یہ بات اسے سنانے کے لیے ہی کی تھی۔ اس کے چہرے پر پھر سے غصے والے تاثرات نمودار ہوگئے۔
وہ اپنے سر کو نفی میں جھٹک کر غصے سے بڑبڑانے لگا تھا۔
“عجیب، بدتمیز،ضدی، بیوقوف لڑکی ہے۔۔ پتا نہیں خود کو سمجھتی کیا ہے۔۔”
“اپنے آپ سے کب سے باتیں کرنا شروع ہوگئے ضرار۔۔” اذلان کی آواز پر ضرار نے جھٹکے سے سر اٹھا کر دیکھا تو فورا گڑبڑا کر رہ گیا۔
” نہیں چاچو۔۔وہ میں تو ٹیسٹ پری پئیر کر رہا تھا۔۔ آپ آیئے نا پلیز۔۔” ضرار نے جلدی سے خود پر قابو پا کر انہیں اندر آنے کا کہا تھا۔
اذلان نے اس کے سر پر مسکراتے ہوئے پیار کیا اور پھر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
“تمہاری اسٹڈیز کیسی چل رہی ہیں۔۔؟
“جی چاچو!صحیح جا رہی ہیں۔۔” ضرار نے اپنی بکس کو سائیڈ پر کر دیا تھا۔
“چلو پھر تم اپنا ٹیسٹ پری پیئر کرو میں چلتا ہوں۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔” اذلان نے اسے ٹیسٹ تیار کرنے کا کہا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر وہاں سے جانے لگا تو ضرار اذلان کے اس انداز پر دھیرے سے مسکرا دیا۔
“اچھا سنو! عفان بھائی کی بھی خیر خبر لیتے رہا کرو۔۔ اوکے۔۔؟؟” اذلان نے جاتے ہوئے اچانک عفان بھائی کا ذکر کیا۔تاکہ وہ ان کے پاس بھی جایا کرے کیونکہ عفان بھائی آج کل کافی چپ چپ رہنے لگے تھے۔۔ اسی لئے اذلان کو ان کی فکر لاحق ہو رہی تھی۔
ضرار ان سے بس کھانے کی ٹیبل پر ہی ملتا تھا۔ ان باپ بیٹے کا رشتہ بس سلام دعا کی حد تک ہی محدود رہ گیا تھا۔
پتا نہیں کیوں وہ ان سے زیادہ فری نہیں ہو پاتا تھا۔ وہ فری تو کسی سے بھی نہیں ہوتا تھا ماسوائے اذلان اور زمل کے۔
اذلان اپنی بات کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا تو وہ اپنے سر کو بیڈ کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موند گیا۔
مگر اچانک ہی اسے اپنے ذہن کے پردے پر حیا کا ڈرا ہوا چہرہ عکس بن کر نظر آنے لگا جب وہ بالکل ہی اس کے ساتھ لگی سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں سختی سے دبوچے اس کا چہرہ کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند حد سے زیادہ خوفزدہ لگ رہا تھا۔
ضرار کی آنکھیں اس منظر سے جھٹ سے کھل کر رہ گئیں تھیں۔
“اوفف۔۔۔! یہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔۔” وہ ہڑبڑا کر جلدی سے سیدھا ہو کر اپنی بکس کھول کر پڑھنے لگا۔اس کو اپنی ہر سوچ سے آزادی پانے کا بہترین طریقہ پڑھائی لگتا تھا اس لئے وہ جم کر پڑھائی کیا کرتا تھا۔
?????
پریشے ابھی ابھی کچن کا کام ختم کر کے بیڈ پر لیٹنے لگی تو اچانک موبائل کی بیپ کی آواز پر وہ موبائل کو اٹھا کر دیکھنے لگی تو سامنے ہی ولید کے نمبر سے میسیج کا نوٹیفکیشن تھا۔
“کیسی ہو پریشے۔؟؟” ولی نے اسمائیلی کے ایموجیز کے ساتھ پریشے کا حال پوچھا تھا۔
آج ہی احد صاحب نے ضامن بھائی کو فون کیا تھا تو انہوں نے ضامن بھائی سے رشتے کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں ضامن بھائی نے انہیں “ہاں” میں جواب دے دیا تھا تو وہ بہت خوش ہوئے اور باقاعدہ انہیں بھی مبارکباد دی تھی۔
پریشے نے “میں ٹھیک ہوں” کا رپلائی لکھ کر سینڈ کر دیا تھا۔اب اس کے ذہن پر کل کا واقعہ لہرا گیا جب ضامن بھائی نے اس سے اس رشتے کے بارے میں پوچھا تھا۔
“پریشے بیٹا! ادھر آؤ میری بات سنو۔۔” ضامن بھائی اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ پریشے جو بھائی کو چائے دے کر واپس جانے لگی تو اچانک ان کی آواز پر پیچھے مڑی اور ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
“جی بھائی۔۔!!” ہریشے آہستہ آواز میں کہتے ہوئے دوپٹہ صحیح سے اوڑھنے لگی۔
“پریشے بیٹا! تم جانتی ہو زینی کے کزن ولید کا رشتہ آیا ہے۔۔ میں چاہتا ہوں تم کوئی بھی فیصلہ زبردستی نہ کرو۔۔”
” جو تمہاری رائے ہوگی وہی میری رائے ہوگی تم نے کوئی بھی فیصلہ دباؤ میں آکر نہیں کرنا بیٹے۔۔” ضامن بھائی کے اس مان پر پریشے دل سے مسکرا دی۔
“بھائی! میں نے اپنے ہر فیصلے کا اختیار آپ کو سونپا ہے۔۔ ماما بابا کے بعد آپ ہی میرے لئے سب کچھ ہیں۔۔”
” میرے ماں، باپ، بھائی، بہن، دوست سب کچھ آپ ہی ہیں اور آپ نے ہر رشتے کو بہت اچھے سے نبھایا ہے۔۔ مجھے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔ اس لیے آپ جو بھی فیصلہ میرے لئے کریں گے وہ میرے حق میں بہتر ہی ہو گا۔۔”
پریشے نے ضامن بھائی کے بخشے مان کو سر آنکھوں پر رکھ کر فیصلہ کرنے کا اختیار ضامن بھائی کو دے دیا جس پر وہ بے اختیار مسکرا دیئے۔
پھر انہوں نے پریشے کو اپنے ساتھ لگایا اور اس کا سر چوما جس پر پریشے کی آنکھیں فورا نم ہوگئیں تھیں۔
“مجھے فخر ہے تم پریشے۔۔ تم نے ہمیشہ میرا مان رکھا ہے اور سچ پوچھو تو مجھے تم سے یہی امید تھی۔۔” ضامن بھائی نے اپنے ہاتھوں سے اس کی پر نم آنکھوں کو صاف کیا تو وہ آہستگی سے مسکرا کر وہاں سے چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ہی احد انکل نے فون کر دیا تو انہوں نے اس رشتے کیلئے رضامندی ظاہر کر دی۔ پھر اچانک موبائل کی دوبارہ بیپ کی اواز سنائی دینے پر وہ سوچوں سے باہر نکلی تو میسج کو بغور دیکھنے لگی۔
“میرا حال نہیں پوچھیں گی۔۔؟؟”سامنے ہی ولید کے میسج کا نوٹیفیکیشن تھا جس پر اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ چھا کر رہ گئی۔
“کیسے ہیں آپ۔۔؟” پریشے نے ولی کے کہے مطابق اب اس کا حال پوچھ لیا تو فورا ولی غصے سے بھرا ہوا مسیج آیا جیسے وہ زیرلب دہرانے لگی تھی۔
“اچھا!! میں یہاں ان میڈم کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔۔اور وہاں پریشے میڈم تو میرا حال بھی میرے کہنے پر ہی پوچھ رہی ہیں۔۔” ولی نے ساتھ میں غصے والے کئی ایموجیز بھی ایک ساتھ سینڈ کر دیے۔
پریشے کو اس میسیج کا کیا رپلائی کرنا چاہیئے بالکل بھی سمجھ نہیں آیا تھا اسی لیے چپ چاپ موبائل ہاتھ میں لیے اسے ساکت نگاہوں سے دیکھتی رہی۔
” پلیز!اب تم رونے نہ لگ جانا۔۔” ولید کے میسج کے عین مطابق اس کا میسج دیکھ کر پریشے کی آنکھیں تیزی سے نم ہو چکیں تھیں پھر اس نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور ولید کے درست اندازہ پر ایک دم حیران رہ گئی۔
“تم سچ میں رو رہی تھی نا۔۔؟” ولی کا پھر سے میسیج آیا تھا۔
“نہیں تو۔۔ میں کیوں روؤں گی۔۔؟” پریشے نے جھوٹی وضاحت دی جسے پڑھ کر ولید جو اس وقت بیڈ پر لیٹا اسے میسج کر رہا تھا۔ ایک دم کشن کا اٹھا کر اپنے سینے پر جمائے دھیرے سے مسکرا دیا۔
“اچھا۔! یہ بتاؤ۔۔ان دنوں سب سے زیادہ کسے مس کیا ۔۔؟؟”ولی نے اسے میسج ٹائپ کر کے بھیجا اور اس کے جواب کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔
“زینی کو۔۔۔” پریشے نے مسکرا کر اسمائلی ایموجی کے ساتھ جواب سینڈ کر دیا۔ اب تنگ کرنے کی باری پریشے کی تھی۔ اس نے بھی وہی انداز اپنایا۔
“حد ہو گئی ہے یار۔۔! ادھر زینی بھی تمہاری فکر میں بار بار مجھے میسجیز کر رہی ہے۔۔ اور ادھر تم اس کو یاد کر رہی ہو۔۔ مطلب تم دونوں کی نظروں میں میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے نا۔۔۔”
ولید نے اب نفی میں سر جھٹکتے ہوئے میسیج ٹائپ کیا کیونکہ وہ اب تھوڑا روٹھا ہوا لگ رہا تھا۔
“میری بیسٹ فرینڈ جو ٹھہری۔۔” پریشے اس کے بتانے پر زینی کے فکرمند انداز پر فخر محسوس کرتے ہوئے ولی کو میسج سینڈ کرنے لگی۔
“ہاں تو میں کیا ہوں۔۔؟تو پھر مجھے کس کیٹگری میں رکھا ہوا ہے آپ نے محترمہ۔۔۔؟؟” ولی نے پریشے سے اپنے بارے میں پوچھنا چاہا جس پر اس کا “گڈ نائٹ” کا میسج دیکھ کر اس کا منہ باقاعدہ پھول گیا۔
مگر پھر وہ تھوڑی دیر بعد مسکرا کر اس کو گڈنائٹ کہہ کر موبائل کو بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگا۔
” پریشے۔۔۔آئی رئیلی مسنگ یو یار۔۔۔۔ “ولی کی مسکراتی نگاہوں میں پریشے کا معصوم سراپا لہرا گیا اور پھر وہ پریشے کے بارے میں سوچتے ہوئے پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔
?????
“آنٹی! آپ آ رہی ہیں۔۔ میں آپ کے لئے کمرے میں ہی کھانا لا رہی تھی۔۔” زینی جو ڈنر کی پلیٹ ہاتھ میں لیے عاصمہ بیگم کے کمرے کی طرف لے کر جا رہی تھی کہ ادھر سے آتے سکندر شاہ اور عاصمہ بیگم نے اس کے بڑھتے قدموں کو روک دیا۔
“بیٹے! میں سب کے ساتھ ہی کھانا کھاؤں گی۔۔ میرا کمرے میں بالکل بھی دل نہیں لگ رہا ۔۔”
” ایکچوئلی! مجھے عادت نہیں ہے نا کمرے میں لیٹنے کی۔۔” زینی نے انہیں مسکرا کر دیکھا تو فورا اس کی نظر پیچھے کی طرف گئی جہاں پر اذلان بھی ڈنر کے لئے اپنے روم سے باہر آ رہا تھا۔
اس نے عاصمہ بیگم کو کمرے سے باہر آتے دیکھا تو جلدی سے آگے بڑھ انہیں ایک بازو سے تھام لیا اور پھر انہیں سہارا دیتے ہوئے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لانے لگا۔
اذلان کو دیکھ کر سکندر شاہ کو اس کی صبح والی بدتمیزی یاد آئی تو غصے سے دو قدم آگے چلے گئے۔ اور ساتھ میں زینی کو بھی آواز دے دی۔
“آؤ زینی بیٹے! ہم چلتے ہیں۔۔عاصمہ بیگم اذلان کے ساتھ آجائیں گی۔۔” زینی اس وقت پلیٹ ہاتھ میں تھامے آہستہ آہستہ چل رہی تھی مگر پھر سکندر شاہ کے کہنے پر ان کے ساتھ ساتھ چل دی جس پر اذلان اسے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھتا رہ گیا تھا۔
“کیا ہوا۔۔؟؟ تمہارے بابا کچھ ناراض ناراض سے لگ رہے ہیں۔۔ کیا ہوا ہے انہیں۔۔؟” عاصمہ بیگم نے اذلان کو آہستہ آواز سے پوچھا کیونکہ زینی اور سکندر شاہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے۔
“کچھ نہیں ماما۔۔! آپ ٹینشن نہ لیں۔۔ آپ بس اپنا بہت سارا خیال رکھا کریں۔۔” اذلان نے لاڈ سے انہیں اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ اس پر عاصمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اپنے لاڈلے بیٹے کو دیکھا جو انہیں اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز تھا۔
“چلو چلتے ہیں۔۔ ڈنر پر سب ہمارا ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔” عاصمہ بیگم اذلان کے ہمراہ ڈنر کیلئے ڈائننگ روم کی طرف قدم بڑھانے لگیں جہاں پر سب کھانے کے لیے ان کا ویٹ کر رہے تھے۔
اذلان نے عاصمہ بیگم کو چیئر پر بٹھایا اور خود بھی ان کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھ گیا۔ زینی دوسری سائیڈ پر بالکل اس کے مقابل بیٹھی تھی۔ اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کھانا کھانے لگ گیا۔
“عاصمہ! آپ کو پتا ہے صبح آپکی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔۔ تو زینی نے آپکا چیک اپ کرنے کے بعد جلدی سے ٹریٹمنٹ کرکے ہمیں اس پریشانی سے نکالا۔۔” “ورنہ ہم تو بہت زیادہ پریشان ہوگئے تھے۔۔ اسپیشلی تمہارا بیٹا اذلان۔۔”
سکندر شاہ نے جان بوجھ کر اذلان کو سنانے کے لیے عاصمہ بیگم سے بات کی جس پر جوس پیتا اذلان ایک دم بری طرح کھانسنے لگ گیا تھا کیونکہ یہ بات سن کر اس کے گلے میں جوس اٹک کر رہ گیا تھا۔ اور وہ اب کنکھیوں سے زینی کو ایک نظر دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
“اچھا!ہاں مجھے بھی کچھ کچھ یاد آرہا ہے۔۔ صبح زینی بیٹی ہمارے روم میں آئی تھی میری طبیعت کا پوچھنے۔۔۔ تو پھر اس کے بعد میری طبیعت خراب ہوگئی تھی پھر اس کے بعد کا مجھے بھی پتا نہیں چلا ۔۔”عاصمہ بیگم کو کچھ کچھ یاد آیا تو خود ہی بتانے لگیں۔
“زینی! کیا تم ڈاکٹر ہو۔۔؟؟ ابھی تو تم اتنی چھوٹی سی ہو۔۔” عائشہ بھابی نے حیرت سے بھرے لہجے میں پوچھا تو ضرار اور اذلان سمیت سب اس کی طرف متوجہ ہوئے ان سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر زینی تھوڑا کنفیوز ہو رہی تھی۔
“ایکچوئلی! میں سائیکالوجی کی سٹوڈنٹ ہوں۔۔ م۔م۔میرا مطلب تھی۔۔” زینی کے اٹک کر بتانے پر عالیان بھائی بے ساختہ ہنس دیے تو زینی ایکدم خجل سی ہو کر اپنا چہرہ نیچے جھکا گئی۔
“مجھے تو لگتا ہے آپ فرسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ ہوں گی۔۔۔”عالیان بھائی ماحول کو تھوڑا لائٹ بنانے کے لیے پھر سے شروع ہو چکے تھے کیونکہ انہوں نے سکندر شاہ کا خراب موڈ فورا دیکھ لیا تھا۔
“نہیں تو۔۔عالیان بھائی گریجوایشن کمپلیٹ کر چکی ہوں میں۔۔۔اب تو ایم ایس سی میں ایڈمیشن لینا تھا میں نے۔۔” زینی عالیان بھائی کے فرسٹ ائیر اسٹوڈنٹ کہنے پر ایک دم شاک میں آ گئی۔ اس لیے جلدی سے تیز تیز لہجے میں وضاحت دینے لگی۔
تبھی ان سب کو ڈائننگ روم میں سکندر شاہ کی سنجیدہ آواز سنائی دی۔
“جو بھی ہو بیٹے!آپ نے عاصمہ بیگم کا ایمرجنسی ٹریٹمنٹ کر کے بہت اچھا کام کیا ہے۔۔ جیتے رہو۔۔”
سکندر شاہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر زینی کے سر پر پیار دیا تو وہ اپنی پر نم آنکھوں سمیت دھیرے سے مسکرانے لگی تھی۔
“ہمیشہ خوش رہو بیٹے۔۔” عاصمہ بیگم بھی خوشدلی سے مسکراتے ہوئے زینی کو دعا دینے لگیں۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک زینی کو چھینک آئی تو وہ جلدی سے ٹشو باکس سے ٹشو پیپر اٹھانے لگی۔ ابھی وہ دوسرا ٹشو اٹھا ہی رہی تھی کہ اذلان کو بھی چھینک آنے لگی تو وہ بھی جلدی سے ٹشو اٹھانے لگا۔
دونوں کے ہاتھ ایک پل کے لئے مس ہوئے تو دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ زینی کو اذلان کی نگاہوں میں اس وقت صرف سرد تاثرات محسوس ہو رہے تھے۔
“بارش تو آج بہت ہوئی ہے۔۔ لیکن لگتا ہے اس طرف تو بن بادل برسات برس رہی ہے۔۔”
عالیان بھائی کے مزاحیہ تبصرے پر سب ہنس دیے تھے اس بار تو عفان بھائی بھی اپنی مسکراہٹ نہ روک سکے۔
ان کو مسکراتے دیکھ کر ضرار کو یک گونہ سکون محسوس ہوا کیونکہ اسے فورا رات کو اذلان کی کہی بات یاد آ گئی تھی۔
اس لئے وہ صبح بھی ان سے تھوڑی بہت بات چیت کرنے کے بعد ہی اپنا ٹیسٹ دہرانے آیا تھا ۔اب بھی وہ دونوں اکٹھے ہی ڈایئننگ ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔
“ماما! آپ نے مجھے بارش میں نہیں جانے دیا کہ مجھے sneezing ہو گی۔ اب دیکھیں اذی انکل اور زینی آنٹی کو بھی sneezing ہو رہی ہے..” آحل نے کھانا کھاتے ہوئے اذلان اور زینی کو ایک ساتھ چھینکتے ہوئے دیکھا تو عائشہ بھابھی سے کمپلین کرنے لگا جس پر اذلان اور زینی دونوں نے ہی بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا دونوں کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کر رہ گئیں تھیں۔
زینی فورا جلدی سے اپنا چہرہ جھکا گئی تھی کیونکہ اس کو پھر سے چھینک آ چکی تھی۔اپنی حالت کو دیکھ کر وہ جلدی سے ٹیبل سے اٹھ بیٹھی۔
“آنٹی! میں نے کھانا کھا لیا ہے۔۔اپنے روم میں جارہی ہوں۔۔” زینی اذلان کی سرد نگاہوں سے کنفیوز ہو رہی تھی۔زینی کو آج اس کا موڈ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اس لیے اس نے یہاں سے اٹھنا ہی مناسب سمجھا۔
“بیٹا !میڈیسن لے لینا۔۔ ورنہ طبیعت زیادہ خراب ہو جائے گی۔۔” سکندر شاہ نے میڈیسن لینے کی تاکید کی۔
وہ “جی انکل” کہہ کر ابھی وہاں سے جا ہی رہی تھی کہ اذلان کو بھی چھینک آ گئی تو سب بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگ گئے۔
“اس کو بھی میڈیسن دے دینا۔۔”عاصمہ بیگم نے اذلان کی طرف اشارہ کیا زینی جو واپس مڑ کر ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ اذلان اس کے جواب دینے سے پہلے ہی اپنی چئیر پیچھے گھسیٹ کر اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔
?????
“ارے ولی! آؤ نا یار..” انس نے ولید کو اندر آنے کا کہا۔آج ولید بنا بتائے انس کے آفس آ گیا تھا۔ وہ شاید میٹنگ میں مصروف تھا۔ اس لیے ولی نے واپس جانے کی بجائے ادھر ہی انتظار کیا کیونکہ اسے اس ویڈیو کی انویسٹیگیشن کی پراگریس کا پوچھنا تھا۔
“یار تم مجھے ایک فون یا میسج کر دیتے۔۔ میں اپنی میٹنگ کینسل کر کے آجاتا۔۔” انس ولی کو انتظار کرتے دیکھ کر بار بار شرمندہ ہو رہا تھا۔
“یہ ریسیپشنسٹ نے بھی مجھے فون نہیں کیا۔۔ اس کو بھی میں اچھی خاصی سنا کر آیا ہوں۔۔” انس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنا غصہ کیسے نکالے جو اس کی وجہ سے اس کا دوست اتنی دیر باہر ویٹنگ ایریا میں غیروں کی طرح بیٹھا رہا۔ اس کی بات کو ولید نے بیچ میں ہی کاٹ دیا۔
“یار! اس کی غلطی نہیں ہے۔۔ تم ایویں ہی اس بیچارے کو سنا کر آئے ہو۔۔” ولی نے اس کی شرمندگی کم کرنا چاہی۔
” تم اس کی سائیڈ مت لو۔۔ مجھے پہلے ہی اس پر بہت غصہ آ رہا ہے۔۔”انس کی بات پر ولید پھر ہنستے ہوئے گویا ہوا۔
“یار! سائیڈ نہیں لے رہا۔۔ اس نے کہا تھا کہ سر ضروری میٹنگ اٹینڈ کر رہے ہیں۔۔ آپ اپنا نام بتا دیں میں سر کو انفارم کر دیتا ہوں۔۔ میں نے کہا میں بیٹھ کر انتظار لیتا ہوں کوئی بات نہیں۔۔” ولی نے ریسیپشنسٹ سے ہوئی بات کی وضاحت دی۔
اتنے میں ملازم ان کے لئے اسنیکس اور چائے وغیرہ دے کے جا چکا تھا۔ اب وہ دونوں اس کے آفس میں موجود صوفوں کی طرف بڑھ گئے تھے۔
“چلو خیر چھوڑو یار! تمہارا بزنس سیٹل ہو گیا یا نہیں۔۔؟”انس نے ولی سے اس کے کام کے بارے میں پوچھا۔
“ابھی تو کر ہی رہا ہوں۔۔ اب تو بابا بھی یہاں آگئے ہیں وہ بھی ساتھ سنبھال رہے ہیں۔۔ اس لئے میں تھوڑا فری ہوا تو سوچا تمہاری طرف چکر لگا لوں۔۔” ولی نے احد صاحب کے آنے کا بتایا اور ساتھ میں موجود ٹیبل پر چائے اٹھا کر ہلکے ہلکے سپ لینے لگا۔
“یہ تو صحیح ہوگیا کہ انکل یہاں سیٹل ہو رہے ہیں۔۔ جتنا مرضی باہر گھوم پھر لیں۔۔ اپنا ملک ہمیشہ اپنا ہی ہوتا ہے۔۔”
” جو عزت اور پزیرائی ہمیں یہاں ملتی ہے وہی چیز باہر کے ملکوں میں کہاں ملتی ہے بھلا۔۔”اب انس بھی اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ میں حصہ لینے لگ گیا۔
ولی کے ذہن میں فوراً زینی کا کہا ہوا جملہ گونجنے لگا۔
“ولی! ایک دن پاکستان تمہیں دنیا کا بہترین ملک لگے گا ۔۔۔لگا لو شرط۔۔۔ “زینی نے بڑے فخریہ انداز سے جملہ کہا تھا جب وہ بار بار اس کو چڑا رہا تھا کہ یہاں کتنی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، نوکریاں نہیں ہیں، وسائل نہیں ہیں، گیس، پانی، پتا نہیں کتنے اور مسائل ہیں فلاں فلاں۔۔۔”
اس کے جواب میں زینی نے اسے پاکستان کے کتنے ہی قدرتی وسائل ایک ساتھ گنوا دیے تھے۔
“ولی! تمہیں پتا ہے کوئی بھی ملک ایسا نہیں جیسا پاکستان ہے۔۔ دیکھو اس کے ایک طرف سمندر ہے جس سے وہ تجارت کر کے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے کافی زرمبادلہ کما سکتا ہے”
“کیونکہ ان کی حدود کسی سمندری راستے سے نہیں ملتی۔۔ اس طرح یہاں پہ سیروسیاحت کے لئے بے شمار جگہیں ہیں۔۔ اگر کوئی ان علاقوں میں ہوٹلز یا پارکس بنا لے تو کافی کمائی ہو سکتی ہے۔۔”
“اگر اس کی زرخیز زمین کی طرف دیکھیں تو یہاں ہر چیز اگتی ہے۔۔ اللہ نے اس سرزمین کو ایسا بنایا ہے کہ یہاں چاول، کپاس، گنا مکئی، جوار، باجرہ، گندم وغیرہ ہر قسم کی اجناس یہاں اگتی ہیں۔۔ اگر تیل کو دیکھے تو وہ بھی کئی جگہ سے نکلتا ہے۔ یہاں پاکستان میں کوئلے کی کان ہے اور نمک پوری دنیا میں سب سے زیادہ ادھر ہی پایا جاتا ہے۔۔”
“اسی طرح گیس بھی بلوچستان کے کافی علاقوں میں وافر مقدار میں موجود ہے اور بھی نجانے کتنے ہی وسائل اللہ تعالی نے اس ملک کو دیے ہیں اور تم کہتے ہو یہاں کچھ بھی نہیں ہیں۔۔”
“ولی! اگر پاکستان کو صحیح سے کوئی چلانے والا بندہ مل جائے نا تو پھر دیکھنا!! پاکستان کی عزت دنیا میں پھر سے ویسے ہی قائم ہوجائے گی جتنی اس کی عزت 60s میں تھی۔”
“کہاں کھو گئے۔۔؟” انس نے ولی کے آگے ہاتھ کی چٹکی بجا کر اسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا جو کب سے زینی کی باتوں کو ہی سوچے جا رہا تھا۔
“کہیں نہیں یار۔۔ تم بتاؤ۔۔کچھ نیا پتا چلا اس ویڈیو کے بارے میں۔۔؟” ولی نے سیدھا بیٹھ کر کپ کو واپس ٹیبل پر رکھا اور سنجیدگی سے ویڈیو کے بارے میں پوچھنے لگا جو پچھلے کچھ دنوں سے اس نئے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے تھوڑا پیچھے رہ گیا تھا۔
“یار ولی! بارہا کوششوں کے باوجود وہ شاہ زیب منہ نہیں کھول رہا۔۔ میں نے بہانے سے کتنے ہی بندوں کو اس کے پاس بھیجا ہے۔۔۔ مگر وہ کچھ بتاتا ہی نہیں ہے بس” اوں آں” کر جاتا ہے۔۔”
انس نے یاسیت سے بھرے لہجے میں بتایا تھا۔
“اچھا! مجھے لگا شاید کچھ پراگریس ہوئی ہو اس معاملے کی تحقیق میں۔۔” ولی نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے کہا کیونکہ وہ یہ بات سن کر ازحد پریشان ہو گیا تھا۔۔
“تم اس معاملے کی اوپنلی تحقیق نہیں نہ کروانا چاہتے۔۔بس اسی لیے پرابلم ہو رہی ہے ورنہ تو ایف آئی اے کا ایک پراسیس ہوتا ہے اس سے سارا معاملہ فورا کھل کر رہ جاتا ہے۔۔”
“کسی طور میڈیا میں یہ خبر نہ پھیل جائے اس لیے تم نے منع کیا ہے مجھے ورنہ میں تو اس لڑکے کو کب سے کہہ چکا ہوتا۔۔”
انس نے ایک بار پھر وہی بات دہرائی کیونکہ وہ چاہتا تھا اس کیس کی اوپنلی انویسٹی گیشن کروائی جائے۔ مگر ولی نے منع کر دیا تھا کیونکہ اسے ابراہیم صاحب نے ایسا کرنے سے صاف منع کردیا تھا۔ اور وہ ان کی اجازت کے بغیر اکیلے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔
“چلو خیر۔۔اگر کوئی کلیو ملے تو پھر بتانا مجھے۔۔” میں چلتا ہوں اللہ حافظ۔۔” ولی نے ایک دو باتوں کے بعد اس سے الوداعی کلمات کہے تھے۔
اور پھر اپنی کار پارکنگ سے نکالنے کے لیے پارکنگ لاٹ کی جانب بڑھ گیا۔
?????
ایمان کلاس کی اٹینڈس لینے کے لئے ڈائس کی طرف بڑھی اور پھر ساری کلاس کی اٹینڈس لی۔۔ اس کے بعد پھر وہ اپنا لیکچر سٹارٹ کرنے لگی۔
“آج کی لیکچر کی حدیث مبارکہ یہ ہے۔۔” ایمان نے ان کی توجہ وائیٹ بورڈ کی طرف مبذول کروائی اور خود اونچی پڑھتے ہوئے حدیث لکھنے لگی۔
عن ابی ھریرة،قال رسول اللہ:
“ما نقصت صدقة من مال و ما زادالله بعفو الا عزا و ما تواضع احد الا لله رفعه الله۔۔”
ترجمہ:
” صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور معاف کرنے سے اللہ تعالی کسی چیز کو نہیں بڑھاتا سوائے عزت کے اور کوئی عاجزی اختیار نہیں کرتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالی اس کا مرتبہ بلند کرتے ہیں۔”
ایمان نے وائٹ بورڈ پر حدیث اور ترجمہ لکھا اور پھر کلاس کی جانب مڑی اور ان کے سامنے کھڑے ہوکر اس کا مفہوم واضح طور بتانے لگی۔
“ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس تو خود بہت کم مال ہے اگر وہ صدقہ کر دیں گے تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔۔ یہ سوچ سراسر غلط ہے۔۔ حضرت محمد نے اس کو اس حدیث میں واضح کردیا اور قرآن پاک میں بھی اس کا حکم واضح موجود ہے۔
“یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات۔”
ترجمہ:
” اللہ تعالی ربو کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔”
“مثلا ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم کوئی سودی کاروبار کرتے ہیں تو تو وہ سود ہمارے مال کو بڑھاتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے سختی سے سودی کاروبار سے منع کیا ہے۔
اسی لئے تو قرآن اور حدیث میں جگہ جگہ زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ آپ اپنے مال کی زکوٰۃ ان لوگوں کو دیں جو اس کا حق رکھتے ہوں۔۔”
“اس سے معاشرے کے وہ افراد بھی محرومیوں سے بچ جائیں گے اور غریب و امیر کی تقسیم سے جو خرابیاں ماحول میں پیدا ہوتی ہے اسی کے پیش نظر ہمیں سودی کاروبار سے منع کیا گیا ہے۔۔”
اور اللہ تعالی کی راہ میں جو خرچ کیا جاتا ہے اس کا اجر کئی گنا اللہ تعالی ہمیں بڑھا کر دیتے ہیں۔
قرآن پاک میں ہے:
“من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفه و له اجر کریم۔۔”
ترجمہ :
“کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اللہ اس کا اجر کئی گنا بڑھا دے گا اور اس کے لیے اجر ہے احترام و اکرام والا۔”
اور بھی کئی جگہ پر قرآن پاک کے احکامات ہیں.. اگر ہم صدقات دیتے ہیں تو اللہ تعالی اس کا اجر ہمیں کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
اس کی مثال مولانا شبیر احمد عثمانی نے یوں دی ہے کہ:
“سود سے بظاہر جو بڑھوتی ہوتی ہے وہ اس طرح ہے جیسے کسی شخص کے جسم پر ورم ہو گیا ہو بظاہر تو یہ شخص موٹا لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ بیمار جسم کا نتیجہ ہوتا ہے۔۔”
اور دوسری بات اس حدیث میں دوسروں کو معاف کر دینے کی بتلائی گئی ہے۔
“اگر آپ کسی کی غلطی کو درگزر کر کے اسے معاف کر دیتے ہیں تو اس میں ہماری شان میں کمی نہیں آئے گی بلکہ لوگوں کی نظروں میں آپ کا وقار اور عزت بڑھ جائے گی۔۔”
ہمارے نبی محمد نے کتنے ہی لوگوں کو اپنی زندگی میں معاف کر کے بہترین اسوہ کامل کا نمونہ دیا۔”
ایسے ہی فتح مکہ کے موقع پر بھی عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ کے قاتل وحشی بن حرب کو بھی آپ نے معاف فرما دیا۔”
“اور معاف کرنے والا شخص اللہ کے نزدیک پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔۔”
مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ:
“جس میں تین باتیں ہوں گی اسے اللہ اپنی خصوصی رحمت میں جگہ دیں گے۔
(۔1)اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا۔
(2)قادر ہونے کے باوجود معاف کرنے والا۔
(3)جب غصہ آئے تو خاموش ہو جانے والا۔
اب آپ خود دیکھے معاف کرنے کا کس قدر بڑا اجر ہے۔
اور تیسری بات اس حدیث میں عاجزی کے بارے میں بیان کی گئی ہے اللہ تعالی ہی یہ نعمت کسی بندے کو عطا کرتے ہیں۔ یہ انسان کی اپنی عطا کردہ نہیں ہے۔۔ یہ اوصاف محض اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت ہے یہ عطیہ خداوندی ہے جو بہت خوش قسمت لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔
اپنی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہر کام خود کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کہتے اور ان سے پیار فرماتے۔
اسی طرح جب کسی بدو نے آپ کو کسی بچے کو پیار کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ
“میرے دس بچے ہیں مگر میں نے ان سے کبھی پیار نہیں کیا۔”
آپ نے فرمایا:
“من لا یرحم لا یرحم۔”
ترجمہ:
“جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی اور انکساری کو دیکھ کر ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ فخر اور غرور سے کسی کی بھی بھلائی نہیں ہوتی۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں درج ہے:
” جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔”
اس لئے ہمیں فخر و غرور سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایمان چند ایک دو باتوں کے بعد اپنے لیکچر کو اختتام تک پہنچاتی کلاس روم سے باہر آ گئی تھی۔
?????
“کیسی ہو پریشے۔۔؟” زینی جو کمرے میں آ کر ابھی فرسٹ ایڈ باکس سے میڈیسن نکال ہی رہی تھی کہ اچانک اس کا فون بج اٹھا تو اسکرین پر پریشے کا نام جگمگاتے دیکھ کر اس نے فون ریسیو کرتے ہوئے فورا اس کا حال پوچھا۔
“میں تو ٹھیک ہوں یار۔۔! تم کیسی ہو۔۔؟” پریشے کی پریشانی سے بھرپور آواز آئی اس نے کتنے دنوں بعد زینی کی آواز سنی تھی اس لیے تقریبا رو دینے کو تھی۔
“آچھھو۔و۔۔۔” اس کے جواب دینے سے پہلے ہی زینب کو پھر چھینک آ گئی۔
“تم پکا بارش میں بھیگی ہو نا۔۔؟” پریشے کے دردست اندازے پر زینی مسکرا دی مگر بولی کچھ نہیں۔ اس نے جواب دینے کی بجائے بات ہی بدل دی۔
“ولی سے بات ہوئی تمہاری۔۔؟؟” زینی نے پریشے سے پوچھا تو اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
“ہاں یار! ہوئی تھی۔۔ مگر میں تمہارے لیے بہت پریشان ہوں۔۔ کیسی ہو تم؟ اور وہ اذلان بھائی کیسے ہیں۔۔؟؟ اور وہ تمہارے ساتھ ٹھیک تو رہتے ہیں نا۔۔؟؟” پریشے کے فکر مند انداز پر زینی ایک دم خوش تو ہوئی مگر کچھ بھی کہنے سے پہلے اسے پھر سے چھینک آ گئی تھی۔
“تم میڈیسن تو لو پہلے۔۔ میں پھر ڈیٹیل میں بات کروں گی تم سے۔۔” پریشے نے فون رکھنے سے پہلے اسے یاد سے میڈیسن لینے کی تاکید کی۔
“اوکے! ٹھیک ہے میں میڈیسن لے لیتی ہوں۔۔” زینی نے اسے اپنی طرف سے تسلی دلائی۔
“آاچھو۔و۔۔” زینی جو ابھی میڈیسن لے ہی رہی تھی کہ اذلان بھی چھینکتا ہوا اندر کمرے میں آیا اور دراز سے ایک فائل نکالنے لگا۔ زینی نے ایک گلاس پانی بھرنے کے بعد میڈیسن پلیٹ میں رکھ کر اذلان کے سامنے رکھی اور خود بنا کچھ کہے باہر چلی گئی۔
اذلان نے پہلے میڈیسن دیکھی اور پھر وہاں سے جاتی زینی کو دیکھ کر پلیٹ کو دوسری طرف کھسکا کر خود فائل لیے باہر چلا گیا۔
اس وقت اس کے چہرے پر ہر درجہ غصے کے تاثرات نمایاں ہو رہے تھے۔
بابا کا ناراض انداز اسے کسی طور برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اسے پھر سے وہ سب یاد آ گیا تھا۔
” کس طرح اس نے اس ویڈیو کے لیک ہونے کعد بعد suffer کیا ہے اور ابھی بھی کر رہا ہے..”
اس کے ذہن کے پردے پر شام کا واقعہ لہرا کر رہ گیا تھا جس کے بعد سے اس کا موڈ پوری طرح بگڑ چکا تھا۔
مگر وہ اپنے خراب موڈ کا کبھی بھی گھر والوں پر اثر نہیں پڑنے دیتا تھا۔ مگر پتا نہیں کیوں وہ زینی سے لاکھ چاہنے کے باوجود اپنا آپ چھپا نہیں پا رہا تھا۔۔ اس کے ذہن کے پردے پر اپنی نئی فلم کا کو سٹار چھا گیا تو اسے پھر سے سخت غصے نے آن گھیرا۔
“یار! ایسے ہی پروڈیوسر نے اس مووی میں ٹینا میڈم کو لے لیا ہے۔۔ اس سے زیادہ پیاری تو اذلان سر کی رئیل وائف ہیں۔۔۔” دونوں ینگ ایکٹرز اکٹھے بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ اچانک اپنے آفس کی طرف واپس آتے اذلان نے ان کی یہ بات اپنے کانوں سے سن لی۔
کیونکہ آج کی باقی کی شوٹنگز بارش کی وجہ سے کینسل ہو چکیں تھیں۔ یہ باتیں سن کر اس کا چہرہ حد درجہ غصے سے سرخ پڑ گیا تھا اور اب وہ اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچے باقاعدہ ان کے روم میں داخل ہو چکا تھا۔
“اذلان سر۔ر۔ر! آیئے نا پلیز۔۔” ان دونوں نئے ینگ ایکٹرز نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اسے مخاطب کیا۔
تبھی اذلان نے جوابا ایک زوردار تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیا جس پر وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے تھے۔
“آئیندہ خبردار! میری پرسنل لائف کے بارے میں کبھی ڈسکس کیا تو یہیں زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا تمہیں۔۔۔ سمجھے تم۔۔؟؟” اذلان کی تیز دھاڑ کے ساتھ ساتھ اس کی خونخوار آنکھیں ان دونوں کے چہرے پر گڑھی ہوئی محسوس ہو رہیں تھیں۔
کیونکہ اب وہ دونوں لڑکے اذلان کی غصیلی نگاہوں کو دیکھ کر خزاں رسیدہ پتے کی مانند کانپ کر رہے تھے۔
“ایم سو سوری سر! آئیندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔۔” دوسرے لڑکے نے فوری معذرت کی جس پر اذلان نے اسے سخت گھوری سے نوازا تھا۔
“تم دونوں اب اس فلم کا حصہ نہیں ہو۔۔۔دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں تم لوگوں کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں۔۔ نکل جاؤ یہاں سے۔۔”
اذلان نے دونوں کو کھڑے کھڑے کام سے نکال دیا تھا کیونکہ اب اس کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔اپنی بیوی کے بارے میں اس طرح کے کمنٹس سن کر غصے کے مارے اذلان کی کنپٹی کی رگیں تن کر پھول چکیں تھیں۔۔۔
اس کی آواز سن کر اندر آتا پروڈیوسر فورا سمجھ چکا تھا کہ ضرور اذلان نے انکی کوئی غیر اخلاقی حرکت دیکھی ہوگی اس لیے انہیں فائر کیا ہو گا۔۔
اس وقت وہ دونوں امید طلب نگاہوں سے پروڈیوسر کی طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید وہ ان کے لئے کوئی منت سماجت کرے مگر سب اذلان کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اذلان جیسا اصول پرست بندہ اگر کوئی بات ایک دفعہ کہہ دے تو وہ لوہے کی سل کی مانند پکی ہوتی ہے۔۔ وہ اپنی بات سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔۔۔ اس لیے اس پروڈیوسر نے اذلان سے کوئی بھی سوال کیے بنا ان دونوں کو فورا یہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا تھا۔
اذلان ان لڑکوں کے جانے کے بعد بنا کسی سے کچھ کہے وہاں سے جا چکا تھا۔ کیونکہ اس کے آج کے تمام شوٹس کینسل ہو چکے تھے۔
اچانک زمان کی آواز پر اذلان اپنی سوچوں کے بھنور سے باہر آیا اور اسے فائل دے کر داخلی دروازے سے واپس گھر میں آگیا تھا۔ زمان اس فائل کو لے کر اپنے گھر کے لئے نکل چکا تھا۔اذلان دھیمے دھیمے قدموں سے چلتا ہو راہداری عبور کر رہا تھا۔
اب اس کا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا۔مگر اس کے ذہن پر ابھی تک ان لڑکوں کی باتیں ہتھوڑے کی مانند کاری ضربیں لگا رہیں تھیں۔۔۔اور اس کے چہرے کے تاثرات کسی کو بھی کچا چبا جانے کے مترادف تھے۔
?????
“ابراہیم! کمرے میں جا کر آرام کر لیں۔۔۔” سارہ بیگم نے اسٹڈی روم کی کرسی کی پشت پر ٹیک لگائے آنکھیں موندے ہوئے ابراہیم سے صاحب سے کمرے میں چلنے کا کہا تو انہوں نے اپنی شدت سے موندی ہوئی آنکھیں کھول دیں۔
“کیسے کروں آرام سارہ۔۔ مجھے تو اب نیند ہی نہیں آتی۔۔” ابراہیم صاحب کے لہجے میں واضح شکستگی طاری تھی۔
“مجھے پتا ہے آپ زینی کے بنا نہیں رہ پاتے اسی لئے آپ کی یہ حالت ہو گئی ہے ۔۔۔”سارہ بیگم ابراہیم صاحب کی اس حالت پر تڑپ کر رہ گئیں۔۔ انہوں نے اب ابراہیم صاحب کو دیکھتے ہوئے ان کے جھکے ہوئے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر نرم لہجے سے گویا ہوئیں۔
“سارہ! میرے سامنے اس کا نام مت لیا کریں۔۔۔ اس نے میرا سارا مان توڑ کر رکھ دیا ہے۔۔” ابراہیم صاحب کا لہجہ رندھا ہو لگ رہا تھا۔
“آپ کو پتا تو ہے ابراہیم! زینی بہت حساس ہے۔۔ وہ آپ کو بہت یاد کرتی ہے۔۔”
” میرے موبائل پر روز اس کی اتنی کالز آتی ہیں۔۔ ضرور آپ کے موبائل پر بھی آتی ہوں گی۔۔”
” آپ اس سے ایک دفعہ بات کر لیں۔۔ آپ خود کو کافی حد تک بہتر محسوس کریں گے۔۔” سارہ بیگم نے زینی کی کالز کا بتانا چاہا تھا مگر جوابا ابراہیم صاحب کے سخت لہجے پر وہ ایکدم خاموش ہو کر رہ گئیں تھیں۔
“سارہ! بابا یہاں سے ناراض ہو کر چلے گئے ہیں۔۔۔ وہ مجھ سے بات تک نہیں کر رہے۔۔”
“اور سب سے زیادہ دکھ تو مجھے بابا جان کی اس بات نے دیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ میرے نقش قدم پر چلی ہے۔۔۔”
” کیا۔۔کیا میں نے کبھی کچھ غلط کیا تھا سارہ۔۔۔؟؟” داؤد صاحب کی اس بات نے ابراہیم صاحب کا دل توڑ کر رکھ دیا تھا۔اب وہ پر نم آنکھوں سے باقاعدہ سارہ بیگم سے سوالیہ لہجے میں پوچھ رہے تھے۔
“نہیں ابراہیم!اس سب میں آپ کی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔”
“یہ تو میرا ہی برا نصیب تھا۔۔جو آپ سے ٹکرا گیا تھا۔۔۔۔” سارہ بیگم نے ابراہیم صاحب کی حالت دیکھ کر پریشان انداز سے روتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سارہ آپ۔۔۔!!”ابراہیم صاحب نے اب سارہ بیگم کے رخساروں پر تیزی سے بہتے آنسو دیکھے تو فورا چئیر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ کہاں برداشت کر پاتے تھے ان کی آنکھ میں بہتا ایک بھی آنسو مگر سارہ بیگم اپنی بات کہہ کر انہیں پر نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے فورا وہاں سے چلیں گئیں کیونکہ ان کے بھیانک ماضی نے آج انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔
وہ اپنے اس ماضی کو قطعی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے آج ابراہیم صاحب کی ایسی حالت ہو گئی تھی۔