
یوم الفرقان
از قلم
مہوش صدیق
جس طرح ہمارا مرنا برحق ہے اسی طرح قیامت کا آنا بھی برحق ہے۔۔اس دن حاکم اعلیْ یعنی رب العالمين تمام مخلوقات کو اکٹھا کریں گے۔۔عدالت لگے گی۔۔
ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔انسان کے نیک و بد اعمال ایک ترازو میں ڈال کر تولے جائیں گے جس کا پلڑا بھاری ہوا۔۔اسی کی بنیاد پر انسان کے جنت اور دوزخ میں جانے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
انسان کے آخری وقت میں فرشتوں کے قلم روک دئیے جاتے ہیں۔۔اس وقت کی گئی توبہ قابل قبول نہیں ہو گی۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ انسان ابھی سے اپنے اس امتحان کی تیاری میں مصروف ہو جائے تاکہ وہ کامیاب ہو سکے۔
نصیحت صرف ایمان والوں کو فائدہ دیتی ہے۔
کچھ
رذائل اخلاق
ایسے ہیں جن کو چھوڑنے سے انسان آخرت کے امتحان میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
بغض۔۔۔کینہ۔۔۔حسد ۔۔۔چوری۔۔۔غصہ۔۔۔غیبت۔۔۔برے القابات۔۔۔قذف۔۔۔ بہتان۔۔۔تہمت۔۔۔والدین سے برا سلوک۔۔۔جاسوسی۔۔۔برا گمان۔۔۔۔ایک دوسرے کے عیب ڈھونڈنا ۔۔۔کسی کا راز عیاں کرنا۔۔اساتذہ کی بےادبی۔۔۔چیخ چیخ کر بات کرنا۔۔۔بنا تحقیق ردعمل دینا۔۔۔کسی کو حقیر جاننا۔تکبر کرنا۔
یہ سب کام جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔۔یہ عادات و اطوار سراسر اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کی نفی ہیں
انسان کے چار بڑے دشمن ہیں:
۔1
۔دنیا
2۔
مخلوق
3۔
۔نفس
4۔
۔شیطان
انسان کو ہر لمحہ ان سب کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔دنیا کی چاہت انسان کو اللہ تعالٰی سے دور کر دیتی ہے۔مخلوق سے اچھے اور برے معاملات اس کے جنت اور جہنم میں جانے کا موجب بنیں گے۔
جہاں شیطان انسان کو لگاتار گمراہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے وہیں نفس بھی لمحہ بہ لمحہ اسے آزمائش میں مبتلا کرتا رہتا ہے۔۔ان دونوں کو جہاں کہیں موقع ملتا ہے یہ اسے ذلیل کر دیتے ہیں۔
اگر انسان نے وقت رہتے اپنے نفس پر قابو نہ پایا۔۔خود میں سدھار نہ لایا تو اس کا غارت ہونا ایک یقینی امر ہے۔۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔
زمانہ قدیم میں عرب کے امراء میں فخر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔انہیں اپنے رہن سہن،رنگ و روپ پر فخر محسوس ہوتا تھا۔۔ان میں سے بیشتر کا رنگ سفید اور سرخی مائل تھا۔۔وہ لوگ سیاہ فام لوگوں کو تحقیرآمیز نگاہوں سے دیکھتے تھے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی عرب کے امراء گھرانوں میں سے تھا۔۔واقعہ کچھ یوں ہے۔
ان کی ایک حبشی سے بحث ہوئی۔باتوں کے دوران اچانک انہوں نے اس حبشی کو “کالی ماں کا بیٹا” کہہ دیا۔۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید ناگواری کا اظہار کیا۔۔آپ نے انہیں سختی سے ڈپٹا کہ اسلام کے آنے کے باوجود تمہارے اندر ابھی بھی وہی جاہلیت باقی ہے۔انہیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔وہ نادم ہوئے اور اس حبشی کے سامنے چت زمین پر لیٹ گئے۔
اور کہا۔
“میرے رخسار کے اوپر اپنا پاؤں رکھ اور اسے مسخ کر۔”
انہوں نے یہ عمل کر کے اپنے نفس کو ٹھیس پہنچائی۔اسے قابو کیا کیونکہ اسی نے انہیں نسلی تعصب کا شکار کیا۔کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔۔نیکی اور تقوی کو سب چیزوں پر فضیلت حاصل ہے۔۔۔۔۔۔
جب تک اللہ کسی کو پاکیزہ نہ کہہ دے کوئی پاکیزہ نہیں ہو سکتا۔۔اگر وہ اعلان کرے کہ تم پاکیزہ ہو جیسے بدری صحابہ کیلئے اعلان کیا۔۔تب انسان کا شمار پاکیزہ صفت انسانوں میں ہو سکتا۔۔ہم سب کے لیے یہ اعلان ابھی تک نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے ہمارا امتحان آخری وقت تک جاری رہے گا۔
انسان کی اٹل حقیقت یہی ہے کہ وہ نفس کا غلام ہے۔۔اسی کو اپنا استاد مانتا ہے۔۔ جو وہ کہتا ہے اسی پر عمل کرتا ہے۔۔انسان اپنے نفس کی اصلاح تب کر سکے گا جب وہ اس کی اچھی تربیت کرے گا۔۔۔اس پر اپنی گرفت مضبوط رکھے گا۔۔کسی بھی صورتحال میں اخلاق کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دے گا۔نفس کا تزکیہ ہی انسان کو جہنم کی آگ سے آزاد کر سکتا ہے۔۔
انسان کو اچھے اخلاق کا جھوٹا نقاب اتار دینا چاہیے۔۔اگر وہ دل سے اچھا نہ ہو تو اس کی حقیقت سب پر کسی نہ کسی دن بالآخر کھل ہی جائے گی۔۔۔۔
ایمان کا مرکز دل ہے۔۔اس کا صاف ہونا سب سے ضروری ہے۔۔۔انسان کے اعمال اس کے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں۔اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔جو وہ عمل کرے گا اس کا فائدہ خود اٹھائے گا۔۔وہ اپنے کسی عمل کیلئے کسی پر احسان نہیں جتا سکتا۔۔یہ اللہ کا احسان ہے جو اس نے اپنی رحمت کی بدولت اس پر کیا۔۔۔۔اسے اپنے ہر عمل پر ۔اللہ کی توفیق کا ٹھپہ لگانا چاہیے
۔”وما توفیقی الا باللہ۔
“ترجمہ:
“ساری توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔”
انسان کو چاہیے کہ وہ عاجزی اختیار کرے کیونکہ جو ہوتا ہے اللہ کے فضل سے ہوتا ہے۔۔۔اسے اپنے ہر عمل کو اللہ سے منسوب کرنا چاہیے۔
اسے اپنی عینک سے خود کے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔دوسروں کے عیب تلاشنے کے لئے اسے کبھی استعمال مت کیا کریں۔
انسان برا کام تب کرتا ہے جب وہ اللہ کو فراموش کرتا ہے۔۔اس کی مجودگی کو پس پشت ڈالتا ہے۔۔مثال کے طور پر غیبت۔۔
غیبت کی مستند تعریف حدیث مبارکہ میں درج ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہوتی ہے۔؟
“جب تو اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرے جو اسے ناپسند ہو۔اگر وہ خصلت اس میں ہے جس کا تو نے ذکر کیا تو تم نے اس کی غیبت کی۔اگر اس میں نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان تراشی کی۔”
۔۔صحیح مسلم
اللہ تعالٰی نے غیبت کیلئے سزا کی کیسی تمثیل فرمائی کہ وہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے ۔۔۔وہ بھی مردار۔۔۔۔
ہو سکتا ہے اس بندے نے توبہ کر لی ہو۔۔اور دوسرے کو پتہ بھی نہ ہو۔۔اس لئے ہمیشہ انسان کو غیبت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے دوسرے کے عیب مت ڈھونڈے۔۔دوسروں کے حقوق سلب کرنے والوں کے پاس قیامت کے دن لوگ آئیں گے ۔۔ان کی گردنوں سے پکڑ کر انہیں اللہ کے پاس لائیں گے۔۔ان کے گناہ اس کے پلڑے میں ڈال دئیے جائیں گے اور نیکیاں دوسرے کے پلڑے میں ڈال دی جائیں گے۔۔