
23 مارچ
اک تاریخ ساز دن۔ ۔
: آرٹیکل از قلم سحر مومنہ
23
مارچ کا دن پاکستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا گیا ہے۔1940 میں مسلمانوں نے اپنے لیے ایک ملک کی اور اپنے مستقبل کے لیے ایک اہم فیصلہ کیا تھا جس میں اکثریت علاقوں کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا تھا مسلم لیگ کے اراکین اور قائد اعظم کی قیادت میں شامل تھے 1857ع سے 1940 تک برصغیر کے عظیم مسلمانوں نے ایک نظریہ کے بہت ساری قربانی دی لیکن اپنی ابدی اصولوں کو نہ چھوڑا مسلمان معاشی بد حالی کا شکار ہوئے لیکن اپنی عزت نفس کو بھی مجروح نہیں ہم امتی محمد (ص)ہیں اس وقت کے مسلمان بھی اپنی اہمیت اس وقت ہندوؤں اور انگریزوں کو دیکھنا چاہتے تھے پھر تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال رح نے تمام مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کی تجویز پیش کی اس کے دس سال بعد عملی جامہ پہنانے دن آیا اگر انگریز ہندوستان سے چلے جاتے تو پھر اقتدار ہندوؤں کے ھاتھ میں آ جاتا اور مسلمان ہمیشہ ہندوؤں کی غلامی کرتے دونوں الگ قومیں ہیں دونوں کے مذہب رہن سہن ثقافت میں بہت فرق تھا پھر ان دو قوم ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا اسی پس منظر میں 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمان نے اپنے الگ وجود ہونے کا احساس ہندوؤں اور انگریزوں کو دلایا یہی ہمارا دو قومی نظریہ ہے جس پر آج پاکستان قائم و دائم ہے اور ہمیشہ ایسے ہی قائم و دائم رہے گا قائد اعظم محمد علی جناح ہمیشہ اس غلط فہمی کی تردید کی کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں انہوں نے کہا قومیت کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک قوم ہیں ہندو اور مسلمان کبھی متحد نہیں رہ سکتے ہیں انگریز کے جانے کے بعد یہ مصنوعی اتحاد ختم ہو جائے گا مسلمانوں کی طرف سے یہ ایک صرف قراداد تھی لیکن لیکن ہندؤں نے اس کو قراداد پاکستان نام دیا۔پہلے قائد اعظم نے ہندوؤں کی جماعت کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہند مسلم ہے اتحاد پر مشترکہ جدو جہد کی لیکن جب انہوں نے ہندؤں رہنما کو مسلمان کے خلاف کا پالیسیوں کا عملی مظاہرہ دیکھا تو الگ جماعت مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی سر سید اور علامہ اقبال کی دو قومی نظریہ کو تسلیم کیا پھر سات سال کی جدو جہد کے بعد پاکستان بنا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان
ہماری شان ہماری جان
رہتی دینا دنیا تک قائم رہے گا پاکستان۔