
ضمیر کی آواز
ازقلم تاویلہ آصف
آج اکیڈمی میں کچھ فراغت حاصل تھی تو قلم لے کر بیٹھ گئے اور قرطاس پر سوال لکھا کہ گناہوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
سینکڑوں جواب مگر وہی جو سینکڑوں بار پہلے لکھے ہوئے تھے، بہت سوچا مگر تھک گئے تو قلم رکھنے لگے تھے کہ وہ آہستہ سے میرے بالکل پاس آ کر بیٹھی اور کہتی
“میرے سے بھی بہت گناہ ہوتے تھے، خاص کر خلوت کے گناہ، میں انہیں ترک کرنے کی کوشش کرتی تھی مگر پھر وہی حال، تھک گئی، شیطان نے مایوس کرنا چاہا مگر آپ کو پتہ ہے میں نے کیا کیا؟”
ہمیں بھلا کیا معلوم تھا، ہم نے انکار میں سر ہلا دیا تو وہ نرمی سے کہتی
” میں نے لگاتار دو نفل پڑھنا شروع کر دیے اور ان کے بعد دعا کہ اللہ میں گنہ گار اور کمزور، کوشش کے باوجود بھٹک جاتی ہوں، تو میری مدد فرما اور مجھے یہاں سے محفوظ فرما دے” پھر؟ بے ساختہ ہمارے منہ سے نکلا
“پھر ہوا یہ کہ دن میں گناہ کرنا چاہا مگر خلوت نصیب ہی نہیں ہوئی، اس کے علاؤہ موبائل پر ایک ساتھی کے ساتھ بھی ایک عمل میں ملوث تھی، موبائل پر اپنے ساتھی کو میسج کیا کہ آؤ چلو ہم دونوں ہی شروع کر لیں مگر وہ اس وقت مصروف تھا،
پھر دوبارہ خلوت کو تلاشا، خلوت نصیب ہوئی مگر اسی خلوت نے رلا دیا اور پھر دل پر پڑے بوجھ سے فرار کی راہ نے تھپکی دے کر سلا دیا” سچ میں؟ ہم محو حیرت تھے”ہاں سچ میں”
مگر کیسے ممکن ہے؟ “کیوں دعاؤں پر یقین نہیں؟ یا رحمن کی صفت کا نہیں پتہ؟” کونسی صفت؟ “کہ اسے حیا آتی ہے اگر وہ کسی کو خالی لوٹائے” مگر اتنی پختہ عادت کیسے چھوٹے؟
“اگر مگر کا نہیں پتہ مگر استاذہ کہتی ہیں کہ کوئی روئے، رو کر مانگے اور لگاتار مانگے تو ممکن نہیں کہ خالی لوٹا دیا جائے” وہ پر یقین تھی۔
اس کے بعد کا “اگر مگر” بچتا نہیں تھا۔ ہم کیا کہتے؟ وہ اسی نرمی سے مسکرائی، کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دی یا شاید حوصلہ اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ سامنے دروازے سے روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی، وہ اسی روشنی میں غائب ہو گئی، ہمارا قلم ویسے ہی ہاتھ میں تھا مگر قرطاس پر کوئی روشنائی کے ساتھ یہ تحریر درج کر گیا تھا۔
تاویلہ آصف