
قربانی
افسانہ
از قلم
سحرمومنہ
وہ دونوں پہاڑی پر بیٹھے تھی شام کا ٹائم تھا سورج ڈھل رہا تھا آس پاس ساری ہریالی تھی منظر بہت حسین تھا سارے پرندے اپنے گھر کو لوٹ رہے تھے وہ دونوں بہت اداس تھے آج چپ تھے کوئی بول نہیں رہا تھا دونوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ بولے کیا کیونکہ بولنے کو کچھ نہیں تھا آج ان دونوں کے پاس۔۔لیلیٰ نے ایک نظر اٹھا کر باسط کو دیکھا جس کے چہرے پر اداسی صاف ظاہر تھی آخر لیلیٰ نے اس خاموشی کو توڑا ۔۔ابا نے میرا رشتہ طے کردیا ہے باسط دلاور کے ساتھ لیلی کے لہجے سے دکھ واضح تھا۔۔ہاں پتہ چلا مجھے اس کی ماں آئی تھی ہمارے گھر مٹھائی لے کر باسط نے کہا لیلیٰ کو دیکھتے ہوئے۔۔اچھا لیلیٰ نے کہا۔۔تو نے کیا سوچا پھر لیلیٰ تو کر لے گئی پھر دلاور سے شادی تو خوش تو ہے نہیں یہ میں جانتا ہوں تیرا بھائی اپنی خوشی کے لیے تجھے بالی کا بکرا بنا رہا ہے وہ کرتا ہے زرمینہ کو پسند پر تو نہیں کرتی نا پسند دلاور کو میری ایک بات مانے گئی باسط نے کہا۔۔۔کیا بات بول لیلیٰ نے پوچھا؟؟تو اور میں بھاگ جاتے ہیں یہاں سے کہیں دور چل کر اپنا گھر بسا لیں گئے ہم ان کو ھاتھ بھی نہیں آئے گئے ہم باسط نے کہا۔۔تو پاگل ہے باسط بھاگ کر شادی مطلب رسوائی میرے ماں باپ کی بھائی کی اور جو پچھے حال ھوگا ہمارے گھر والوں کا وہ سوچا تو نے پاگل میری تین اور بہن ہیں ان کی شادی کیسے ھوگی تیری بھی بہن ہیں دو جوان ان کی بھی شادی کی عمر ہے انکا بھی سوچ تو کچھ بس اپنی خوشی کے لیے ہم کیا ان سب کو جہنم ڈال دیں گئے لیلیٰ نے کہا۔۔تیری بات سہی ہے لیلیٰ پر میں تجھے بہت چاہتا ہوں تیرے بنا نہیں رہ سکتا میں تو کسی اور کی ھوجائی گئی یہ مجھے سے برداشت نہیں ہو رہا ہے باسط نے کہا۔۔میں نہیں چاہتی کیا تجھے میں بھی تجھے بہت چاہتی ہوں پر اپنی محبت کے لیے میں اپنے ماں باپ کا دل نہیں دکھا سکتی ان سب دل دکھا کر ہم کھبی خوش نہیں رہ پائے گئے باسط لیلیٰ نے کہا۔۔ہم الگ الگ بھی خوش نہیں رہ سکتے لیلیٰ باسط نے کہا۔۔پر میں نہیں بھاگ سکتی باسط یہ کام میں نہیں کروں گئی بے شک میں خوش نہیں ہوں اس رشتے سے پر میرا بھائی تو خوش ہے نا امان ابا تو خوش ہیں نا میں بھی ہو جاؤں گئی خوش کھبی نا کھبی لیلیٰ نے کہا۔۔پیار کرنے والے کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے لیلیٰ تو میرا ساتھ چھوڑ رہی ہے بے وفائی کر رہی ہے اپنے ابا اور بھائی کے لیے باسط نے کہا۔۔تو مجھے بے وفا سمجھ جو مرضی سمجھ پر میں بھاگ نہیں سکتی آج تجھے ضرور میری بات بری لگ رہی ہے غلط لگ رہی پر ایک وقت آئے گا تو خود سمجھ جائے گا یہ بات کے میں غلط نہیں ہوں لیلیٰ نے کہا۔۔اپنی بے وفائی پر واضاحت مت لیلیٰ تو جا چلی جا یہاں سے اب تو اور خوش رہ جا کے دلاور کے ساتھ تو باسط نے کہا اس لہجے میں بہت دکھ تھا۔۔میں چلی جاؤں گئی باسط میں بھی یہی کہنے آئی تھی اب نہیں آؤ گئی تم سے ملنے میں یہاں پر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا تو باسط بھاگ کر شادی میں کوئی فائدا نہیں ہے ہاں نقصان بہت ہے یہ تو ابھی نہیں سمجھ رہا تھا پر سمجھ جائے گا میری دل سے دعا ہے اللّٰہ ئ تجھے بہت خوشیاں دے اتنی کے تو سمنٹ سمنٹ کر تھک جاؤ پر خوشیاں کم نا تیری وہ دعا دیتی رو دی تھی ایک سسکی نکلی تھی اس نے اپنے دوپٹے سے آنسؤں صاف کیے اور اٹھا کھڑی ہوئی باسط کو کافی دیر تک دیکھتی رہی ایک ٹائم۔تھا اس کو کانٹا بھی چھپتا تھا تو باسط تڑپ جاتا تھا آج وہ اس کے سامنے روئی تھی پر باسط نے اس کو دیکھا بھی نہیں وہ دکھ سے دیکھتی ہوئی چلی گئی وہاں سے۔۔وہ جا ری تھی تو باسط نے اس کو جاتا ہوا دیکھا اور رو دیا لیلیٰ چلی گئی تھی دور بہت پر باسط وہاں کافی دیر بیٹھا رہا شاید وہ آئی گئی لوٹ کر اس کے پاس اب سورج ڈھل گیا تھا رات ہوگئی تھی سارے پرندے اپنے گھر کو لوٹ گئے تھی لیلیٰ بھی لوٹ گئی تھی باسط اکیلا رہ گیا تھا وہ بھی اٹھ کر آگیا گھر اور کمرے لیٹ گیا ۔۔بہن کھانا لے کر آئی اس نے انکار دیا وہ واپس گئی بڑی بہن کو بتایا بھائی کھانا نہیں کھا رہا ہے وہ باسط کے پاس آئی کیا ہوا ہے کھانا کیوں نہیں کھایا تم نے اس کی بہن نے کہا۔۔بھوک نہیں ہے مجھے باسط نے کہا اس کا لہجہ بھگا ہوا سا تھا۔۔لیلیٰ سے ملنے گئے تھے نا کیا کہا اس نے بہن نے پوچھا؟؟کیا کہنا تھا اس وہ تو بہت خوش اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا میں ہی پاگل ہوں بس باسط نے کہا۔۔اس کی بہن لیلیٰ کی دوست تھی وہ اس حالت جانتی تھی پر باسط کا اس پر غصہ وہ سمجھی نہیں تھی اس نے پوچھا کیا ہوا ہے کیا کہا اس نے ایسا؟؟میں کہا چل بھاگ چلتے ہیں شادی کر لیں گئے بہت دور چلے جائے گئے ہم یہاں سے ۔۔پھر باسط نے پوری بات بتائی بہن کو جو سن کر وہ مسکرا دی۔اس نے کچھ غلط نہیں کہا باسط وہ سہی کہہ رہی سوچ تو میرا بھائی ہے اگر میں یہ قدم اٹھاؤ تو کیا کرے بتا تیرا سر ہی جھک جائے گا نا وہ بھی بہن نا یاد کر اپنے پڑوس والی خولہ ایک شہری ساتھ بھاگ گئی تھی تو کیا ہوا تھا اس ماں نے ہی خود شکی کر لی تھی نا باپ صدمے میں مر گیا تھا۔۔ہاں یہ تو ہوا تھا باسط کو بہن کی بات دل سے لگی ۔۔وہ تجھے چاہتی ہے پر اپنے بھائی بہن کے لیے قربانی دے رہی ہے وہ تجھے خوشی نہیں ہے مجھے ہے کہ اس تمہاری طرح بے وقوفوں والی بات نہیں کی اس نے عقل سے کام لیا پیار صرف پا لینے کا نام۔ نہیں ہوتا باسط پیار کو کھونے کی ھمت چاہیے ہوتی ہے اس بہن نے کہا۔۔باسط اب شرمندہ ہو رہا تھا اپنی ہی بات پر اب اس کو لیلیٰ کا رونا یاد آرہا تھا۔ شادی کب ہے اس کی باسط نے کہا۔۔اگلے ہفتے ہے اس کا نکاح اور اس کے بھائی کا بھی اس بہیں نے کہا۔۔باسط نے اپنا فون اٹھایا اور دوست کو کہا میرے لیے کوئی کام ہے شہر میں کل میں آؤ گا شہر اس کے دوست ہاں کہا آ جا کب سے کہہ رہا ہوں شہر میں بہت کام ہوتے ہیں پھر باسط نے صبح آنے کہہ کر فون بند کردیا۔۔شہر کیوں جا رہا ہے اب تو بہن نے کہا۔۔کمانے جارہا ہوں کب تک تم اپنی اسکول کی جوب سے گھر چلاؤ گئی کل تمہاری بھی شادی کرنی ہے نا مجھے اس کے لیے پیسے چاہے ھو گئے باسط نے کہا۔۔چلو شکر ہے تم عقل آگئی یوں بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ملتا جو ہو پاس وہ بھی چلا جاتا ہے بہن نے کہا۔۔ہاں جیسے میری لیلیٰ چلی گئی اگر میں کماتا ہوتا تو آج اس کے ماں باپ مجھے دیتے رشتا باسط نے کہا۔۔۔اللّٰہ پاک سے اچھے کی امید رکھتے ہیں پاگل وہ نو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اب میں کھانا لے کر آتی ہوں وہ کھاؤ چپ کر کے بہن نے کہا اور اٹھ گئی کھانا لینے کے لیے ۔۔۔باسط کو اب لیلیٰ پر پیار آرہا تھا وہ جاتے جاتے بھی اس کو عقل کی بات بول گئی تھی اور اس کی دعا یاد آئی پھر باسط نے دل میں دعا کی یا اللّٰہ پاک لیلیٰ کی قربانی رایگان نہیں جائے اس کو خوش اور آباد رکھنا اپنے گھر میں آمین ثم آمین باسط نے دل سے دعا دی تھی لیلیٰ کو عظیم ہیں وہ لڑکیاں جو ماں باپ عزت رکھتی ہیں اور انکا سر اونچا کرتی ہیں ۔۔ختم شدہ